وزارت سیاحت

سیاحت کی وزارت نے ‘‘دیکھو اپنا دیش’’ ویبنار سیریز کے تحت ‘‘چنئی کی کہانیاں’’ پر ویبنار کا انعقاد کیا

Posted On: 07 NOV 2020 9:00PM by PIB Delhi

 

نئی دلی، 09؍نومبر، سیاحت کی وزارت نے دیکھو اپنا  دیش ویبنار سیریز کے تحت 7 نومبر 2020 کو چنئی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، جو  بھارت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا  سب سے پہلے پڑاؤ تھا،  چنئی کی کہانیوں کے عنوان سے ویبنار کا انعقاد کیا۔ یہاں آنے والے سیاح رنگا رنگ مندر، وسیع سامراجی عمارتیں، بھیڑ بھاڑ والے بازار ، کلاسیکی موسیقی اور رقص۔۔۔۔ جیسی  منفرد ثقافتی نشانیاں ہیں، جنہیں دیکھ سکتے ہیں۔ دیکھو اپنا دیش وبینار  سیریز کا انعقاد گھریلو سیاحت کو فروغ دینے کی خاطر ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے سے منعقد کیا جارہا ہے۔

اسے محترمہ اکیلا رمن نے  پیش کیا ہے جو  تاریخ  کی  پوسٹ گریجویٹ ہیں، اور  تاریخی ودیو مالائی  کہانیوں اور  قصوں کو  یکجا کرنے کا کام کررہی ہیں اور 15 سال سے اس مضمون کی تدریس کررہی ہیں۔ وہ  مختصر وقت کے لئے آئی ٹی ای ایس صنعت میں  لسانی تربیت کار بھی رہی ہیں۔ اکیلا  کے پاس  خوبصورت الفاظ  کا ذخیرہ ہے، وہ  قصہ گوئی کو بہت پسند کرتی ہیں اور نئے لوگوں سے ملنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔ کہانیوں کی نسبت سے وہ ایک بہترین قصہ گو ہیں اور  سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ اور  ٹریننگ کی سربراہ ہیں۔

پیش کش کرنے والے دوسرے  شخص جناب وجے پربھات  کملا کار  ہیں، جنہوں نے 2006  میں  قصہ گوئی  میں شامل ہونے سے پہلے بینکنگ اور آئی ٹی کی صنعت میں کام کیا ہے۔ وہ تاریخ، اسٹیج، ذو معنی الفاظ اور دیگر الفاظ کو خوبصورت طریقے سے استعمال کرنے کو پسند کرتے ہیں اور وہ ان لوگوں کے شکر گزار ہیں، جو  ان کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ وجے ایک گھومنے پھرنے والے، مختلف قسم کے کھانوں کو پسند کرنے والے اور میرتھن دوڑنے والے شخص ہیں، انہیں برٹش کونسل سے نوجوان تخلیقی  صنعت کار  کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور  یوا شکتی سے انہیں نوجوانوں کا  اچیور ایوارڈ بھی  مل چکا ہے۔

ویبنار کا آغاز  انتہائی متحرک، الیکٹرانک ، آئی ٹی مرکز اور  ثقافتی ریاست چنئی  کے تعارف سے ہوتا ہے، جو 1996  سے پہلے تک  مدراس کے نام سے جانا جاتا تھا اور یہ  بھارت کی ریاست  تمل ناڈو  کا دارالحکومت ہے۔ چنئی  مختلف مصنوعات  جیسے  سلک، موٹر پارٹس، سونا ، الیکٹرانکس اور  آئی ٹی کی بڑی کمپنیوں سمیت  بہت سی چیزوں کے معروف ہے۔ یہ  ایک ثقافتی مرکز، ایک سماجی مرکز،  ایک مندروں کا شہر  ہونے کے علاوہ اندرون تمل ناڈو  اور پونڈی کا  داخلی دروازہ بھی ہے۔ خلیج بنگال کے کورو منڈل ساحل پر و اقع یہ جنوبی بھارت کے  سب سے بڑے  ثقافتی ، اقتصادی اور تعلیمی مرکزوں میں سے ایک ہے۔ چنئی کا نام  تیلگو کے ایک حکمراں دمارلا مودیرسا چنپا نایا کڈو، جو  دمارلا وینکٹپتی نائک کے والد تھے، سے لیا گیا ہے نائک وہ حکمراں تھے جن کے تحت وجے نگر سلطنت کے وینکٹا سوم سے برطانیہ نے 1639 میں  یہ شہر  اپنی تحویل میں لیا تھا۔ مدراس نام بھی  مقامی  نام ہے، اور یہ  بھارت میں برطانیہ کے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ نام مستعمل تھا۔ وجے نگر دور کی  ایک تحریر سے، جو 1367 کی ہے، پتہ چلتا ہے کہ مشرقی ساحل پر مدراسن پٹنم نامی  بندرگاہ کے علاوہ اور کئی چھوٹی بندرگاہیں تھیں۔ 2015  میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ مشرقی ساحل رویا پورم کی ماہی گیری کے لئے ایک معروف بندرگاہ تھی۔ کچھ  وسائل کے مطابق مدراس کا نام مدراس پٹنم سے اخذ کیا گیا تھا، جو فورٹ سینٹ جارج کے شمال میں ماہی گیری کے لئے معروف گاؤں تھا۔ البتہ  ابھی  یہ طے نہیں ہے کہ  آیا یوروپی لوگوں کی آمد سے پہلے یہی نام  استعمال کیا جاتا تھا۔ برطانوی فوجی نقشہ سازوں کا خیال ہے کہ مدراس حقیقت میں مندر- راج یا  مندی راج تھا، جو تیلگو کی برادری  مندی راج سے لیا گیا تھا اور یہ  اس شہر کے قدیم باشندے ہے۔

ویبنار پیش کرنے والوں میں ہمیں 1600 سال  پہلے کے وقت سے متعارف کرایا جب چند متمول تاجروں اور  دانشوروں کے ایک گروپ  نے ایکجا ہو کر  لندن میں ایک کمپنی قائم کی، جس کا نام  برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی رکھا گیا اور اس کا مقصد بھارت کے ساتھ تجارت کرنا تھا۔ ان  کا پہلا  جہاز ممبئی کے قریب ایک چھوٹی سی بندرگاہ سورت پر پہنچا اور جلد ہی وہ وہاں سے دوسرے علاقے میں پہنچا، جو مدراس کا علاقہ ہے۔ انہوں نے وہاں قیام کیا اور  سینٹ جارج قلعہ تعمیر کیا جسے وہائٹ ٹاؤن کہا جاتا ہے۔ البتہ اس کے آس پاس  مقامی لوگوں کی بستی تھی جسے بلیک ٹاؤن  کہا جاتا تھا۔

قصہ گو نے  اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اس طرح  فرانسیسیوں نے  تین سال تک مدراس پر حکومت کی، جس کے بعد برطانیہ نے اسے حاصل کیا۔ قصہ گو نے سینٹ میری کے خوبصورت چرچ کے بارے میں بھی بتایا جو سوئز نہر کے مشرق میں سب سے قدیم  انجلیکن چرچ ہے،

میلا پور میں کپلیشور کا مندر مدراس سامراج سے بھی پرانا ہے۔ یونانی  اور رومن لوگ بھی اس بندرگاہی شہر میں آتے جاتے تھے۔ مارکو پولو نے 1292 میں  یہاں کا دورہ کیا اور اس کے بارے میں لکھا ہے۔ اس کے بعد 1522 میں پرتگالیوں نے یہاں تجارت کے لئے آنا جانا شروع کیا۔ مائیلا پور کا کپلیشورہ مندر آج بھی اپنی پوری آب تاب کے ساتھ موجود ہے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل روپندر برار نے ویبنار کا  اختتام کرتے ہوئے تابناک بھارت سیاحتی تسہیل کار سرٹیفکیشن (آئی آئی ٹی ایف سی) پروگرام کے بارے میں بتایا۔

دیکھو اپنا دیش ویبنار الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی وزارت کے نیشنل ای- حکمرانی محکمے کی تکنیکی ساجھیداری سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ  حکومت ہند کی سیاحت کی وزارت کے یوٹیوب ہنڈل پر بھی دستیاب ہے۔

 

*************

( م ن ۔ و ا ۔  ق ر(

U. No. 7082



(Release ID: 1671385) Visitor Counter : 158


Read this release in: English , Bengali , Tamil