وزارت اطلاعات ونشریات

ستّر کی دہائی ہندی فلم صنعت کے لیے ایک سنہری دور تھا جس نے نئے نئے خیالات، نئے تجربات اورایکشن اور غیر روایتی فلموں کا ایک نیا منظر سامنے آیا: آئی ایف ایف آئی 51کے بات چیت اجلاس میں راہل رویل


’’ان دنوں میں فلم اداکاروں کے مابین ایک صحت مند مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ ہر اداکار ایک دوسرے سے آگے نکل رہا تھا لیکن کوئی مخاصمت نہیں تھی‘‘

پنجی ،18جنوری، 2021،     1970 کی دہائی میں ہندی سنیما میں نئے نئے خیالات، نئے تجربات اور ایکشن فلموں کا ایک زبردست مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ وہ زمانہ غیر روایتی فلموں اور نئی تکنیکوں کے سنہرے دور کا بھی تھا۔ یہ بات فلم سازراہل رویل نے بات چیت کے آن لائن اجلاس میں کہی۔ بھارت کے 51ویں بین الاقوامی فلمی میلے (آئی ایف ایف آئی) نے آج بات چیت کے اجلاس کا موضوع تھا ’’پانچویں، چھٹی اور ساتویں دہائی میں فلم سازی‘‘ انھوں نے ان برسوں میں ہندی فلمی صنعت کے زبردست روز وشب کے بارے میں ورچوئل ڈیلی گیٹوں سے یہ بات کہی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/200JE9Q.jpeg

سنیما کے اپنے سفر کی یاد دلاتےہوئے فلم ساز نے کہا’’میں نے اس صنعت میں چھٹی دہائی کے آخر میں کام کرنا شروع کیا اور اپنےکیریئر کا آغاز افسانوی شخصیت راج کپور کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا۔مایہ ناز فلم ساز کے آصف اور محمود چھٹی دہائی میں شاندار سیٹوں پر فلم بنایا کرتےتھے۔ اس کے بعد ساتویں دہائی میں بابو رام اشارہ کی چیتن نے’’ایک انقلاب برپاکردیا‘‘۔ اس کی شوٹنگ لوکیشن پر پچیس-تیس  دن ہوا کرتی تھی۔ ’’یہ ایک ایسی چیز تھی جو اس زمانے میں غیر معمولی تھی‘‘۔

 انھوں نے کہا کہ وجے آنند کی فلم  ’جانی میرا نام‘ میں جس میں دیوانند کام کر رہے تھے، ایکشن سے بھرپور ایک نئی قسم اور بڑے پلاٹ کے ساتھ نئے طرز کی شروعات کی۔70 کی دہائی جس میں ہندی فلم صنعت میں کاروبار بہت تیزی سے ہو رہا تھا، ایک غیر روایتی ہیرو کا کام دیکھا جو زنجیر فلم میں امیتابھ بچن نے کیا تھا۔ اس فلم سے ’’اینگری ینگ مین‘‘ کی شروعات ہوئی جو اس زمانے کے لیے نئی چیز تھی۔ ناصر حسین کی فلم ’یادوں کی بارات‘(1973) جس سے فلم جاوید کی شروعات ہوئی اس کا اسکرپٹ بہت زبردست تھا۔راج کپور کی فلم ’بوبی‘ جس میں رشی کپور اور ڈمپل کپاڈیا کو متعارف کرایا گیا، اس سے بھی ایک نئے طرز کی فلموں  کا آغاز ہوا۔ رویل نے رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان فلموں سے تبدیلی آئی اور فلم سازی کا پورا ڈھانچہ بدل کر رہ گیا‘‘۔ رشی کپور کو یاد کرتے ہوئے رویل نے کہا کہ وہ ایک ایسے ایکٹر تھے جن کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کی گئی۔ ایک اور فلم اسٹارجتیندر بھی ہندی سنیما کی دنیا میں ایک نئی اپیل اور نئے اسٹائل کے ساتھ داخل ہوئے۔ رویل نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’دیوار‘ جو یش چوپڑا کی بہت خوبصورتی سے بنائی گئی فلم تھی اس زمانے کی بڑی عظیم فلم ثابت ہوئی۔ یش چوپڑا نے ’ترشول‘ جیسی اور بھی یادگار فلمیں بنائیں۔

رویل نے یاد کرتے ہوئے کہا ’’اس زمانے میں فلم اداکاروں کے مابین صحتمند مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ ہر اداکار دوسرے سے آگے نکل رہا تھا لیکن ان کے مابین کوئی مخاصمت نہیں تھی‘‘۔ انھوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح تین عظیم اداکاروں، راج کپور، دیوانند اور دلیپ کمار کا ایک ریستوراں میں آمنا سامنا ہوا اور انھوں نے پرانے زمانے اور ایک دوسرے کی فلموں کے بارے میں قریبی دوستوں کی طرح بات چیت شروع کردی۔

انھوں نے ایک اور دلچسپ کہانی سنائی کہ طرح عظیم سچن دیو برمن نے بڑی شائستگی سے کہا تھا کہ ’لیلا مجنوں‘ کے لیے موسیقی دینا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اور انھوں نے اس کے لیے مدن موہن کے نام کی سفارش کی تھی۔ میوزک ڈائرکٹر صاحبان عظیم گلوکاراور نغمہ نگار، ڈائرکٹروں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھےوہ کہانی سنا کرتے تھے۔ اور ساتھ میں ایکٹر بھی بیٹھتا تھا جس سے  فلم کی تکمیل میں مدد ملتی تھی۔

رویل نے ایک اور عظیم فلم ایل وی پرساد کی ’ایک دوجے کے لیے‘ کا ذکر کیا جہاں ایک ہیرو، وہ ہندی نہیں بولتا تھا اور صرف تمل بولتا تھا، اور ایک اداکارہ جو صرف ہندی بولتی تھی اور تمل نہیں بول سکتی تھی، نے مل کر ایک لو اسٹوری۔ انھوں نے کہا ’’لوگ مختلف قسم کے کام ایجاد کرتے تھے اور انھیں انجام دیتے تھے‘‘۔ ناظرین بھی نئے قسم کی فلموں کا تجربہ کر رہے تھے۔ یہ سلسلہ 80 کی دہائی تک چلا جب کچھ نئے لوگ میدان میں آگئے حالانکہ پرانے  اداکار اب بھی کام کر رہے تھے۔ 80 کی دہائی میں دوسروں کے ساتھ ساتھ سبھاش گھئی اور  اور شترو گھن سنہا جیسی عظیم شخصیتیں بھی سامنے آئیں۔ جب اس زمانے میں رویل نے ارجن بنائی تو اس سے بھی ایک ایسی فلم کی شروعات ہوئی جس میں کوئی کہانی نہیں تھی بلکہ صرف کردار تھے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ ارجن  کے لیے  اسکرپٹ جاوید اختر نے 8 گھنٹے میں تیار کیاتھا۔ رویل نے امجد خاں سے ،جو کہ ولن کا رول ادا کرنے کے لیے معروف تھے، مزاحیہ کردار ادا کرایا۔ اگرچہ اس فیصلے کے بارے میں بہت لوگ مشکوک تھے۔رویل کو  اپنے گرو راج کپور کا مشورہ دیا تھا ’کہ ایک عظیم اسکرپٹ ہمیشہ کام کرتا ہے‘ اور اسی لیے انھوں نے اس پر کام کیا۔

آخر میں رویل نے کہا کہ 70 اور 80 کی دہائیاں ایک ایسا زمانہ تھا جب اس صنعت کو بڑی ترقی ملی۔ انھوں نے کہا کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

*****

 

ش ح ۔اج۔را     

U.No.513


(Release ID: 1689840) Visitor Counter : 4186