سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

سائنسدانوں نے سب سے دور گاما رے اخراج کرنے والی  کہکشاں کی تلاش کی

Posted On: 13 APR 2021 12:32PM by PIB Delhi

نئی دہلی، 13 اپریل

 

ماہرین فلکیات نے ایک نئی فعال کہکشاں کا پتہ لگایا ہے۔ اس کی شناخت دور دراز گاما رے اخراج کرنے والی کہکشاں کے طور پر کی گئی ہے۔ اس فعال کہکشاں کو نیرو لائن سیفرٹ -1(این ایل ایس-1)کہکشاں کہا جاتا ہے۔ یہ تقریبا 31 بلین لائٹ مربع پیچھے ہے۔ اس تلاش سے مزید تلاش کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

1929 میں ، ایڈمن ہبل نے دریافت کیا تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ تب سے یہ بات مشہور ہے کہ بیشتر کہکشائیں ہم سے دور ہو رہی ہیں۔

ان کہکشاؤں کی روشنی کو لمبی لہر کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ اسے ریڈ شفٹ کہتے ہیں۔ سائنسدان اس کہکشاؤں کے اس موڑ کی تلاش کر رہے ہیں تاکہ کائنات کو سمجھا جاسکے۔

محکمہ سائنس و ٹکنالوجی کے ایک خودمختار انسٹی ٹیوٹ ، اے آر آئی ایس کے سائنس دانوں نے ، دوسرے اداروں کے محققین کے تعاون سے سلوان ڈیجیٹل اسکائی سروے (ایس ڈی ایس) سے تقریبا 25،000 چمکیلا فعال گلیٹککنیوکلی (اے جی این) کا مطالعہ کیا اور یہ پایا کہ ایک عجیب و غریب ‌ اشیاء اونچے ریڈ شفٹ پر (ایک سے زیادہ) اعلی انرجی گاما رے اخراج کر رہا ہے۔

ایس ڈی ایس ایس ایک اہم آپٹیکل اور اسپیکٹروسکوپک سروے ہے جس کا استعمال پچھلے 20 سالوں میں فلکیاتی اشیاء کو دیکھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔سائنسدانوں نے اس کی شناخت گاما رے امیٹر این ایل ایس- 1 گلیکسی کے طور پر کی ہے۔ یہ خلا میں نایاب ہے۔ کائنات میں ذرات کے ماخذ لائٹ  کی رفتار سے سفر کرتے ہیں۔

یہ ماخذ بڑے بلیک ہول کی توانائیوں سے متاثر اے جی این کے ذریعہ آپریٹ کیے جاتے ہیں اور بڑے بیضوی کہکشاں میں ہوسٹ کیا جاتا ہے۔

 

 

لیکن این ایل ایس۔1 سے گاما کرن کا اخراج اس بات کو چیلنج کرتا ہے کہ کس طرح متعلقہ ذرات کے ماخذ تشکیل پاتے ہیں کیونکہ این ایل ایس۔1 اےجی این کا ایک انوکھا طبقہ ہے جو کم ماس بلیک ہول سے توانائی حاصل کرتا ہےاور یہ ایک گھومنے والی کہکشاں میں ہوسٹ کیا جاتا ہے۔ابھی تک گاما رے کے اخراج کا پتہ تقریبا ایک درج این ایل ایس -1 کہکشاں میں لگا ہے۔

یہ چار دہائی پہلے نشان زد اے جی این کے الگ الگ حصے ہیں ۔ سبھی لمبی ریڈیو لہروں کا رخ کر چکے ہیں۔سب ایک دوسرے سے چھوٹے ہیں اور ابھی تک ریڈ شفٹ میں ایک دوسرے سے بڑے این ایل ایس-1 کا پتہ لگانے کا کوئی راستہ تلاش نہیں کیا جاسکا ہے۔

اس دریافت سے کائنات میں گاما رے کا اخراج این ایل ایس۔1 کہکشاؤں کا پتہ لگانے کی راہ ہموار ہوگی۔سائنسدانوں نے تحقیق کے لئے دنیا کی سب سے بڑی زمینی ٹیلی سکوپ ، امریکہ کے ہوائی واقع 8.2 ایم سبارو ٹیلی سکوپ کا استعمال کیا ۔ اس سے اونچےریڈ شفٹ کے  این ایل ایس۔1 کا پتہ لگانے کے نئے طریقہ میں مدد ملی۔

اس سے پہلے ان کہکشا وں کی جانکاری نہیں تھی۔ نئی گاما رے اخراج ایل ایس -1 تب بنتا ہے جب موجودہ 13.8 بلین پرانی کائنات کے مقابلہ میں کائنات 4.7 ارب سال پرا نا ہوتا ہے۔

اس تحقیق کی سربراہی اے آر آئی ای ایس کے سائنس دان ، ڈاکٹر شبھیندو رکشت نے کی۔

اس میں مالٹے شریم (جاپان) ، سی ایس اسٹالن (آئی آئی اے انڈیا) ، آئی تناکا (امریکہ) ، ویدھی ایس پالیا (اے آر آئی ایس) ، اندرانی پال (آئی آئی اے انڈیا) ، زری کوٹیلینن (فن لینڈ) اور جائے جنگ شن (جنوبی کوریا) نے تعاون کیا۔

اس تحقیق کو منتھلی  نوٹسز آف رائل اسٹرونومیکل سوسائٹی جرنل میں اشاعت کے لئے منظور کیا گیا ہے۔

اس دریافت سے متاثر ہو کر ، ڈاکٹر رکشت اور ان کے معاونین اے آر آئی ای ایس کے 3.6 ایم دیو ستھل آپٹیکل ٹیلی سکوپ (ڈی او ٹی) پر ٹی آئی ایف آر - اے آر آئی ای ایس نیر انفرا ریڈ اسپکٹرو میٹرکی صلاحیتوں کا پتہ لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ بڑے ریڈ شپ پر گاما رے خارج کرنے والی این ایل ایس۔1 کہکشاؤں کا پتہ چل سکے۔

 

image0015ETR.png

 

 

مزید تفصیل کیلئے ڈاکتر شوبھیندو رکشت (suvendu@aries.res.in)   سے رابطہ کریں۔

اشاعت کا لنک :

 

DOI: https://doi.org/10.1093/mnrasl/slab031
arXiv: https://arxiv.org/abs/2103.16521

****

 

 

 

 

ش ح۔ ع ح ۔ رم

(U: 4450)

 

 



(Release ID: 1718220) Visitor Counter : 221