وزیراعظم کا دفتر

من کی بات 2.0 کی 20ویں قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا متن (31.01.2021)

Posted On: 31 JAN 2021 11:43AM by PIB Delhi

نئی دہلی۔ 31 جنوری       میرے عزیز ہم وطنو! نمسکار! جب میں "من کی بات" کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے ، جیسے آپ کے درمیان، آپ کے پریوار کے رکن کی حیثیت سے حاضر ہوں ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی باتیں، جو ایک دوسرے کو، کچھ، سکھا جائے، زندگی کے کھٹے میٹھے تجربات ، جی بھر کے جینے کی ترغیب بن جائے - بس یہی تو ہے ‘من کی بات’۔ آج، 2021 کی جنوری کا آخری دن ہے۔ کیا آپ بھی میری طرح یہ سوچ رہے ہیں کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے تو 2021 شروع ہوا تھا ؟ لگتا ہی نہیں کہ جنوری کا پورا مہینہ گذر گیا ہے – وقت  کی رفتار اسی کو تو کہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے کی ہی تو بات لگتی ہے جب ہم ایک دوسرے کو  مبارکباد دے رہے تھے، پھر ہم نے لوہڑی منائی، مکر سنکرانتی منائی، پونگل، بہو منایا۔ دیش کے الگ الگ حصوں میں تہواروں کی دھوم رہی۔ 23 جنوری کو ہم نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے جنم دن کو ‘پراکرم دوس’ کے طور پر منایا اور 26 جنوری کو ‘یوم جمہوریہ ’ کی شاندار پریڈ بھی دیکھی۔ صدر جمہوریہ کے ذریعہ ایوان کے مشترکہ اجلاس کے خطاب کے بعد ‘بجٹ اجلاس’ بھی شروع ہو گیا ہے۔ ان سبھی کے درمیان ایک اور کام یہ ہوا، جس کا ہم سبھی کو بہت انتظار رہتا ہے - یہ ہے پدم ایوارڈوں کا اعلان ۔ ملک غیر معمولی کارنامہ انجام  دے  رہے لوگوں کو انکی حصولیابیوں اور انسانیت کے تئیں ان کی خدمات کو اعزاز سے نوازا۔ اس سال بھی، ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں، وہ  لوگ شامل ہیں، جنہوں نے، مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اپنے کارناموں سے کسی کی زندگی بدلی، ملک کو آگے بڑھایاہے۔ یعنی، زمینی سطح پر کام کرنے والے گمنام ہیرو کو پدم  اعزاز دینے کی جو روایت ملک نے کچھ سال پہلے شروع کی تھی، وہ، اس بار بھی قائم رکھی گئی ہے۔ میری  آپ سبھی سے گذارش ہے، کہ، ان لوگوں کے بارے میں، ان کی خدمات کے بارے میں ضرور جانیں، اپنے کنبے میں، انکے بارے میں،باتیں کریں۔ دیکھیں گے ، سبھی  کو اس سے کتنی تحریک ملتی ہے۔

اس مہینے، کرکٹ کے میدان سے بھی بہت اچھی خبر ملی۔ ہماری کرکٹ ٹیم نے شروعاتی دقتوں کے بعد، شاندار واپسی کرتے ہوئے آسٹریلیا میں سیریز جیتی۔ ہمارے کھلاڑیوں کی کڑی محنت اور ٹیم ورک  حوصلہ افزا ہے۔ ان سب کے  درمیان  دلی میں، 26 جنوری کو ترنگے کا بے حرمتی دیکھ کر ملک بہت افسردہ بھی ہوا۔ ہمیں آنے والے وقت کو نئی امید اور جدت سے معمور کرنا ہے۔ ہم نےگذشتہ  سال غیر معمولی حوصلہ اور جرات کا مظاہرہ کیا۔ اس سال بھی ہمیں کڑی محنت کرکے اپنے عزائم  کوثابت کرنا ہے۔ اپنے  ملک کو، اور تیز رفتاری  سے، آگے لے جانا ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو! ، اس سال کی شروعات کے ساتھ ہی کو رونا کے خلاف ہماری لڑائی کو بھی قریب قریب ایک سال پورا ہو گیا ہے۔ جیسے کو رونا کے خلاف  ہندوستان  کی لڑائی ایک مثال بنی ہے، ویسے ہی، اب، ہماراٹیکہ کاری پروگرام بھی دنیا میں، ایک مثال بن رہا ہے۔ آج  ہندوستان  دنیا کا سب سے بڑاکووڈ ویکسین پروگرام چلا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں، اور بھی زیادہ فخر کی بات کیا ہے ؟ ہم سب سے بڑے ویکسین پروگرام کے ساتھ ہی دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے اپنے شہریوں کی ٹیکہ کاری بھی کر رہے ہیں۔ صرف 15 دنوں میں،ہندوستان ، اپنے 30 لاکھ سے زیادہ،کورونا واریرس کی ٹیکہ کاری کر چکا  ہے، جبکہ، امریکہ جیسے خوشحال ملک کو، اسی کام میں، 18 دن لگے تھے اور برطانیہ کو 36 دن۔

ساتھیو! ہندوستان میں بنی ویکسین آج، خود انحصار ہندوستان کی تو علامت ہے ہی،ہندوستان کے لیے قابل فخر ہونے کی علامت بھی ہے۔نمو اَیپ پر اتر پردیش بھائی ہمانشو یادو نے لکھا ہے کہ' میڈ اِن انڈیا ویکسین' سے دل  میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔ مدورے سے کیرتی جی لکھتی ہیں، کہ انکے کئی غیر ملکی دوست، انکو، میسیج بھیج کرہندوستان کا شکریا ادا کر رہے ہیں۔ کیرتی جی کے دوستوں نے انہیں لکھا ہے کہ ہندوستان نے جس طرح کو رونا سے لڑائی میں دنیا کی مدد کی ہے، اس سے  ہندوستان کے بارے میں، انکے من میں، عزت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ کیرتی جی، ملک کے بارے میں یہ قابل فخر باتیں سن کر، ‘من کی بات’ کے سامعین کو بھی فخر ہوتا ہے۔ آج کل مجھے بھی مختلف ممالک کے  صدور اور وزراء اعظم کی جانب سے ہندوستان کے لیے ایسے ہی پیغامات ملتے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا، ابھی، برازیل کے صدر نے، ٹویٹ کرکے جس طرح سے ہندوستان کا شکریہ ادا کیا ہے، وہ دیکھ کر ہرہندوستانی کو کتنا اچھا لگا۔ ہزاروں کلومیٹر دور، دنیا کے دور درراز گوشوں میں رہنے والوں کو ، رامائن کے اس  سیاق و سباق کی اتنی گہری جانکاری ہے، وہ اس سے اس قدر متاثر ہیں، - یہ ہمارے کلچر کی خصوصیت ہے۔

ساتھیو! اس ٹیکہ کاری مہم میں، آپ نے  ایک اور بات پر ضرور دھیان دیا ہوگا۔ بحران کے وقت ہندوستان ، دنیا کی خدمت اسلئے کر پا رہا ہے، کیونکہ،ہندوستان ، آج، دواؤں اورویکسین کو لیکراہل اور خود انحصار ہے۔ یہی فکر خود انحصار ہندوستان مہم کی بھی ہے۔ ہندوستان جتنا اہل ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت کی خدمت کرے گا ، اتنا ہی زیادہ دنیا کو فائدہ ہوگا۔

میرے عزیز ہم وطنو! ، ہر بار آپ کے ڈھیر سارے خطوط ملتے ہیں ، نمو اَپ اور مائی گو پر آپ کے پیغامات اور فون کال کے ذریعہ آپ کی باتیں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ ان ہی پیغامات میں ایک ایسا بھی پیغام ہے، جس نے، میری توجہ مبذول کرائی – یہ پیغام ہے، بہن پرینکا پانڈے  جی کا۔ 23 سال کی بیٹی پرینکا جی، ہندی ادب کی طالبہ ہیں ، اور، بہار کے سیوان میں رہتی ہیں۔ پرینکا جی نے نمو اَیپ پر لکھا ہے، کہ انہیں ، ملک کے 15 گھریلو سیاحتی مقامات پر جانے کے میرے مشورے سے بہت حوصلہ ملا تھا ، اسلئے یکم جنوری کو وہ ایک جگہ کے لیے نکلیں، جو بہت خاص تھی۔ وہ  جگہ تھی، انکے گھر سے 15 کلومیٹر دور، ملک پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجیندر پرساد جی کا آبائی گاؤں۔  پرینکا جی نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ اپنے ملک کی عظیم ہستیوں کو جاننے کی سمت میں انکا یہ پہلا قدم تھا۔ پرینکا جی کو وہاں ڈاکٹر راجیندر پرساد جی کے ذریعہ لکھی گئی کتابیں ملیں، متعدد تاریخی تصویریں ملیں۔ انہوں نے، ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جب پوجیہ باپو، راجیندر جی کے گھر میں ٹھہرے تھے۔ واقعی، پرینکا جی آپ کا یہ  تجربہ دوسروں کو بھی تحریک دے گا۔

ساتھیو!  اس سال ہندوستان  اپنی آزادی کی75  سالہ تقریب– امرت مہوتسو شروع کرنے جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ ہمارے ان عظیم ہیرو سےمنسلک علاقائی مقامات کا پتہ لگانے کا بہترین وقت ہے، جن کی وجہ سے ہمیں آزادی ملی۔

ساتھیو!  ہم آزادی کی تحریک اور بہار کی بات کر رہیں ہیں، تو میں نمو اَیپ پر ہی کیا گیا ایک اورتبصرے کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا۔ مونگیر کے رہنے والے جے رام وپلو جی نے مجھے یوم شہیدانِ تاراپور کے بارے میں لکھا ہے۔ 15 فروری، 1932 کو، قوم پرستوں کی ایک جماعت کے کئی بہادر نوجوانوں کا انگریزوں نے بڑی ہی بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ ان کا  صرف ایک جرم یہ تھا کہ وہ  ‘وندے ماترم’ اور ‘بھارت ماں کی جے’ کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں ان شہیدوں کو نمن کرتا ہوں، اور ان کی جرات کو بڑی عقیدت یاد کرتا ہوں،۔ میں جے رام وپلو جی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک ایسے واقعہ کو ملک کے سامنے لیکر آئے، جس پر اتنی باتیں نہیں ہو پائیں، جتنی ہونی چاہیئے تھی۔

میرے عزیز ہم وطنو! ،  ہندوستان  کے ہر حصہ میں، ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں آزادی کی لڑائی پوری طاقت کے ساتھ لڑی گئی تھی۔  سر زمین ہندوستان کے ہر گوشے میں ایسے عظیم سپوتوں اور بہادروں نے جنم لیا، جنہوں نے، ملک و قوم کے لیے اپنی زندگی نچھاور کر دی، ایسے میں، یہ، بہت اہم ہے کہ ہمارے لیے کی گئی ان کی جد و جہد اور ان سے وابستہ یادوں کو ہم سنبھال رکھیں اور اسکے لیے انکے بارے میں لکھ کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے انکی  یادوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ میں، سبھی  ہم وطنوں کو اور خاص کر اپنے نوجوان ساتھیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ  ملک  کے مجاہدین آزادی کے بارے میں، آزادی سے جڑے واقعات کے بارے میں لکھیں۔ اپنے علاقے میں جنگ آزادی کے دور کی بہادری کی داستانوں کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ اب جبکہ  ہندوستان  اپنی آزادی کا 75 واں سال منائے گا ، تو آپ کی تحریر آزادی کے ہیروؤں کے تئیں خراج عقیدت ہوگی۔جواں سال لکھنے والوں کے لیے 'انڈیا سوینٹی فائیو' کے نام سے ایک پہل کی جا رہی ہے۔ اس سے سبھی ریاستوں اور زبانوں کے جواں سال لکھنے والوں کو تحریک ملے گی۔ ملک میں بڑی تعداد میں ایسے موضوعات پر لکھنے والے تیار ہوں گے، جن کا  ہندوستانی وراثت اور  ثقافت پر گہرا مطالعہ ہوگا۔ ہمیں ایسی ابھرتی  ہوئی صلاحیتوں کی بھرپور مدد کرنی ہے۔ اس سے مستقل کی سمت متعین کرنے والے قائدین کا ایک طبقہ بھی تیار ہوگا۔ میں اپنے نوجوان دوستوں کو اس پہل کا حصہ بننے اور اپنی ادبی صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اس سے جڑی جانکاریاں وزارت تعلیم کی ویب سائٹ پر حاصل کر سکتے ہیں۔

میرے عزیز ہم وطنو! ، ‘من کی بات’ میں سامعین کو کیا پسند آتا ہے، یہ آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن مجھے ‘من کی بات’ میں سب سے اچھا یہ لگتا ہے کہ مجھے بہت کچھ جاننے سیکھنے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ ایک طرح سے بالواسطہ طور پر  آپ سب سے، جڑنے کاموقع ملتا ہے۔ کسی کی کوشش ، کسی کا جذبہ، کسی کا ملک  کے لیے کچھ کرگذر  جانے کا جنون – یہ سب، مجھے، بہت  تحریک دیتے ہیں، توانائی سے لبریز کر دیتے ہیں۔

حیدرآباد کے بوین پلی میں، ایک مقامی  سبزی منڈی، کس طرح، اپنے  فرائض انجام دے رہی ہے، یہ پڑھکر بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ سبزی منڈیوں میں متعدد وجوہات سے کافی سبزی خراب ہو جاتی ہے۔ یہ سبزی ادھرادھر پھیلتی ہے، گندگی بھی پھیلاتی ہے  لیکن، بوین پلی کی سبزی منڈی نے طے کیا کہ، ہر روز بچنے والی ان سبزیوں کو ایسے ہی پھینکا نہیں جائے گا۔ سبزی منڈی سے جڑے لوگوں نے طے کیا، اس سے، بجلی بنائی جائیگی۔ بیکار ہوئی سبزیوں سے بجلی بنانے کے بارے میں شاید ہی آپ نے  کبھی سنا ہو –  یہی تو اختراعات کی طاقت ہے۔ آج بوین پلی کی منڈی میں پہلے جوفضلہ تھا، آج اسی سے دولت پیدا ہو رہی ہے - یہی تو کچرے سے کنچن بنانے کا سفر ہے۔ وہاں ہر دن قریب 10 ٹن فضلہ نکلتا ہے، اسے ایک پلانٹ میں اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ پلانٹ کے اندر اس فضلہ سے ہر دن 500 یونٹ بجلی بنتی ہے، اور قریب 30 کلو حیاتیاتی ایندھن بھی بنتا ہے۔ اس بجلی سے ہی سبزی منڈی میں روشنی ہوتی ہے اور جو حیاتیاتی ایندھن بنتا ہے، اس سے منڈی کی کینٹین میں کھانا بنایا جاتا ہے –  ہے نہ کمال کی کوشش!

ایسا ہی ایک کمال، ہریانہ کے پنچ کولہ  کی بڑوت گرام پنچایت نے بھی کرکے دکھایا ہے۔ اس پنچایت کے علاقے میں پانی کی نکاسی کا مسئلہ تھا ۔ اس  کی وجہ سے گندہ پانی ادھرادھر پھیل رہا تھا، بیماری پھیلتی تھی، لیکن، بڑوت کے لوگوں نے طے کیا کہ اس خراب پانی سے بھی دولت پیدا کریں گے۔ گرام پنچایت نے پورے گاؤں سے آنے والے گندے پانی کو ایک جگہ اکٹھا کرکے فلٹر کرنا شروع کیا، اورفلٹر  کیا ہوا یہ پانی، اب گاؤں کے کسان، کھیتوں میں سینچائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یعنی آلودگی ، گندگی اور بیماریوں سے چھٹکارا بھی، اور کھیتوں میں سینچائی بھی۔

ساتھیو!ماحولیات کے تحفظ سے کیسے آمدنی کے راستے بھی کھلتے ہیں، اس کی ایک مثال اروناچل پردیش کے توانگ میں بھی دیکھنے کو ملی ۔ اروناچل پردیش کے اس پہاڑی علاقے میں صدیوں سے ‘مون شوگو’ نام کا ایک پیپر بنایا جاتا ہے۔ یہ کاغذ یہاں کے مقامی  شوگو شینگ نام کے ایک پودے کی چھال سے بناتے ہیں، اسلئے، اس کاغذ کو بنانے کے لیے پیڑوں کو نہیں کاٹنا پڑتا ہے۔ اسکے علاوہ، اسے بنانے میں کسی کیمیاوی مواد کا استعمال بھی نہیں ہوتا ہے، یعنی، یہ کاغذ ماحولیات کے لیے بھی محفوظ ہے، اور صحت کے  لیے بھی۔ ایک وہ بھی وقت  تھا، جب، اس کاغذ کی بر آمدات ہوتی تھی ، لیکن، جب جدید تکنیک سے بڑی تعداد میں کاغذ بننے لگے، تو یہ مقامی آرٹ  بند ہونے کی دہلیز پر پہنچ گئے ۔ اب ایک مقامی سماجی خدمتگار کلنگ گومبو نے اس آرٹ کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی ہے، اس سے، یہاں کے قبائلی بھائی بہنوں کو روزگار بھی مل رہا ہے۔

میں نے ایک اور خبر کیرالہ  کی دیکھی ہے، جو ہم سبھی کو اپنے فرض کا احساس دلاتی ہے۔ کیرالہ کے کو ٹیم میں ایک معذور بزرگ ہیں – این ایس  راجپن صاحب۔ راجپن جی لقوہ کے باعثت چل نہیں سکتے ہیں ، لیکن اس سے، صفائی کے تئیں ان کی سرشاری  میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہ، پچھلے کئی سالوں سے ناؤ سے ویمبناڈ جھیل میں جاتے ہیں اور جھیل میں پھینکی گئی پلاسٹک کی بوتلیں باہر نکال کرلے آتے ہیں۔ سوچیں، راجپن جی کی سوچ کتنی اونچی ہے۔ ہمیں بھی، راجپن جی سے تحریک لے کر ، صفائی  کے لیے، جہاں  ممکن  ہو، اپنا تعاون پیش کرنا  چاہیئے۔

میرے عزیز ہم وطنو! ، کچھ دن پہلے آپ نے دیکھا ہوگا، امریکہ کے سان فرانسسکو سے بنگلورو کے لیے ایک نان اسٹاپ فلائٹ کی کمان  ہندوستان  کی چار خواتین پائلٹ نے سنبھالی۔ دس ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ لمبا سفر طے کرکے یہ فلائٹ سوا دو سو سے زیادہ مسافروں کو  ہندوستان  لیکر آئی۔ آپ نے اس بار 26 جنوری کی پریڈ میں بھی غور کیا ہوگا، جہاں،  ہندوستانی فضائیہ کی دو خاتون افسروں نے نئی تاریخ لکھی ہے۔علاقہ کوئی بھی ہو، ملک کی خواتین کی شراکت داری مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ، ملک  کے گاؤں میں ہو رہے اسی طرح کی تبدیلی کا اتنا ذکر نہیں ہوپاتا ۔ اسلئے، جب میں نے ایک خبر مدھیہ پردیش کے جبل پور کی دیکھی، تو مجھے لگا کہ اسکا ذکر تو مجھے ‘من کی بات’ میں ضرور کرنا چاہیئے۔ یہ خبر بہت  ہی تحریک دینے والی ہے۔ جبل پور کے چچگاؤں میں کچھ قبائلی خواتین ایک چاول مل میں دہاڑی پر کام کرتی تھیں۔ کو رونا  عالمی وبا نے جس طرح دنیا کے ہر فرد کو متاثر کیا اسی طرح یہ خواتین بھی متاثر ہوئیں۔ ان کی چاول میں کام رک گیا۔ قدرتی بات ہے کہ اس سے آمدنی کی بھی دقت آنے لگی، لیکن یہ ناامید نہیں ہوئیں، انہوں نےہار نہیں مانی۔ انہوں نے طے کیا کہ یہ ساتھ ملکر اپنی خود کی چاول مل شروع کریں گی، جس مل میں یہ کام کرتی تھیں، وہ اپنی مشین بھی بیچنا چاہتی تھی۔ ان میں سے مینا راہنگ ڈالے جی نے سبھی خواتین کو جوڑکر ‘سیلف ہیلف گروپ’ بنایا، اور سب نے اپنی بچائی ہوئی پونجی سے پیسہ جٹایا،  جو پیسہ کم پڑا، اسکے لیے ‘آجیوکا مشن’ کے تحت بینک سے قرض لے لیا، اور اب دیکھیے، ان قبائلی  بہنوں نے وہی چاول مل خرید لی، جس میں وہ کبھی کام کیا کرتی تھیں۔ آج وہ اپنی خود کی چاول مل چلا رہی ہیں۔ اتنے ہی دنوں میں اس مل نے تقریباً تین لاکھ روپے کا منافع بھی کما یا ہے۔ اس منافع سے مینا جی اور انکی ساتھی، سب سے پہلے، بینک کا لون چکانے اور پھر اپنے بیوپار کو بڑھانے کی  تیاری کر رہی ہیں۔ کو رونا نے جو صورتحال بنائی ، اس سے مقابلے کے لیے ملک کے کونے کونے میں ایسے حیرت انگیز کام ہوئے ہیں۔

میرے عزیز ہم وطنو! ، اگر میں آپ سےبندیل کھنڈ کے بارے میں بات کروں تو وہ کون سی چیزیں ہیں، جو آپ کےذہن میں آئیں گی! تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اس علاقہ کو جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے ساتھ جوڑیں گے۔ وہیں، کچھ لوگ خوبصورت اور پرسکون ‘اورچھا’ کے بارے میں سوچیں گے۔ کچھ لوگوں کو اس علاقے میں پڑنے والی سخت گرمی کی بھی یاد آ جائے گی، لیکن، ان دنوں، یہاں، کچھ الگ ہو رہا ہے، جو، کافی جوش بڑھانے والا ہے، اور جسکے بارے میں ہمیں ضرور جاننا چاہیئے۔گذشتہ دنوں جھانسی میں ایک مہینے تک چلنے والا 'اسٹرا بیری فیسٹیول' شروع ہوا۔ ہر کسی کوحیرانی ہوتی ہےاسٹرا بیری اور بندیل کھنڈ ! لیکن یہی سچائی ہے۔ اب بندیل کھنڈ میں اسٹرا بیری کی کھیتی کو لیکرجوش بڑھ رہا ہے، اور اس میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے، جھانسی کی ایک بیٹی – گرلین چاؤلہ نے۔قانون کی طالبہ گرلین نے پہلے اپنے گھر اور پھر اپنے کھیت میں اسٹرابیری کی کھیتی کا کامیاب تجربہ کر کے یہ اعتماد بحال کیا کہ جھانسی میں بھی یہ ہو سکتا ہے۔ جھانسی کا 'اسٹرابیری فیسٹیول' "گھر پر رہیں " کے تصور پر زور دیتا ہے۔ اس فیسٹیول کے ذریعہ کسانوں اورنوجوانوں کو اپنے گھر کے پیچھے خالی جگہ میں ، یا چھت پر  باغبانی کرنے اور اسٹرا بیری اگانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ نئی ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے ہی کوششیں ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہو رہی ہیں، جو اسٹرا بیری کبھی، پہاڑوں کی پہچان تھی، وہ اب، کچھ کی رتیلی زمین پر بھی ہونے لگی ہے، کسانوں کی آمدنی  بڑھ رہی ہے۔

ساتھیو! اسٹرابیری فیسٹیول جیسے استعمال  اختراعات کی روح کو تو ظاہر کرتے ہی ہیں، ساتھ ہی یہ بھی دکھاتے ہیں کہ ہمارے دیش کا زرعی شعبہ  کیسے نئی ٹکنالوجی اختیار کر  رہا ہے۔

ساتھیو، زراعت کو جدید بنانے کے لیے حکومت پر عزم ہے اور متعدد اقدامات بھی کر رہی ہے۔ حکومت کی کوششیں  آگے بھی جاری رہیں گی۔

میرے عزیز ہم وطنو! ، کچھ ہی دن پہلے میں نے ایک ویڈیو دیکھا۔ وہ ویڈیومغربی بنگال کے مغربی  مدناپور میں واقع  ‘نیا  پنگلا’ گاؤں کے ایک مصور سرم الدین کا تھا۔ وہ خوشی کا اظہار  کر رہے تھے کہ رامائن پر بنائی انکی پینٹنگ دو لاکھ روپے میں فروخت  ہوئی ہے۔ اس سے انکے گاؤں والوں کو بھی کافی خوشی ملی ہے۔ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد مجھے اسکے بارے میں اور زیادہ جاننے کا تجسس ہوا۔ اسی سلسلے میں مجھے مغربی  بنگال سے وابستہ ایک بہت اچھی پہل کے بارے میں جانکاری ملی، جسے میں آپ سے ساتھ ضرور  شیئر  کرنا چاہونگا۔ وزارت سیاحت کے علاقائی دفتر نے مہینے کے شروع میں ہی بنگال کے گاؤں میں ایک 'بے نظیر ہندوستان ویک انڈ گیٹ وے' کی شروعات کی۔ اس میں مغربی مدناپور، بانکرا، بیربھوم، پرو لیا، پورو بردھمان، وہاں کےدستکاروں نے آنے والوں کے لیے 'ہینڈی کرافٹ ورکشاپ' کا انعقاد کیا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ 'بے نظیر ہندوستان ویک انڈ گیٹ وے کے دوران دستکاری کی جو فروخت ہوئی وہ دستکاروں کے لیے بیحد حوصلہ افزا ہے۔ ملک بھر میں لوگ بھی نئے نئے طریقوں سے ہمارے آرٹ کو مقبول عام بنا رہے ہیں۔ اڈیشہ کے راورکیلا کی بھاگیشری ساہو کو دیکھ لیجئے۔ ویسے تو وہ انجنیئرنگ کی طالبہ ہیں، لیکن، پچھلے کچھ مہینوں میں انہوں نےاسکرین آرٹ کو سیکھنا شروع کیا اور اس میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ لیکن، کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نےپینٹ کہاں کیا – نرم  نرم پتھروں پر،  کالج جانے کے راستے میں بھاگیہ شری کو یہ نرم پتھر ملے، انہوں نے، انہیں  جمع  کیا اور صاف کیا۔ بعد میں، انہوں نے، روزانہ دو گھنٹے ان پتھروں پراسکرین آرٹ کی  پینٹنگ کی۔ وہ ان پتھروں کو پینٹ کر کے  انہیں اپنے دوستوں کو بطور تحفہ دینے لگیں۔ لاک ڈاؤن  کے دوران انہوں نے بوتلوں پر بھی پینٹ کرنا شروع کر دیا۔ اب تو وہ  اس آرٹ پر ورکشاپ بھی منعقد کرتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی، سبھاش بابو کی جینتی پر، بھاگیہ شری نے پتھر پر ہی انہیں انوکھی شردھانجلی دی۔ میں، بھاگیہ شری کو ان کی کوششوں کے مبارکباد دیتا ہوں۔آرٹ اور رنگوں کے ذریعہ بہت کچھ نیا سیکھا جا سکتا ہے، کیا جا سکتا ہے۔ جھارکھنڈ کے دمکا میں کئے گئے ایک ایسے ہی انوکھی کوشش کے بارے میں مجھے بتایا گیا۔ یہاں میڈل اسکول کے ایک پرنسپل نے بچوں کو پڑھانے اور سکھانے کے لیے گاؤں کی دیواروں کو ہی انگریزی اور ہندی کے حروف سے پینٹ کروا دیا، ساتھ ہی، اس میں، مختلف تصویریں بھی بنائی گئی ہیں، اس سے، گاؤں کے بچوں کو کافی مدد مل رہی ہے۔ میں، ایسے سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو اس طرح کی کوششوں میں مصروف ہیں۔  

میرے عزیز ہم وطنو! ،  ہندوستان  سے ہزاروں کلومیٹر دور، کئی سمندروں ، بر اعظموں کے پار ایک  ملک ، جس کا نام ہے چلی۔ ہندوستان  سے چلی پہنچنے میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے، لیکن ہندوستانی  ثقافت  کی خوشبو وہاں بہت پہلے سے ہی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے، کہ، وہاں یوگا بہت زیادہ مقبول  ہے۔ آپ کو یہ جان کر اچھا لگےگا کہ چلی کی راجدھانی  سینٹیاگو میں 30 سے زیادہ یوگا اسکول  ہیں۔چلی میں بین الاقوامی یوگ دوس بھی بڑے ہی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہاؤس آف ڈیوپٹیز میں یوگ دوس کو لیکر بہت ہی گرم جوشی بھرا ماحول ہوتا ہے۔ کو رونا کے اس دور  میں قوت مدافعت پر زور اور قوت مدافعت بڑھانے میں، یوگا کی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اب وہ  لوگ یوگا کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔چلی کی کانگریس، یعنی وہاں کی پارلیمنٹ نے تجویز منظور کی ہے۔ وہاں، 4 نومبر کو قومی یوگا ڈے منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ آخر 4 نومبر میں ایسا کیا ہے ؟ 4 نومبر 1962 کو ہی چلی کا پہلا یوگا کا ادارہ ہوزے رافال ایسٹراڈا  کے ذریعہ قائم کیا گیا  تھا۔ اس دن کوقومی یوگا ڈے کا اعلان کرکے ایسٹراڈا جی کو بھی خراج عقیدت پیش کی گئی ہے۔ چلی  کی پارلیمنٹ کے ذریعہ ایک خاص اعزاز ہے جس پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے۔  ویسے چلی کی پارلیمنٹ سے جڑی ایک اور بات آپ کو دلچسپ لگےگی۔ چلی کی سینٹ کےنائب صدر کا نام رابندرناتھ کونٹیراس ہے۔ انکا یہ نام وشو کوی گرودیو ٹیگور سے تحریک حاصل کر کے رکھا گیا ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو! مائی گو پر  مہاراشٹر کے جالنا کے ڈاکٹر  سوپ نیل منتری اور کیرالہ  کے پلکاڈ کے پرہلاد راج گوپالن نے  گذارش کی ہے کہ میں ‘من کی بات’ میں سڑک تحفظ پر بھی آپ سے بات کروں۔ اسی مہینے 18 جنوری سے 17 فروری تک، ہمارا ملک ‘سڑک تحفظ ماہ’ یعنی 'روڈ سیفٹی منتھ" منا رہا ہے۔ سڑک حادثے آج ہمارے ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں تشویش کا موضوع  ہیں۔ آج  ہندوستان  میں روڈ سیفٹی کے لیےحکومت  کے ساتھ ہی انفرادی اور اجتماعی سطح پر کئی طرح کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ زندگی بچانے کی ان کوششوں میں ہم سب کو سرگرمی سے شراکت دار بننا چاہیئے۔

ساتھیو! آپ نے غور کیا ہوگا، بارڈر روڈ آرگنائزیشن جو سڑکیں بناتی ہیں  اس سے گذرتے ہوئے آپ کو بڑے ہی اختراعی نعرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ‘This is highway not runway’ یا پھر ‘Be Mr. Late than Late Mr.’ یہ نعرے سڑک پر احتیاط برتنے کو لیکر لوگوں کو بیدار کرنے میں کافی مؤثر ہوتے ہیں۔ اب آپ بھی ایسے ہی اختراعی سلوگن یا پرکشش فقرے مائی گو پر بھیج سکتے ہیں۔ آپکے اچھے سلوگن بھی اس مہم میں استعمال کئے جائیں گے۔

ساتھیو، روڈ سیفٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، میں نمو اَیپ پر کولکاتہ کی اپرنا داس جی کی ایک پوسٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اپرنا جی نے مجھے 'فاسٹ ٹیگ' پروگرام پر بات کرنے کی صلاح دی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ 'فاسٹ  ٹیگ' سے سفر کرنے تجربہ ہی بدل گیا ہے۔ اس سے وقت کی تو بچت ہوتی ہی ہے، ٹال پلازہ پر رکنے، نقد ادائیگی کی فکر کرنے جیسی دقتیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ اپرنا جی کی بات سہی بھی ہے۔ پہلے ہمارے یہاں ٹال پلازہ پر ایک گاڑی کو اوسطاً 7 سے 8 منٹ لگ جاتے تھے، لیکن'فاسٹ ٹیگ' آنے کے بعد، یہ وقت ، اوسطاً صرف ڈیڑھ دو منٹ رہ گیا ہے۔ ٹال پلازہ پر انتظار کرنے کے وقت میں کمی آنے سے گاڑی کے ایندھن کی بچت بھی ہو رہی ہے۔ اس سے ہم وطنوں کے تقریباً 21 ہزار کروڑ روپے بچنے کا اندازہ ہے، یعنی پیسے کی بھی بچت، اور  وقت کی بھی بچت۔ میری آپ سبھی سے گذارش ہے کہ سبھی رہنما اصولوں پر عمل کرتے ہوئے، اپنا بھی دھیان رکھیں اور دوسروں کی زندگی بھی بچائیں۔

میرے عزیز ہم وطنو! ، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے – “جل بندو نپاتین کرمش پوریتے گھٹ”۔ یعنی ایک ایک بوند سے ہی گھڑا بھرتا ہے۔ ہماری  ایک ایک کوشش  سے ہی ہمارے عزم پورے ہوتے ہیں۔ اسلئے، 2021 کی شروعات جن اہداف کے ساتھ ہم نے کی ہے، انکو، ہم سب کو مل کر ہی پورا کرنا ہے تو آئیے، ہم سب مل کر اس سال کو مثبت بنانے کے لیے اپنے اپنے قدم بڑھائیں۔ آپ اپنا پیغام  اپنےخیالات ضرور بھیجتے رہیئے گا۔ اگلے مہینے ہم پھر ملیں گے۔

ابھی وداع لیتے ہیں ، پھر ملیں گے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

(م ن ۔ رض (

U-982

 


(Release ID: 1693735) Visitor Counter : 513