وزارت اطلاعات ونشریات
میں چاہتا ہوں کہ لوگ جب ’’سردار اودھم ‘‘: فلم دیکھ لیں تو وہ جلیاں والا باغ کی یادیں اپنے ساتھ لے کر جائیں: ڈائریکٹر شوجیت سرکار: اِفّی – 52 ماسٹر کلاس کے موقع پر
’’مکالمہ کوئی زندہ ہے‘‘ کا خاص ارادہ ہمارے اجتماعی ضمیر کو اس کی بنیاد تک ہلاکر رکھ دیتا ہے‘‘
’’سردار اودھم، جیسی فلمیں بنانے کے دوران میں ناظرین کی پرواہ نہیں کرتا‘‘
آپ اپنے وجود کی گہرائیوں میں اپنی زندگی سے متعلق نظریہ اور اپنی جوانی کے دور میں 1919 کے جلیاں والا باغ کے قتل عام کا جذباتی صدمہ سہنے کے بارے میں کیا کہیں گے؟ ہاں، یہ درحقیقت وہی بات ہے جو پہل کاری کرنے والے ہدایت کار شوجیت سرکار کے ذہن میں اس وقت تھی جب انہوں نے سردار اودھم کی زندگی پر بنائی گئی پہلی فلم ’’سردار اودھم‘‘ تخلیق کی تھی۔
ہم سے معلوم کیجئے کہ ہم یہ بات کیسے جانتے ہیں؟ ماسٹر ڈائریکٹر کے ذریعہ سنیما سے متعلق کامیابی پیدا کرنے اور سردار اودھم کی کہانی بیان کرنے کے بارے میں بھارت کے 52 ویں بین الاقوامی فلمی میلے کے چوتھے دن آج منعقدہ افی – 52 ماسٹر کلاس کی وجہ سے ہم یہ جان سکتے ہیں۔ یہ میلہ گوا میں 20 تا 28 نومبر 2021 کے دوران مخلوط شکل میں منعقد ہو رہا ہے۔ فلموں کے اُن وفود نے ، جنہوں نے بذات خود وہاں جاکر یا آن لائن طریقے سے اس میں شرکت کی۔ انہیں فلم ساز کی حکمت پر مبنی بیش قیمتی باتیں سننے کا ایک شاندار موقع فراہم ہوا ہے۔ اس فلم ساز نے لیک سے ہٹ کر فلمیں بنائی ہیں۔
سردار اودھم، ہدایت کار کی پہلی بائیوپک فلم ہے اور یہ پنجاب کے مجاہدین آزادی اودھم سنگھ کی زندگی پر مبنی ہے، جنہوں نے 1919 میں امرتسر میں جلیاں والا باغ قتل عام کا بدلہ لینے کے لئے لندن میں مائیکل اوڈائر کو قتل کیا تھا۔
فلم کے پروڈیوسر رونی لاہری بھی اس سیشن میں شامل ہوئے اور فلموں کے شائقین کے سامنے بصیرت افروز گفتگو کی۔
اِفّی کے مندوبین، جلیاں والا باغ کے منظر کی عکس بندی کے دوران، عملے کو درپیش جذباتی ہیجان اور ہلچل کے بارے میں جاننے کے بہت خواہشمند تھے۔ یہی وہ موقع تھا کہ جب سرکار نے فلم کے اس بنیادی تاثر کا انکشاف کیا جسے وہ ناظرین کے ذہن نشین کرانا چاہتے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ ناظرین جب فلم دیکھ چکیں تو وہ جلیاں والا باغ کے سانحہ کو اپنے ساتھ لے کر جائیں۔
سرکار نے کہا کہ ’’اس سیکوئنس کو مکمل ہونے میں ہی لگ بھگ 22 دن لگ گئے اور یہ ایک غیر معمولی تجربہ تھا جس سے فلم میں کام کرنے والے فنکاروں اور عملے کے ارکان پر شدید نفسیاتی دباؤ پڑا۔‘‘ اس سیکوئنس کا، فلم کا اصل کردار ادا کرنے والے اداکار وکی کوشل پر خاص طور پر شدید اثر ہوا۔ اس سین کو فلمانے کے دوران ، میرے ذہن میں ایک خیال تھا کہ اس سین کو کس طرح فلمایا جانا چاہئے۔ لیکن پھر میں نے اس بارے میں وکی کو بالکل ٹھیک ٹھیک طریقے سے مطلع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ تخلیق، تعمیری الجھن کا پھل ہوتا ہے۔ سرکار کو اس سے اتفاق ہوگا۔ ’’وکی کو کچھ تذبذب تھا اور اس تذبذب اور الجھن کے سبب اسے کردار کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے میں مدد ملی۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے عملہ کے ارکان بھی زیادہ پرسکون ہوگئے۔‘‘
ماسٹر ڈائریکٹر نے سردار کے کردار کو زندہ جاوید کیسے بنایا؟ ایک کثیر سطحی خاموشی اختیار کی گئی تاکہ جانباز جنگ آزادی کے مجاہد کے فطری رجحان کی عکاسی کی جاسکے۔ سرکار نے کہا کہ ’’سردار اودھم ایک اندرونی شخصیت ہے اور ہم نے اسی طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے زیادہ تر موسیقی کے اسکور کا استعمال کیا۔ میں موسیقی کے ہدایت کار شانتانو موئترا کو بتایا کہ ہم بعض موسیقی کے اسکورس تخلیق کریں گے، جو کہ اس خاموشی سے متناسب ہوں گے۔
ہدایت کار نے تفصیل سے سمجھایا کہ موسیقی کے اسکورس کے تخلیقی استعمال کے ساتھ ساتھ خاموشی کے غیر مرئی سلسلے کے ساتھ طویل تر فلمائے گئے مناظر کی بدولت ٹیم کو اس خاموشی کی ناپختہ خام آواز کو نمودار کرنے میں مدد ملی۔
سرکار نے زور دے کر کہا کہ ’’فلم بنانے کے دوران کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا اور یہ وہ خیال تھا کہ جو بیس سال کے ایک طویل عرصہ سے میرے ذہن میں پروان چڑھ رہا تھا‘‘۔ ہم نے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے زبردست تحقیقی کام کیا تھا۔ جلیاں والا باغ کے منظر کی عکس بندی کے لئے ہم نے تحقیق کرنے کے ساتھ ساتھ اس سانحہ میں زندہ بچے افراد پر بہت زیادہ انحصار کیا۔‘‘
خواہش مند فلم سازوں کو ہدایت کار کے مشاہدہ کا ایک انداز پیش کرتے ہوئے سرکار نے کہا کہ ’’سردار اودھم جیسی فلمیں بنانے کے دوران میری شعوری کوشش ہوتی ہے کہ میں فلم شائقین اور ناظرین کی پرواہ نہ کروں۔ جب میں کوئی فلم بناتا ہوں تو سب سے پہلے میں سامعین اور ناظرین کے نظریہ سے سوچتا ہوں۔ میں خود سے پوچھتا ہوں : میں ایک فلم دیکھنے والے کے طور پر کیسی فلم دیکھنا چاہوں گا۔‘‘
سرکار نے کہا کہ وہ شہرت اور سراہے جانے کے لئے کام نہیں کرتے۔ ’’ہم خیالات اور نظریات پر فلمیں بنانے میں یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لئے شہرت اور انعامات نہیں بلکہ عوام جو دیکھتے ہیں وہ اہمیت رکھتا ہے۔‘‘ ہدایت کار اور فلم ساز کی اس جوڑی کا گزشتہ 22 سال سے اٹوٹ رشتہ قائم ہے اور دونوں نے ایک ہی سُر میں بات کی۔
وکی ڈونر، پیکو اور اکتوبر جیسی شہرت یافتہ فلموں کے ہدایت کار سے سردار اودھم کے دل کو چھولینے والے علامتی مکالمے ’’کوئی زندہ ہے‘‘ کی اہمیت کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ محض ایک مکالمہ نہیں ہے۔ اس کی بہت سے طریقوں سے تشریح کی جاسکتی ہے۔ یہ میرا ایک ایسا سوال ہے جو ناظرین کے اجتماعی ذہن اور ضمیر سے پوچھا گیا ہے۔‘‘
تاریخ کی منظر کشی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے جناب سرکار نے کہا کہ ’’اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے کہ تاریخ کو بالکل درست شکل میں پیش کیا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہمیں اسے پھر سے بھگتنا نہ پڑے۔‘‘
اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب ہم اپنے مجاہدین آزادی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم جانبازی یا غیر معمولی خصوصیات کے بارے میں بات کرتے ہیں، ’’ہیروازم یا غیر معمولی کردار، خاموش رہنے کے بجائے حق بات کہنے سے تعلق رکھتا ہے‘‘، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب ان کی ٹیم نے سردار اودھم کی حیات کو پردہ سیمی پر پیش کرنے کی کوشش کی تو وہ ان کے ایک عام حصہ کو بھی پیش کرنا چاہتے تھے۔
کیا نئے اور ہونہار فلم سازوں کے لئے ان کا کوئی پیغام ہے ؟ ہدایت کار نے نصیحت کی: ’’نوجوان فلم سازوں کو خود سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کوئی بھی فلم کیوں بنانا چاہتے ہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۰۰۰۰۰۰۰۰
(ش ح- ع م- ق ر)
U-13210
(Release ID: 1774518)
Visitor Counter : 277