سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

دلی این سی آر کے حالیہ زلزلے کے جھٹکے کسی بڑے حادثے کا اثارہ نہیں دیتے اگرچہ کسی خطرناک زلزلے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا : ڈبلیو آئی ایچ جی


دلی این سی آر خطے میں اس طرح کے جھٹکے غیر معمولی نہیں ہیں لیکن ان سے اشارہ ملتا ہے کہ خطے میں کسی زلزلے کی آمد کا امکان ہے
دلی این سی آر کی دوسرے سب سے بڑے زلزلے کے امکانی زون کے طور پر نشاندہی کی گئی
حالیہ زلزلے کے امکانات کے طور پر نہیں قرار دیا جا سکتا

دلی این سی آر میں سبھی زلزلے زیر زمین اتھل پتھل کی وجہ سے ہوتے ہیں ، جو بھارتی پرت کی شمال کی طرف حرکت کرنے اور نظام میں کسی خامی یا کمزور خطے کے ذریعے یوریشیائی پرت سے ٹکڑانے کے نتیجے میں ہوتی ہے

Posted On: 19 JUN 2020 11:01AM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،19جون  2020  /  دلی این سی آر میں زلزلے کے حالیہ جھٹکوں کے تناطر میں واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالین جیولوجی یعنی ہمالیائی زمین سے متعلق واڈیا انسٹی ٹیوٹ نے جو سائنس و ٹکنالوجی کے محکمے کا  ایک خود مختار ادارہ ہے ، کہا ہے کہ اس طرح کے زلزلے کے جھٹکے دلی این سی آر خطے میں کوئی غیر معمولی نہیں ہے۔ البتہ ان سے اشارہ ملتا ہے کہ اس خطے میں توانائی کا دباؤ موجود ہے۔

ادارے نے کہا ہے کہ چونکہ زلزلے کا نیٹ ورک یہاں کافی مضبوط ہے۔ لہذا یہ دلی این سی آر میں اور اس کے آس پاس بہت چھوٹے  سے لے کر بہت ہی چھوٹے زلزلے لا سکتا ہے۔

اگرچہ ہم اس بات کو نہیں سمجھتے کہ کوئی زلزلہ کب، کہاں اور کتنی توانائی (شدت) کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن کسی خطے کی حساسیت کو ماضی کے زلزلوں سے سمجھا جا سکتا ہے، ماضی کے زلزلوں ، توانائی کے دباؤ کی شدت، اور زمینی بناوٹ کی خامیوں کو جان کر اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ دلی این سی آر کی نشاندہی  زلزلوں سے دوچار سب سے زیادہ خطرناک علاقے (زون چہارم) کے طور پر کی گئی ہے۔ کبھی کبھی ایک حساس علاقہ بالکل خاموش رہتا ہے اور اس میں معمولی شدت کے زلزلے آتے ہیں اور یہ زلزلے بڑی شکل میں نہیں آتے یا کسی بڑے زلزلے کی وجہ سے بغیر کسی پیشگی وجہ کے جھٹکا محسوس کرتے ہیں۔ دلی این سی آر میں کم شدت کے 14 زلزلوں میں سے 29 مئی کو روہتک زلزلے کی شدت چار اعشاریہ چھ تھی۔  

حالیہ زلزلے کے جھٹکوں کو کسی زلزلے کا پیش خیمہ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر خطے میں کوئی بڑا زلزلہ آتا ہے تو سبھی چھوٹے زلزلے تو اس خطے میں انٹرمیڈیٹ دور کے  پچھلے دور کے زلزلوں کو بڑے زلزلے سے پہلے کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔  لہٰذا دلی این سی آر میں زلزلے کے ان سبھی جھٹکوں کو سائنسی طور پر، کسی  بڑے زلزلے  کے جھٹکوں کے طور پر صرف اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب بیچ کے دور میں کوئی بڑا زلزلہ آیا ہو۔ اگرچہ اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن کسی ایسے بڑے زلزلے  کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا جس سے لوگوں اور املاک کو خطرہ ہو۔ چونکہ کسی نظام کے ذریعے کسی زلزلے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لہذا زلزلے کے جھٹکوں کو کسی بڑے زلزلے کا اشارہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔

دلی این سی آر میں ماضی کے زلزلوں کا منظر نامہ

زلزلوں کے تاریخی کیٹیلاگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہ دلی میں 1720 میں 6 اعشاریہ 5 شدت کا زلزلہ آیا تھا 1803 میں متھرا میں چھ اعشاریہ آٹھ شدت کا زلزلہ آیا تھا، 1842 میں متھرا کے قریب پانچ اعشاریہ پانچ شدت کا زلزلہ آیا تھا، 1956 میں بلند شہر کے قریب چھ اعشاریہ سات شدت کا زلزلہ آیا تھا، 1960 میں فرید آباد کے قریب چھ اعشاریہ صفر شدت کا زلزلہ آیا تھا، 1966 میں  دلی این سی آر میں مرادآباد کے قریب پانچ اعشاریہ آٹھ شدت کا زلزلہ آیا تھا۔

دلی این سی آر میں زلزلے کیوں آتے ہیں

دلی این سی آر میں سبھی زلزلے توانائی کا دباؤ جاری ہونے کی وجہ سے آتے ہیں۔ یہ توانائی بھارتی پرت کی شمال کی طرف ہرکت کرنے کے نتیجے میں اور اس کے یوریشیائی پرت سے کسی خامی یا کمزور علاقے کے ذریعے ٹکڑانے کی وجہ سے آتے ہیں۔ دلی این سی آر میں بہت سے کمزور علاقے ہیں جن میں خامیاں ہیں۔ دلی ہری دوار ریج علاقہ ، مہیندر گڑھ  - دہرہ دون، ذیلی سطح کی خامی ، مرآداباد خامی، سوہنا خامی ، گریٹ باؤنڈری خامی ، دلی – سرگودا ریج، دریائے جمنا کا ملان ، دریائے گنگا کا ملان وغیرہ۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمالیہ کی زلزلے کی پٹی جہاں بھارتی پرت یوریشیائی پرت سے ٹکڑائی اور ہمالیائی زمین کے نیچے ٹکڑائی وہاں توانائی کے دباؤ کا جمگھٹ بن گیا۔ یہ توانائی کمزور  زون سے باہر آسکتی ہے ۔ کم شدت کے زلزلے اکثر آتے ہیں لیکن زیادہ شدت کے زلزلے بہت کم سے لے کر بہت ہی کم آتے ہیں۔ بڑے زلزلے ہی ڈھانچے اور املاک دونوں کے لیے شدید نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

م ن ۔ اس۔ ت ح ۔

U – 3390



(Release ID: 1633135) Visitor Counter : 360