نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

نائب صدر جمہوریہ نے کووڈ -19وباء کے پیش نظر ہماری طرز زندگی اور سوچ کے ہر پہلو کے از سر نو تجزیہ پر زور دیا


دھرم-دھّم روایتوں میں کووڈ کے بعد دنیا کے سامنے ابھرے چیلنجوں کے لئے شمولیاتی جواب موجود ہے-نائب صدر جمہوریہ

دھرم –دھّم نے صدیوں سے اپنے مختلف کثیر رُخی مظاہرسے ایک اخلاقی آلے کی شکل میں کام کیا ہے

نائب صدر جمہوریہ نے نالندہ یونیورسٹی کا اپنا پرانا وقار دوبارہ حاصل کرنے پر اصرار کیا

نائب صدر جمہوریہ نے دنیا کا سب سے بڑا خود کفیل (آتم نر بھر)نیٹ زیرو کیمپس بنانے کے مطالبے کےلئے یونیورسٹی کی ستائش کی

نائب صدر جمہوریہ نے نالندہ یونیورسٹی میں چھٹی دھرم دھّم بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کیا

Posted On: 07 NOV 2021 5:31PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،07نومبر؍2021:

دنیا میں امن اور خیر سگالی کے قیام کےلئے نائب صدر جمہوریہ جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کووڈ-19 وباء کے مد نظر ہماری طرز زندگی اور سوچ کے ہر پہلو کا ازسر نو تجزیہ کرنے پر زور دیا۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں لوگوں کی زندگی میں تناؤ کو کم کرنے اور اُنہیں خوش اور خوشحال بنانے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔

کووڈ-19کے بعد عالمی نظام کی تعمیر میں دھرم دھّم روایتوں کے رول پر نالندہ میں چھٹی دھرم دھّم بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ دوسرے مذہبی اعتقادات کے ساتھ ہندو مذہب اور بودھ مذہب  کی دھرم-دھّم روایتوں میں کووڈ  کے بعد دنیا کے سامنے ابھرتے چیلنجوں کے لئے جامع اور شمولیاتی جواب موجود ہے۔ساتھ ہی انہوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ ہندومذہب اور بودھ مذہب کی تعلیمات  کو سمجھ کر اور اپنی زندگی میں اتار کر کوئی بھی شخص اپنے من کے اندر اور باہری دنیا میں سکون حاصل کرسکتا ہے۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ یہ کانفرنس اس بات کا تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ ہمارے آس پاس کی دنیا میں سامنے آنے والی چنوتیوں کو حل کرنے کےلئے دھرم اور دھّم کی تعلیمات اور روایتوں کو کس حد تک نافذ کیا جاسکتا ہے۔پُر اَمن طورپر ایک ساتھ رہنا، تعاون، آپسی دیکھ بھال اور شراکت داری، عدم تشدد، دوستی، ہمدردی، اَمن، سچائی، ایمانداری، بے لوثی اور قربانی کے عالمگیر اُصول مذہبی ،اخلاقی ہدایات کا ایک غیر منقسم حصہ رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اِسے ہمارے رِشیوں، مونیوں، بھکشوؤں، سنیاسیوں، سنتوں، مٹھادھیشوں کے ذریعے بار بار سمجھاگیا ہے۔

نائب صدر  جمہوریہ نے کہا کہ دھرم –دھّم کا نظریہ سچ اور عدم تشدد،اَمن اور خیر سگالی، انسانیت اور روحانی تعلق اور عالمی بھائی چارہ و پُر اَمن طریقے سے ایک ساتھ رہنے سمیت اپنے متعدد مظاہر میں ایک اخلاقی ذریعے کی شکل میں کام کرتا ہے۔جس نے صدیوں سے برصغیر ہندوستان کے لوگوں کی اس سمت میں رہنمائی کی ہے۔اُنہوں نے مزید کہا کہ بھگوان بودھ نے ہمیں آسان طریقے سے سمجھایا ہے کہ مذہب پر عمل کرو ، اخلاقی قدروں کا احترام کرو، اپنے غرور کو ترک کرو اور سب سے اچھی باتیں سیکھو۔

جناب نائیڈو نے امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس کووڈ کے بعد کی دنیا کو انسانیت کے لئے ایک بہتر جگہ بنانے کے تعلق سے نئے سبق اور وسیع نظریہ مہیا کرے گی۔ایک ایسی دنیا جہاں مسابقت ہمدردی کو راستہ دیتی ہے، دولت  صحت کے لئے راستی بناتی ہے، صارفیت روحانیت اور برتری کی راہ ہموار کرتی ہے اور اختیارات کا جذبہ پُر اَمن طریقے سے ایک ساتھ رہنے کی راہ تیار کرتا ہے۔

تاریخی طور پر معروف نالندہ یونیورسٹی کے علمی جذبے کو مضبوط کرنے اور ایک نئے انداز میں کوشش کرنے کے لیے، وائس چانسلر پروفیسرسنینا سنگھ کی تعریف کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا کہ یونیورسٹی کی وہی شان دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ نالندہ یونیورسٹی کو ایک بار پھر علم کی طاقت کے ذریعہ ہندوستان کو بین الاقوامی دنیا سے جوڑنے کے لئے ایک پل اور بنیادکےطور پرکام کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کےاس عظیم مرکز کوتخلیقی تعاون کے جذبے میں ہر طالب علم کے لیے ایک تبدیلی آمیز تعلیمی تجربہ فراہم کرنا چاہیے۔

آب و ہوا کی تبدیلی کے سنگین نتائج کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے نائب صدر نے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارنے پرزور دیا۔ اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے پر زور دیتے ہوئےانہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اسلاف کے روایتی طرز زندگی کو دوبارہ اپنانا چاہیے،جس میں اُنہوں نے اپنے ماحول اور فطرت کے مطابق زندگی گزاری۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے نالندہ یونیورسٹی کو دنیا کا سب سے بڑا خود کفیل نیٹ زیرو کیمپس بنانے کی کوششوں کی ستائش کی۔

بہار کے گورنر جناب فاگو چوہان،وزیراعلیٰ جناب نتیش کمار،محترمہ پاویترا ونیارچی وزیرٹرانسپورٹ،سری لنکا حکومت،پروفیسرسنینا سنگھ،وائس چانسلرنالندہ یونیورسٹی محترمہ للتا کمارمنگلم،ڈائریکٹرانڈیا فاؤنڈیشن اورشری دھرو کٹوچ ڈائرکٹرانڈیا فاؤنڈیشن کے علاوہ دیگر معززین شخصیات موجودتھے۔

خطاب کا مکمل متن درج ذیل ہے:

معزز مہمانان، بہنوں اور بھائیوں،

یہ جان کر بلا شبہ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ کووڈ کے بعد عالمی نظام کی تعمیر میں دھرم –دھّم روایتوں کے رول پر نالندہ یونیورسٹی چھٹی دھرم –دھّم  بین الا قوامی کانفرنس منعقد کررہی ہے۔مجھے یہ کہتے ہوئے بھی مسرت ہورہی ہے کہ نالندہ یونیورسٹی 2018 اور 2019ء میں چوتھی اور پانچویں دھرم-دھّم بین الاقوامی  کانفرنس منعقد کرچکی ہے اور یہ دونوں بے حد کامیاب رہی تھیں۔اپنی تعلیمی تہذیب کے ذریعے دھرم-دھّم روایتوں کو آگے بڑھانے کےلئے میں نالندہ یونیورسٹی کو تحسین پیش کرتا ہوں۔اس کے ساتھ ہی دھرم دھّم بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی روایت کو جاری رکھنے کی کوششوں کےلئے دی انڈیا فاؤنڈیشن بھی ہماری ستائش کی حقدار ہے۔

اس کانفرنس کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ یہ ایک ایسے خطے میں منعقد ہورہی ہے ، جہاں بھگوان بودھ چلے اور اپنے محبت اور سچائی کے پیغام کو پھیلایا۔

ہمارے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا ماننا تھا کہ نالندہ کی بازیابی ایشیائی بازیابی کی علامت ہے۔مجھے یہ جان کر از حد مسرت ہوئی کہ اپنی موجودہ قیادت کے ساتھ یہ یونیورسٹی اِس وژن کو حقیقت کی شکل دینے کی راہ پر مضبوطی سے گامزن ہے۔میں اسے یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے ایک وسیع حصے کے طورپر دیکھتاہوں، جو بھارت کو مستقبل میں ایک بار پھر وشو گرو میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہ معلومات بھی دل کو خوش کرنے والی ہے کہ یونیورسٹی اپنے اکیڈمک بنیاد کے ساتھ ایک عالمگیر نظریہ رکھتی ہے اور عالمی سطح پر موجودہ فکر اور عمل  کے لئے  کھلی ہوئی ہے۔میں اس بات سے بھی آگاہ ہوں کہ یونیورسٹی نے ایسے 17شراکت دار ممالک سے اپنے روابط قائم کررکھے ہیں کہ جنہوں نے نالندہ یونیورسٹی کی بازیابی میں تعاون دیا ہے۔اِ س سے ہماری تہذیب و ثقافت کو فروغ حاصل ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ اس سے ایشیا اور پوری دنیا کےلئے بہترین ذرائع پیدا ہوں گے۔

میں وائس چانسلر پروفیسر سنینا سنگھ کو اس بات کےلئے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ اس تاریخی شہرت کی حامل یونیورسٹی کے از سر نودریافت اور اس کی اکیڈمک روح کو مضبوطی دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہم سب کی کوشش اس بات کے لئے ہونی چاہئے کہ یہ یونیورسٹی اپنی ماضی کی شہرت کو دوبارہ حاصل کرے اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پروفیسر سنگھ اور ان کی شاندارٹیم اِس سمت میں مضبوطی سے کام کررہی ہیں۔نالندہ یونیورسٹی معلومات کی طاقت کے توسط سے ایک بار پھر بھارت اور باہری دنیا کے مابین ربط کے قیام میں (ایک پل اور بنیاد) کے طورپر کام کرسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم کے اس عظیم مرکز کو تعمیری تعاون کے جذبے ہر طالب علم کے لئے ایک انقلابی تعلیمی تجربہ مہیا کرنا چاہئے۔

نالندہ یونیورسٹی کو ایک مخصوص کردار ادا کرنا ہے اور یہ کردار عالمی سطح کے اقدار پر مبنی نظام کی تیاری پر ہے۔مجھے یہ جان  کر مسرت کا اظہار ہو رہا ہے کہ اِس تناظر میں ہند-ایشیاء ذہانت اور معلومات کے ذریعے یونیورسٹی نہ صرف عالمگیر سطح پر اَمن کے فروغ میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے، بلکہ اس سے جدید تحقیق کو بھی بڑھاوا مل سکتا ہے۔

دوستوں،

میں نالندہ یونیورسٹی کو دنیا کے سب سے بڑے خود کفیل نیٹ- زیرو کیمپس کی تعمیر کےلئے مبارکباد پیش کرتاہوں۔ایک وسیع پیمانے پر نیٹ-زیرو ایپروچ کے ساتھ سبز پائیدار کیمپس کی تعمیر بلا شبہ ایک غیر معمولی حصولیابی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ ملک میں اپنی نوعیت کا واحد کیمپس ہے اور دنیا کے بڑے نیٹ-زیرو کیمپس میں سے ایک ہے۔نالندہ یونیورسٹی کہ جہاں سناتن ہندو مذہب ، بودھ مذہب کی تعلیمات اور بھارت کے معلوماتی نظام پر مبنی تعلیم دی جارہی ہے، اس میں ایک اہم عنوان کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد بڑی اہمیت کی حامل ہے۔مجھے یقین ہے کہ  اکیڈمک سرگرمیوں سے جڑے اساتذہ ، مفکرین اور بااثر افراد سے ایک بہتر خیر سگالی پر مبنی علمی نظام کی تعمیر کے لئے اس کانفرنس سے بہت سے کارآمد سبق حاصل کرسکتے ہیں۔

کووڈ -19وباء سے پیدا شدہ بحران پر نظر ڈالیں تو اب ہمیں از سر نو راہ پر چلنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی طرز زندگی اور سوچ کا از سر نو تجزیہ کرنا ہے، تاکہ ہم دنیا میں امن اور خیر سگالی کا ماحول پیدا کرسکیں۔یہ بات بالکل صاف ہے کہ ہندوازم اور بودھ ازم دونوں کی دھرم –دھّم روایتوں میں وہ کثیر رخی مظاہر موجود ہے، جن کے ذریعے ہم کووڈ-19کے بعد عالمی نظام کی تعمیر نو کی راہ میں در پیش چیلنجوں کا شمولیاتی جواب دے سکتے ہیں۔میں پرامید ہوں کہ اس بین الاقوامی کانفرنس سے کچھ نئے سبق حاصل ہوں گے اور ہمیں اپنے اندر جھانکنے کا موقع ملے گا اور اس طرح ہم کووڈ کے بعد دنیا کو انسانیت کےلئے ایک بہتر جگہ بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ایک ایسی دنیا ، جہاں مسابقت  ہمدردی کو راہ دیتی ہے، دولت صحت کے لئے راستہ کھولتی ہے، صارفیت سے روحانیت کی راہ نکلتی ہے اور برتری سے پر امن طورپر ایک ساتھ رہنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔

دنیا میں ہمارے آس پاس جو چیلنج ہیں اس میں اس کانفرنس نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لے سکیں کہ دھرم اور دھّم کی روایات اور عمل کو کس طرح اِن چیلنجوں کو حل کرنے کےلئے اختیار کیا جاسکتا ہے۔پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہنا، تعاون ، آپسی دیکھ بھال  اور شراکت داری ، عدم تشدد ، دوستی، ہمدردی، امن، سچائی ، ایمانداری، بے لوثی اور قربانی کے عالمگیر اصول، مذہبی، اخلاقی  ا حکامات کا ایک غیر منقسم حصہ رہے ہیں۔ اسے ہمارے رشیوں، مونیوں، بھکشوؤں، سنیاسیوں ، سنتوں، مٹھادھیشوں کے ذریعے بار بار سمجھا یا گیا ہے۔

بہنوں اور بھائیوں،

مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہورہی ہے کہ چھٹی دھرم-دھّم کانفرنس ایک ایسے عنوان سے منعقد ہورہی ہے جس سے باہمی نطریات و خیالات کے تبادلے کو بڑھاوا ملے گااور اس سے عالمی سطح  پر خیر سگالی کا ماحول قائم ہوگا۔اس سے مذہبی روایتوں کو پھیلنے کا موقع ملے گا اور اس صورت میں آج کی دنیا کو رہنمائی کےلئے ایک نئی روشنی حاصل ہوگی۔ہمیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ  باہمی  ربط کا متحرک رویہ جو ہماری مذہبی روایتوں کا آئینہ ہے، آج کے وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

دھرم کا ایک مخصوص اور اعتقادی نظریہ ہے ، جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے ربط کے اصولوں سے جڑا ہوا ہے۔اس نے ہمارے حقیقت کے نظریے اور طرز زندگی کو شکل دینے اور رہنمائی کرنے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔انسانی وجود  میں دھرم کی موجودگی کے وسیع رخ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے سماجی –تہذیبی رویوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ پائیدار زندگی اور مثبت زندگی گزارنے کی رہنمائی اِن میں موجود ہیں۔ دھرم-دھّم کا نظریہ سچ اور عدم تشدد، امن اور خیر سگالی ، انسانیت اور روحانی ربط اور عالمگیر  بھائی چارہ و پر امن طریقے سے ایک ساتھ رہنے سمیت اپنے کثیر رخی مظاہر میں ایک اخلاقی ذریعے کی شکل میں کام کرتا ہے، جس نے صدیوں سے اس پورے برصغیر کے لوگوں کی اِس سمت میں رہنمائی کی ہے۔ یہی وہ اہم اخلاقی محرکات ہیں، جنہوں نے مسلسل ہماری طرز زندگی کو پائیداری بخشی ہے اور اسے ایک شکل دی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد کثیر مذہبی روایتوں کے درمیان خصوصی شناخت  پر توجہ دینا ہے۔ ساتھ ہی کردار سازی پر بھی اس کا زور ہے۔

مجھے مطلع کیا گیا ہے کہ کانفرنس کا ایک وزارتی پینل بھی ہے، جس میں اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب پے ما کھانڈو، سکم کے وزیر اعلیٰ جناب پریم سنگھ تمنگ ، وزارت خارجہ میں وزیر مملکت محترمہ میناکشی لیکھی اور سری لنکا کے وزراء شامل ہیں۔ میں پُر امید ہوں کہ پچھلے تین دنوں تک مختلف ذیلی عنوانات کے تحت اِ س کانفرنس میں جو اکیڈمک باتیں ہوئی ہیں، اس سے نہ صرف ہماری معلومات  کو توانائی ملے گی، بلکہ یہ بامقصد بھی ثابت ہوگی۔مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ اس بین الاقوامی کانفرنس میں دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے 150 سے زائد دانشور اپنا پیپر پیش کریں گے۔ ایسے متحرک دانشورانہ ماحول میں معلومات اور علم کو فروغ حاصل ہوگا ۔ مجھے یقین ہے کہ نئے عالمی نظام میں ایک مفکر قائد کی تشکیل میں نالندہ یونیورسٹی اپنا کردار ادا کرے گی۔

میں ایک بار پھر دھرم-دھّم کانفرنس کے انعقاد کےلئے نالندہ یونیورسٹی اور انڈیا فاؤنڈیشن کو ایک ساتھ آنے کےلئے مبارکباد دیتا ہوں۔  ہماری نیک خواہشات۔

شکریہ۔

جے ہند۔

 

************

ش ح۔ج ق۔ن ع

 (U: 12608)



(Release ID: 1769908) Visitor Counter : 178


Read this release in: English , Hindi , Punjabi , Tamil