صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت
ہندستان میں آئی ایم آر اور ایم ایم آر کی صورتحال
Posted On:
08 FEB 2022 12:35PM by PIB Delhi
نئی دہلی،8فروری 2022/
سیمپل رجسٹریشن سسٹم (ایس آر ایس) بلیٹن آف رجسٹرار جنرل آف انڈیا (آر جی آئی) کے مطابق، نوزائیدہ بچوں کے اموات کی شرح (آئی ایم آر) 2015 میں 37 فی 1000 ہزار زندہ پیدائشوں سے کم ہوکر 2019 میں قومی سطح پر 30 فی 1000 ہزار زندہ پیدائشوں پرآگئی ہے۔
2015 سے 2019 کی مدت کے دوران نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح( آئی ایم آر) کی ریاست / یو ٹی کے حساب سے تفصیلات درج ذیل ہیں:
نمبر شمار
|
قومی/ریاست/ مرکز کے زیر انتظام علاقے
|
نوائیدہ بچوں کی اموات کی شرح (فی ایک ہزار زندہ پیدائش)
|
2015
|
2016
|
2017
|
2018
|
2019
|
آل انڈیا
|
37
|
34
|
33
|
32
|
30
|
1
|
آندھراپردیش
|
37
|
34
|
32
|
29
|
25
|
2
|
انڈومان و نکوبار جزائر
|
20
|
16
|
14
|
9
|
7
|
3
|
اروناچل پردیش
|
30
|
36
|
42
|
37
|
29
|
4
|
آسام
|
47
|
44
|
44
|
41
|
40
|
5
|
بہار
|
42
|
38
|
35
|
32
|
29
|
6
|
چندی گڑھ
|
21
|
14
|
14
|
13
|
13
|
7
|
چھتیس گڑھ
|
41
|
39
|
38
|
41
|
40
|
8
|
دادر ناگر حویلی
|
21
|
17
|
13
|
13
|
11
|
9
|
دمن و دیو
|
18
|
19
|
17
|
16
|
17
|
10
|
دہلی
|
18
|
18
|
16
|
13
|
11
|
11
|
گوا
|
9
|
8
|
9
|
7
|
8
|
12
|
گجرات
|
33
|
30
|
30
|
28
|
25
|
13
|
ہریانہ
|
36
|
33
|
30
|
30
|
27
|
14
|
ہماچل پردیش
|
28
|
25
|
22
|
19
|
19
|
15
|
جمو ں و کشمیر بشمول لداخ
|
26
|
24
|
23
|
22
|
20
|
16
|
جھارکھنڈ
|
32
|
29
|
29
|
30
|
27
|
17
|
کرناٹک
|
28
|
24
|
25
|
23
|
21
|
18
|
کیرالہ
|
12
|
10
|
10
|
7
|
6
|
19
|
لکشدیپ
|
20
|
19
|
20
|
14
|
8
|
20
|
مدھیہ پردیش
|
50
|
47
|
47
|
48
|
46
|
21
|
مہاراشٹر
|
21
|
19
|
19
|
19
|
17
|
22
|
منی پور
|
9
|
11
|
12
|
11
|
10
|
23
|
میگھالیہ
|
42
|
39
|
39
|
33
|
33
|
24
|
میزورم
|
32
|
27
|
15
|
5
|
3
|
25
|
ناگالینڈ
|
12
|
12
|
7
|
4
|
3
|
26
|
اوڈیشہ
|
46
|
44
|
41
|
40
|
38
|
27
|
پڈوچیری
|
11
|
10
|
11
|
11
|
9
|
28
|
پنجاب
|
23
|
21
|
21
|
20
|
19
|
29
|
راجستھان
|
43
|
41
|
38
|
37
|
35
|
30
|
سکم
|
18
|
16
|
12
|
7
|
5
|
31
|
تمل ناڈو
|
19
|
17
|
16
|
15
|
15
|
32
|
تلنگانہ
|
34
|
31
|
29
|
27
|
23
|
33
|
تریپورہ
|
20
|
24
|
29
|
27
|
21
|
34
|
اترپردیش
|
46
|
43
|
41
|
43
|
41
|
35
|
اتراکھنڈ
|
34
|
38
|
32
|
31
|
27
|
36
|
مغربی بنگال
|
26
|
25
|
24
|
22
|
20
|
حوالہ: رجسٹرار جنرل آف انڈیا کا نمونہ رجسٹریشن نظام
رجسٹرار جنرل آف انڈیا (آر جی آئی) کی نمونہ رجسٹریشن نظام (ایس آر ایس) رپورٹ کے مطابق ، قومی سطح پر زچگی/ماؤں کی شرح اموات (ایم ایم آر) 17-2015 میں 8.1 سے کم ہوکر 18-2016میں 7.3 ہوگئی ہے۔ ایس آر ایس 17-2015 اور 18-2016 کے مطابق قومی سطح اور ریاستی سطح پر ایم ایم آر کی صورتحال حسب ذیل ہے:
زچگی کی شرح اموات (ایم ایم آر کی صورتحال)
|
ہندستان/ریاست
|
2015-17
|
2016-18
|
آل انڈیا
|
8.1
|
7.3
|
آندھراپردیش
|
3.6
|
3.6
|
آسام
|
15.2
|
14.0
|
بہار
|
16.9
|
15.1
|
جھارکھنڈ
|
6.1
|
5.6
|
گجرات
|
6.0
|
5.1
|
ہریانہ
|
7.7
|
7.0
|
کرناٹک
|
7.3
|
4.9
|
کیرالہ
|
1.9
|
2.1
|
مدھیہ پردیش
|
17.5
|
15.9
|
چھتیس گڑھ
|
11.0
|
12.1
|
مہاراشٹر
|
3.3
|
2.6
|
اوڈیشہ
|
11.1
|
9.7
|
پنجاب
|
6.8
|
7.0
|
راجستھان
|
16.8
|
14.5
|
تمل ناڈو
|
4.8
|
3.2
|
تلنگانہ
|
3.8
|
3.6
|
اترپردیش
|
20.1
|
17.8
|
اتراکھنڈ
|
5.9
|
6.4
|
مغربی بنگال
|
5.0
|
5.0
|
دیگر ریاستیں
|
4.7
|
4.5
|
وسیلہ:رجسٹرار جنرل آف انڈیا (آر جی آئی) کا سیمپل رجسٹریشن سسٹم (ایس آر ایس)
|
زچگی کی شرح اموات (ایم ایم آر کی صورتحال(
وسیلہ:رجسٹرار جنرل آف انڈیا (آر جی آئی) کا سیمپل رجسٹریشن سسٹم (ایس آر ایس)
بچوں کی شرح اموات (آئی ایم آر) اور زچگی کی شرح اموات (ایم ایم آر ) کو کم کرنے کے لئے،صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت (ایم او ایچ ایف ڈبلیو) تولیدی ، زچگی ، نوزائیدہ بچے ، نوعمروں کی صحت کے نفاذ میں تمام ریاستوں /یوٹی کی مدد کررہی ہے اور قومی صحت مشن (این ایچ ایم) کے تحت نیوٹریشن یعنی تغذیہ کی (آر ایم این سی اے ایچ +این) کی حکمت عملی ریاستوں /مرکز کے زیر انتظام کی طرف سے پیش کردہ سالانہ پروگرام نفاذی منصوبے (اےپی آئی پی) پر مبنی ہے۔ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اس طرح ہیں:
زچگی کی شرح اموات(ایم ایم آر) کو بہتر بنانے کےلئے مداخلتیں
• جنمی شرکشا یوجنا(جے ایس وائی) ایک مطالبہ کو فروغ دینے اور مشروط نقد رقم کی منتقلی کی اسکیم اپریل 2005 میں شروع کی گئی تھی جس کا مقصد حاملہ خواتین میں ادارہ جاتی ترسیل (انسٹی ٹیوشنل ڈیلوری) کو فروغ دے کر زچگی اور بچوں کی اموات کو کم کرنا تھا۔
• جننی ششو سرکشا کاریکرم(جے ایس ایس کے) کا مقصد حاملہ خواتین اور بیماری شیر خوار بچوں کو انکی جیب سے باہر کو ختم کرنا ہے۔ جس میں سیزین فیکٹر مفت ٹرانسپورٹ ، تشخیص، ادویات ، دیگر استعمال کی اشیا ، صحت عامہ کے اداروں میں مفت خوراک اور خون کی فراہمی شامل ہیں۔
• سرکشت ماتراواشواسن (ایس یو ایم اے ایم) کا مقصد صحت عامہ کی ہر خاتون اور نوزائدہ کے لئے کسی بھی قیمت کے بغیر یقینی، باوقار، باعزت اور معیار صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنا ہے اور خدمات سے انکار کرنے کے لئے صفر روادی کرنے فراہم کرنا ہے تاکہ ماں نوزائدہ اموات کو روکا جاسکے۔
• پردھان منتری سرکشت ماترتو ابھیان(پی ایم ایس اے) حواملہ خواتین کو ہر ماہ کی 9 تاریخ کو مقررہ دن مفت یقینی اورم معیاری دیکھ بھال فراہم کرتاہے۔
• ایل اے کیو ایس کے وائی اے ، لیبر روم اور میٹرنیٹی نگہداشت کے معیار کو بہتر بنانا ہے ۔ اب اس بات کو یقینی بنایاجاسکے کہ حاملہ خواتین کو ڈیلوری کے دوران باعزت اور معیاری دیکھ بھال حاصل ہو
• اس فاتحہ عمل کی نگہداشت کی جامع خدمات ،صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کی تربیت ،ادوایات، آلات کی فراہمی معلوماتی تعلیم اور مواصلات (آئی ای سی) وغیرہ کے ذریعہ مضبوط بنائی گئی ہیں۔
• مڈوائفری پروگرام کا آغاز : مڈوائفری میں نرس پریکٹیشنر کے لئے ایک ایسا کیڈر تیار کیا گیا ہے جو بین الاقوامی کنفیڈریش مڈوائس (ٓئی سی ایم) کی اہلیت کے مطابق ہنر مند ہوں اور ہمدردانہ خواتین کے مرکز، تولیدی ، زچگی کی دیکھ بھال خدمات فراہم کرنے کا قابل ہوں۔
• ڈیلیوری پوائنٹ: ملک بھر میں 25 ہزار سے زیادہ ڈیلیوری پوائنٹس کو جامع آر ایم این سی اے ایچ+این خدمات کی فراہم کے لئے بنیادی ڈھانچہ، آلات اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے لحاظ سے مضبوط کیا گیا ہے۔
*افرادی قوت، خون ذخیرہ کرنے والے یونٹس، ریفرل لنکیجز وغیرہ کو یقینی بنا کر فرسٹ ریفرل یونٹس (ایف آر یو) کو فعال کرنا۔
*ماؤں اور بچوں کو فراہم کی جانے والی دیکھ بھال کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ہائی کیس لوڈ سہولیات پر زچہ و بچہ کی صحت (ایم سی ایچ) ونگز کا قیام۔
*پیچیدہ حمل کو سنبھالنے کے لیے پورے ملک میں ہائی کیس لوڈ ترٹیری نگہداشت کی سہولیات۔
*اینستھیزیا (ایل ایس اے ایس) اور پرسوتی نگہداشت میں ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کے لیے صلاحیت کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا ہے جس میں(ایم ایم او سی) سی-سیکشن کی مہارتیں شامل ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ان شعبوں میں ماہرین کی کمی کو دور کرنے کے لیے۔
*میٹرنل ڈیتھ سرویلنس ریویو کو سہولیات اور کمیونٹی کی سطح پر لاگو کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد مناسب سطحوں پر اصلاحی اقدام کرنا اور زچگی کی دیکھ بھال کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔
*ماہانہ ولیج ہیلتھ، سینی ٹیشن اینڈ نیوٹریشن ڈے غذائیت سمیت کی فراہمی ماں اور بچے کی دیکھ بھال کے لیے ایک آؤٹ ریچ سرگرمی ہے۔
*باقاعدہ IEC/BCC سرگرمیاں
* ایم سی پی کارڈ اور محفوظ زچگی کتابچہ
بچوں کی اموات کی شرح (آئی ایم آر) کو بہتر بنانے کے لیے مداخلتیں:
*سہولت پر مبنی نوزائیدہ کی دیکھ بھال: بیمار نوزائیدہ دیکھ بھال یونٹس ڈسٹرکٹ ہسپتال اور میڈیکل کالج کی سطح پر قائم کیے گئے ہیں، بیمار اور چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے نوزائیدہ اسٹیبلائزیشن یونٹس فرسٹ ریفرل یونٹس/ کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز پر قائم کیے گئے ہیں۔
*نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کی کمیونٹی پر مبنی نگہداشت: ہوم بیسڈ نوزائینڈ کیئر اور ہوم بیسڈ کیئر آف ینگ چلڈرن پروگرام کے تحت، بچوں کی پرورش کے طریقوں کو بہتر بنانے اور نئے بیمار کی شناخت کرنے کے لیے اے ایس ایچ اے کے ذریعے گھر کے دورے کیے جاتے ہیں۔
ماؤں کا مکمل پیار(ایم اے اے )
یونیورسل امیونائزیشن پروگرام (یو آئی پی) بچوں کو جان لیوا بیماریوں جیسے تپ دق، خناق، پرٹیوسس، پولیو، تشنج، ہیپاٹائٹس بی، خسرہ، روبیلا، نمونیا اور ہیموفیلس انفلوئنزا بی, گردن توڑ بخار کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے خلاف ویکسین فراہم کرنے کے لیے لاگو کیا جاتا ہے۔ روٹا وائرس کی ویکسین بھی ہے۔ روٹا وائرل ڈائریا کی روک تھام کے لیے ملک میں نافذ کیا گیا ہے۔
راشٹریہ بال سوستھیا کاریاکرم (آر بی ایس کے)
*غذائی بحالی کے مراکز صحت عامہ کی سہولیات پر قائم کیے گئے ہیں تاکہ طبی پیچیدگیوں کے ساتھ داخل ہونے والے شدید غذائی قلت والے بچوں کے علاج اور ان کا انتظام کیا جا سکے۔
*او آر ایس اور زنک کے استعمال کو فروغ دینے اور اسہال سے ہونے والی اموات کو کم کرنے کے لیے تیز رفتار اسہال پر قابو پانے کے پندرہویں/ ڈیفیٹ ڈائریا (ڈی2) اقدام کو نافذ کیا گیا۔
*انیمیا مکت بھارت کی حکمت عملی پوشنبھیان کے ایک حصے کے طور پر انیمیا سے نمٹنے کے لیے موجودہ میکانزم کو مضبوط کرنا اور نئی حکمت عملیوں کو فروغ دینا ہے جس میں اسکول جانے والے نوعمروں اور حاملہ خواتین میں خون کی کمی کی جانچ اور علاج، خون کی کمی کی غیر غذائی وجوہات کو حل کرنا اور ایک جامع حکمت عملی بات چیت شامل ہے۔
*صلاحیت کی تعمیر: زچہ و بچہ کی بقا اور صحت کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کے کئی صلاحیت سازی کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔
صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر بھارتی پروین پوار نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں یہ بات کہی۔
************
ش ح۔ ش ت۔ج
Uno-1313
(Release ID: 1796724)
Visitor Counter : 332