سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
آئی آئی اے کے سائنس دانوں نے اومیگا سینٹوری گلوبولر کلسٹر کے دھات سے لیس اجزاء میں ہی- اِنہانسڈ ٹھنڈے روشن تاروں کی تلاش کی
یہ اومیگا سینٹوری میں ہی- ابنڈینس کا پہلا اسپیکٹرواسکوپک تعین ہے
Posted On:
14 AUG 2020 11:30AM by PIB Delhi
نئی دہلی، 14 /اگست 2020 ۔ گلوبولر کلسٹرس ایک کوکبی نظام ہے، جس میں ایک ہی گیس والے بادل سے بنے لاکھوں تارے ہوتے ہیں۔ اس لئے عام طور پر بنیادی عناصر کا کیمیاوی کمپوزیشن یکساں ہوتا ہے، لیکن ایسے کلسٹر ہیں جو اس ضابطے سے الگ ہیں۔ ان میں سے ایک ہے اومیگا سینٹوری، جو ہماری کہکشاں میں سب سے چمکدار اور سب سے بڑا گلوبولر (گول) کلسٹر ہے۔
اومیگا سینٹوری کے مختلف کواکب میں ایک ہی ساتھ نہیں ہوتی ہے، یہ ایک معیار ہے جو اس کی عمر کی طرف اشارہ کرتا ہے، لیکن اس کا رینج وسیع ہے۔ عنصری کثرت (ایلیمنٹل ابنڈینسیز) کے عدم توافق کے سبب تشکیلی منظرنامہ معمول سے مختلف ہوسکتا ہے۔ عام طور پر کثرت اس تصور کا استعمال کرکے حاصل کی جاتی ہے کہ وہ ایچ- ابنڈینس کا دسواں حصہ ہے۔
حکومت ہند کے محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے ماتحت ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس (آئی آئی اے) کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اس کلسٹر کے کئی تاروں کا مطالعہ کیا اور اومیگا سینٹوری کے دھات سے پُر نمونے سے انھیں ہی- انہانسڈ ٹھنڈے چمکیلے تاروں کی تلاش کی۔ یہ کام اس کلسٹر کے لئے کئے گئے اسپیکٹرو اسکوپک سروے کا نتیجہ ہے، جو پہلی بار ان تاروں کی ایچ- ابنڈینس کو متعین کرتا ہے۔ اس مطالعہ کو ’دی ایسٹرو فزیکل جرنل‘ میں شائع کیا گیا ہے۔
اگرچہ اومیگا سینٹوری کے ایچ- کور برننگ مین – سیکوینس تاروں(جیسے سورج) میں ہی- انہانسمنٹ کا اندازہ ہے، لیکن یہ اومیگا سینٹوری میں ہی- ابنڈینس کا پہلا اسپیکٹرو اسکوپک تعین ہے۔ یہ مطالعہ ہی- انہاسمنٹ کی پیدائش کے لئے ایک بہت ہی اہم حقیقت بیان کرتا ہے کہ یہ پہلی نسل کے تاروں کے دھات سے لیس اور ہی- انہاسمنٹ اشیاء سے بنے تاروں کی دوسری نسل ہیں۔ یہ مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ مین- سیکوینس والے تارے، دھات سے مالامال اور ہی- انہانسڈ ٹھنڈے چمکیلے تاروں کی شکل میں پروان چڑھے ہیں۔
زیادہ تر تاروں میں ہائیڈروجن سب سے زیادہ مقدار میں پایا جانے والا عنصر ہے، لیکن اگر ہائیڈروجن کی کثرت کم ہوتی ہے تو ہلیم کی کثرت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ ہاہیڈروجن اور ہلیم کا جوڑ کانسٹینٹ ہوتا ہے، جبکہ دیگر بھاری عناصر بھی قلیل مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ آئی آئی اے ٹیم نے وینو بپو ٹیلی اسکوپ، وینو بپو آبزرویٹری، کوالور، بھارت میں قائم آپٹومیٹرک میڈیم ریزولیوشن اسپیکٹروگراف (او ایم آر ایس) سے حاصل کم ریزولیوشن اسپیکٹرا کا استعمال کرکے اپنا مطالعہ شروع کیا۔ اس کے لئے انھوں نے ہائیڈروجن کی کمی / ہی- انہانسڈ تاروں کی پہچان کی۔
حالانکہ انھوں نے پایا کہ تاروں کے اسپیکٹرا میں ایچ- آٹومک اسپیکٹرل لائنیں بہت مضبوط ہیں اور کثرت کا قابل اعتبار تجزیہ ایسی لکیروں سے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے آئی آئی اے ٹیم نے ایک ایسی نئی تکنیک استعمال کی جس میں ماڈل ایٹموسفیئر کو اپنایا گیا۔ اس میں ہائیڈروجن / ہلیم کا تناسب الگ الگ تھا اور ان ماڈلوں سے تخمینہ روشنی اخراج کو غیرفعال میگنیشیم اور ہائی ریزولیوشن میں ایم جی ایچ مولیکولر بینڈ کے ایٹومک لائن میں دیکھی گئی روشنی کے ساتھ ملایا گیا۔ ستارے کے حقیقی ہائیڈروجن / ہلیم کے تناسب کو حاصل کیا گیا جو ہلیم کی مقدار کی پیمائش کرتا ہے۔ گزشتہ سبھی مطالعات میں تجزیہ، سورج کی طرح عام ایچ- ابینڈینس کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ (ایچ ای / ای = 0.1)۔
اومیگا سینٹوری کے ان ٹھنڈے چمکیلے تاروں میں ہلیم کی مقدار کو ناپنے کے لئے جنوبی افریقی لارج ٹیلی اسکوپ (ایس اے ایل ٹی) سے حاصل ہائی ریزولیوشن اسپیکٹرا کا استعمال کرکے ڈاکٹر ہیما بی پی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس، بنگلور کے پروفیسر گجیندر پانڈے نے ساتھ مل کر مطالعہ کیا ہے۔ مطالعہ کے لئے انھوں نے ہارورڈ- اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس، کیمبرج، یو ایس اے کے پروفیسر روبرٹ ایل کورکز اور انسٹیٹیوٹو ڈی ایسٹرو فیسیکا ڈی کیناریاس اور ڈپارٹمنٹو ڈی ایسٹرو فیسیکا، یونیورسیڈاڈ ڈی لا لگونا، ٹینیرف کے پروفیسر کارلوس الیندے پریٹو کا بھی تعاون حاصل کیا ہے۔
تصویر 2۔ لیڈ 34225 کے لئے دیکھے گئے اور سنتھیسائزڈ ایم جی ایچ بینڈس دکھائے گئے ہیں۔ ایم جی I لائنوں سے حاصل ایم جی ابنڈینس کے لئے سنتھیسائزڈ اسپیکٹرا اور ہائیڈروجن / ہلیم تناسب کو لال نقطہ دار لکیر کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔ ہائیڈروجن / ہلیم کے دو ویلیو کے سنتھیسس کو بھی دکھایا گیا ہے۔
(اشاعت کا لنک: https://doi.org/10.3847/1538-4357/ab93bd)
******
م ن۔ م م۔ م ر
U-NO. 4528
(Release ID: 1645935)
Visitor Counter : 156