سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ’’ماحولیاتی دباؤ میں اجناس کی پیداوار کو برقرار رکھنا‘‘ کے موضوع پر بھارت -برطانیہ میٹنگ سے خطاب کیا
غذائی تحفظ اور بھوک کے بالکل خاتمہ کے اہداف کے حصول جیسے باہمی تشویش کے مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون پر زوردیا
وزیر موصوف نے کہا، بھارت اور برطانیہ کو سائنس کی مختلف جہتوں جیسے زراعت، میڈیسن، خوراک، فارما، انجینئرنگ یا دفاع میں عالمی اشتراک کی دعوت دینی ہوگی
بھارت -برطانیہ کے مشترکہ تعاون میں طلباء کے تبادلے، بنیادی تحقیق، ٹکنالوجی کی ترقی، مصنوعات کی ترقی جیسے پروگرام ہوں گے: ڈاکٹر جتیندر سنگھ
وزیر موصوف نے مشترکہ تحقیقی منصوبے کے لیے دونوں ممالک کے ذریعے زراعت، خوراک اور غذائیت کے اہم شعبوں کو فروغ دینے کی تجویز پیش کی
Posted On:
18 JAN 2022 6:00PM by PIB Delhi
مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے سائنس وٹیکنالوجی، زمینی سائنس ، وزیراعظم کے دفتر میں وزیر مملکت، عملے ، عوامی شکایات، پنشن، ایٹمی توانائی اور خلاء کے وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے آج ’’ ماحولیاتی دباؤ میں اجناس کی پیداوار کو برقرار رکھنا ‘‘ کے موضوع پر بھارت -برطانیہ کی مشترکہ میٹنگ سے ورچوئل طریقے سے خطاب کرتے ہوئے غذائی تحفظ اوربھوک کے بالکل خاتمہ کے اہداف کو حاصل کرنے جیسے باہمی تشویش کے مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون پر زور دیا۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا، بھارت اور برطانیہ کو سائنس کی مختلف جہتوں جیسے زراعت، میڈیسن ، فوڈ، فارما، انجینئرنگ یا دفاع میں عالمی اشتراک کی دعوت دینی ہوگی۔ یہ ورکشاپ نیشنل ایگری فوڈ بائیوٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ(این اے بی آئی) موہالی، حکومت ہند ،جوکہ بایوٹکنالوجی کے شعبہ کے تحت ایک ادارہ ہے ، اور برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی اور نیوٹن بھابھا فنڈ اور برٹش کونسل کے تعاون سے مشترکہ طور پر منعقد کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ، بھارتی حکومت کا مقصد کسانوں کو بھارت اور دنیا کو کھانا کھلانے کے قابل بنانا ہے۔ انہوں نے کہا، ملک میں ہر شہری کی غذائی تحفظ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھارت کی کوششیں بے مثال ہیں کیونکہ وزیر اعظم مودی نے یہاں تک کہ اس بات کو یقینی بنایا کہ وبا کے دوران کوئی بھی شخص بھوکا نہ رہے۔وزیرموصوف نے مزیدکہاکہ چھوٹے اور پسماندہ کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے پالیسیاں بنائی گئی ہیں، اور مقامی فوڈ کلچرز کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں غذائی تحفظ میں خاطرخواہ مدد ملے گی ۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا، بھارت -برطانیہ کے مشترکہ تعاون میں طلباء کے تبادلے، بنیادی تحقیق، ٹیکنالوجی کی ترقی، مصنوعات کی ترقی کے ساتھ ساتھ پروڈکٹ/پروسیس کا مظاہرہ اور ان کے نفاذ جیسے پروگرام شامل ہو سکتے ہیں۔ وزیر موصوف نے کہا، کووڈ نے ثابت کیا کہ سائنس ہی حل تلاش کرنے اور بنی نوع انسان کو درپیش مشکل گھڑی کا حل فراہم کرنے کا واحد اہم ذریعہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارتی سائنس نے بہت ہی محدود وقت میں بڑے خطرے / تباہ کن بیماری کے لئے ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت کو ثابت کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنے خیالات کو بھارتی تناظر تک محدود نہیں رکھنا چاہئے، بلکہ اسے عالمی پیمانے پروسعت دینا چاہئے۔
اجناس کے پائیدارپروڈکشن کے موضوع پر بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا، جنوبی ایشیائی خطہ کو کم ہوتی قابل کاشت زمین کا سامنا ہے، اس کے علاوہ عالمی موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیرموصوف نے واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں قابل کاشت اراضی 2018 میں 43.18 فیصد بتائی گئی تھی جو کہ 1970 کی دہائی کے اوائل سے جمود کا شکار ہے اور حال ہی میں اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، پیداوار میں اضافہ اور زمین کے زیادہ استعمال سے فصلوں کی پیداوار میں ترقی ہوگی اور قابل کاشت اراضی کے نقصانات کی تلافی بھی ہوگی۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اجناس کی پیداوار اور تقسیم کی عالمی ترتیب کو موسمیاتی تبدیلی کے کے ساتھ ساتھ نمایاں طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ایک مربوط اور اسٹیک ہولڈر سے متعلقہ تحقیق وترقی پروگرام تیار کرنے کے لیے مشترکہ فنڈنگ کی بات کہی جس سے اس چیلنج سے نمٹا جاسکے گا۔ انہوں نے کہا، برٹش کونسل کا مشترکہ مقصد کے ساتھ محققین کے درمیان اس طرح کی انٹرایکٹو میٹنگ کی حمایت کرنے کا اقدام فریقوں کی توجہ مبزول کرے گا اور نوجوان تحقیق کاروں کوپروان چڑھائیگا گا تاکہ انہیں خیالات کو شیئر کرنے اور ان کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے اطمینان کے ساتھ واضح کیا کہ اس ورکشاپ کا مقصد دونوں ممالک کے سائنس دانوں کو ایک ساتھ لانا ہے جس میں برطانیہ اور بھارت دونوں سے تھیم کے شعبوں میں 22 نمایاں ماہرین شامل ہیں، یعنی دونوں ممالک کے 20 نوجوان تحقیق کار موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں اہم فصلوں پر کام کر رہے ہیں۔ ۔ وزیر موصوف نے مشترکہ تحقیقی منصوبے کے لیے دونوں ممالک کے ذریعے زراعت، خوراک اور غذائیت کے اہم شعبوں کو فروغ دینے کی تجویز پیش کی۔ ہم جانتے ہیں کہ این اے بی آئی کا قیام ایک دہائی قبل عمل میں آیاتھا جس کا اصل مقصد ملک بھر میں ہمارے لوگوں تک پہنچنے والے کھانے کی غذائیت کے معیار کو بہتر بنانا تھا۔این اے بی آئی ایک اہم ادارہ ہے جو ایگری فوڈ اینڈ نیوٹریشن بائیو ٹیکنالوجی کے انٹرفیس پر کام کرتا ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ دنیا بھر میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے دوران بھی غذائیت کے تحفظ کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ملکوں کوتحریک دے سکتا ہے۔
************
ش ح ۔ ف ا ۔ م ص
(U:513)
(Release ID: 1790820)
Visitor Counter : 166