وزارت اطلاعات ونشریات

ہم  اپنے دائرے سے باہر کی زندگی کے بارے میں بے حس ہوگئے ہیں، شہروں میں تنہائی  عالمی پیمانے کا ایک سنجیدہ  مرض بن گیا ہے: افی 52 میں  ’ دی ناکر‘ کے ڈائرکٹر اننت نارائن مہادیون


کیا شہروں میں برسوں سے تنہا رہنے والے لوگ  فریب نظر اور  چیزوں کا تصور کرکے  آخرکار اپنا ہی نقصان کرتے ہیں؟۔’دی ناکر‘ کا سوال

Posted On: 24 NOV 2021 5:57PM by PIB Delhi

         

ایسے وقت میں جب ہم نئے ڈیجیٹل دور کے  بے مثال رابطوں  کا جشن منا رہے ہیں، کووڈ۔ 19 عالمی وبا اس  تنہائی اور تنہائی کے احساس کے لئے  راحت لے کر آئی جو جدید شہری اور  نیٹ ورک شدہ دنیا کے ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں۔ تنہائی ایک عالمی سطح کا سنجیدہ مسئلہ ہےجس پر  فوری طوری پر توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا ہے ’دی ناکر‘ کا ، جو کہ  ایک آدمی کی تنہائی اور قید تنہائی اور  اس سے پیدا ہونے والی اس کی  اندرونی کشمکش کے بارے میں یہ شارٹ فلم ہے ۔ یہ فلم  52 ویں انٹرنیشنل فلم فیسٹول آف انڈیا  میں  انڈین پنونما سیکشن کے  نان سیکشن زمرے کے تحت  فلم شائقین کو دکھائی گئی۔ گوا میں منعقدہ یہ فلم فیسٹول  20 سے 28 نومبر 2021 تک چلے گا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/2-1BES4.jpg

 

آج 24 نومبر 2021 کو فیسٹول کے موقع پر  ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  فلم ڈائرکٹر اور ممتاز اداکار اور فلم ساز  اننت نارائن مہادیون نے اس تلخ حقیقت  کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ’’شہروں میں ہم اپنے  دائرے سے باہر کی زندگی  کے بارے میں بے حس ہوگئے ہیں۔ ہم اپنے آپ میں  بہت زیادہ سرگرم اور بہت زیادہ جذباتی ہوگئے ہیں۔تنہائی دنیا بھر میں  ایک سنجیدہ بیماری بن گئی ہے اور  یہ بہت سے ذہنوں کو متاثر کررہی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے  جس پر  اس کے قابو سے باہر ہونے سے پہلے توجہ دینی ہوگی‘‘۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/2-2AHID.jpg

 

یہ فلم ایک ایسے آدمی کے بارے میں ہے  جو کسی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا، وہ تنہا ہوجاتا ہے ، جب اچانک وہ اپنے  سامنے کے دروازے پر دستخط سنتا ہے۔

جب یہ دستخط روزمرہ کا عمل بن جاتی ہے تو معاملات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ گھر کے اندر عجیب و غریب واقعات ہونے لگتے ہیں۔مہادیون  وفود کے سامنے  وضاحت کرتے ہیں کہ  ان عجیب و غریب واقعات  کو دیکھ کر  وہ آدمی سوچتا ہے کہ  کہیں یہ اس کا تخیل تو نہیں ۔ ’’یہ فلم یہ سوال اٹھاتی ہے کہ  دستخط دینے والا آپ کے باہر ہے یا آپ کے اندر۔ یہ چیز اس وجہ سے مبہم ہوجاتی ہے کہ  فلم کا اہم کردار حقیقت اور تخیل کے درمیان الجھ جاتا ہے۔ ذہن کا ایک نفسیاتی ڈرامہ شروع ہوجاتا ہے اور فلم کے اہم کردار کو  یہ طے کرنا ہے کہ وہ اس کو کس طرح حل کرے‘‘۔

فلم کے ڈائرکٹر نے بتایا کہ  ’’میں نے  اس امریکی شخص کے بارے میں پڑھا تھا جو  ایک ویلا میں  تنہا رہتا تھا۔ اچانک اسے  یہ عجیب و غریب احساس ہوا کہ وہ مکان میں تنہا نہیں ہے۔اس خیال پر کام کرتے ہوئے  میں نے تنہائی پر یہ فلم بنائی ہے۔وہ  آدمی دروازے پر دستک سنتا ہے لیکن جب وہ دروازہ کھولتا ہےتو دیکھتا ہے وہاں کوئی نہیں ہے‘‘۔

مہا دیون نے بتایا کہ یہ فلم  برسوں سے  کام کی وجہ یا کسی اور سبب شہروں میں تنہا رہنے والے  لوگوں کی نفسیاتی کشمکش کا پتہ لگانے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا ’’بنیادی طور پر سوال یہ ہے کہ  بڑے شہروں میں  چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے لوگ، جو تخلیقی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور چیزوں کے بارے میں حساس بھی ہیں، کیا وہ  فریب نظر  اور چیزوں کے تخیل سے  کسی طرح اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس کا ان کی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ ’دی ناکر‘ کا پلاٹ ہے‘‘ ۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ایک پوری طرح سے تجرباتی فلم ہے اور یہ ان کے لئے ایک آموزشی تجربہ رہی ہے۔ انہوں نے کہا  ’’لاک ڈاؤن کے دوران  ہم سب گھر پر  بیٹھے جب ایک دن  ایک فلم کے پروڈیوسر  اشون گڈوانی نے  مجھ سے پوچھا کہ تم شارٹ فلم کیوں نہیں بناتے ہو؟ لاک ڈاؤن کے دوران  میں نے اس سلسلے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن جب میں نے یہ فلم بنانے کا فیصلہ کیا تو پتہ لگا کہ اس کے لئے کوئی تکنیکی مدد نہیں ملے گی، مجھے یہ کام خود ہی کرنا پڑا۔ جب کوئی ٹیکنیشین، کوئی اداکار ، کچھ بھی دستیاب نہ ہو تو کیسے فلم بن سکتی ہے؟‘‘۔

کووڈ۔ 19 کی وجہ سے ٹیکنیشینوں اور اداکاروں  کے فقدان نے  یہ بات سمجھادی تھی کہ ڈائرکٹر کو  اپنے تصور کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے  کچھ  حیرت انگیزی طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا ’’ اس فلم کو  تنہا تیار کرنے کی کوشش کرنا بہت مشکل کام تھا۔ مجھے  کرسی پر ایک ڈمی کو بیٹھانا پڑتا تھا۔ اس کے بعد کیمرے کے پیچھے جاکر  کیمرے کے فوکس کو سیٹ کرتا تھا، پھر ڈمی کو ہٹاکر  اس کی جگہ بیٹھتا تھا۔ کبھی کبھی  میں کیمرے کو ہاتھ میں پکڑ کر  بھی کام کرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن اس بات کا خیال رکھ کر کہ یہ  سیلفی فلم کی طرح نظر نہ آئے ۔ ڈائرکٹر نے بتایا کہ  انہوں نے  اس فلم کو زیادہ موثر بنانے کے لئے  اس کو بلیک اینڈ وائٹ  میں شوٹ کیا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ  اس فلم نے  لاک ڈاؤن سے باہر نکلنے میں مدد کی ہے۔ انہوں نے کہا ’’میں  یہ موقع دینے کے لئے اپنے پروڈیوسر کا شکر گزار ہوں‘‘۔

 اس طرح مہا دیون نے  کیمرے کے پیچھے اور کیمرے کے سامنے اس فلم میں کام کیا ہے۔ وہ 40 سے زیادہ فلموں میں اداکاری کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  ’’میں اس فلم کے ذریعہ کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ خوش قسمتی سے  میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں جنہوں نے  اداکاری اور ہدایت کاری  دونوں کام کئے ہیں‘‘۔

مہا دیون نے بتایا کہ  ٹیم اس فلم کے لئے  کسی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی تلاش میں ہے۔ ’’امید ہے کہ یہ جلد ہی کسی بڑے ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہوگی اور ناظرین اسے دیکھ سکیں گے‘‘۔

انہوں نے اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ ان کی ایک اور فلم  ’بِٹر سوئٹ‘  بھی انڈین پنورما سیکشن کے فیچر فلم زمرے میں افی کے 52 ویں ایڈیشن میں دکھائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ اس سال افی میں بِٹر سوئٹ اور  دی ناکر دونوں کا دکھایا جانا  ایسے نادر  معاملات  میں سے ایک ہے جن میں کسی ڈائرکٹر کی دو فلمیں افی کے لئے منتخب ہوئی ہوں۔ پانچویں بار یہاں آنے کا موقع دینے کے لئے میں افی کا بہت زیادہ ممنون ہوں‘‘۔

پریس کانفرنس یہاں دیکھیں:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ا گ۔ن ا۔

U- 13249

                          



(Release ID: 1774826) Visitor Counter : 257


Read this release in: Hindi , English , Marathi