صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت
عالمی ادارۂ صحت کے ذریعے بکثرت اموات سے متعلق تخمینہ جات
بھارت مصدقہ اعداد و شمار کی دستیابی کے پس منظر میں بکثرت اموات کے تخمینہ جات پیش کرنے کے لئے ریاضیاتی ماڈلس کے استعمال پر سخت اعتراض کرتا ہے
استعمال کئے گئے ماڈلس کا جواز اور پختگی اور اعداد و شمار اکٹھا کرنے کا طریقہ کار سوالوں کے گھیرے میں ہیں
Posted On:
05 MAY 2022 6:18PM by PIB Delhi
نئی دہلی، 5/ مئی 2022 ۔ بھارت، عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ذریعے بکثرت اموات سے متعلق تخمینہ جات پیش کرنے کے لئے ریاضیاتی ماڈلس پر مبنی طریقہ کار پر مسلسل اعتراض کرتا رہا ہے۔ بھارت کے ذریعے اس ماڈلنگ ایکسرسائز کے عمل، طریقہ کار اور نتیجے پر اعتراض کے باوجود ڈبلیو ایچ او نے بھارت کی تشاویش کا خاطرخواہ تدارک کئے بغیر بکثرت اموات سے متعلق تخمینہ جات جاری کئے ہیں۔ بھارت نے ڈبلیو ایچ او کو مطلع بھی کیا تھا کہ رجسٹرار جنرل آف انڈیا (آر جی آئی) کے ذریعے سول رجسٹریشن سسٹم(سی آر ایس) کے توسط سے شائع کئے گئے مصدقہ اعداد و شمار کی دستیابی کے تناظر میں ریاضیاتی ماڈلس کا استعمال بھارت میں بکثرت شرح اموات کو پیش کرنے کے لئے نہیں کیا جانا چاہئے۔ بھارت میں پیدائش اور اموات کے اندراج کا نظام انتہائی مضبوط ہے اور یہ کام دہائیوں پرانے قانونی فریم ورک یعنی ’’برتھ اینڈ ڈیتھ رجسٹریشن ایکٹ 1969‘‘ کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ آر جی آئی کے ذریعے ہر سال جاری کیا جانے والا سول رجسٹریشن ڈیٹا اور سیمپل رجسٹریشن ڈیٹا کا استعمال گھریلو اور عالمی سطح پر محققین، پالیسی سازوں اور سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد کے ذریعے کیا جاتا رہا ہے۔
آر جی آئی 100 سال سے زیادہ قدیم ادارہ ہے اور اسے ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف رجسٹراروں اور ملک بھر کے تقریباً تین لاکھ رجسٹراروں / سب رجسٹراروں کا تعاون حاصل ہے۔ ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی رپورٹوں، قومی رپورٹوں، سول رجسٹریشن سسٹم (سی آر ایس) پر مبنی بھارت کے اہم اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ آر جی آئی کے ذریعے ہر سال شائع کی جاتی ہے۔ 2019 کے لئے ایسی آخری نیشنل رپورٹ جون 2021 میں جبکہ سال 2020 کے لئے 3 مئی 2022 کو شائع کی گئی تھی۔ یہ رپورٹیں عوامی منظرنامے میں موجود ہیں۔ بھارت کا مضبوطی کے ساتھ یہ ماننا ہے کہ ایک ممبر اسٹیٹ کے لیگل فریم ورک کے توسط سے تیار کئے گئے ایسے مضبوط اور درست ڈیٹا کو اعداد و شمار کا ڈبلیو ایچ او کے ذریعے احترام کیا جانا چاہئے اور قبول کیا جانا چاہئے اور استعمال کیا جانا چاہئے، چہ جائیکہ وہ اعداد و شمار کے غیر سرکاری ذرائع پر مبنی درستگی سے کم میتھمیٹکل پروجیکشن پر بھروسہ کرے۔
بھارت نے ڈبلیو ایچ او کے ذریعے ممالک کو ٹیئر I اور ٹیئر II میں رکھنے کے لئے معیار اور مفروضات میں پائے جانے والے عدم تسلسل کی جانب بھی اشارہ کیا تھا اور بھارت کو ٹیئر II (جس کے لئے میتھمیٹکل ماڈلنگ تخمینہ کاری کا استعمال کیا جاتا ہے) ممالک کے زمرے میں رکھنے کی بنیاد پر ہی سوال اٹھایا تھا۔ بھارت نے اس حقیقت کو اجاگر کیا تھا کہ ایک مؤثر اور مضبوط قانونی نظام ے توسط سے جمع کئے گئے اموات سے متعلق اعداد و شمار کی درستگی کے باوجود بھارت کو ٹیئر II ممالک کے زمرے میں رکھنے کا کوئی استحقاق نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے بھارت کے اس اعتراض کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
بھارت نے ڈبلیو ایچ او کے خود اس کے اعتراف پر تسلسل کے ساتھ سوال کھڑا کیا ہے کہ اس نے 17 بھارتی ریاستوں کے تعلق سے جو ڈیٹا حاصل کیا تھا وہ کچھ ویب سائٹ اور میڈیا رپورٹوں سے حاصل کیا گیا تھا اور اس کا استعمال ان کے میتھمیٹکل ماڈل میں کیا گیا تھا۔ اس سے، بھارت میں اموات کی کثرت کو پیش کرنے کے لئے ڈیٹا کلیکشن کے شماریاتی نقطہ نظر سے کمزور اور سائنسی اعتبار سے جواب طلب طریقہ کار کی عکاسی ہوتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مذاکرات اور مواصلت کے دوران ڈبلیو ایچ او نے متعدد ماڈلس کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کے لئے بکثرت اموات سے متعلق الگ الگ اعداد و شمار پیش کئے۔ اس سے بذات خود استعمال میں لائے گئے ماڈلس کے جواز اور پختگی پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔
بھارت کے لئے بکثرت اموات سے متعلق تخمینہ جات کے شمار کے لئے ڈبلیو ایچ او کے ذریعے استعمال میں لائے گئے ماڈلس میں سے ایک گلوبل ہیلتھ اسٹیمٹس (جی ایچ ای) 2019 کے استعمال پر اعتراض کیا تھا۔ جی ایچ ای بذات خود ایک تخمینہ ہے، لہٰذا ایک ایسا ماڈلنگ اپروچ جو اموات سے متعلق تخمینہ جات ایک دیگر تخمینے کی بنیاد پر پیش کرتا ہے، کی اکیڈمک نقطہ نظر سے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے، کیونکہ یہ ملک کے اندر دستیاب حقیقی اعداد و شمار کو مکمل طور پر نظر اندز کردیتا ہے۔
بھارت میں کووڈ – 19 کے لئے ٹیسٹ پوزیٹیوٹی ریٹ (ڈبلیو ایچ او کے ذریعے استعمال کیا گیا ایک دیگر کلیدی ویری ایبل) کسی بھی وقت ملک بھر میں یکساں نہیں تھا۔ یہ ماڈلنگ اپروچ ملک کے اندر جگہ اور وقت دونوں کے تناظر میں کووڈ پوزیٹیوٹی ریٹ کی ویری ایبلٹی کو پیش نظر رکھنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح سے یہ ماڈل ٹیسٹنگ ریٹ اور مختلف جغرافیائی ماحول میں متعدد قسم کے ڈائیگنوسٹک میتھڈ (آر اے ٹی / آر ٹی- پی سی آر) کے اثر کو پیش نظر رکھنے میں بھی ناکام ثابت ہوا ہے۔
اپنے بڑےحجم، تنوع اور 1.3 بلین آبادی جس میں جگہ اور وقت دونوں کے اعتبار سے وبا کی شدت الگ الگ رہی ہے، کے پیش نظر بھارت ’’وَن سائز فٹس آل‘‘ یعنی سب کے لئے ایک ہی معیار کے استعمال سے اپروچ اور ماڈل پر مسلسل اعتراض جتاتا رہا ہے۔ اس طرح کا نقطہ نظر چھوٹے ملکوں کے تعلق سے تو اپنایا جاسکتا ہے، لیکن اسے بھارت پر نافذ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس ماڈل نے درجہ حرارت اور شرح اموات کے مابین ایک معکوس تعلق کو فرض کیا، جس کی بھارت کی بار بار کی گزارشات کے باوجود ڈبلیو ایچ او نے توثیق نہیں کی۔
ان اختلافات کے باوجود بھارت ڈبلیو ایچ او کے ساتھ اس مشق میں شراکت داری کرتا رہا ہے اور تال میل بنائے رکھتا ہے اور ڈبلیو ایچ او کے ساتھ متعدد رسمی کمیونی کیشنز (نومبر 2021 سے مئی 2022 تک) کمیونی کیشنز اور متعدد ورچول انٹر ایکشنز کرتا رہا ہے۔
آر جی آئی کے ذریعے 3 مئی 2022 کو کئے گئے 2020 کے سی آر ایس ڈیٹا سے یہ واضح ہے کہ بھارت میں کووڈ – 19 کی اموات سے متعلق تخمینہ جات کے بارے میں متعدد ماڈلنگ تخمینہ جات کی بنیاد پر تخلیق کیا گیا بیانیہ حقیقت سے بہت دور ہے۔ اب ہمارے پاس 2020 کے لئے اموات سے متعلق حقیقی اعداد و شمار وجود ہیں۔ سال 2018 اور 2019 کے لئے اموات کے سبھی اسباب سے متعلق تاریخی اعداد و شمار عوامی منظرنامے میں موجود ہیں۔
رجسٹرار جنرل آف انڈیا (آر جی آئی) کے زیر سایہ سول رجسٹرار سسٹم (سی آر ایس) رپورٹ – 2020 کے ذریعےجاری کیا گیا ڈیٹا ایکسس مورٹیلٹی رپورٹ کی تیاری کے لئے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مشترک کیا گیا تھا۔ اپنی اشاعت کے لئے ڈبلیو ایچ او کو یہ ڈیٹا بھیجے جانے کے باوجود نامعلوم اسباب سے ڈبلیو ایچ او نے اسے نظرانداز کرنا پسند کیا اور ایکسس مورٹیلٹی اسٹیمیٹس شائع کی، جس کے لئے اختیار کیا گیا طریقہ کار، ڈیٹا کے ذرائع اور اس کے نتائج پر بھارت مسلسل سوال کھڑے کرتا رہا ہے۔
سال
|
تخمینہ اموات
|
درج شدہ اموات
|
موت کے اندراج کی سطح
|
سابقہ برسوں کے مقابلے اموات کی تعداد میں اضافہ
|
2018
|
82,12,576
|
69,50,607
|
84.6 %
|
4,86,828
|
2019
|
83,01,769
|
76,41,076
|
92 %
|
6,90,469
|
2020
|
81,20,268
|
81,15,882
|
99.9 %
|
4,74,806
|
حوالہ: سی آر ایس 2020، آر جی آئی دفتر پر مبنی وائٹل اسٹیٹسٹکس آف انڈیا۔
******
ش ح۔ م م۔ م ر
U-NO. 5064
(Release ID: 1823121)
Visitor Counter : 316