وزیراعظم کا دفتر

ڈاکٹر  ہرے  کرشن مہتاب   کے ذریعے  لکھی گئی  کتاب  اڈیشہ اتیہاس  کے ہندی ورژن کے اجراء پر وزیر اعظم کے خطاب  کا متن

Posted On: 09 APR 2021 4:16PM by PIB Delhi

 

نئی دلّی ، 09 اپریل /

جے جگناّتھ  !

          پروگرام میں  ، میرے ساتھ موجود لوک سبھا میں  صرف   رکن  ہی نہیں   ، پارلیمانی زندگی میں ایک   اہم  رکن پارلیمنٹ   ، کس طرح سے کام کر سکتا ہے ، ایسی ایک جیتی جاگتی مثال بھائی بھرت   ہری مہتاب  جی ،  دھرمیندر پردھان جی   ، دیگر عظیم شخصیات  ، خواتین و حضرات  ! میرے لئے بہت خوشی کی بات ہے  کہ مجھے ‘‘ اتکل کیسری ’’ ہرے کرشن  مہتاب جی  سے جڑے  ، اِس پروگرام میں حاضر ہونے کا موقع ملا ہے ۔ قریب ڈیڑھ سال پہلے ہم سب نے ‘‘ اتکل کیسری ’’ ہرے کرشن مہتاب جی کا 120 واں  یومِ پیدائش  بہت ہی  تحریک دینے والے  موقع کے طور پر  منایا تھا ۔ آج ہم ، اُن کی مشہور کتاب  ‘‘ اڈیشہ اتیہاس ’’ کے ہندی ترجمے کا اجراء کر رہے ہیں ۔  اڈیشہ کی وسیع اور  تنوع سے  بھری تاریخ  ملک کے لوگوں تک پہنچے ، یہ بہت ضروری ہے ۔ اڑیا اور انگریزی کے بعد ہندی ترجمے کے ذریعے آپ نے اِس ضرورت کو پورا کیا ہے ۔  میں اس اہم کوشش کے لئے بھائی بھرت ہری مہتاب جی کو ، ہرے کرشن مہتاب فاؤنڈیشن  کو اور خاص طور سے شنکر لال پروہت جی کو ، اُن کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور دِلی مبارکباد بھی دیتا ہوں ۔

ساتھیو ،

بھرت ہر ی جی،  اس کتاب کے اجراء کی دراخواست  کے ساتھ مجھے اس کتاب کی ایک کاپی بھی دے کر گئے تھے ۔ میں اسے پوری طرح پڑھ تو نہیں پایا لیکن  جب میں نے اسے سرسری نظر سے دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ اس کی ہندی اشاعت واقعی  کئی اچھے اتفاقات سے جڑی ہوئی ہے ۔یہ کتاب ایک ایسے سال میں شائع کی گئی ہے ، جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو  منا رہا ہے۔ اسی  سال ، اُس واقعے  کے بھی 100 سال پورے ہو رہے ہیں ، جب ہرے کرشن مہتاب جی کالج چھوڑ کر آزادی کی جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ جب گاندھی جی نے نمک ستیہ گرہ کے لئے ڈانڈی یاترا کا آغاز کیا تو  اڈیشہ میں ہرے کرشن جی نے ،  اِس تحریک کی قیادت کی تھی ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ سال  2023 ء  میں ، 'اوڈیشہ اتیہاس ' ​​کی اشاعت کو بھی 75 سال مکمل ہو رہے ہیں۔  مجھے لگتا ہے کہ جب کسی  تصور کا مرکز  ملک کی  خدمت یا سماج کی خدمت ہوتا ہے تو ایسے اتفاقات بھی ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

 

ساتھیو ،

اس کتاب  میں بھرت ہری جی نے لکھا ہے کہ ‘‘ ڈاکٹر ہرے کرشن مہتاب جی ، وہ شخص تھے ، جنہوں نے تاریخ رقم بھی کی ، تاریخ بنتے ہوئے دیکھی بھی اور تاریخ لکھی بھی ۔ ’’ حقیقت میں ایسی تاریخی شخصیت بہت نایاب ہوتی ہیں ۔ ایسی عظیم شخصیتیں  خود بھی تاریخ کا  اہم باب ہوتی ہیں ۔ مہتاب جی نے آزادی کی لڑائی میں اپنی زندگی وقف کی ، اپنی جوانی کھپا دی  ۔ انہوں نے جیل کی زندگی کاٹی  لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ آزادی کی لڑائی کے ساتھ ساتھ سماج کے لئے بھی لڑے  ! ذات پات ، چھوا چھوت کے خلاف تحریک میں انہوں نے اپنے جدی مندر کو بھی سبھی ذاتوں کے لئے کھولا  اور اُس زمانے  سے  آج بھی  ایک شخصیت کے کردار سے اِس طرح کی مثال پیش کرنا شاید آج ، اِس کو ہم ، اِس کی طاقت کیا ہے ، اندازہ  نہیں کر سکتے  ۔  اُس دور میں دکھیں گے تو اندازہ لگا سکیں گے کہ کتنا بڑا حوصلہ ہو گا  ۔ خاندان میں بھی  کس طرح کے ماحول سے ، اِس فیصلے کی طرف جانا پڑا ہوگا ۔ آزادی کے بعد انہوں نے اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ کے طور پر بڑے بڑے فیصلے کئے  ، اڈیشہ کے مستقبل کو تشکیل دینے کے لئے بہت سی کوششیں کیں ۔ شہروں کی  جدید کاری  ، پورٹ کی جدید کاری ، اسٹیل پلانٹ ، ایسے کتنے ہی کاموں میں ، اُن کا بہت بڑا کردار رہا ہے ۔

ساتھیو ،

اقتدار میں پہنچ کر بھی  ، وہ ہمیشہ  پہلے اپنے آپ کو ایک مجاہد آزادی ہی سمجھتے تھے اور وہ پوری زندگی  مجاہد آزادی  ہی بنے رہے ۔ یہ بات آج  کے عوامی نمائندوں کو حیرت میں ڈال سکتی ہے  کہ جس پارٹی سے وہ وزیر اعلیٰ بنے تھے ، ایمرجنسی  میں اسی پارٹی کی مخالفت  کرتے ہوئے ، وہ جیل چلے گئے ۔ یعنی وہ ایسے نرالے لیڈر تھے ، جو ملک کی آزادی کے لئے بھی جیل گئے اور ملک میں جمہوریت  کو بچانے کے لئے بھی جیل گئے اور میری یہ خوش قسمتی  رہی ہے  کہ ایمرجنسی  ختم ہونے کے بعد ان سے ملنے کے لئے اڈیشہ  گیا تھا ۔ میری تو کوئی پہچان  نہیں تھی لیکن انہوں نے مجھے وقت دیا اور مجھے برابر یاد ہے کہ لنچ سے پہلے کا وقت دیا تو فطری بات ہے کہ لنچ کا وقت   ہوتے ہی بات پوری ہو جائے گی لیکن میں آج یاد کرتا ہوں ، مجھے لگتا ہے ،  دو ڈھائی  گھنٹے تک وہ کھانے کے لئے نہیں گئے اور لمبے عرصے  تک مجھے بہت سی چیزیں بتاتے رہے کیونکہ  میں کسی شخص  کے بارے میں ریسرچ کر رہا تھا، کچھ   مٹیریل   کلکٹ  کر رہا تھا  ۔ ا س وجہ سے  ، میں ان کے پاس گیا تھا  اور میرا یہ تجربہ  ہے اور میں کبھی کبھی  دیکھتا ہوں  کہ جو بڑے خاندان  میں بیٹے  پیدا ہوتے ہیں اور اس میں بھی  خاص طور پر سیاسی  خاندانوں  میں اور بعد میں ان کی اولادوں کو دیکھتے ہیں تو کبھی کبھی سوال اٹھتا ہے  کہ بھئی یہ کیا کررہے ہیں لیکن بھرت ہری جی کو دیکھنے کے بعد کبھی نہیں لگتا  ہے اور اس کی وجہ  ہرے کرشن جی  نے خاندان میں ، جو ڈسپلن اور کردار پر بھی  اتنا ہی زور دیا ، تب جاکر ہمیں بھرت ہری جیسے ساتھی ملے ۔

ساتھیو  ،

          یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ  کے طور پر اوڈیشہ   کے مستقبل  کی فکر  کرتے ہوئے بھی اوڈیشہ  کی تاریخ  کے تئیں ان کی دلچسپی  بہت تھی ۔ انہوں نے انڈین ہسٹری کانگریس  بہت اہم کردار  ادا کیا  ۔ اوڈیشہ  کی تاریخ  کو قومی اسٹیج  پر لے گئے ۔ اوڈیشہ  میں میوزیم  ہوں ، آرکائیو ہو ، آرکیا لوجی سیکشن ہو ، یہ سب مہتاب جی کی تاریخ سے متعلق نقطہ نظر اور ان کے تعاون سے ہی ممکن ہوا ہے  ۔

ساتھیو ،

          میں نے کئی عالموں سے سنا ہے کہ اگر آپ نے مہتاب جی  کی ‘ اوڈیشہ  تاریخ ’ پڑھ لی تو سمجھئے  کہ آپ نے اوڈیشہ  کو جان لیا ، اوڈیشہ  کو جی لیا اور یہ بات درست  بھی ہے ۔  تاریخ صرف ماضی  کا باب ہی نہیں ہوتا  بلکہ مستقبل  کا آئینہ  بھی ہوتا ہے ۔  اسی خیال کو سامنے  رکھ کر آج ملک امرت مہوتسو  میں آزادی  کی تاریخ کو پھر سے زندہ کر رہا ہے ۔ آج ہم مجاہدین آزادی  کی قربانیوں اور تیاگ کی کہانیوں کو پھر سے  دوہرا رہے ہیں تاکہ  ہمارے نوجوان اسے نہ صرف  اچھی طرح جانیں بلکہ  اس کا احساس کریں  اور کچھ  کر گزرنے کے مقصد سے نئے عہد کے ساتھ  آگے بڑھیں  ۔  جدو جہد  آزادی سے جڑی ایسی  کتنی ہی  کہانیاں ہیں ، جو  ملک کے سامنے اس صورت میں نہیں آ سکیں اور  جیسے ابھی  بھرت ہری جی کہہ رہے تھے  کہ بھارت کی تاریخ راج محلوں کی تاریخ  نہیں ہے  ۔ بھارت کی تاریخ  راج پتھ کی تاریخ  نہیں ہے ، جن جن کی زندگی کے ساتھ تاریخ   اپنے آپ تشکیل پائی  اور تب  ہی تو ہزاروں  سال کی اس عظیم  روایت  کو لےکر ہم جئے  ہوں گے ۔ یہ باہری  سوچ ہے کہ جس نے راج پاٹھ  اور راج گھرانوں  کے آس پاس  کے واقعات  کو ہی تاریخ  سمجھ لیا ہے  ۔ ہم وہ لوگ نہیں ہیں ۔ پوری رامائن  اور مہا بھارت  دیکھئے   ۔ 80 فی صد  باتیں  عام آدمی کی ہیں  اور اس لئے ہم لوگوں کی زندگی میں عوام ایک مرکزی نقطہ رہا ہے ۔ آج ہمارے نو جوان تاریخ کے  ، ان صفحات  پر غور کریں   اور کر رہے ہیں ۔ انہیں  نئی نسلوں  تک پہنچانے  کے کتنے رنگ سامنے آئیں گے اور ہم ان سے متعارف ہو سکیں گے ۔

ساتھیو ،

          ہرے کشن  جی نے آزادی  کی لڑائی کے ایسے  بہت سے  واقعات سے ہمیں  متعارف کرایا ہے ، جن سے اوڈیشہ  کو لے کر ، غور و فکر  کے نئے باب کھلے ہیں ۔  پائیک ، سنگرام ،  گنجام آندولن  اور لارجا کولہہ  آندولن سے لے کر سمبل پور سنگرام تک  ، اوڈیشہ  کی سرزمین  نے غیر ملکی حکومت کے خلاف انقلاب  کو ہمیشہ   نئی توانائی بخشی ۔ کتنے ہی مجاہدین کو انگریزوں  نے جیلوں میں ڈالا ، انہیں  اذیتیں دیں  ۔ کتنی ہی قربانیاں   ہوئیں ۔ لیکن آزادی  کا جنون  کم نہیں ہوا ۔ سمبل پور  سنگرام  کے بہادر انقلابی     سریندر سائے ، ہمارے لئے آج بھی  بہت بڑی تحریک  کا سر چشمہ ہیں ۔ جب ملک  نے گاندھی جی کی قیادت میں غلامی کے خلاف اپنی آخری  لڑائی شروع کی  تو بھی  اوڈیشہ  اور یہاں کے لوگ اس میں   اہم کردار ادا کر رہے تھے ۔ عدم تعاون  تحریک  اور ‘‘ سوینے  آوگیہ ’’ یہ ایسی تحریکیں  تھیں ، جہاں سے لے  کر نمک ستیہ گرہ تک  پنڈٹ  گوپ بندھو  ، آچاریہ  ہری ہر اور  ہرے کرشن  مہتاب  جیسے ہیرو اوڈیشہ  کی قیادت کر رہے تھے ۔ رما دیوی ، مالتی دیوی ، کوکیلا  دیوی ، رانی بھاگیہ  وتی ، ایسی کتنی ہی ماتائیں  بہنیں  تھیں ، جنہوں نے آزادی  کی لڑائی کو ایک  نئی سمت دی تھی ۔  اسی طرح اڈیشہ کے ہمارے  آدیواسی سماج کے تعاون کو کون بھول سکتا ہے ۔  ہمارے قبائلیوں نے اپنی بہادری اور حب الوطنی سے کبھی بھی  غیر ملکی حکومت کو  چین سے بیٹھنے نہیں دیا  اور آپ کو شاید پتہ  ہوگا  کہ میری یہ کوشش ہے کہ ہندوستان میں آزادی کی جنگ میں  قبائلی سماج  کی ، جو قیادت  رہی ہے ، کردار رہا ہے ، اُس سے متعلق ، اُن ریاستوں میں  ، جہاں پر  ، اُس طرح کی آنے والی  نسل کے لئے   ایک  میوزیم  وہاں بننا چاہیئے ۔ اَن گنت کہانیاں ہیں ، اَن گنت  تیاگ اور تپسیا کی قربانی  کی بہادری کی کہانیاں  بھری پڑی ہیں ۔  کیسے وہ جنگ لڑتے تھے ، کیسے وہ جنگ جیتتے تھے ۔  لمبے عرصے تک انگریزوں کو پیر نہیں رکھنے دیتے تھے ۔  اپنے بل بوتے پر یہ باتیں   ہمارے قبائلی سماج  کی قربانی  اور تپسیا   کے فخر کو آنے والی پیڑھی کو بتانا بہت ضروری ہے ۔ یہ کوشش ہے  کہ پورے ملک میں قبائلی سماج کا آزادی کی جنگ میں قیادت  ، اُس کو الگ سے اجاگر کرکے  لوگوں کے سامنے لانے کی ضرورت ہے  اور کئی اَن گنت کہانیاں ہیں ، جس کی طرف شاید  تاریخ نے بھی  نا انصافی کی ہے ۔ جیسا ہم لوگوں کا   مزاج ہے ، ذرا  تام جھام والی چیزیں آ جائیں تو ہم اُس طرف لڑھک جاتے ہیں  اور اس کی وجہ سے  ایسی تپسیا کی بہت باتیں ہوتی ہیں ، تیاگ کی بہت باتیں ہوتی ہیں  ، جو ایکدم سے ابھرکر سامنے نہیں آتی ہیں ۔ یہ تو کوشش کرکے لانا ہوتا ہے ۔ انگریزوں بھارت چھوڑو تحریک  کے عظیم قبائلی ہیرو لکشمن نائک جی کو بھی  ہمیں ضرور یاد کرنا چاہیئے ۔ انگریزوں نے ، انہیں پھانسی دے دی تھی ۔ آزادی کا خواب لے کر   ، وہ بھارت ماتا کی گود میں  سو گئے ۔ 

ساتھیو ،

          آزادی کی تاریخ کے ساتھ ساتھ امرت مہوتسو کا ایک اہم پہلو بھارت کا ثقافتی تنوع اور تہذیبی پونجی بھی ہے ۔ اڈیشہ  تو ہمارے  ثقافتی تنوع کی ایک مکمل تصویر ہے ۔ یہاں کا آرٹ ، یہاں کی روحانیت ، یہاں کا قبائلی کلچر پورے ملک کا ورثہ ہے۔ پورا ملک اس سے واقف ہونا چاہیئے ۔ اس سے منسلک ہونا چاہیئے  اور نئی نسل کو پتہ ہونا چاہیئے ۔ ہم جتنا گہرائی  سے اڈیشہ کی تاریخ کو سمجھیں گے ، دنیا کے سامنے لائیں گے ، انسانیت کو سمجھنے کا اتنا ہی بہتر نقطۂ نظر ہمیں ملے گا ۔ ہرے کرشن جی نے اپنی کتاب میں اڈیشہ کے اعتقاد ، فن  اور فن تعمیر  پر ، جو روشنی ڈالی ہے ، ہمارے نو جوانوں کو ، اِس سمت میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے  ۔

ساتھیو ،

          اڈیشہ کے ماضی کو آپ کھنگالیں ، آپ دیکھیں گے کہ  اُس میں ہمیں اڈیشہ کے ساتھ ساتھ پورے بھارت کی تاریخی   صلاحیت کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے ۔ تاریخ میں تحریر  یہ صلاحیت موجودہ اور مستقبل کے  امکانات سے جڑی ہوئی ہے ۔  مستقبل کے لئے  ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔  آپ دیکھئے ، اڈیشہ کی وسیع سمندری  سرحد  ایک وقت میں  بھارت کی بڑی بڑی بندر گاہ اور بین الاقوامی  تجارت کا مرکز  ہوا کرتی  تھی ۔  انڈونیشیا  ، ملیشیا  ، تھائی لینڈ  ، میانمار اور سری لنکا جیسے ملکوں کے ساتھ  یہاں سے  تجارت ہوتی تھی  ۔ وہ اڈیشہ  اور بھارت  کی خوشحالی کا  ایک بہت بڑا   مرکز تھا ۔ کچھ تاریخ دانوں  کی تحقیق تو یہاں تک بتاتی ہے کہ اڈیشہ کے کونارک مندر میں  ژراف کی تصویریں بھی ہیں   ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس  بات کا ثبوت ہے کہ  اڈیشہ کے تاجر افریقہ تک  تجارت کرتے تھے ۔  تبھی تو ژراف  کی بات آئی ہوگی ۔  اس وقت تو واٹس ایپ نہیں تھا   ۔ بڑی تعداد میں اڈیشہ  کے لوگ تجارت کے لئے دوسرے ملکوں میں رہتے بھی تھے ۔ انہیں دریا پاری  اڑیا کہتے تھے ۔ اڑیا سے ملتی جلتی  اسکرپٹ  کتنے ہی ملکوں میں  ملتی ہیں ۔  تاریخ کے  جانکار کہتے ہیں کہ شہنشاہ  اشوک نے اسی سمندری تجارت پر اختیار حاصل کرنے کے لئے کلنگا پر حملہ کیا تھا ۔ اس حملے نے  شہنشاہ  اشوک کو دھم اشوک بنا دیا  اور ایک طرح سے اڈیشہ تجارت کے ساتھ ساتھ بودھ تہذیب کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بنا ۔

ساتھیو ،

          اس دور میں  ہمارے پاس ، جو قدرتی وسائل تھے ، وہ قدرت نے ہمیں آج بھی دیئے ہوئے ہیں ۔  ہمارے پاس آج بھی  اتنی وسیع  سمندری سرحد ہے  ، انسانی وسائل ہیں  ، تجارت کے امکانات ہیں ، ساتھ ہی آج ہمارے پاس جدید  سائنس کی طاقت بھی ہے ۔ اگر ہم اپنے اِن   قدیم تجربات اور  جدید امکانات کو ایک ساتھ جوڑ دیں ، تو اڈیشہ  ترقی کی نئی اونچائی پر پہنچ سکتا ہے ۔ آج ملک اِس سمت میں سنجیدہ کوشش کر رہا ہے اور زیادہ کوشش کرنے کی سمت میں بھی ہم  چوکس ہیں ۔ میں جب وزیر اعظم نہیں بنا تھا ، چناؤ بھی طے نہیں ہوا تھا ، 2013 ء میں شاید میری ایک تقریر ہے ، میری پارٹی کا ہی ایک پروگرام  تھا اور اس میں ، میں نے کہا تھا کہ بھارت کے مستقبل کو کیسے دیکھتا ہوں ۔ اس میں ، میں نے کہا تھا کہ اگر بھارت کی متوازن  ترقی نہیں ہوتی ہے  تو شاید ہم اپنی صلاحیت کو پوری طرح استعمال نہیں کر پائیں گے  اور میں یہ مان کر چلتا ہوں  ، اُس وقت سے کہ  جیسے بھارت کا مغربی حصہ ، اگر ہم ہندوستان کا نقشہ لے کر بیچ میں ایک لائن بنا دیں تو مغرب  میں  آپ کو اِن دنوں ترقی ، خوشحالی سب نظر آئے گی ۔ اقتصادی سرگرمیاں نظر آئیں گی ۔ نیچے سے لے کر اوپر تک لیکن مشرق میں ، جہاں اتنے قدرتی وسائل ہیں ، جہاں اتنے تخلیقی ذہن ہیں ، حیرت انگیز انسانی وسائل ہیں  ہمارے پاس ، مشرق میں چاہے اڑیا ہو ، چاہے بہار ہو ، چاہے بنگال ہو ، آسام ہو  ، نارتھ ایسٹ ہو  ، یہ پورا ایک ایسی صلاحیتوں کی زبردست پونجی پڑی ہے ۔ اکیلا ہی یہ علاقہ ڈیولپ ہو جائے تو ہندوستان کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ اتنی طاقت پڑی ہے  اور اس لئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے 6 سال کا کوئی تجزیہ کریں تو مشرقی بھارت کی ترقی کے لئے اور ترقی میں سب سے بڑی پہل ہوتی ہے ، بنیادی ڈھانچے کی ۔ سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے ، مشرقی بھارت پر تاکہ ملک ایک متوازن مشرق اور مغرب میں – قریب قریب 19 – 20 کا فرق تو میں قدرتی وجوہات سے سمجھ سکتا ہوں  اور ہم دیکھیں کہ بھارت کا سنہرا دور تب تھا ، جب بھارت کا مشرق ، بھارت کی قیادت کرتا تھا ۔ چاہے اڈیشہ ہو ، چاہے بہار ہو ، یہاں تک کہ کولکاتہ ، یہ بھارت کی قیادت کرنے والے مرکزی مقام تھے  اور اُس وقت بھارت کے سنہرے دور کا مطلب کہ یہاں  ایک شاندار صلاحیت موجود ہے ۔  ہمیں اہلیت کو لے کر  ، اگر ہم آگے بڑھتے ہیں تو ہم پھر سے بھارت کو ، اُس اونچائی پر لے جا سکتے ہیں ۔

ساتھیو ،

          تجارت اور صنعت کے لئے سب سے پہلی ضرورت ہے ، بنیادی ڈھانچہ ۔ آج اڈیشہ میں ہزاروں کلومیٹر کے نیشنل ہائی وے بن رہے ہیں، جو کہ بندر گاہوں کو ملائیں گے ۔ سینکڑوں کلو میٹر نئی ریل لائن پچھلے 6 سال میں بچھائی گئی ہیں ۔  ساگرمالا پروجیکٹ پر بھی ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کئے جا رہے ہیں ۔ بنیادی ڈھانچے کے بعد اگلی اہم چیز ہے ، صنعت ۔ اس سمت میں  صنعتوں کمپنیوں کی ہمت افزائی کے لئے کام ہو رہا ہے ۔ اڈیشہ میں موجود تیل اور گیس کے وسیع امکانات کے لئے ہزاروں کروڑوں روپئے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔  آئل ریفائنری ہوں ، ایتھنول بائیو ریفائنریز ہوں ، آج اوڈیشہ میں ، اِن کے نئے پلانٹ لگائے جارہے ہیں۔ اسی طرح ، اسٹیل صنعت کی وسیع تر صلاحیتوں کو بھی نئی شکل دی جارہی ہے۔ اوڈیشہ میں ہزاروں کروڑ کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ اوڈیشہ میں سمندری وسائل سے خوشحالی کے بے پناہ مواقع بھی موجود ہیں۔   ملک کی یہ کوشش ہے کہ نیلے انقلاب کے ذریعے یہ وسائل اڈیشہ کی ترقی کی بنیاد بنیں ، یہاں کے   ماہی گیروں  -  کسانوں کی زندگی کا معیار بہتر ہو ۔

ساتھیو ،

آنے والے وقت میں ان وسیع امکانات کے لئے صلاحیت کی بھی بہت بڑی ضرورت ہے ۔ اڈیشہ کے نو جوانوں کو ، اِس ترقی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ملے ، اس کے لئے  آئی آئی ٹی بھوبنیشور ، آئی آئی ایس ای آر بہرام پور اور انڈین انسٹی  ٹیوٹ آف  اسکل  جیسے اداروں کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اسی سال جنوری میں ، مجھے اوڈیشہ میں آئی آئی ایم سنبل پور کا  سنگ بنیاد رکھنے کا موقع بھی ملا تھا ۔  یہ ادارے آنے والے برسوں میں اڈیشہ کے مستقبل کی تعمیر کریں گے اور ترقی کو نئی رفتار دیں گے ۔

ساتھیو ،

اُتکل منی گوپ بندھو داس جی نے لکھا ہے -

جگت سرسے بھارت کنل ۔ تا مدھے پونیے نیلا چل ۔ آج جب ملک آزادی کے 75 سال کے مبارک موقع کے لئے تیار ہو رہا ہے  تو ہمیں اس جذبے کو ، اس عہد کو پھر سے حاصل کرنا ہے  اور میں نے تو دیکھا ہے  کہ شاید میرے پاس درست آنکڑے نہیں ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ کولکاتہ کے بعد  کسی ایک شہر میں اڑیا لوگ زیادہ رہتے ہوں گے تو شاید سورت میں رہتے ہیں  اور اسی وجہ سے میرا اُن کے ساتھ بڑا   فطری تعلق بھی رہتا ہے ۔  ایسی آسان زندگی   ، کم سے کم وسائل اور انتظامات  سے مستی بھری زندگی گزارنا میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ یہ اپنے آپ میں اور کہیں اُن کے نام پر  کوئی شورش اُن کے کھاتے میں نہیں ہے ۔ اتنے امن پسند ہیں ۔ اب جب میں  مشرقی بھارت کی بات کرتا ہوں ، آج ملک میں ممبئی، اُس کی  بات ہوتی ہے ، آزادی کے پہلے کراچی کی بات ہوتی تھی ، لاہور کی بات ہوتی تھی ۔ آہستہ آہستہ کرکے  بنگلور اور حیدر آباد کی بات ہونے لگی ۔ چنئی کی ہونے لگی  اور کولکاتہ جیسے پورے ہندوستان کی  ترقی اور  معیشت میں  بہت یاد کرکے کوئی لکھتا ہے  ، جب کہ وائبرینٹ کولکاتہ مستقبل کو لے کر کے سوچنے والا کولکاتہ پورے مشرقی بھارت کو صرف بنگال نہیں   پورے مشرقی بھارت کو  ترقی کے لئے بہت بڑی قیادت دے سکتا ہے  اور ہماری کوشش ہے کہ کولکاتہ پھر سے ایک بار وائبرینٹ بنیں ۔ ایک طرح سے  مشرقی بھارت کی ترقی کے لئے کولکاتہ ایک قوت بن کر کے ابھرے  اور اس پورے میپ کو لے کر کے ہم کام کر رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ صرف اور صرف دیش کا ہی بھلا  یہ سارے فیصلوں کو طاقت دیتا ہے ۔ میں آج شری مان ہرے کشن مہتاب فاؤنڈیشن کے دانشوروں سے اپیل کروں گا کہ مہتاب جی کے کام کو آگے بڑھانے کا یہ ایک بڑا موقع ہے ۔ ہمیں اڈیشہ کی تاریخ کو  ، یہاں کی تہذیب کو  ، یہاں کے فن تعمیر کو ملک – بیرون ملک تک لے کر جانا ہے ۔ آیئے ، امرت مہوتسو  سے جڑیں  ، اس مہم کو  ہر ایک شخص کی مہم بنائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مہم ویسی ہی نظریاتی  توانائی  کا مرکز بنے گا ، جیسا عہد  شری ہرے کشن مہتاب جی نے جدو جہد آزادی کے دوران کیا تھا ۔ اسی مبارک عہد کے ساتھ ، مجھے ایک بار پھر اسی خاندان کے ساتھ جڑنے کا موقع ملا ۔ میں مہتا ب فاؤنڈیشن کا شکر گزار ہوں ۔ بھائی بھرت ہری جی کا شکر گزار ہوں کہ مجھے آپ سب کے بیچ آکرکے اپنے اِن خیالات کو پیش کرنے کا بھی موقع ملا  اور ایک  ، جس کے تئیں میری عقیدت اور احترام رہا ہے ، ایسے تاریخ کے کچھ واقعات سے جڑنے کا مجھے آج موقع ملا ہے ۔ میں بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

 بہت بہت شکریہ  !

 

۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔

( ش ح ۔ و ا  ۔ ع ا ۔09.04.2021 )

U.No. 3560



(Release ID: 1710819) Visitor Counter : 433