سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

پارکنسن (رعشہ)کے مرض کے سلسلے میں بہترفہم کے لئے نیا مطالعہ

Posted On: 14 MAY 2020 5:29PM by PIB Delhi

نئی  دہلی ، 14 مئی :پارکنسن یعنی  عام طورپرپایاجانے والا رعشہ  کا مرض اعصاب کو متاثرکرنے والا مرض ہے ،جس کا کوئی شافی علاج دستیاب  نہیں ہے ۔ ایسایقین کیاجاتاہے کہ الفاسنوکلین نام کے اجزاجو پروٹین کے اجزاہوتے ہیں جب ان کی مقداربڑھ جاتی ہے تووہ اس مرض کو پیداکرنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں ۔ رعشہ کے مریضوں کے دماغ کے درمیانی حصے  میں یہ عناصر بڑی مقدارمیں جمع ہوجاتے ہیں ۔

دنیا بھرمیں بہت سے محققین اس مطالعے میں مصروف ہیں کہ کس طریقے سے پروٹین بڑی مقدار میں پیداہوتاہے او ر اس کا میکینزم کیاہے اورکن وجوہات کی بنا پریہی عناصر رعشہ کے مرض  میں نیورونل خلیوں کو مردہ کردیتے ہیں ۔ محققین کا خیال ہے کہ جب ایک مرتبہ ان راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھ جائے گا تواس مرض کے لئے دوابھی بنائی جائے سکے گی جو عرصے سے اشد ضرورت بنی ہوئی ہے اوراس کاابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکاہے ۔

بدقسمتی سے اے ایس وائی این کی مقدارمیں اضافہ ازحد پیچیدہ عمل ہے اورآسانی سے سمجھ میں نہیں آسکتاہے ۔ جب یہ تکلیف شروع ہوتی ہے توچھوٹے اور سلینڈرنماریشے یافائبرلز بن جاتے ہیں جن کے اندرپروٹین ڈھانچہ جاتی شکل میں موجود ہوتی ہیں جسے کراس بیٹافولڈ کا نام دیاجاتاہے ۔ یہ فائبرلس ایسے ہیں جن پر مطالعہ کیاگیاہے سائنس دانوں نے ان فائبرلس کے سہ رخی ڈھانچے کے مسئلہ کو حل کرلیاہے اور یہ بھی جان لیاہے کہ انھیں نشانہ بنانے کے لئے دواکیسے اورکس طرح وضع کی جانی ہے  تاہم یہ ادویہ کلینکل تجربات میں ناکام ثابت ہوتی ہیں ۔

ان ناکامیوں نے سائنس دانوں کو یہ سوچنے پرمجبورکردیاہے کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ فائبرلز بٹ کو سمجھناہے بلکہ ان مختلف النوع درمیانی عناصرکو بھی سمجھنا ہے جو اس تکلیف کے آغاز میں کارفرماہوجاتے ہیں ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان ثانوی یادرمیانی عناصر کے بنیاد ی ڈھانچے  کوابھی تک سمجھا نہیں جاسکاہے لہذا دواکے ذریعہ انھیں نشانہ بنانابھی مشکل ہے ۔ سائنسداں ابھی نہیں سمجھ پائے ہیں کہ ایسا کونساواحد طریقہ نکالاجائے جس کے ذریعہ ابتدائی مراحل میں ثانوی یادرمیانی عناصر پربھی نظررکھی جاسکے اورفائبرلز کو بھی سمجھاجاسکے جو بعد میں بنتے ہیں ۔

حال ہی  میں آئی آئی ٹی (آئی ایس ایم ) دھنباد اور سی ایس آئی آر۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل بائیولوجی ، کولکاتہ کے سائندانوں نے اس مسئلہ کا مل جل کر ایک حل نکالنے کے لئے ٹیم بنائی ۔ آئی آئی ٹی ( آئی ایس ایم ) ٹیم کے ڈاکٹراوماکانتھ ترپاٹھی اس ٹیم کے قائد ہیں جو ایک فزیسٹ ہیں ، اورانھوں نے بائیومیٹریکل کا نان لائنر برتاو سمجھنے پر محنت کی ہے اور اس کا مطالعہ کیاہے ۔ انھوں نے ایک مشین خود ہی بنائی ہے جس کے ذریعہ وہ زیڈ ۔ اسکین تکینیک کااستعمال کرتے ہیں ۔ انھوں نے یہ مشین اپنے ادارے میں ہی تیارکی ہے ۔ سی ایس آئی آر۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل بائیو لوجی کے ڈاکٹرکرشنانند چٹوپادھیائے ایک بائیوفیزسٹ ہیں ۔ جنھوں نے رعشہ کے مرض کے سلسلے میں اے ایس وائی این کے اجماع اوراثرات کا مطالعہ کیاہے ۔

اس ٹیم نے پایاکہ زیڈ ۔ اسکین میتھد درحقیقت وہ تکینیک ہے جس کے وہ متلاشی تھے ۔ اس سے اے ایس  وائی این کو بہترطریقے سے سمجھاجاسکتاہے یعنی کے رعشہ کے مرض کے آغاز اوراس کے مختلف مراحل کی بہترتفہیم کی جاسکتی ہے ۔ انھوں نے پایاکہ پروٹین کے اندرایسی نان لائنرٹی موجود ہوتی ہے جو اس کے مونومیرک مرحلے سے شروع ہوتی ہے اورپھراسے فائبرلرڈھانچے میں بدل دیتی ہے ۔ اس ٹیم نے بطورخاص دلچسپ  مشاہدات کئے ہیں ۔ ٹیم   اپنے مشاہدات کے سلسلے میں کافی  پرجوش ہے کیونکہ ان مشاہدات کی روشنی میں رعشہ کے مرض کے سلسلے میں ادویہ جاتی اورشفاخانہ تحقیق دونوں  پہلووں سے مفید راستے نکل سکتے ہیں ۔

جب ڈاکٹرچٹوپادھیائے سے پوچھا گیا کہ ان کا اگلا قدم کیاہوگا توانھوں نے بتایاکہ بذات خود میں اور میری ٹیم سی ایس آئی آر، آئی آئی سی بی میں ان طریقوں کی تلاش میں کوشاں ہیں جن کے ذریعہ زیڈ ۔ اسکین میتھڈ کا استعمال اے ایس وائی این اجماع کے  مطالعے کے لئے کیاجاسکے ۔

اس مطالعہ ٹیم میں سومنتاگھوش ، ساکشی ، بکاش  چندرسوین اور ریتوبریتاچکرابورتی کے نام بھی شامل ہیں ۔ انھوں نے جو کام کیاہے اس پرمشتمل تحقیق مقالہ اے سی ایس کیمیکل نیورو سائنس کو ارسال کیا گیاہے ۔ اس جریدے نے اسے اشاعت کے لئے قبول کرلیاہے ۔

 

*****************

 

 

(م ن ۔ع آ۔15.5.2020)

          U-2535


(Release ID: 1624056) Visitor Counter : 1453


Read this release in: English , Hindi , Punjabi , Tamil