ارضیاتی سائنس کی وزارت
مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا ہے کہ ہمالیہ کے وسیع جغرافیائی وسائل کو ابھی تک پوری طرح سے بروئے کار نہیں لایا گیا ہے، جو ہمالیائی خطے اور پورے ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے کئی طرح سے کام آ سکتے ہیں
وزیر موصوف نے کہا کہ حکومت ایسے سائنسی اقدامات اور ٹیکنالوجی کی راہیں تلاش کرنے پر کام کر رہی ہے، جن سے معیشت مضبوط تر ہو کر ابھرے
انہوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعےواڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالین جیو لوجی (ڈبلیو آئی ایچ جی)میں ریسرچ اسکالرز اور ٹرانزٹ ہاسٹل کا افتتاح کیا
ڈبلیو آئی ایچ جی عظیم ہمالیہ کے جغرافیائی تنوع اور ارتقائ کو سمجھنے کے لئے ہمالین جیو سائنس کا تحقیقی ادارہ ہے اور ایسے کئی شعبوں پر کام کرتا ہے جو سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے سائنسی انداز میں استعمال کئے جا سکتے ہیں
Posted On:
06 MAR 2022 1:19PM by PIB Delhi
سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج)، ارضیاتی سائنس کے وزیر مملکت (آازادانہ چارج)، وزیر مملکت برائے پی ایم او، عملے، شکایات عامہ اور پنشن اور ایٹیمی توانائی اور خلا کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا ہے کہ ہمالیہ کے وسیع جغرافیائی وسائل کو ابھی تک مکمل طور سے بروئے کار نہیں لایا گیا ہے، جو ہمالیائی خطے اور پورے ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے کئی طرح سے کام آ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خاص ہمالیائی وسائل، اس کے گلیشیئر اور برفانی خطے ہیں، جو آبپاشی، صنعت اور پن بجلی کی تیاری میں کام آتے ہیں۔
واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالین جیو لوجی (ڈبلیو آئی ایچ جی)میں ریسرچ اسکالرز اینڈ ٹرانزٹ ہوسٹل کا افتتاح کرنے کے بعد تقریر کرتے ہوئے مرکزی وزیر نے کہا کہ ہوسٹل ریسرچ اسکالروں، خاص طور سے خواتین، تحقیق کاروں کے لئے بہت اہم ثابت ہوگا اور یہاں انہیں کام کرنے کے لئے آرام دہ اور پرسکون ماحول حاصل ہوگا۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ اس ادارے میں 60 ڈاکٹر ل اور 12 پوسٹ ڈاکٹرل طلبہ ہمالیہ کے جیو سائنٹفک پہلوؤں پر ریسرچ کر رہے ہیں اور یہاں تحقیقی سرگرمیوں کے لئے جدید ترین سہولیات موجود ہیں۔ یہاں کے اعلیٰ ڈیٹا پروسیسنگ مراکز میں تیار معیاری ڈیٹا نہ صرف ادارہ کے اندر ریسرچ کرنے والے طلبہ کے لئے بلکہ دیگر اداروں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کے لئے انتہائی کارآمد ہے۔ 1968 میں وجود میں آئے اس ادارے میں ریسرچ اسکالرز اینڈ ٹرانزٹ ہاسٹل اب تک نہیں تھا، جو اب تعمیر ہو چکا ہے اور یہ 40 کمروں والا ہاسٹل ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ ڈبلیو آئی ایچ جی عظیم ہمالیا کے جغرافیائی تنوع اور ارتقائ کو سمجھنے کے لئے ہمالین جیو سائنس کا بنیادی ادارہ ہے، جہاز زلزلوں کی وجہ سے جغرافیائی خطروں اور تودے کھسکنے، برفانی تودے گرنے، اچانک سیلاب وغیرہ کے عوامل پر تحقیق کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ گلیشیئروں کے تنوع اور آب و ہوا میں تبدیلی کے موجودہ منظر نامے میں ماحولیات اور زمین کی پرتوں سے متعلق ریسرچ میں سرگرم کام کر رہا ہے۔
وزیر موصوف نے کہا کہ پانی کے بہاؤ کے بالائی علاقوں میں آب و ہوا کی تبدیلی کا اونچے علاقوں میں جو اثر پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں نیچے دریاؤں کے نظام میں جو تبدیلی آتی ہے، اسے سمجھنا بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ دریاؤں کا پانی کروڑوں لوگوں کے لئے آبپاشی، صنعتوں، گھریلو استعمال اور پن بجلی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ادارے میں ہمالیائی خطے میں دیگر ترقیاتی سرگرمیوں مثلاً سڑکوں کی تعمیر، روپ وے، ریلوے، سرنگوں وغیرہ سے اس خطے کے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات پربھی ریسرچ ہوتی ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ کورونا عالمی وبا جو کہ سب سے بڑا صحت نگہداشت بحران ہے۔ لاک ڈاؤن اور سماجی دوری نے معیشت پر بری طرح اثر ڈالا ہے اور حکومت سرگرمی سے ایسے سائنسی اقدامات اور ٹیکنالوجی کی راہیں تلاش کر رہی ہے، جن سے معیشت مضبوط تر ہو کر ابھرے۔
وزیر موصوف نے کہا کہ جیو سائنس ملک میں کئی شعبوں میں ترقی کی جانب کلیدی رول ادا کر سکتی ہے مثلاً توانائی کی فراہمی، پانی کی یقینی فراہمی، صنعتی پھیلاؤ، جغرافیائی خطروں کی روک تھا، ایکولوجی اور حیاتیاتی تنوع پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنا اور ماحولیات کا تحفظ وغیرہ۔
مرکزی وزیر نے خیال ظاہر کیا کہ ہمالیائی خطے میں ریسرچ کا میدانی خطے میں ریسرچ سے مختلف رول ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ ہمالیہ میں تقریباً ایک ہزار گلیشیئر اور اتنی ہی تعداد میں گلیشیئر جھیلیں ہیں۔ گلیشیئروں اور گلیشیئر جھیلوں کا فوری ڈیٹا سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، لیکن زمین پر مبنی ڈیٹا لازمی ہوتا ہے تاکہ اس سے بنیادی حقائق و عوامل اور درست ماڈلنگ مل سکے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ڈبلیو آئی ایچ جی اتراکھنڈ، مرکزی انتظام والے علاقے جموں و کشمیر اور سکم میں کئی گلیشیئروں کی نگرانی کر رہی ہے اور ایک طویل مدتی منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت گلیشیئروں اور گلیشیئر جھیلوں پر مستقل نگرانی کے لئے موسمیاتی، ہائڈرولوجیکل، ارضیاتی اسٹیشن قائم کرنے، ڈیٹا کی آن لائن منتقلی، خودکار تجربہ اور ماڈلنگ، متعلقہ افراد اور اداروں کو چوکس کرنے اور عوام کو پیشگی وارننگ کے بارے میں جانکاری دینے کا کام ہوگا۔
ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ حالیہ دنوں میں لگاتار بارش کی وجہ سے تودے گرنے کے واقعات میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے، جو اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے ہمالیائی علاقوں میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ ڈبلیو آئی ایچ جی نے دونوں ریاستوں کے لئے تودے گرنے کے مخدوش علاقوں کا نقشہ تیار کرنے کا کام کیا ہے اور مقامی سطح پر نینی تال اور مسوری قصبوں اور بھاگیرتھی، گوری گنگا اور کالی دریا وادیوں کے لئے یہ نقشہ بنایا گیا ہے۔ اس نقشے سٹی ڈیولپرز، پلانرز اور مقامی انتظامیہ منفی نتائج کو ٹال سکتے ہیں۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ ہمیں زلزلوں، تودے کھسکنے اور اچانک سیلاب کے اثرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور بھاگیرتھی طاس کا علاقہ تودے گرنے اور زمین کی لگاتار حرکت کی وجہ سے ان خطروں والا علاقہ ہے۔ مختلف خطروں، پانی کے عمل، خطروں کے تخمینے، ملبے کے پانی میں بہاؤ اور بڑے پیمانے پر نقل و حرکت ماڈلنگ کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ہمالیائی جغرافیائی وسائل بہت وسیع ہیں، جو اس علاقے کی سماجی و اقتصادی ترقی میں زبردست رول ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خاص وسائل گلیشیئرز اور گلیشیئرز جھیلیں ہیں، جو کروڑوں لوگوں کے لئے آبپاشی، پینے کے پانی، صنعتوں، پن بجلی، یہاں تک کہ زائرین اور سیاحوں کےلئے بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ اس سے نقل مکانی کرنے والوں کو روزگار ملے گا، سیاحوں کو راغب کیا جا سکے گا۔ چھوٹے کاروبار اور صنعتوں کے قیام میں مدد ملے گی اور جھرنے کے پانی سے طبی فوائد والے جزو حاصل کئے جا سکیں گے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ جھرنے کے پانی میں نئی جان ڈال کر اور ندی کے پانی سے انسانی بستیوں کو آباد ہونے میں مدد ملے گی اور ہمارے ملک کی زرعی معیشت کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان وسیع دستیاب وسائل کو بروئے کار لانا سماجی و اقتصادی ترقی کا ایک اور پہلو ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطرناک اور مضر باقیات کو اختراعی انداز میں کارآمد پیداوار میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
***
ش ح۔ ع س۔ ک ا
(Release ID: 1803410)
Visitor Counter : 201