سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے تحت محکمہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ 2020 کا اختتامی جائزہ

Posted On: 18 JAN 2021 9:45AM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،  18 /جنوری- 1202  ۔   

سال 2020 میں دنیا کے سامنے جو بڑی آزمائشیں رکھیں ان آزمائشوں نے ہندوستان کو مستقبل کے لئے ایک محفوظ، سلامت، بہتر معاشرے کے حق میں مثبت تبدیلی لانے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے اہم کردار کی تائید میں نمایاں طور پر ابھرنے میں مدد کی۔

 سال2020 کووڈ-19 کاسال رہا۔ اس میں ایک طرف جہاں ہمیں عالمی وباء کاسامنا رہا وہیں اس کے جواب میں انسانیت پوری طرح ابھر کر سامنے آئی۔ یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ جیسے جیسے اس وباء کے پھیلنے میں تیزی آئی اسی طرح اس کو کم کرنے کی تحقیقی کوششیں بھی کی گئیں۔ ان خیالات کااظہار سائنس اور ٹیکنالوجی، ارضیاتی سائنس، صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے کیا ہے۔

ڈاکٹرہرش وردھن نے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ملک کا ایک طاقت ور شعبہ ہے جس کا کام  زراعت ، پینے کے پانی، توانائی، صحت  اور دیگر حوالوں سے ہر طرح کے مسائل کا حل کرنا ہے۔

1.jpg

سائنس اور ٹیکنالوجی مضبوط ترین بنیاد ہے ان پر مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے۔ ہندوستان ۔ گلوبل انوویشن انڈیکس کے مطابق 48 ویں رینک کے ساتھ چوٹی کی  جدید عالمی اقتصادی طاقتوں میں سے ایک بن کر  ابھرا ہے۔ ہندوستان اعلی تعلیم میں بھی پی ایچ ڈی کرنے والوں کے لحاظ سے تیسری پوزیشن پر پہنچ گیا ہے۔ اسٹارٹ اپ کے لحاظ سے بھی اس کی  یہی پوزیشن ہے۔ ان خیالات کااظہار سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے کے سکریٹری پروفیسر آشو توش شرما نے کی۔

ہندوستان سرکردہ بین الاقوامی سائنس اتحادوں خاص طور پر ویکسین سے متعلق  عالمی تحقیق، اس کی تیاری اور فراہمی اور مصنوعی ذہانت( جی پی اے آئی) پر عالمی شراکت کا ایک ناگزیر رکن بن کر ابھرا ہے۔ ہندوستان کو عالمی تنظیم صحت( ڈبلیو ایچ او) کے ایگزیکٹیو بورڈ کے چیئرمین کے طور پر چنا گیا جو ہندوستان کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی صلاحیت کو تسلیم کرنے کی قابل ذکر مثال ہے۔

پانچویں قومی سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی پالیسی کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب یہ عوامی مشاورت کے لئے دستیاب ہے۔ پچھلے چھ مہینوں چار طرح کے صلاح و مشورے کے ذریعہ اس پالیسی کا مسودہ تیار کیاگیا ہے جس کا مقصد  تنظیمی اور انفرادی دونوں سطحوں پر تحقیق اور جدت طرازی  کو فروغ دینے کے لئے مختصر درمیانی اور طویل مدت میں گہری تبدیلیاں لانا ہے۔

اس کامقصد ہندوستان میں ایس ٹی آئی پلاننگ، انفارمیشن، جائزے اور پالیسی کی تحقیق کاایک مضبوط نظام سامنے لانا ہے اور اس کی پرورش کرنا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ سائنس  ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی طاقت اور کمزوریوں کی شناخت کرکے ان سے رجوع کرنا ہے تاکہ ایس ٹی آئی کا ماحولیاتی نظام عالمی مقابلے میں آسکے۔

سائنس  اور سائنسی مشورے  کو فیصلہ سازی  میں بنیادی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا میں سائنسی اور سائنسی اطلاعات پر مباحثوں کاحصہ کئی گنا بڑھ گیا ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی پر عام لوگوں کے اعتماد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

نیشنل انیشیوایٹیو فار ڈیولپمنگ اینڈ ہارنیشنگ انوویشن( این آئی  ڈی ایچ آئی) نے 153 انکیو بیٹروں کے نیٹ ورک کے ذریعہ 3681 اسٹارٹ اپ  کی پرورش کرکے ہندوستان کے اختراعی ماحولیاتی نظام پر بعض زبردست اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس طرح روزگار کے  65864 مواقع پیدا ہوئے، 26227کروڑ روپےکی امدنی ہوئی اور 9921 دانشورانہ املاک سامنے آئیں۔

 

میلین مائنڈس اوگمینٹنگ نیشنل ایسپیریشن اینڈ نالج (ایم اے این اے کے) نے ملک بھر کے مڈل اور ہائی اسکولوں سے 3.8 میلین  ضیالات اور تصورات جمع کئے۔ اب میں سے کچھ ذہین بچوں کو ضلعی، ریاستی اور پھر قومی سطح پر چنا گیا۔

 

عالمی وبا کے دوران  خاص طور پر این آئی ڈی ایچ آئی ، اس کے انکیوبیٹر نیٹ ورک اور اسٹارت اپ کی طاقت کی کامیاب آزمائش کی گئی یہ آزمائش سنٹر فار اوگ مینٹنگ وار وتھ کووڈ 19 ہیلتھ کرائیسس(سی اے ڈبکیو اے سی ایچ) پروگرام کے ذریعہ کی گئی جس میں بحران سے نمٹنے کی کئی صورتوں کی تائید کی گئی۔نتیجے میں تیکنالوجی، تشخیص، ادویات،سنیٹائزر، وینٹیلیٹر، طبی آلات، پی پی ای وغیرہ  کے محاذ پر عالمی وبا  کو پھیلنے سے روکنے  اور مریضوں کے علاج میں کئی کامیابیاں ملیں۔

 

انڈیا نیشنل سپر ماڈل کمیٹی نے عالمی وبا کے عروج و زوال کی پیشنگوئی کی ۔جس کے مطابق ہندستان میں کووڈ -19 ستمبر میں عروج پر تھا ار اگر موجودہ رجحان جاری رہتا ہے تو فروری تک معاملات بہت نیچے آ جائیں گے ۔ بہر حال کمیٹی نے خبر دار کیا ہے کہ  تساہل برتنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ذاتی تحفظ کے موجودہ ضابطوں پر عمل مکمل طور پر جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

نیشنل سپر کمپیونٹنگ مشن(این ایس ایم) ملک میں ہائی پروفارمنس کمپیوٹنگ( ایچ پی سی) کو تیزی سے فروغ دے رہا ہے تاکہ  تعلیم ماہرین ، محققین، ایم ایس ایم ای،  تیل کی کھوج کے اسٹارٹ اپ اداروں، سیلاب کی پیشنگوئی کرنے والوں اور دوائیں سامنے لانے والوں کے بڑھتے ہوئے تقاضوں سے نمٹا جاسکے۔پرم شیوائے یہ پہلا سپر کمپیوٹر جسے درون ملک تیار کیاگیا ہے اور آئی آئی ٹی( بنارس ہندو یونیورسٹی) میں اس کی تنصیب عمل میں آئی۔ اس کے بعد پرم شکتی اور پرم برہما کو بالترتیب آئی آئی ٹی کھڑگ پور اور آئی آئی اے سی آر پونے بے نصب کیا گیا۔اس کے بعد مزید دواداروں میں یہ سہولتیں مہیا کی گئی اور 13 اداروں کو اس کی فراہمی کے لئے اقرار ناموں پر دستخط کئے گئے۔ پرم سدھی اعلی کارکردگی اور  مصنوعی ذہانت والا کمپیوٹر ہے جس نے 500 انتہائی طاقتور ایسے کمپیوٹر نظاموں میں 63 واں ریکنگ حاصل کیا ہے جنہیں ابھی تقسیم نہیں کیاگیا ہے۔

جدید تغذیاتی آلات والے جدید تغذیاتی اور ٹیکنیکی مدد کے انسٹی ٹیوٹ(ایس اے ٹی ایچ آئی) قائم کئے گئے تاکہ اعلی تغذیاتی خدمات فراہم کی جاسکے اور اس رخ پر غیر ملکی وسائل پر انحصار کم ہوسکے۔ ایس ایس ٹی نے اس طرح کے تین مراکز آئی آئی ٹی کھڑگ پور، آئی آئی ٹی دہلی اور بنارس ہندی یونیورسٹی   میں قائم کئے ہیں۔

سائبر فیزیکل سسٹم کے نئے ایس این ٹی شعبوں جیسے اے آئی، روبیٹکس، آئی او ٹی کو بین الاقوامی سائبر فیزیکل سسٹم  پر بڑا فروغ ملا۔ملک بھر میں اس کے بے مثال  25جدید مراکز اور پارک کی تعمیرات سے صنعتی اداروں ، تعلیمی اداروں اور حکومت کے مابین مضبوط اشتراک قائم ہورہا ہے اور یہ مکمل لچک کے ساتھ مربو ط ہورہے ہیں۔

 آب وہوا میں تبدیلی  پر تحقیق کے لئے کشمیر اور سکم اور آسام کی شمالی ریاستوں کی ہمالیائی یونیورسٹیوں میں تین سینٹر آف ایکسیلنس قائم کئے گئے ہیں۔ سائنس کے جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شمالی بحر اوقیانوس کی لہریں مانسون کو متاثر کرسکتی ہیں۔ایٹ موسفیرک کیمسٹری اینڈ فزکس نامی جریدے میں شائع ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایراسول نے ہمالیائی دامن میں تیز بارش کے واقعات میں اضافہ کردیا ہے۔

صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے اس موقع پر علمی اور تحقیقی اداروں میں صنفی ترقی اور مساوات کے لئے تین اہم اقدامات کا اعلان کیا اور سائنس، مواصلات اور پوپولرائزیشن کے لئے قومی ایوارڈزبھی دئیے جس میں خواتین کی ذہانت کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔

صدر جمہوریہ ہند نے پہلی بار قومی سائنس ڈے (این ایس ڈی ) کے جشن میں شرکت کی۔ این ایس ڈی سر سی وی رمن  کے ذریعہ ’رمن ایفکٹ‘ کی دریافت کے اعلان کو یاد رکھنے کے لئے ہر سال  28 فروری کو منایا جاتا ہے۔ اس کے لئے انہیں 1930 میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔

صنفی اڈوانسمنٹ فار ٹرانسفارمنگ انسٹی ٹیوشنز (جی اے ٹی آئی) ، ڈی ایس ٹی کے ذریعہ شروع کردہ ایک جدید پائلٹ پروجیکٹ ہے۔ اس  نے سائنس اور ٹکنالوجی میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کے ایک نئے عمل کی شروعات کی۔ یہ اعلی تعلیم اور تحقیق کے اداروں کی مدد کرتا ہے۔ خاص طور پر یہ سائنس ، ٹکنالوجی ، انجینئرنگ ، طب اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم ایم ) کے شعبہ جات میں خواتین  کے لئے ہر سطح پر سازگار ماحول بنانا چاہتا ہے۔

سری چترا ٹیرونل انسٹی ٹیوٹ فار میڈیکل سائنسز اینڈ ٹکنالوجی (ایس سی ٹی آئی ایم ایس ٹی) نے متعدد ٹیکنالوجیز اور مصنوعات تیار کیں جو بیماریوں سے نمٹنے کے لئے انتہائی اہم ثابت ہوسکتی ہیں۔

کووڈ 19 کی بہ یک قدم مصدقہ  تشخیص کیلئے اس انسٹیوٹ کی کٹ نے بھارت کو فوری طور پر جانچ کی اشد ضرورت کی تکمیل کر دی۔ اس مسئلے پرتحقیق و ترقی  کے دوسرے کاموں میںیووی بیسڈ فیس ماسک ڈسپوزل بن بھی شامل ہے ، جو ہیلتھ ورکرز استعمال شدہ فیس ماسک ، اوور ہیڈ کور اور چہرے کی ڈھال ضائع کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔

محکمہ سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے ماتحت محکمہ سروے آف انڈیا (ایس او آئی) نے ڈرون ٹکنالوجی جیسی جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے 10 سینٹی میٹر اسکیل کی ایک بہت ہی اعلی ریزولوشن پر بین ہند جغرافیائی نقشہ سازی کا آغاز کیا ہے۔ اس کے ساتھ ، بھارت الٹرا فاؤنڈیشن ڈیٹا کے طور پر ہائی ریزولوشن نیشنل ٹوپوگرافک ڈیٹا رکھنے والے چند ممالک کے منتخب کلب میں شامل ہوتا ہے۔

 

یہ کوشش تین ریاستوں ہریانہ، مہاراشٹر، اور کرناٹک کے علاوہ  گنگا بیسن کے لئے بھی شروع کی گئی ہے۔ سروے آف انڈیا نے مہاراشٹر میں  گاوتھن گاؤں (آبادی) کے علاقوں کی نقشہ سازی کا کام شروع کیا ہے۔ اس میں 40،000 سے زیادہ دیہات شامل ہیں۔ ریاست کرناٹک کے پانچ اضلاع کے لئے ڈرون پر مبنی نقشہ سازی کی جا رہی ہے۔ اس میں گاوں ، نیم شہری اور شہری علاقے شامل ہیں۔ ریاست ہریانہ کی مکمل طور پر ایل ایس ایم میپنگ بھی شروع کی گئی ہے۔

ڈرون سروے دیہی حدود کے چھ  مقامات نہروں ، نہروں کی حدود ، زراعت کے میدان کی حدود اور دیہات کی سڑکوں کے لئے اہم ثابت ہوگا۔

سروے آف انڈیا نے ویب پورٹل بھی شروع کئے ہیں تاکہ ملک کے ہر شہری کو ڈیجیٹل نقشہ یا ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوسکے اور فیصلہ سازی ، منصوبہ بندی ، نگرانی اور حکمرانی میں مرکز اور ریاستی تنظیموں کی مدد کی جاسکے۔ سروے آف انڈیا نے موبائل ایپ "سہیوگ" استعمال کرنے کی مفت سہولت بھی فراہم کی ہے۔

سائنس اینڈ انجینئرنگ ریسرچ بورڈ (ایس ای آر بی)  نے جو حکومت ہند کے محکمہ سائنس اور ٹکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کا ایک قانونی ادارہ ہے، سائنس اور انجینئرنگ ریسرچ

میں صنفی تفاوت کو کم کرنے کے لئے ایک اسکیم شروع کی ہے اور ہندوستانی تعلیمی اداروں اور تحقیق و ترقی کی  لیبارٹریوں میں فنڈنگ کر رہی ہے۔

ایکسپلوریٹری ریسرچ میں خواتین کے لئے مواقع کو فروغ دینے کے لئے ایس ای آر بی۔ پاور عنوان سے ایک سوچا سمجھا منصوبہ خصوصی طور پر خواتین سائنس دانوں کے لئے  29 اکتوبر 2020 کو شروع کیا گیا۔

یہ خواتین اور محققین کو تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں باقاعدہ خدمات میں آگے بڑھانے کے لئے ہے تاکہ وہ دو زمروں کے زریعہ تحقیق اور ترقی کو نئی بلندیوں پر لے جائیں۔

ایس ای آر بی پاور فیلوشپ اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی خواتین محققین کو تین سال کے لئے ایک ذاتی فیلوشپ اور ریسرچ گرانٹ پیش کرتا ہے۔ جبکہ ایس ای آر بی پاور ریسرچ گرانٹ ایس اینڈ ٹی کے تمام شعبوں میں انتہائی موثر تحقیق کرنے کے لئے فنڈ کو یقینی بناتا ہے۔ اس پروگرام کے منصوبوں کا اعلان پہلے ہی ہوچکا ہے۔

"مابعد کووڈ- 19میک ان انڈیا: " پر مرکوز ایک غیر معمولی وائٹ پیپر ٹیکنالوجی انفارمیشن ، فارکاسٹنگ اینڈ ایسسمنٹ کونسل (ٹی آئی ایف اے سی) کے ذریعہ تیار کیا گیا۔ اس کے ذریعہ عالمی وبا کے بعد ہندوستان کوآتم نربھر بنانے کے لئے فوری طور پر ٹکنالوجی اور پالیسی کو فروغ دینے کی سفارشات فراہم کی گئیں۔ اس نے شعبہ رخی تقویت ، مارکیٹ کے رجحانات ، اور پانچ شعبوں میں مواقع پرگرفت کی، جو ملک کے تناظرمیں اہم ہیں۔ ان میں صحت کی دیکھ بھال ، مشینری ، آئی سی ٹی ، زراعت ، مینوفیکچرنگ  اور فراہمی اور طلب کے علاوہ خود کفالت اور بڑے پیمانے پر پیداواری صلاحیت سے ہم آہنگ الیکٹرانکس شمل ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر پبلک ہیلتھ سسٹم ، ایم ایس ایم ای سیکٹر ، عالمی تعلقات: ایف ڈی آئی ، بحالی تجارتی سیدھ ، نئی عمر کی ٹیکنالوجیز ، وغیرہ میں پالیسی اختیارات کی نشاندہی کی ہے۔

ہندوستانی ماہرین فلکیات نے 2020 فزکس کے نوبل انعام یافتہ پروفیسر آندریا گیز کے ساتھ ہوائی کے موناکیہ میں تیس میٹر دوربین (ٹی ایم ٹی) پراجیکٹ کے ممکنہ سائنس کے امکانات اور ڈیزائن کے بارے میں کام کیا ہے جو کائنات  اور اس میں موجود اسراروں کی تفہیم کو انقلاب آفریں کر سکتا ہے۔

ٹی ایم ٹی پروجیکٹ کی جاری تحقیقی اور ترقیاتی سرگرمیوں میں ہندوستانی انسٹی ٹیوٹ آف آسٹروفزکس  اور آریا بھٹا ریسرچ انسٹیٹیوٹ آبزرویشنل سائنسز  کے سائنس دانوں نے پروفیسر گیز کے ساتھ تعاون کیا ہے۔

بی ایس آئی پی نے ریاست اترپردیش میں کووڈ- 19 کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاستی حکومت سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ وہ لکھنؤ میں پانچ تحقیقی اداروں میں سے ایک بن گیا ، جس نے COVID-19 کی لیبارٹری جانچ شروع کرنے کے لئے ابتدائی اقدامات کیے۔

ایک دن میں 1000 سے 1200 نمونوں کی جانچ کی جارہی ہے ، بی ایس آئی پی نمونوں کی اوسط کارروائی کے وقت کے لحاظ سے نہ صرف ریاست بلکہ پورے ملک میں ایک اعلی ادارہ ہے۔

"سیٹلائٹ ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کوانٹم تجربات" پر آر آر آئی - اسرو پروجیکٹ کے تحت آزاد خلائی کیو ڈی ڈی کے خاتمے کے لئے آر آر آئی میں کیوکی لیب نے ایک انتہائی محفوظ موثر کوانٹم کریپٹوگرافک اسکیم کے پہلی نفاذ مین کامیابی حاصل کر لی ہے۔ لیب میں ایک اینڈ ٹو اینڈ سیمولیشن ٹول کٹ تیار کیا گیا ہے جس کا نام کیو کے ڈی ایس آئی ایم ہے ، تاکہ محفوظ کوانٹم مواصلات پلیٹ فارمز میں حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے  جو اس نوعیت کا پہلا پروگرام ہے جو کوانٹم کی ڈسٹری بیوشن پروٹوکول تجربہ کاروں کو حقیقی تخمینہ لگانے کے قابل بناتا ہے۔ ایچ آر آئی الہ آباد کے اشتراک سے بھی ایک تجربہ  کیا گیا ہے۔

آئی آئی ٹی بمبئی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اچنتیا کمار دتہ اپنے ریسرچ گروپ کے ساتھ کوانٹم کیمسٹری کے لئے نئے طریقے تیار کرنے اور ان کو موثر اور آزاد سافٹ وئیر پر نافذ کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں تاکہ وہ آبی ڈی این اے سے الیکٹران کے اٹیچمنٹ کا مطالعہ کرسکیں جس سے کینسر کے تابکاری تھراپی پر مبنی علاج میں بہت زیادہ مضمرات ہیں۔

یہ مطالعہ ریڈیو سینسیٹائزرز کی نئی کلاس کی نشوونما میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے ، جو ٹیومر خلیوں کو تابکاری تھراپی کے لئے زیادہ حساس بناتا ہے اور اس طرح عام خلیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ کمپیوٹیشنل ماڈلنگ پیسہ اور وقت کے لحاظ سے نئے ریڈیو سینسائٹائزرز کی تیاری کی لاگت کو بہت حد تک کم کرسکتی ہے۔

سکم میں گلیشیر ہمالیہ کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

شعبہ سائنس و ٹکنالوجی کے تحت ہمالیہ جیولوجی کے مطالعہ کے لئے ایک خودمختار تحقیقی ادارہ واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیان جیولوجی (ڈبلیو آئی ایچ جی) دہرادون کے سائنس دانوں کے مطابق سکیم میں گلیشیئر ہمالیہ کے دیگر خطوں کی نسبت زیادہ بڑے پیمانے پر پگھل رہے ہیں۔

سائنس برائے مجموعی ماحولیات میں شائع ہونے والے جائزے میں  1991-2015 کے عرصہ میں سکم کے آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلی میں 23 گلیشیئروں کے ردعمل کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ سکم میں گلیشیئرز نے 1991 سے لے کر 2015 کے دوران نمیاں طور پر پگھلے ہیں۔

آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے سکم میں چھوٹے سائز کے گلیشیر ریٹریٹ کر رہے ہیں جبکہ بڑے گلیشیر پتلے ہو رہے ہیں۔

جیسا کہ موجودہ مطالعے میں روشنی ڈالا گیا ہے گلیشیئر میں تبدیلیوں کی سمت کے علاوہ عین مطابق علم سےعام لوگوں خاص طور پر ان برادریوں میں جو قریب ہی رہ رہے ہیں، پانی کی فراہمی اور گلیشیر کے خطرات سے متعلق آگاہی پیدا ہوسکتی ہے۔

سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے شعبہ کے تحت چلنے والے ایک خودمختار انسٹی ٹیوٹ انسٹی ٹیوٹ آف نانو سائنس اینڈ ٹکنالوجی (آئی این ایس ٹی) کے سائنسدانوں نے نشاستے پر مبنی ایک ‘ہیماسٹیٹ’ مادہ تیار کیا ہے جو زیادہ سیال کو جسمانی طور پر جذب کر کے خون میں قدرتی طور پر جمنے کے عوامل کی طرف توجہ مبذول کرتا ہے۔ اس پروڈکٹ نے جذب کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے اور اسے بہتر بنائیا ہے۔  یہ سستا بھی ہے اور بایو کومپیٹیبل ہونے کے ساتھ ساتھ  بائیوڈیگریج ایبل بھی۔

محکمہ سائنس وٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے تحت ایک خودمختار ادارہ ، پاؤڈر میٹالرجی اینڈ نیو میٹریلز  حیدرآباد کے بین الاقوامی ایڈوانسڈ ریسرچ سنٹر (اے آر سی آئی) کے سائنسدانوں نے صنعتی پروسیس ہیٹ ایپلی کیشنز کے لئے ایک موثر لاگت والی شمسی ریسیور ٹیوب ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔اے آر سی آئی ٹیم کے ذریعہ تیار کردہ رسیور ٹیوب ٹکنالوجی شمسی تابکاری کو موثر انداز میں جذب کرتی ہے اور اسے خاص طور پر صنعتوں میں نشانہ بند استعمال کیلئے گرمی میں بدل دیتی ہے۔یہ ہندستانی موسمی حالات کے لئے موزوں ہے۔ اس ٹکنالوجی کے لئے دو پیٹنٹ درخواستیں داخل کی گئیں ہیں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لئے میسرز گرینراانرجی انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ  کے ساتھ ایک اقرار نامے پر دستخط کئے گئے ہیں۔   جو زبردست منڈی کھپت کے لئے شمسی رسیور ٹیوب بڑے پیمانے پر تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

حکومت ہند کے محکمہ سائنس اینڈ ٹکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے تحت  خودمختار انسٹی ٹیوٹ جواہر لال نہرو سینٹر فار ایڈوانسڈ سائنٹیفک ریسرچ (جے این سی اے ایس آر) کے سائنسدانوں نے بربرائن کے ڈھانچے میں ترمیم کی ہے جو ہلدی کے سفوف کا اہم عنصر کرکومین کی طرح ہے۔ یہ ایک قدرتی اور سستا پروڈکٹ ہے جو تجارتی طور پر دستیاب ہے۔ اسے الزائمر کے روکنے والے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ان سائنس دانوں کا تحقیقی کام سائنسی جریدے سیئنس میں شائع ہوا ہے۔

حکومت ہن کے سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے محکمے کے تحت ایک إود مختار ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف جیو میگنیٹزم (آئی آئی جی) واقع  نوی ممبئی کے محققین نے ایک عالمی ماڈل تیار کیا ہے جس میں اعداد و شمار کی بڑی کوریج کے ساتھ آئناسفیرک الیکٹران کثافت کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ مواصلات اور سمت شناسی کے رُخ پر یہ ایک اہم ضرورت تھی۔

حکومت ہند کے محکمہ سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے تحت نانو سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے خودمختار ادارے  (آئی این ایس ٹی)  کے سائنس دانوں نے سو ڈو کیپاسیٹرسیا سپر کیپاسیٹرس کے لئے ایک مستحکم مادہ تیار کیا ہے جو الیکٹران چارج ٹرانسفر کے ذریعہ برقی توانائی کا ذخیرہ کرتا ہے۔ یہ بیٹریوں کے متبادل کے طور پر کم لاگت میں توسیع پذیر توانائی ذخیرہ کرنے حل پیش کرسکتا ہے۔

قومی انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (این آئی ٹی) سری نگر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ملک عبد الواحد انسپائر فیکلٹی ایوارڈ وصول کنندہ ہیں جس کا سلسلہ حکومت ہند کے سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے محکمے نے شروع کیا ہے۔ وہ پائیدار توانائی اور سستی توانائی کے ذرائع سامنے لانے کیلئےسائنس اور الیکٹرو کیمسٹری کی میلان کے رُخ پر توانائی کی تحقیق کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ ان کی توجہ بنیادی طور پر الیکٹروڈ اور الیکٹرویلیٹ مادی الیکٹرو کیمسٹری پر ہے۔ آئی آئی ایس ای آر پونے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ، ڈاکٹر ملک نے لی آئن بیٹری میں ایکانوڈ کی حیثیت سے موثر ایس آئی  استحکام کے لئے ایک اٰیس آئی فوسفورن نانو کومپوزٹ مواد تیار کیا ہے۔ اس کی تفصیل جریدہ سسٹین ایبل انرجی فیول میں شائع ہوا ہے۔حاصل کردہ مواد کاربن پر مبنی الیکٹروڈ سے پانچ گنا زیادہ صلاحیت فراہم کرتا ہے اور تقریبا 15 منٹ میں پوری طرح سے چارج کیا جاسکتا ہے۔

 

******

 

ش  ح ۔ع  س۔ ر ض

U-NO.501


(Release ID: 1690376) Visitor Counter : 3746