وزارت اطلاعات ونشریات

علم حاصل کرنے کے لئے چھ گھنٹوں پر مشتمل سفر، تاہم انہیں یقین تھا کہ یہ محنت کامیاب ہوگی: گرین بلیک بیریز کے ہدایت کار پرتھوی راج داس گپتا کا اظہار خیال


’’تعلیم کے تئیں جوش و جذبے کے باوجود، قدرت ان بچوں کی دشمن بن گئی‘‘

Posted On: 20 JAN 2021 6:35PM by PIB Delhi

پنجی، 20 جنوری، 2021

’’ اسکول پہنچنے کے لئے پہلے انہیں پیدل چلنا پڑتا تھا اور پھر کشتی سے اور اس کے بعد دیگر سواریوں کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔ جس کا مطلب ہے، تعلیم حاصل کرنے کے لئے 6 گھنٹوں کا سفر۔ اسکولوں میں، ہم نے دیکھا کہ صرف ایک ہی کمرہ ہے اور ہر ایک بینچ ایک کلاس ہے۔ اس کے باوجود، تعلیم کی قدرو قیمت سے واقف  ان بچوں اور بالغان سے ملاقات کا تجربہ حوصلہ افزا رہا ۔ وہاں ہمیں محسوس ہوا کہ ان کی کہانی کو آگے پہنچانا چاہئے۔ اسی امید اور جذبہ سے یہ کہانی وجود میں آئی، اور اسی طرح گرین بلیک بیریز، جو کہ 51ویں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا کے پینورما سیکشن کی نان فیچر فلم کے زمرے میں شامل کی گئی ہے، بنانے کا خیال ڈائرکٹر پرتھوی راج داس گپتا کے ذہن میں آیا۔ آزاد فلم ساز اور فلم ایڈیٹر آج یعنی 20 جنوری 2021 کو، پنجی، گوا میں فیسٹیول کے دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ بطور رائٹر اور ڈائرکٹر، گرین بلیک بیریز ان کی دوسری فلم ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/10MOBT.jpg

وہ شمال مشرقی بھارت کے دور دراز کے مواضعات میں رہنے والے بچوں سے متعلق بات کر رہے تھے، جن کے بارے میں فلم کی کہانی ہے۔ ’’یہ فلم شمال مشرقی بھارت کے دور دراز کے گاؤوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بچوں کے ذریعہ کی جانے والی جدوجہد اور ان کو درپیش رکاؤٹوں اور وہ بچے کس طرح ان سب مشکلات پر فتح حاصل کرتے ہیں، اس کی تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘

پرتھوی راج کے مطابق، فلم کے اہم کردار، نیشو اور نیما کے لئے حقیقی زندگی کے کرداروں سے ترغیب حاصل کی گئی ہے۔ ’’ شمال مشرق کے خوبصورت گاؤوں کے پس منظر میں بنی یہ فلم، یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ ہونے کے باوجود کیسے قدرت ان بچوں کے لئے دشمن بن جاتی ہے۔ یہ ایک سچی کہانی ہے جسے دیگر سچی کہانیوں سے ترغیب حاصل کرکے بنایا گیا ہے۔‘‘

یہ بتاتے ہوئے کہ اس فلم کو بنانے کا خیال ان کے ذہن میں کیسے پیدا ہوا، گپتا نے کہا: ’’یہ سفر ڈھائی سال طویل رہا۔ اس کہانی کا خیال 2015 میں اس وقت میرے ذہن میں آیا جب میں دہلی یونیورسٹی میں تھا اور ہم قبائلی عوام پر ایک ڈاکومینٹری بنانے کے لئے شمال مشرقی خطے کے دورے پر تھے۔ ہم نے دور دراز کے متعدد مواضعات کا دورہ کیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ 20 گاؤوں میں محض ایک اسکول ہے اور بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے کئی کلومیٹر طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔

بچوں کی اس جدوجہد اور اسکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری کے بارے میں پوچھے جانے پر، پرتھوی راج نے کہا کہ ان خطوں میں اسکول ایسی جگہوں پر قائم ہیں جہاں تک عوام کی رسائی مشکل ہے۔ حالانکہ انہوں نے امید ظاہر کی کہ’’بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ یہاں کے عوام تعلیم کی قدرو قیمت سے واقف ہیں اور دھیرے دھیرے تبدیلی رونما ہوگی۔‘‘

یہ فلم مختلف زبانوں میں ہے کیونکہ نیپالی، بنگالی اور ریانگ وہ زبانیں جو شمال مشرق کے کچھ قبائل بولتے ہیں، ان کا استعمال اس فلم میں ہوا ہے۔

اس کا جواز پیش کرتے ہوئے، پرتھوی راج نے کہا کہ فلم کی شوٹنگ آسام اور میزورم کے درمیان سرحدی علاقوں میں کی گئی۔ ’’شمال مشرقی بھارت میں، بہت سی ایسی برادریاں ہیں جو آسامی اور بنگالی سمیت مختلف زبانیں بولتی ہیں۔ اس فلم کو مختلف زبانوں میں بناکر، میں نے مکمل شمال مشرقی خطے کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

اپنی فلم کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرانے کے لئے آئی ایف ایف آئی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، گپتا، جو ایک دیگر فلم کی اسکرپٹ لکھ چکے ہیں، نے کہا، ’’آئی ایف ایف آئی کی بدولت ہی شمال مشرق کی پہاڑیوں سے ایک فلم بحرہ عرب کے قریب اسکرین تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ‘‘

وی اے فلمز نے اس فلم کو پروڈیوس کیا ہے اور اسے دھرمشالہ بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں پیش کیا گیا تھا۔

گرین بلیک بیریز کے بارے میں

نیشو (14) اور نیما (16) ایک لکڑہارے کی بیٹیاں ہیں جو شمال مشرق کے ایک دور دراز کے گاؤں میں رہتا ہے۔ نیشو کا خواب ہے کہ وہ قریب کے ایک قصبے میں ایک اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرے ، تاہم اسے 5ویں درجے کا امتحان پاس کرنا ہے اور سرکاری وظیفہ حاصل کرنا ہے۔ لیکن امتحان والے دن، اس کے خوابوں کو چکناچور کرنے کے لئے تمام تر رکاؤٹیں اس کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔ کیا وہ وظیفہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوپائےگی؟

 

***

 

ش ح ۔اب ن

U-621



(Release ID: 1690650) Visitor Counter : 119


Read this release in: English , Hindi , Marathi , Punjabi