وزارت اطلاعات ونشریات

فلموں میں ہر قسم کی موسیقی ہونی چاہیئے : گلوکار ہری ہرن اور بکرم گھوش


گیت کا بنیادی پہلو آج کل اکثر غائب رہتا ہے - ہری ہرن

Posted On: 21 JAN 2021 3:22PM by PIB Delhi

 

نئی دلّی ، 21 جنوری / ‘‘ بھارت میں ہماری زندگی  میں موسیقی ہے  ۔ یہاں اچانک   گیت گانا  شروع کر دینا  کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ یہی بھارت ہے ۔ اِس لئے  فلمی گانے یہاں  مقبول ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے پاس کچھ بہترین گانے ہیں  ، جنہیں دیکھا جاتا ہے ، چاہے فلم  نہ بھی دیکھی ہو  ۔ ’’ – ہری ہرن

          ‘‘ جب سینما اور موسیقی کا ملن ہوتا ہے تو سبھی  اُس کا لطف  اٹھاتے ہیں  ۔ بھارت میں   سینما موسیقی اور رقص سے بھرے  تھیٹر پر کافی  اثر ڈالتا ہے ۔ رقص ، موسیقی اور سینما   میں  نو رَس ہر جگہ موجود ہے ۔ ’’ – ہری ہرن

          ‘‘ علاقے پر مبنی سینما   ، موسیقی  ، ہدایت کاروں کو  ، اُس سرزمین کے ایک حصے کی تصویر کشی کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔ ’’ – بکرم گھوش

          بھارت کے 51 ویں  بین الاقوامی فلم فیسٹیول ( اِفّی ) کے دوران موسیقی اور سینما کے بارے میں  منعقد ورچوول   ‘ اِن کنورزیشن ’ کے اجلاس میں  موسیقی کے  دو استاد  -  گلوکار  پدم شری ہری ہرن  اور  طبلہ  نواز  بکرم گھوش نے  کچھ  اِس طرح  خیالات کا اظہار کیا ۔

          مقبول پلے بیک سنگر ہری ہرن نے کہا کہ  ‘‘ جدید فلموں میں موسیقی  بدل گئی ہے ، ساتھ ہی سماج میں بھی تبدیلی آئی ہے ’’ ۔  انہوں نے کہا کہ پچاس کی دہائی میں فلمی گانے  اور پلے بیک   گانے ہندوستانی  شاستری  سنگیت سے بھرے ہوئے تھے ۔  ہندوستانی سینما میں موسیقی کے مرحلہ وار فروغ پر  اظہارِ خیال کرتے ہوئے بکرم گھوش نے کہا کہ جب  ہم نے آزادی حاصل کی ، اُس وقت کی فلموں میں  ہندوستانی  ہونے کا زور تھا ۔ اس لئے  شائقین کو  ہندوستانی  شاستری سنگیت   کے ذریعے سے  ہندوستانیت  کے فروغ  کا اظہار کیا جاتا تھا ۔  بعد کی مدت  کے بارے میں   ہری ہرن نے  کہا کہ اُس کے بعد 70 کی دہائی آئی ، جب   ہندی سینما  ، حقیقی سینما  یا  آرٹ سینما کی شروعات ہوئی ، جس میں بہت   کم گانے  ہوتے تھے ۔   90 کی دہائی میں  آواز میں  ڈرامائی  طریقے سے  معمولی تبدیلی آئی ۔ اس مدت میں   گلوکاروں کو ایک راحت دیتے ہوئے ہر طرح کی  آواز سنائی دیتی تھی ۔ 60 اور 70 کی دہائی میں آواز پر سب سے زیادہ زور تھا  ، 80 کی دہائی میں  بہت زیادہ  موسیقی کے آلات  دیکھے گئے  اور 90 کی دہائی میں  آواز کی شفافیت  پوری طرح سے غائب ہو گئی ۔

 6LBVA.jpg

 

          مشہور  پلے بیک سنگر نے کہا کہ ‘‘ نوشاد کی گنگا  جمنا میں  انہوں نے  لوک سنگیت کا بہت استعمال کیا ۔  یہ فلم للت اور ماروا راگوں پر مبنی تھی ۔ اس سے   سین میں مزید گہرائی پیدا ہوئی ۔  اُس مدت میں  بہت  ہم آہنگی تھی ۔

          اس ضمن میں  بکرم گھوش نے کہا کہ اے آر رحمٰن کی  آمد سے  ایک بڑی تبدیلی آئی اور  بہت سارے آلات کا استعمال  شروع ہوا ۔

          اِلایا راجہ اور آر ڈی برمن جیسے عظیم  موسیقاروں پر بھی  بات چیت ہوئی ۔  جناب ہری ہرن نے کہا کہ  اِلایا راجہ کی اَناّ کلی میں   تمل  لوک سنگیت  اور کرناٹک سنگیت کا  زبردست تال میل موجود  ہے ۔  بکرم گھوش نے اِس بات سے اتفاق  کیا کہ جس وقت اِلایا راجہ  جنوب  میں  سب سے زیادہ  مقبول تھے ،  پنچم دا ممبئی میں موسیقی کے بادشاہ تھے ۔ انہوں نے بہت سی تال کو  مغربی شکل دی ۔ آر ڈی برمن نے  افریقہ – کیوبا اور  لاطینی موسیقی کو  ایک ساتھ استعمال کیا ۔

          بکرم گھوش نے کہا کہ کچھ فلموں میں  آر ڈی برمن نے ، جو تخلیق کیا ہے  ، وہ بھارتی موسیقی کے لئے  ایک  شاندار وراثت ہے ۔  ‘ستے پے ستا ’ فلم میں  امیتابھ  بچن کے کردار کو  موسیقی  سے اجاگر کیا گیا  ۔ ‘ شعلے ’ میں   شانتا پرساد  جی کے طبلے نے ‘چل دھنو چل   ’ میں زبردست جادو پیدا کیا ۔ ‘ یادوں کی بارات ’ میں  ‘ چرا لیا  ہے تم نے جو دل کو  ’ ، کے لئے استعمال کی گئی موسیقی اور  ‘ تیسری منزل  ’ میں منفرد موسیقی نے ایک شاندار  مثال پیش کی ہے ۔

          ہری ہرن نے کہا کہ 70 کی دہائی میں  جنوبی بھارت  نے بھی  بالی ووڈ موسیقی   کو پسند کرنا شروع کر دیا ۔

          مایۂ ناز  فلم ساز ستیہ جیت رے کا نام بھی  بات چیت میں آیا ۔ بکرم گھوش نے کہا کہ انہوں نے  بنگالی سینما میں جنوبی بھارت کی بہت سی موسیقی کو استعمال کیا ۔ انہوں نے فلم ‘‘ گوپی  گائیں بھگا  بیں ’’ میں جنوبی موسیقی کا زبردست  استعمال کیا ۔

          آج کی فلموں اور موسیقی کے بارے میں بکرم گھوش نے  ایک مثبت   اشارہ دیتے ہوئے کہا  کہ بہت سی  ہندی فلمیں  ملک کے مختلف خطوں پر  سیٹ کی گئی ہیں  ۔ اس کے نتیجے میں  ہمارے ملک کے مختلف حصوں کی لوک اور مقامی موسیقی کو  مقبولیت  مل رہی ہے ۔ ہری ہرن نے  اِس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ   بھارت  کے  وسیع ثقافتی  منظر نامے کو  استعمال  کیا جانا چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ  اے آر رحمٰن  نے اِسے  شاندار طریقے سے استعمال کیا ۔

          بکرم گھوش نے  ٹور باز فلم کی موسیقی    بنانے کے اپنے تجربے کا ذکر کیا ۔ یہ فلم افغانستان   پر مبنی ہے ، جس کے لئے  وسطی مشرقی  موسیقی کی ضرورت تھی ۔  البتہ ڈائریکٹر نے  اس خطے  کی  موسیقی  کو پسند نہیں کیا اور  اس خطے کے احساسات  کے لئے  مختلف قسم کے آلات استعمال  کرنے کی اجازت دی ۔ 

          ہری ہرن نے کہا کہ  موجودہ وقت میں  موسیقی کے  ذیلی موضوعات  نظر نہیں آتے ، جو کہ موسیقی کے لئے بہت ضروری ہیں ۔

          اختتامی خطبے میں  دونوں موسیقاروں نے کہا کہ فلموں میں ہر قسم  کی موسیقی  موجود ہونی چاہیئے ۔ ‘‘ آپ کو  گانوں اور   پیشکش میں  مختلف ورائیٹی کی ضرورت ہے ۔ ’’

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

( ش ح  ۔ و ا ۔ ع ا ۔ 21.01.2021  )

U. No. 659

 



(Release ID: 1691102) Visitor Counter : 1784