سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

ایک درجن نایاب چہار جزوی شبیہ والے کواسر کی دریافت سے کائنات کی وسعت پذیری کی شرح کا تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے

Posted On: 08 APR 2021 3:47PM by PIB Delhi


 

نئی دہلی، 8 اپریل: ماہرین فلکیات کے ایک گروپ نے ایک درجن کواسر دریافت کیے ہیں جو قدرتی کائناتی لینز سے لی گئی ہیں اور چار مماثل شبہیوں میں بٹ گئی ہیں۔ اس نایاب دریافت نے معلوم کواسرز کی تعداد میں تقریباً 25 فیصد اضافہ کیا ہے اور اس سے کائنات کی توسیع کی شرح کا تعین کرنے اور دیگر اسرار کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

کواسر خلائے بسیط میں بہت روشن اجرام ہوتے ہیں جو انتہائی بسیط بلیک ہول سے توانائی لیتے ہیں۔ چہارجزوی شبیہ والے کواسر نایاب ہوتے ہیں اور پہلا چہار جزوی شبیہ والا کواسر 1985 میں دریافت ہوا تھا۔ گذشتہ چار دہائیوں میں ماہرین فلکیات کو 50 کواسر چہار جزوی شبیہ والے ملے ہیں۔ یہ اس وقت پایا جاتا ہے جب وسیع کہکشاں کی کشش ثقل کواسر کے سامنے ہوتی ہے اور یہ واحد شبیہ کو چار شبیہوں میں تقسیم کرتی ہے۔

یہ مطالعہ ماہرین فلکیات کے ایک گروپ گایا گریویٹیشنل سینسز ورکنگ گروپ (جی آر اے اے) نے کیا ہے۔ اس میں آریہ بھٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آبزرویشنل سائنسز (ای آر آئی ایس) نینی تال کے سائنس دان شامل ہیں۔ ڈیڑھ سالہ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مشین لرننگ کی طاقت ماہرین فلکیات کو اس طرح کے کائناتی اجرام کے گروہوں کو دریافت کرنے میں مدد دیتی ہے۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001585T.jpg

اس لائن ڈایاگرام سے پتہ چلتا ہے کہ آسمان میں چہار جزوی شبیہ والے کواسر کس طرح پیدا ہوتے ہیں۔ دور کواسر کی روشنی اس کہکشاں کی کشش ثقل سے منعطف ہوئی ہے جو اس کے سامنے ہے۔ روشنی کے جھکنے سے یہ وہم ہوتا ہے کہ کواسر ایک ہی قسم کے چار حصوں میں منقسم ہے۔ تصویر: بشکریہ آر ہرٹ (آئی پی اے سی/ کیلٹیک) / جی اے آر ایل۔

جیٹ پروپلشن لیبارٹری یو ایس اے کے اہم مصنف اور محقق سائنس دان ڈینیل اسٹرن نے بتایا کہ کواسر ہر قسم کے سوالات کے لیے سونے کی کانیں ہیں۔ وہ کائنات کی توسیع کی شرح کا تعین کرنے اور تاریک مادے اور کواسر 'مرکزی انجن' جیسے اسرار کو حل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

 

کائناتی معمہ

حالیہ برسوں میں کائنات کی توسیع کی شرح کی صحیح قدر میں عدم مطابقت رہی ہے۔ اسے ہبل لیمیٹرس مستقل کہا جاتا ہے۔ اس عدد کا تعین کرنے کے لیے دو بنیادی ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا آلہ ہماری مقامی کائنات میں فاصلے اور شے کی رفتار کی پیمائش پر منحصر ہے جب کہ دوسرا آلہ کائنات کی پیدائش کے وقت سے موجود دور دراز تابکاری کی بنیاد پر نمونوں سے ایکسٹراپولیٹ کرتا ہے جسے کائناتی مائیکروویو بیک گراؤنڈ کہا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ اعداد ہم آہنگ نہیں ہیں۔ کواسر مقامی اور دور کے نشانوں کے درمیان واقع ہیں۔ مطالعاتی ٹیم نے نئے کواسر کوئیڈز کو 'وولف  پا' اور 'ڈریگن کائٹ' کا نام دیا ہے۔ ان سے مستقبل میں ہبل لیمیٹرس کے مستقل کا حساب لگانے میں مدد ملے گی اور یہ واضح ہو جائے گا کہ دو بنیادی پیمائشیں یکساں نہیں ہیں۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002Y69O.jpg

مطالعے میں پائی جانے والی چہار جزوی شبیہ کے کواسر:اوپر بائیں سے نیچے تک، اشیا ہیں: گریل جے 1537- 3010 یا "وولف پا" جی آر اے ایل جے0659 +1629 یا جیمینی کی کمان" جی آر اے ایل جے 1651-0417 یا "ڈریگن کائٹ؛" جی آر اے ایل جے 2038-4008 یا "مائیکرواسکوپ لینز" تصاویر کے وسط میں دھندلا نقطہ لینسنگ کہکشاں ہے۔ اس کی کشش ثقل کواسر سے روشنی کو اس طرح منقسم کر رہی ہے کہ کواسر کی چار تصاویر ملتی ہیں۔ ان کے مطالعے سے ماہرین فلکیات کائنات کی توسیع کی شرح کا تعین کر سکتے ہیں اور وقت کے ساتھ تصویروں کی چمک کس طرح تبدیل ہوتی ہے اس کی ماڈلنگ اور نگرانی کے ذریعے کائناتی مسائل کو حل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ تصویر: بشکریہ جی آر اے ایل۔

 

انسان اور مشینیں مل کر کام کر رہے ہیں

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے کرون مارٹنز بتاتے ہیں کہ ہمارے مطالعے کا بنیادی آلہ آگمینٹیڈ انٹیلی جنس کے ساتھ مشین لرننگ تھا۔ لیکن یہ انسانی فیصلوں کا متبادل نہیں تھا۔ ہم مستقل سیکھنے کے لوپ میں ماڈلز کو تربیت اور اپ ڈیٹ کرتے ہیں جیسے انسانی اور انسانی مہارت لوپ کے ضروری حصے ہیں۔

نئی تحقیق میں محققین نے ممکنہ کواسرز کا پتہ لگانے کے لیے وائلڈ فیلڈ انفراریڈ سروے ایکسپلورر (وی آئی ایس ای) کے ڈیٹا کا استعمال کیا اور پھر گایا کے شارپ ریزولوشن کا استعمال کرتے ہوئے یہ شناخت کی کہ کون سے وی آئی ایس ای کواسر ممکنہ چہار جزوی شبیہ والے کواسرز سے وابستہ ہیں۔ اس کے بعد محققین نے مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا کہ کون سا امیدوار تصویری ماخذ میں اضافہ کرسکتا ہے اور نہ صرف مختلف ستاروں کو آسمان پر ایک دوسرے کے قریب دکھا سکتا ہے۔ ہوائی، امریکہ میں کیک آبزرویٹری، کیلیفورنیا میں پالومر آبزرویٹری، یورپی سدرن آبزرویٹری اور جیمنی ساؤتھ آبزرویٹری، کے زیر انتظام نیو ٹیکنالوجی ٹیلی اسکوپ کے فالو اپ آبزرویشن نے تصدیق کی ہے کہ چہار جزوی کواسروں کی شبیہ، جو اربوں کھربوں نوری سال دور تھی، حقیقی تھی۔

اسپیکٹرل ڈیٹا کے ذریعے امیداواروں کی تصدیق

آریہ بھٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آبزرویشن سائنسز (ای آر آئی ایس) کی پی ایچ ڈی طالبہ پرینکا جالان، نینی تال اور ای آر آئی ایس ای میں وزٹنگ ماہر فلکیات جین سرڈیج بڑی زمینی دوربینوں سے حاصل کردہ اسپیکٹرل کواسر اجزا کا تجزیہ کرنے میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔

جی آر اے ایل کے رکن اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیز کے پروفیسر جین سارڈیج نے بتایا کہ اس سے قبل سنگل کواسرز کی دو لینز شبیہیں ملی تھیں، حالاں کہ چار لینز والی شبہیوں کو تلاش کرنے کا مقصد ایک وسیع سبز علاقے میں تین پتوں والی گھاس تلاش کرنے جیسا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اسی وجہ سے اسے کوسمک کلوور لیف کہا جانا زیادہ مناسب ہے۔

اس نئے کائناتی کلوورلیف کا مزید فلکیاتی مطالعہ اور 3.6 میٹر کی آپٹیکل ٹیلی اسکوپ (ڈی او ٹی) اور 4 میٹر انٹرنیشنل لیکوئڈمرر ٹیلی اسکوپ (آئی ایل ایم ٹی) سہولیات کے ساتھ دیگر بڑھتی ہوئی شبیہ کے کواسر کا مطالعہ آزادانہ طور پر کائنات کی عمر اور توسیع کی شرح کا تعین کرے گا۔ 3.6 میٹر ڈی او ٹی سہولت کے انچارج ماہر فلکیات  برجیش کمار نے بتایا کہ دیواستھل اور فرنٹ لائن بیک اینڈ ڈیوائسز پر بہترین حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے امیدواروں ملٹی پلائی کواسر ذرائع کو 3.6 میٹر ڈی او ٹی سے مناسب طریقے سے دیکھا جاسکتا ہے۔

 

اشاعت کا لنک: https://arXive.org/abs/2012.005

مزید معلومات کے لیے براہ مہربانی رابطہ کریں ویریندر یادو، virendra@aries.res.in، نالج ریسورس سینٹر، ای آر آئی ایس، نینی تال۔

****

ش ح۔ ع ا۔ م ف

U. No. 3581

 



(Release ID: 1711089) Visitor Counter : 156


Read this release in: English , Hindi , Punjabi