بجلی کی وزارت

وزیر بجلی جناب آر کے سنگھ نے‘آتم نربھر بھارت ابھیان’ اور ‘میک ان انڈیا’  پہل قدمی کی کامیابی کو یقینی بنانے کےلیے  طریقے اور وسائل  پر تبادلہ خیالات کی غرض سے صنعتی ایسوسی ایشنوں اور بجلی اور قابل احیا توانائی کے مینوفیکچرر حضرات اور ڈیولپروں سے گفت وشنید کا اہتمام کیا


پی ایف سی، آر ای سی اور آئی آر ای ڈی اے نسبتا کم شرح سود پر ڈیولپروں کو سرمایہ فراہم کریں گے۔ یہ وہی ڈیولپر ہوں گے ،جو گھریلو پیمانے پر تیار کیے گئے سازوسامان استعمال کرتے ہیں

وزیربجلی نے شمسی ماڈیولس ، شمسی سیلوں اور شمسی انورٹرس کے سلسلے میں اگست 2020 سے بنیادی کسٹم محصول (بی سی ڈی) نافذ کرنے کی اطلاع فراہم کی

Posted On: 23 JUN 2020 8:20PM by PIB Delhi

نئی دہلی،  23 جون 2020، بجلی، نئی اور قابل احیا توانائی اور ہنرمندی ترقیات و صنعت کاری کی وزارت کے وزیر (آزادانہ چارج)  جناب آرکے سنگھ نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے بجلی اور قابل احیا توانائی کے شعبے میں کارفرما  جنریشن کے ڈیولپروں اور ترسیلی پروجیکٹوں سے متعلق افراد کے ساتھ گفت وشنید کی۔  بجلی کے وزیر نے  بھارت میں سازوسامان تیار کرنے اور روزگار کی فراہمی  کو فروغ دینے کے لیے  ‘آتم نربھر بھارت’ کی اہمیت پر زور دیا۔ وزیر موصوف نے اشارہ کیا کہ ڈی ڈی سی آئی (تجارتی انٹلی جنس کے ڈائریکٹوریٹ جنرل) محکمہ تجارت کی جانب سے بجلی کے شعبے میں درآمدات کے سلسلے میں اشیا کے لحاظ سے مقدار کے اعداد وشمار کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اسے ملاحظہ کرنے سے  معلوم ہوا کہ متعدد سازوسامان مثلا ترسیلی لائن کے ٹاور، کنڈکٹر، صنعتی الیکٹرانکس، کیپی سیٹرس، ٹرانسفارمر، کیبل اور انسولیٹر اور فیٹنگ وغیرہ ، جن کے لیے گھریلو مینوفیکچرنگ صلاحیت ہمارے یہاں موجودہے، یہ سازوسامان اب بھی درآمد کیے جارہے ہیں۔ زور دے کر کہا گیا کہ ‘میک ان انڈیا’ کو فروغ دینے اور درآمدات پر انحصار کو کم سے کم کرنے کے لیے یہ چیز لازم ہے کہ ترسیل، حرارتی، پن بجلی، تقسیم، قابل احیا توانائی کے شعبے میں تمام تر عناصر قومی مہم یعنی ‘آتم نربھر بھارت’ میں شمولیت اختیار کریں اور پورے جوش وجذبے کے ساتھ حکومت ہند کی ‘میک ان انڈیا’ پالیسی کو عملی جامہ پہنائیں۔ جناب سنگھ نے اشارہ کیا کہ بجلی کا شعبہ ایک حساس اور کلیدی لحاظ سے ایک اہم شعبہ ہے، کیونکہ ہماری تمام تر مواصلات، مینوفیکچرنگ اور اعداد وشمار اور تمام تر لازمی خدمات بجلی کی سپلائی پر ہی منحصر ہیں اور اس میں کسی بھی طرح کی رخنہ اندازی پورے نظام کو متاثر کرسکتی ہے۔ لہذا ‘آتم نربھر بھارت’ کو زیادہ بلند سطحوں پر کام کرنا ہوگا، کیونکہ بجلی کے شعبے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے تمام ڈیولپر حضرات سے کہا کہ وہ درج ذیل عہد کریں۔

*        کوئی بھی ایسا سازوسامان/ اشیا درآمد نہ کریں، جن کے معاملے میں وافر گھریلو صلاحیت ہمارے یہاں موجود ہے۔

*        ایسے سازوسامان خدمات جن کے معاملے میں گھریلو صلاحیت ہمارے یہاں دستیاب نہیں ہے اور جن کی درآمد ہر حال میں ناگزیر ہے، ان کی درآمد کی اجازت صرف ایک معینہ مدت کے لیے یعنی دو- تین برسوں کے لیے ہی دی جانی چاہیے اور اسی مدت کے دوران ان اشیا کی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت ایک معقول پالیسی سازی / ٹیکس ترغیب/ اسٹارٹ اپ/ فروخت کار ترقیات/ تحقیق و ترقیات کی شکل میں بہم پہنچائی جانی چاہیے، تاکہ آئندہ دو تین برسوں میں یہ تمام تر اشیا گھریلو پیمانے پر ہی تیار ہونے لگیں۔جب تک ایسی اشیا  درآمد کی جاتی رہیں، انہیں بھارتی معیارات پر عمل کرنے کے لیے سخت آزمائش سے گزارا جانا چاہیے اور کسی بھی طرح کے سقم کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

*        ایسے سازوسامان اور اشیا جن کی درآمد ہر حال میں لازمی ہے، ان کی درآمد کو بجلی کی وزارت / ایم این آر ای کی وزارت کی پیشگی منظوری کے تحت ہی عمل میں لایاجانا چاہیے۔

وزیرموصوف نے زور دے کر کہا کہ بجلی ملک کی ترقی کے لیے اہم بنیادی ڈھانچہ ہے۔ مواصلات، ڈاٹا خدمات ، صحتی خدمات، لوجسٹکس،د فاعی مینوفیکچرنگ وغیرہ تمام تر امور بجلی کے شعبے پر ہی منحصر ہیں، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے بجلی کے شعبے میں درآمدات پر انحصار کو کم سے کم کیا جائے۔

وزیرموصوف نے میٹنگ میں بتایا کہ وزارت کی تجویز یہ ہے کہ اگست 2020 سے بنیادی کسٹم محصول (بی سی ڈی) کا نفاذ  شمسی ماڈیولس، شمسی بیٹریوں اور شمسی انورٹرس پر کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بی سی ڈی کے نفاذ کے لیے واضح لائحہ عمل  کا اعلان کیا جائے گا، تاکہ حکومت کی پالیسی کے سلسلے میں کسی طرح کا تذبذب باقی نہ رہے۔ اس کے علاوہ قابل احیا توانائی کے سلسلے میں ماڈلوں اور مینوفیکچرر حضرات کی منظور شدہ فہرست بھی  یکم اکتوبر 2020 سے،  اس سے قبل کیے گئے اعلان کے مطابق نافذ العمل ہوجائے گی۔ اس سے اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ تمام تر شمسی بجلی پروجیکٹ، جو معیاری بولی لگانے کے رہنما خطوط کے تحت لائے جاچکے ہیں، انہیں ہر حال میں شمسی بیٹریاں اور شمسی ماڈیولس اور دیگر سازوسامان تیار کرنے ہوں گے۔ یہ وہی سازوسامان ہیں، جن کا ذکر منظور شدہ فہرست میں کیا گیا ہے۔

وزیر موصوف نے بجلی اور این آر ای کی وزارت میں حال ہی میں تشکیل کردہ ایف ڈی آئی سیل اور پروجیکٹ ترقیات شعبے کا بھی ذکر کیا۔ ایف ڈی آئی سیل یا شعبہ  ان ممالک سے سرمایہ کاری تجاویز حاصل کرے گا، جن کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں۔ پروجیکٹ ترقیات شعبہ  مخصوص پروجیکٹوں کی سرپرستی کرے گا، تاکہ سرمایہ کاری کا عمل تیزی سے آگے بڑھ سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آر ای  کے شعبے میں مخصوص   درآمداتی اشیا کے لیے روایتی طور پر رعایتی کسٹم اسناد جاری کرنے کا طریقہ رائج رہا ہے۔ اسے علیحدہ سے متعینہ تاریخ کے بعد سے ختم کردیا جائے گا۔

وزیر موصوف کے ساتھ گفت وشنید کے دوران ڈیولپر حضرات نے بھارت میں بجلی کے شعبے میں سازوسامان کی تیاری گھریلو پیمانے پر کرنے کے عمل کو مستحکم بنانے کے لیے اپنی جانب سے اہم تجاویز پیش کیں، جن کا تعلق مکمل ویلیو چین سے تھا۔ ان کے تحت منجملہ دیگر چیزوں کے  پالیسی کی یقینی صورت حال، اہم سازوسامان کی درآمد کو آسان بنانے کے لیے معقول ضوابط اور مینوفیکچرر حضرات کو مسابقتی شرحوں پر سرمایہ اور بجلی کی فراہمی جیسی باتیں شامل تھیں۔ ان شخصیات نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ  نئی اور پرانی سرمایہ کاری میں وضاحت اور شفافیت ہونی چاہیے۔ تحقیق و ترقیات کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور معاہدات کی سالمیت کا لحاظ کرنا چاہیے۔  بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے شعبے کے ڈیولپر حضرات نے، جن میں قابل احیا توانائی کے شعبے کے ڈیولپر بھی شامل تھے، ساتھ ہی ساتھ سی آئی آئی، ایف آئی سی سی آئی، پی ایچ ڈی چیمبر، شمسی اور ہوائی مینوفیکچرر وغیرہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے پورے زور وشور کے ساتھ اپنے اس عہد کا اعادہ کیا کہ وہ اتفاق رائے سے گھریلو مینوفیکچرنگ میں اپنا تعاون دیں گے اور‘ میک ان انڈیا’ اور ‘آتم نربھر بھارت’ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے، تاکہ درآمدات پر انحصار کم سے کم ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ وزیر موصوف کی جانب سے کرائے گئے عہد کی پابندی کریں گے۔

وزیرموصوف نے صنعتی مندوبین کو یقین دہانی کرائی کہ موجودہ پروجیکٹوں ، آسان قرض کی دستیابی وغیرہ کے سلسلے میں مندوبین کی جانب سے  حاصل شدہ تجاویز پر باریکی سے اور پوری احتیاط کے ساتھ غوروفکر کیا جائے گا۔ انہوں نے بجلی اور ایم این آر ای کے سکریٹری کو ہدایت دی کہ وہ صنعتی مندوبین کے تمام خدشات اور تفکرات پر معقول  طریقے سے غور وخوض کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

U-3470

م ن۔   ت ع۔



(Release ID: 1633854) Visitor Counter : 149