وزارت اطلاعات ونشریات
‘‘ پُٹ دا فون ڈاؤن ، اسٹارٹ رائٹنگ لو لیٹرس اگین ’’ : ایک نا ممکن پروجیکٹ
ایک نا ممکن پروجیکٹ حقیقی چیزوں سے پھر محبت کرنے کی دعوت دینا ہے : ڈائریکٹر جینس میورر
نئی دلّی ، 23 جنوری / اپنا فون رکھ دیجئے ۔ ڈجیٹل دور میں یہ ممکن نہیں ہے ۔ اس نا ممکن چیز کو جرمنی کی ایک فیچر فلم میں ممکن بنانے کی کوشش کی گئی ہے ، جسے گوا میں جاری بھارت کے 51 ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں بین الاقوامی سینما کے تحت شامل کیا گیا ہے ۔
ہاں ، یہ ایک نا ممکن پروجیکٹ ہے ، جیسا کہ فلم کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے ، خاص طور پر ایک ایسی دنیا میں ، جہاں ہر لمحہ ، زندگی کا ہر شعبہ ڈجیٹل ٹیکنا لوجی ، مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ سے متاثر ہے ۔ اس فلم میں ہماری ڈجیٹل زندگی میں ایک تفریحی طریقے سے احیاء کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔ یہ دوبارہ حقیقی چیزوں کے ساتھ محبت کرنے کی دعوت ہے ۔
پھر سے حقیقت کی طرف آئیں ۔ محبت نامے پھر لکھنا شروع کریں ۔ یہ جذباتی دعوت ، ڈائریکٹر جینس میورر نے دی ہے ۔ وہ 22 جنوری ، 2021 ء کو گوا کے فیسٹیول کے مقام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ لوگوں کو ایک دن احساس ہو گا کہ انسان ہونے کے ناطے ہم صرف ٹیکنا لوجی سے کہیں زیادہ ہیں ۔ ہم زندہ ہیں ، ہم ایک دوسرے سے جڑنا چاہتے ہیں اور ہم حقیقی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں ۔ اس تناظر میں میری فلم لوگوں کو پھر سے حقیقت کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتی ہے کہ وہ پھر سے محبت نامے لکھنا شروع کریں ۔ یہ دعوت ہے کہ اخبار پڑھیں ، کتابیں پڑھیں ، ان کی اصل شکل میں ، ڈجیٹل طور پر نہیں ۔ ’’
‘‘ ڈجیٹل زندگی کے بارے میں بہت سی چیزیں اچھی ہیں لیکن کیا آپ ہر چیز ڈجیٹل چاہتے ہیں ؟ ’’ جینس نے اپنی نئی فلم کی اہمیت کو منصفانہ قرار دینے کوشش کرتے ہوئے یہ بات کہی ۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ ہم پکچریں موبائل پر دیکھتے ہیں ۔ ہم انہیں محفوظ نہیں رکھتے اور جب ایک نیا فون آتا ہے تو وہ سب غائب ہو جاتی ہیں ۔ ’’
اُن کے ذہن میں یہ آئیڈیا کیسے آیا ؟ جینس نے یہ بات ایک کہانی کے ذریعے سمجھائی ۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ میری ایک آسٹریا کے شخص سے ملاقات ہوئی ۔ یہ ملاقات ، اُس وقت ہوئی ، جب آئی فون دنیا میں متعارف کرایا گیا ۔ کسی طرح اُس کا آئیڈیا تھا کہ اُسے اپنی آخری پولرائیڈ فیکٹری کو بچانا چاہیئے ۔ ہر شخص نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اب ڈجیٹل کی نئی دنیا ہے لیکن اُس نے سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنے مشن میں لگا رہا ۔ میں نے سات سال تک اُس کے بارے میں جانکاری حاصل کی ۔ میری اِس فلم میں اُسی کی کہانی پیش کی گئی ہے ۔ میں نے یہ فلم ڈجیٹل طور پر نہیں بلکہ کلاسیکی فلم کے طریقے سے شوٹ کی ہے ، جو پوری 35 ایم ایم فلم کے پرنٹ پر ہے ۔ ’’
انہوں نے اِس بات پر زور دیتے ہوئےکہ انہوں نے یہ فلم ، اِس لئے نہیں بنائی ہے کہ وہ ماضی سے چپکے رہنا چاہتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ‘‘ میری فلم کسی بھی طرح سے ماضی پرست نہیں ہوں ۔ یہ اِس بارے میں ہے کہ ہمیں تھوڑا سا سوچنا ضرور چاہیئے ۔ ہمیں اِس بارے میں سمجھنا چاہیئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔ ہمیں آسان پسندی پر کچھ روک لگانے کی ضرورت ہے ’’ ۔
اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے ، جناب جینس میورر نے بتایا کہ انہوں نے اپنی پہلی ڈجیٹل فلم سال 2002 ء میں بنائی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ میں ماضی پرست بالکل نہیں ہوں ۔ میں نے ایک تجرباتی تاریخی فلم ‘‘ دا رشین آرگ ’’ بنائی تھی ، جسے الیگزنڈر سوکوروف نے ڈائریکشن دی تھی ۔ یہ پہلی فلم تھی ، جو ایڈیٹنگ کے بغیر پوری طرح ڈجیٹل طریقے سے تیار کی گئی تھی ۔ یہ ڈجیٹل کا ایک سنگِ میل تھا لیکن فلم سازی کی تکنیک کے خاتمے کی شروعات تھی ۔ ’’
انہوں نے اِس بات کو دوہرایا کہ اُن کی فلم میں اِس بات پر نہیں ہے کہ ڈجیٹل برا ہے اور اینالاگ اچھا ہے ۔ یہ ایک توازن قائم کرنے کے بارے میں ہے اور یہ توازن اُسی وقت قائم ہو سکتا ہے ، جب کچھ لوگ اِس بات کا دفاع کریں کہ اینالاگ اب بھی اپنی اہمیت کا حامل ہے ۔
اس فلم کو با ضابطہ طور پر استنبول فلم فیسٹیول اور راٹر ڈیم انٹرنیشل فلم فیسٹیول میں منتخب کیا گیا تھا ۔
جینس میورر نے سوویت یونین ، جنوبی افریقہ ، اسرائیل اور امریکہ میں دستاویزی فلموں کی ہدایت دی ہے اور پھر انہوں نے آسکر کے لئے نامزد فلم ‘ دا لاسٹ اسٹیشن ’ بنائی ۔ 1995 ء میں انہیں یوروپین اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا ، جو اُن کی دستاویزی فلم ‘ بلیک پینتھر ’ کے لئے تھا ۔ وینس فلم فیسٹیول میں پبلک اینمی ( 1999 ) بھی دکھائی گئی ۔ 2013 ء میں انہوں نے پھر دستاویزی فلموں کی طرف واپسی کی ، جیسے کہ این امپوسیبل پروجیکٹ ( 2020 ) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
U. No. 735
(Release ID: 1691562)
Visitor Counter : 233