وزیراعظم کا دفتر

لوک سبھا میں وزیراعظم کے ذریعے صدر جمہوریہ کے خطبے پر شکریہ کی تحریک کا اصل متن

Posted On: 06 FEB 2020 7:55PM by PIB Delhi

عزت مآب اسپیکرمحترم ، میں صدر جمہوریہ کے خطبے پر شکریے کی تحریک پر صدر جمہوریہ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ عزت مآب صدر جمہوریہ نے نئے بھارت کا نقش راہ اپنے خطبے میں پیش کیا ہے۔ 12ویں صدی کی تیسری دہائی کا محترم صدر جمہوریہ کا یہ اظہار خیال اس دہائی کے لیے ہم سب کو سمت فراہم کرنے والا ہے، جذبہ دینے والا ہے اور ملک کے کروڑوں عوام میں اعتماد پیدا کرنے والا یہ خطبہ ہے۔

اس مباحثے میں ایوان کے سبھی تجربے کار معزز ارکان نے بہت ہی اچھے ڈھنگ سے اپنی اپنی باتیں پیش کی ہیں۔ اپنے اپنے خیالات رکھے ہیں۔ مباحثے کو جامع بنانے کی ہر کسی نے اپنے طریقے سے کوشش کی ہے۔ محترم جناب ادھیر رنجن چودھری، ڈاکٹر ششی تھرور، جناب اویسی صاحب، رام پرتاپ یادو جی، پریتی چودھری صاحبہ، مشرا جی، اکھلیش یادو جی، کئی نام ہیں، میں سب کے نام لوں تو وقت بہت لگ جائے گا، لیکن میں کہوں گا کہ ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوا ہےکہ حکومت کو ان سارے کاموں کی اتنی جلدی کیا ہے؟، سب چیزیں ایک ساتھ کیوں کررہے ہیں؟

میں شروعات میں جناب سرویشور دیال جی کی ایک نظم کو اجاگر کرنا چاہوں گا اور وہی شاید ہماری اقدار بھی ہے، ہماری حکومت کا رویہ بھی ہے اور اسی جذبے کے سبب ہم لگے بندھے طریقے سے ہٹ کر تیز رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ فی الحال سرویشور دیال جی نے اپنی نظم میں لکھا ہے کہ .......

لیک پر وے چلیں جن کے

چرن دربل اور ہارے ہیں

ہمیں تو جو ہماری یاترا سے بنے

ایسے انرمت پنتھ ہی پیارے ہیں

معزز اسپیکر اب اس لیے لوگوں نے صرف ایک حکومت بدلی ہے، ایسا نہیں ہے، سروکار بھی بدلنے کی امید ظاہر کی ہے۔ ایک نئی سوچ کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کے سبب ہمیں یہاں آکر خدمت کرنے کا موقع ملا ہے، لیکن اگر ہم اسی طریقے سے چلتے، جس طریقے سے آپ لوگ چلتے تھے، اس راستے سے چلتے، جس راستے کی آپ کو عادت ہوگئی تھی، تو شاید 70 سال کے بعد بھی اس ملک میں سے آرٹیکل 370 نہیں ہٹتی۔ آپ ہی کے طور طریقے سے چلتے تو مسلم بہنوں کو تین طلاق کی تلوار آج بھی ڈراتی رہتی، اگر آپ ہی کے راستے چلتے تو نابالغ سے ریپ کے معاملے میں پھانسی کی سزا کا قانون نہیں بنتا، اگر آپ ہی کی سوچ کے ساتھ چلتے تو رام جنم بھومی آج ہی اختلافات میں گھری رہتی، اگر آپ ہی کی سوچ ہوتی تو کرتار پور راہ داری کبھی نہیں بنتی۔

اگر آپ ہی کے طریقے ہوتے، آپ ہی کا راستہ ہوتا تو بھارت بنگلہ دیش سرحد تنازع کبھی نہ سلجھتا۔

معزز اسپیکر صاحب

جب معزز اسپیکر کو دیکھتا ہوں، سنتا ہوں تو سب سے پہلے کرن رجیجو کو بدھائی دیتا ہوں، کیونکہ انہوں نے جو فٹ انڈیا موومنٹ چلائی ہے، اس فٹ انڈیا موومنٹ کو مشتہر بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں۔ وہ تقریر بھی کرتے ہیں اور تقریر کے ساتھ ساتھ جم بھی کرتے، کیونکہ یہ فٹ انڈیا کو طاقت دینے کے لیے اس کی تشہیر کرنے کے لیے میں معزز ممبرکا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

محترم اسپیکر، کوئی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ ملک چنوتیوں سے لوہا لینے کےلیے ہر لمحہ کوشش کرتا رہا ہے، کبھی کبھی چنوتیوں کی طرف نہ دیکھنے کی عادت بھی ملک نے دیکھی ہے۔ چنوتیوں کو چننے کی سکت نہیں، ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے۔ لیکن آج دنیا کی بھارت کی پاس سے جو امید ہے، ہم اگر چنوتیوں کو چنوتی نہیں دیں گے، اگر ہم ہمت نہیں دکھاتے اور اگر ہم سب کو ساتھ لے کر آگے چلنے کی رفتار نہیں بڑھاتے تو شاید ملک کو بہت سے مسائل سے لمبے عرصے تک جوجھنا پڑتا۔

اور اس کے بعد محترم اسپیکر صاحب، اگر کانگریس کے راستے ہم چلتے تو 50 سال کے بعد بھی دشمن کی جائیداد کے قانون کا انتظار ملک کو کرتے رہنا پڑتا۔ 35 سال بعد بھی جدید ترین لڑاکو طیارے کا انتظار ملک کو کرنے رہنا پڑتا۔ 28 سال کے بعد بھی بے نامی جائیداد قانون لاگو نہیں ہوتا۔ 20 سال بعد بھی چیف آف ڈیفنس کا تقرر نہیں ہوپاتا۔

محترم اسپیکر صاحب، ہماری سرکار تیز رفتار کی وجہ سے اور ہمارا مقصد ہے ہم ایک نئی لکیر بناکر پرانے راستے سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں اور اس لیے ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ آزادی کے 70 سال بعد ملک طویل انتظار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے اور اس لیے ہماری کوشش ہے کہ رفتار بھی بڑھے، سطح بھی بڑھے۔ عزم بھی ہو اور فیصلہ بھی ہو۔ حساسیت بھی ہو اور حل بھی ہو۔ ہم نے جس تیز رفتار سے کام کیا ہے اور اس تیز رفتار سے کام کا نتیجہ ہے کہ ملک کے عوام نے پانچ سال میں دیکھا اور دیکھنے کے بعد اسی تیزرفتار سے آگے بڑھنے کے لیے زیادہ طاقت سے ساتھ ہمیں پھر سے کھڑا کرنے کا موقع دیا۔

اگریہ تیز رفتار نہ ہوتی تو 37 کروڑ لوگوں کے بینک کھاتے اتنے کم وقت میں نہیں کھلتے، اگر تیز رفتار نہ ہوتی تو 11 کروڑ لوگوں کے گھروں میں بیت الخلا کا کام پورا نہیں ہوتا، اگر رفتار تیز نہیں ہوتی تو 13 کروڑ کنبوں میں گیس کا چولہا نہیں جلتا، اگر رفتار تیز نہ ہوتی تو 2 کروڑ نئے گھر نہیں بنتے غریبوں کے لیے، اگر رفتار تیز نہ ہوتی تو طویل عرصے سے اٹکے ہوئے دلی کی 1700 سے زیادہ غیرقانونی کالونیاں 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی زندگی ، جو معلق تھی، وہ کام پورا نہیں ہوتا۔ آج انہیں اپنے گھر کا حق بھی مل گیا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب، یہاں پر شمال مشرق کا بھی تذکرہ ہوا ہے، شمال مشرق کو کتنی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑا۔ وہاں پر سیاسی بساط بدلنے کی سکت ہو، ایسی صورت حال نہیں ہے اور اسی لیے سیاسی میزان سے جب فیصلے ہوتے رہے تو ہمیشہ ہی اس خطے کی امید رہی ہے۔ ہمارے لیے شمال مشرق ووٹ کے میزان سے تولنے والا علاقہ نہیں ہے، بھارت کی یکجہتی اور سالمیت کے ساتھ دوردراز علاقوں میں بیٹھے ہوئے بھارت کے شہریوں کے لیے اور ان کی طاقت کا ہندوستان کی ترقی کے لیے بہترین استعمال ہو، طاقتوں کے کام آئے ملک کو آگے بڑھانے میں کام آئے۔ ہم اس عقیدت کے ساتھ وہاں کے ایک ایک شہری کے تئیں لامتناہی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہماری کوشش رہی ہے۔

اور اسی کے سبب شمال مشرق میں پچھلے پانچ برسوں میں جو کبھی ان کو دلی انہیں دور لگتی تھی، آج دلی ان کے دروازے پر جاکر کھڑی ہوگئی ہے۔ لگاتار وزیر کے دفتر کا دورہ کرتے رہے، رات رات بھر وہاں رکتے رہے، چھوٹے چھوٹے علاقے میں جاتے رہے، ٹیئردو، ٹیئر تین چھوٹے علاقوں میں گئے، لوگوں سے بات چیت کی، ان میں لگاتار اعتماد پیدا کیا اور ترقی کی جو ضرورت ہوتی تھی، اکیسویں صدی سے متعلق چاہے بجلی کی بات ہو، چاہے ریل کی بات ہو، چاہے ہوائی اڈے کی بات ہو، خواہ موبائل کنکٹی ویٹی کی بات ہو، یہ سب کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے۔

اور وہ یقین کتنا بڑا نتیجہ دیتا ہے جو اس حکومت کی مدت کارمیں دیکھا جارہا ہے۔ یہاں پر ایک بوڈو کا ذکر ہوااور یہ کہا گیا ہے کہ یہ تو پہلی بار ہوا ہے ہم نے بھی کبھی یہ نہیں کہ یہ پہلی بار ہوا ہے، ہم تو یہی کہہ رہے ہیں تجربے تو بہت ہوئے ہیں اور ابھی بھی تجربے ہورہے ہیں۔ لیکن ۔۔۔ لیکن۔۔۔ جو کچھ بھی ہوا سیاسی ترازو سےلیکھا جوکھا کرکےکیا گیا ہے۔ جو بھی کیا گیا آدھے ادھورے من سے کیا گیا ہے جوبھی کیا گیا ایک طرح سے خانہ پُری کی گئی اور اس کی وجہ سے سمجھوتے کاغذ پر تو ہوگئے ، فوٹو بھی چھپ گئی واہ واہی بھی ہوگئی ۔ بڑے فخر کے ساتھ آج اسی کی چرچہ بھی ہورہی ہے۔

لیکن کاغذ پر کئے گئے سمجھوتے سے اتنے برسوں کے بعد بوڈو سمجھوتے کے مسئلے کا حل نہیں نکلا۔ 4ہزار سے زیادہ بے قصور لوگ موت کے گھاٹ اتارے گئے ہیں۔مختلف قسم کے امراض سماجی زندگی کو جو خطرے میں ڈالے ایسے ہوتے چلے گئے۔ اس بار جو سمجھوتہ ہوا ہے وہ ایک طرح سے نارتھ ایسٹ کے لئے بھی اور ملک میں عام انسانوں کو انصاف کرنے والوں کے لئے ایک پیغام دینے والے واقعات ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہماری ذرا وہ کوشش نہیں ہے تاکہ ہماری بات بار بار اجاگر ہو، پھیلے، لیکن ہم محنت کریں گے،کوشش کریں گے۔

لیکن اس بات کے سمجھوتے کی ایک خصوصیت ہے ، سبھی ہتھیاری گروپ ایک ساتھ آئےہیں ، سارے ہتھیار اور سارے انڈر گراؤنڈ لوگ سرینڈر کئے ہیں اور دوسرا اس سمجھوتے کے ایگریمنٹ میں لکھا ہے کہ اس کے بعد بوڈو مسئلے سے جڑا ہو کوئی بھی مطالبہ باقی نہیں ہے۔ نارتھ ایسٹ میں ہم سب سے پہلے سورج تو پہلے نکلتا ہے ، لیکن صبح نہیں آتی تھی۔ سورج تو آجاتا تھا ، اندھیرا نہیں چھٹتا تھا۔ آج میں کہہ سکتا ہوں کہ آج نئی صبح بھی آئی ہے، نیا سویرا بھی آیا ہے، نیا اجالا بھی آیا ہے ۔ اور وہ روشنی، جب آپ اپنے چشمے بدلو گے تب دکھائی دے گی۔

میں آپ کا بہت بہت ممنون ہوں تاکہ آپ بولنے کے بیچ بیچ میں آپ مجھے آرام دے رہے ہیں۔

کل یہاں سوامی وویکا نند جی کےکندھوں سے بندوقیں پھوڑی گئیں۔لیکن مجھے ایک پرانی چھوٹی سی کہانی یاد آتی ہے ۔ ایک بار کچھ لوگ ریل میں سفر کررہے تھے اور جب ریل میں سفر کررہے تھے تو ریل جیسے رفتار پکڑتی تھی ، جیسے پٹری میں آواز آتی ہے.... سب کا تجربہ ہے۔ تو یہاں بیٹھے ہوئے ایک سنت مہاتما تھے تو انہوں نے کہا کہ دیکھو پٹری میں سے کیسی آواز آرہی ہے۔ یہ بے جان پٹری بھی ہمیں کہہ رہی ہے کہ پربھو کردے بیڑا پار... تو دوسرے سنت نے کہا نہیں یار ، میں نے سنا مجھے تو سنائی دے رہاہے کہ پربھو تیری لیلا اپرمپار.... پربھو تیری لیلااپرمپار.... وہاں ایک مولوی جی بیٹھے تھے، انہوں نے کہا کہ مجھے تو سنائی دے رہا ہے دوسرا.... سنتوں نےکہا آپ کوکیا سنائی دے رہا ہے، انہوں نے کہا مجھےسنائی دے رہا ہے یا اللہ تیری رحمت....یا اللہ تیری رحمت۔تو وہاں ایک پہلوان بیٹھےتھے انہوں نے کہا مجھے بھی سنائی دے رہا ہے ، تو پہلوان نے کہا کہ مجھے بھی سنائی دے رہا ہے ، کھا ربڑی کر کسرت....کھا ربڑی کر کسرت....

کل جو وویکا نند جی کے نام سے کہا گیا جیسی من کی تخلیق ہوتی ہے ویسی ہی سناتا ہے... آپ کو یہ دیکھنے کے لئے اتنی دور نظر ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بہت کچھ پاس میں ہے۔

صدر محترم، میری کسانوں کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی ہے بہت سے اہم کام اور بہت سے نئے طریقے سے نئےنظریے کے ساتھ گزشتہ دنوں کئے گئے ہیں اور عزت مآب راشٹرپتی جی نے اپنےخطاب میں اس کاذکر بھی کیا ہے لیکن اس طرح سے یہاں چرچہ کرنے کی کوشش ہوئی ہے میں نہیں جانتا کہ وہ لاعلمی کی وجہ سے ہے یا جان بوجھ کررہے ہیں۔ کیونکہ کچھ چیزیں ایسی ہیں اگر علم ہو تو بھی شاید ہم ایسا نہ کرتے۔

ہم جانتے ہیں کہ ڈیڑھ گنا الگ سے کرنے والا معاملہ ہے۔ کتنی لمبی مدت سے اٹکا ہوا تھا۔ ہمارے وقت کا نہیں تھا، پہلے کا تھا لیکن یہ کسانوں کے لئے ہماری ذمہ داری تھی کہ اس کام کو بھی ہم نے پورا کردیا۔ میں حیران ہوں ۔ آبپاشی کی اسکیمیں 20 -20 سال سے پڑی ہوئیں تھی کوئی پوچھنے والا نہیں تھا فوٹو نکلوادی بس کام ہوگیا۔

ہم کو ایسی 99 اسکیموں کو ہاتھ لگانا پڑا ، ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرکے ان کو منطقی انجام تک لے گئے اور اب کسانوں کو اس کا فائدہ شروع ہونے لگا ہے۔

پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت اس نظام سے کسانوں میں لگاتار اعتماد پیدا ہوا ہے۔ کسانوں کی طرف سے قریب 13 ہزار کروڑ روپےپریمیم آیا ہے ۔ لیکن قدرتی آفات کی وجہ سے جو نقصا ن ہوا اسکے تحت قریب 65 ہزار کروڑ روپےکسانوں کو بیمہ یوجنا سے حاصل ہوئے ہیں۔ کسان کی آمدنی میں اضافہ ہو یہ ہماری اولیت ہے۔ مادخل کی لاگت کم ہو، یہ اولیت ہے۔ اور پہلےایم ایس پی کے نام پر کیاہوتا تھا، ہمارے ملک میں پہلے سات لاکھ ٹن دال اور تلہن خریدی گئی ۔ہماری مدت کار میں سولاکھ ٹن ، ای -نیم اسکیم آج ڈیجیٹل ورلڈ ہے ۔ ہمارا کسان موبائل فون سے دنیا کےدام دیکھ رہا ہے، سمجھ رہا ہے۔ ای –نیم اسکیم کے نام کسان اپنا بازار میں مال بیچ سکتے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ گاؤں کا کسان اس نظام سے قریب پونے دو کروڑ کسان اس سے جڑ چکے ہیں اور قریب قریب ایک لاکھ کروڑ روپے کاکاروبار کسانوں نے اپنی پیداوار کا اس ای-نیم اسکیم سے کیا ہے۔ ہم نے کسان کریڈٹ کارڈ کی توسیع ہو، اس کے ساتھ ساتھ متعدد متعلقہ سرگرمی چاہیں مویشی پروری ہو، ماہی پروری ہو ،مرغی پالن ہو۔ شمسی توانائی کی طرف جانے کی کوشش ہو۔ سولر پمپ کی بات ہو۔ ایسی نئی بہت سی چیزیں جوڑی ہیں جس کی وجہ سے آج اس کی معاشی حالت میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔

2014 میں ہمارے آنے سے پہلے زراعت کی وزارت کابجٹ 27 ہزار کروڑ روپے کا تھا۔ اب یہ بڑھ کر پانچ گنا .... 27 ہزار کروڑ روپے کا بڑھ کر کے پانچ گنا اور تین ڈیڑھ لاکھ کروڑ ہم نے پہنچایا ہے۔ پی ایم کسان سماّن یوجنا، کسانوں کے کھاتے میں سیدھے پیسےجاتے ہیں۔ اب تک تقریباً 45 ہزار کروڑ روپے کسان کے کھاتے میں منتقل ہوچکے ہیں۔کوئی بچولیہ نہیں ہے،کوئی فائلوں کا جھنجھٹ نہیں۔ ایک کلک دبایا ، پیسے پہنچ گئے۔ لیکن میں ضرور یہاں محترم ارکان سے اصرار کروں گا کہ سیاست کرتے رہئے۔ کرنی بھی چاہئے... میں جانتا ہوں لیکن کیا ہم سیاست کرنے کے لئے کسانوں کے مفاد کے ساتھ کھلواڑ کریں گے۔ میں ان محترم ارکان سے اس بارے میں اصرار کروں گا کہ اپنی ریاست میں دیکھیں جو کسانوں کے نام پر بڑھ چڑھ کر بولرہےہیں۔۔۔۔وہ ذرا زیادہ دیکھیں کہ کی ان کی ریاست کے کسانوں کو پی ایم سماّن ندھی ملے اس کے لئے وہ حکومت کسانوں کی فہرست کیوں نہیں دے رہی ہے۔ اس اسکیم کے ساتھ کیوں نہیں جڑ رہی ہے۔ نقصان کس کا ہوا ، کس کا نقصان ہوا، اس ریاست کے کسانوں کا ہوا ۔ میں چاہوں گا کہ یہاں کوئی ایسا محترم رکن نہیں ہوگا کہ جو شاید دبی زبان میں جو کھل کر کے نہ شاید بول پائے، کہیں جگہوں پر بہت کچھ ہوتا ہے ۔ لیکن ان کو پتہ ہوگا اسی طرح سے میں محترمہ ارکان سے کہوں گا جنہوں نے بہت کچھ کہا ہے، ان ریاستوںمیں دیکھئےذرا آپ جہاں کسانوں کو وعدے کرکرکے بہت بڑی بڑی باتیں کرکرکے ووٹ بٹور لئے،حلف لے لیا۔ اقتدار سنگھاسن پالیا۔ لیکن کسانوں کے وعدے پورےنہیں کئے گئے ،کم سے کم یہاں بیٹھے ہوئےمحترم ارکان ان ریاستوں کے بھی نمائندے ہوں گے تو وہ ضرور ان ریاستوں کو کہیں کہ کسانوں کو ان کا حق دینے میں کوتاہی نہ برتیں۔

صدر محترم ،جب آل پارٹی میٹنگ ہوئی تھی تب میں نے تفصیل سے سب کے سامنے ایک پرارتھنا بھی کی تھی، اور اپنے خیالا بھی رکھے تھے اس کے بعد ایوان کے آغاز میں میڈیا کے لوگوں سے جب میں بات کررہا تھا، تب بھی میں نے کہا تھا کہ پوری طرح اقتصادی معاملے،ملک کی اقتصادی صورتحال ، سارے معاملوں کو ہم سپرد کریں ،ہمارےپاس جتنا بھی شعور ہے ، جتنی بھی صلاحیت ہے ، جتنی بھی ٹیلنٹ ہے، سب کا نچوڑ ہم اس اجلاس میں دونوں ایوانوں میں ہم لے کر کے آئے ہیں۔کیونکہ جب دیش -دنیا کی آج جو اقتصادی صورتحال ہے اس کا فائدہ اٹھانے ک لئے بھارت کون سے قدم اٹھائے، کون سی سمت کو اختیار کرے جس سے فائد ہو۔ میں چاہوں گا یہ اجلاس ابھی بھی وقت ہے ، بریک کے بعد بھی جب ملیں گے تب بھی پوری طاقت سے میں ارکان سے اصرا رکرتا ہوں ، ہم اقتصادی موضوعات پر گہرائی سے بولیں، جامعیت سے بولیں اور اچھی نئی تجاویز کے ساتھ بولیں۔ تاکہ ملک دنیا کے اندر جو مواقع پیدا ہوئے ان کا فائدہ اٹھانے کے لئےپوری طاقت سے آگے بڑھے ، میں دعوت دیتا ہو سب کو۔

ہاں میں مانتا ہوں کہ اقتصادی موضوعات پر اہم باتیں ہم سبھی کی اجتماعی ذمہ داری ہے ۔اور اس ذمہ داری میں ہم پرانی باتوں کو بھول نہیں سکتے ہیں۔ کیونکہ آج ہم کہاں اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے کل کہاں تھے۔ یہ بات صحیح ہےلیکن ہمارے محترم ارکان یہ کہتے ہیں یہ کیوں نہیں ہوا ، یہ کب ہوگا، یہ کیسے ہوگا کب تک کریں گے ۔ تو کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ آپ تنقید کرتے ہیں۔ میں نہیں مانتا کہ آپ تنقید کرتے ہیں مجھے خوشی ہے کہ آپ مجھے سمجھ پائے ہیں۔ کیونکہ آپ کو یقین ہے کرے گا تو یہی کرے گا... اور اب اس لئے میں آپ کی ان باتوں کو تنقید نہیں مانتا ہوں۔

میں رہنمائی مانتا ہوں ،ترغیب مانتا ہوں، اور اس لئے میں ان ساری باتوں کا خیرمقدم کرتا ہوں اور تسلیم کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ اور اس لئے اس قسم کی جتنی باتیں بتائی گئی ہیں اسکے لئے تو میں خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ کیونکہ کیوں نہیں ہوا کب ہوگا ، کیسے ہوگا یہ اچھی باتیں ہیں۔ ملک کے لئے ہم سوچتے ہیں۔ لیکن پرانی باتوں کے بغیر آج کی بات کو سمجھنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ہمارا پہلے کیا دور تھا بدعنوانی کی آئے دن چرچا ہوتی تھی۔ ہراخبار کی ہیڈلائن ، ایوان میں بھی کرپشن پر ہی لڑائی چلتی تھی تب بھی یہی بولا جاتا تھا۔ ان پروفیشنل بینکنگ کون بھول سکتا ہے ۔ کمزور بنیادی ڈھانچے کی پالیسی کون بھول سکتا ہے۔ ان تمام صورتوں سے باہر نکلنے کے لئے ہم نے مسائل کے حل تلاش کرنے کے طویل مدتی مقصدکےساتھ مقررہ سمت پکڑ کرکے ، مقررہ نشانہ پکڑ کرکے اس کو پورا کرنے کی ہم نے مسلسل کوشش کی ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج معیشت میں فسکل ڈیفسٹ بنی ہیں، مہنگائی قابو میں رہی ہے۔ اور میکرو معیشت کا استحکام بھی برقرار رہا ہے۔

میں آپ کا ممنون ہوں کیونکہ آپ نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔یہ بھی کام ہم ہی کریں گے۔ہاں ایک کام نہیں کریں گے .....ایک کام نہیں کریں گے۔ ...... نہ ہونے دیں گے۔ وہ ہے آپ کی بے روزگاری نہیں ہٹنے دیں گے۔

جی ایس ٹی کا بہت اہم فیصلہ ہوا، کارپوریٹ ٹیکس کم کرنے کی بات ہو، آئی بی سی لانے کی بات ہوں، ایف ڈی آئی کو لبرلائز کرنے کی بات ہو ، بینکوں میں دوبارہ سرمایہ کرنے کی بات ہو جو بھی وقتاً فوقتاًضرورت رہی اور جو بھی طویل مدتی مضبوطی کے لئے ضرورت ہے ۔ سارے قدم ہماری سرکار اٹھا رہی ہے۔ اٹھائے گی اور اس کے فائدہ بھی آنے شروع ہوگئے ہیں اور وہ اصلاحات جن کی چرچہ ہمیشہ ہوئی ہے آپ کے یہاں بھی جو پنڈت لوگ تھے، وہ یہی کہتے رہتے تھے۔ لیکن کر نہیں پاتے تھے۔ ماہرین اقتصادیات بھی جن باتوں کی باتیں کرتے تھے آج ایک کے بعد ایک اسے نافذ کرنے کا کام ہماری حکومت کررہی ہے۔ سرمایہ کار کا بھروسہ بڑھے ، آپ کی معیشت کو مضبوطی ملے اس کو لے کر کے بھی ہم نے کئی اہم فیصلے کئے ہیں۔ جنوری 2019 سے 2020 کے دوران چھ بار جی ایس ٹی ریونیو ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ رہا ہے۔ اگر میں ایف ڈی آئی کی بات کروں تو 2018 اپریل سے ستمبرایف ڈی آئی 22 بلین ڈالر تھا۔ آج اسی مدت میں یہ ایف ڈی آئی 26 بلین ڈالر پار کرگیا ہے اس بات کا سبق ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا ہندستان پر اعتماد بڑھا ہے۔ ہندستان کی معیشت پر اعتماد بڑھا ہے۔ اور ہندستان میں اقتصادی شعبے میں بہت زیادہ مواقع ہیں۔ یہ خیال بنا ہے تب جاکر کے لوگ آتے ہیں۔ اورغلط افواہیں پھیلانے کے باوجود لوگ باہر نکل کر کےآرہے ہیں۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔

ہمارا ویژن زیادہ سرمایہ کاری، بہتر بنیادی ڈھانچہ ، زیادہ ویلیو ایڈیشن اور زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر ہے۔

دیکھئے میں کسانوں سےبہت کچھ سیکھتا ہوں۔ کسان جو ہوتا ہے نہ تو بڑی گرمی میں کھیت جوت کرکے پیر رکھتا ہے۔ بیج بوتا نہیں اس وقت ۔ صحیح وقت پر بیج بوتا ہےاور ابھی جو پچھلے دس منٹ سےچل رہا ہے نا وہ میرا کھیت جوتنے کا کام چل رہا ہے اب برابر آ پ کے دماغ میں جگہ ہوگئی ہے ۔ اب میں ایک ایک کرکے بیج ڈالوں گا۔

صد رمحترم، مدرا یوجنا، اسٹارٹ اپ انڈیا ، اسٹینڈ اپ انڈیا ،ان اسکیموں نے ملک میں اپنے روزگار کو بہت بڑی طاقت دی ہے ۔ اتنا ہی نہیں اس ملک میں کروڑوں کروڑوں لوگ جو پہلی بار مدرا یوجنا سے لے کر کے خود تو روزی روٹی کما نے لگے ہیں لیکن کسی اور ایک کو دو کو تین کو روزگار دینے میں کامیاب ہوئے۔ اتنا ہی نہیں پہلے جن کو بینکوں سےپیسہ ملا ہے مدرا یوجنا کے تحت اس میں سے 70 فی صد ہماری مائیں اور بہنیں ہیں جو اقتصادی سرگرمی کے شعبے میں نہیں تھیں۔ یہ آج کہیں نہ کہیں معیشت کو فروغ دینے میں تعاون کررہی ہیں۔ 28 ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اپ کو منظوری دی گئی ہے اور یہ آج خوشی کی بات ہے ٹیئر 2 تین سٹی میں ہیں۔ یعنی ہمارے ملک کانوجوان نئےعزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ مدرا یوجنا کے تحت 22 کروڑ سے زیادہ قرض منظوری ہوئے ہیں اور کروڑوں نوجوانوں نے روزگار پایا ہے۔

عالمی بینک کے صنعت کاروں سے متعلق اعدادوشمار کو دیکھئے اس میں ہندستان کا دنیا کےاندر تیسرا مقام ہے۔ ستمبر 2017 سے نومبر 2019 کے درمیان ای پی ایف او پیرول ڈاٹا میں ایک کروڑ 49 لاکھ نئے سبسکرائبرس لائے ۔ یہ بغیر روزگار کے پیسے جمع نہیں کرتا ہےیہ .... میں یہ کانگریس کے نیتا کا کل مینیفسٹو سنا ، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ چھ مہینوں میں مودی کو ڈنڈےماریں گے۔ اور یہ .... یہ بات صحیح ہے کام بڑا مشکل ہے تو تیاری کے لئے چھ مہینےتو لگتے ہی ہیں۔ تو چھ مہینے کا تو اچھا ہے لیکن میں چھ مہینے طے کیا ہوں روز صبح سورج نمسکار کی تعداد بڑھادوں گا۔ تاکہ اب تک قریب 20 سے جس طرح کی گندی گالیاں سن رہا ہوں اور اپنے آپ کو گالی پروف بنادیا ہے ، چھ مہینے ایسے سورج نمسکار کروں گا ایسے سورج نمسکارکروں گا کہ میری پیٹھ کوبھی ہر ڈنڈے جھیلنے کی طاقت والا بنا د ے۔تو میں ممنون ہوں کہ پہلےسے اعلان کردیاگیا ہے کہ مجھے یہ چھ مہینے کسرت بڑھانے کا وقت ملے گا ۔

صدر محترم انڈسٹری 4.0 اور ڈیجیٹل معیشت یہ کروڑوں نئےجابس کے لئےمواقع لے کر آتی ہے۔ اسکل ڈیولپمنٹ ، نئی اسکلڈ ورک فورس کو تیار کرنا ، لیبر ریفارم ، پارلیمنٹ کے اندر پہلے ایک تجویز تو آگے بڑھائی ہے اور بھی کچھ تجاویز ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ ایوان اس کو بھی تقویت دے کر تاکہ ملک میں روزگار کےمواقع میں کوئی رکاوٹ نہ آئے ، ہم پچھلی صدی کی سوچ کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں ۔ ہم نے بدلی ہوئی عالمی صورتحال میں نئی سوچ کے ساتھان تمام تبدیلیوں کے لئے آگے آنا ہوگا۔ اور ایوان کے تمام معزز ارکان سے گذارش کرتا ہوں لیبر سے متعلق اصلاح کا کام اس کو جتنا جلدی آگے بڑھائیں گے روزگار کے نئےمواقع کے لئے آسانی ملے گی۔ اور میں یہ یقین کرتا ہوں کہ پانچ ٹریلین ڈالر انڈین اکونومی کاروبار کرنے میں آسانی ، زندگی گزارنے میں آسانی.....

صدر محترم، یہ بات صحیح ہےکہ ہم نے آنے والے دنوں میں 16 کروڑ کا بنیادی ڈھانچہ کامشن لے کر کے آگے چل رہے ہیں۔ لیکن پچھلے مدت کار میں بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ طاقت دینے کے مضبوطی دینے کے لئےبنیادی ڈھانچے کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور جتنا استحکام زیادہ انفرااسٹکچر کو دیتے ہیں وہ معیشت کو چلا تا ہے۔ روزگار کوبھی دیتا ہے ۔ نئی نئی صنعتوں کو بھی موقع دیتا ہے اور اس لئے ہم نے بنیادی ڈھانچے کے پورے کا م میں ایک نئی رفتار آئے لیکن پہلے ورنہ بنیادی ڈھانچے کا بنیادی مقصد ہوتا تھا سیمنٹ کنکریٹ کی بات بنیادی ڈھانچے کا مقصد یہی ہوتا تھا ٹینڈر کا عمل پہلےورنہ بنیادی ڈھانچہ کا مطلب یہی ہوتا تھا بچولیئے یہی بنیادی ڈھانچے کی بات ہوتی تھی تو لوگوں کو یہی لگتا تھا کہ کچھ بو آتی تھی۔

آج ہم نے شفافیت کے ساتھ 21 ویں صدی جدید بھارت بنانے کے لئے جو انفراسٹرکچر کھڑا کرتے ہیں اس پر زور دیا ہے. اور ہمارے لئے انفراسٹرکچر نہیں صرف ایک سیمنٹ کنکریٹ کا کھیل نہیں ہے یہ. میں مانتا ہوں انفراسٹرکچر ایک مستقبل لے کے آتا ہے. كرگل سے کنیا کماری اور کچھ سے كوہیما اسکو اگر جوڑنے کا کام کرنے کی طاقت ہوتی تو انفراسٹرکچر میں ہوتی ہے۔ خواہش اور حصولیابی کو جوڑنے کا کا کام انفراسٹرکچر کرتا ہے۔

 

 

 

 

 

لوگوں اور ان کے خوابوں کو پرواز دینے کی طاقت اگر کہیں پر ہے تو انفراسٹرکچر میں ہوتی ہے۔ لوگوں کی تخلیقی صلاحیت کوصارفین سے جوڑنےکا کام انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے. ایک بچے کو اسکول سے جوڑنےکا کام چھوٹا ہی کیوں نہ ہو انفراسٹرکچر کرتا ہے. ایک کسان کو مارکیٹ سے جوڑنے کام انفراسٹرکچر کرتا ہے. ایک بزنس مین کو اس کے صارفین کے ساتھ جوڑنے کا کام انفراسٹرکچر کرتا ہے. لوگوں کو لوگوں سے جوڑنے کا کام بھی انفراسٹرکچر کرتا ہے. ایک غریب حاملہ ماں کو بھی ہسپتال سے جوڑنے کا کام انفراسٹرکچر کرتا ہے. اور اس وجہ سے آبپاشی سے لے کر صنعت تک سوشل انفراسٹرکچر سے لے کر رورل انفراسٹرکچر تک، روڈز سے لے کر پورٹ تک اورایئرویز سے لے کر واٹر ویز تک ہم نے کئی ایسے اقدامات کئے۔گذشتہ 5 سال میں ملک نے دیکھا ہے. اور لوگوں نے جب دیکھا ہے تبھی تو یہاں بٹھایا ہے جی، یہی تو انفراسٹرکچر ہے جو یہاں پہنچاتا ہے.

محترم صدر، میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں ... کہ ہمارے یہاں انفراسٹرکچر کے میدان میں کس طرح کام ہوتا ہے. ہمارے یہاں انفراسٹرکچر کے میدان میں کس طرح کام ہوتا تھا، یہ صرف ہمارا دہلی کا ہی معاملہ لے لیجئے۔ یہ دلی میں ٹریفک، آب و ہوا یا ہزاروں ٹرک دہلی کے درمیان سے گزر رہے ہیں. 2009 میں یو پی اے حکومت کا عزم تھا کہ 2009 تک یہ دہلی کے اطراف جو ایکسپریس وے ہے اس کو 2009 تک مکمل کرنے کا یو پی اے حکومت کا عزم تھا. 2014 میں ہم آئے. اس وقت تک کاغذ پر ہی وہ لکیریں بن کر وہ پڑا ہوا تھا. اور 2014 کے بعد مشن موڈ میں ہم نے کام لیا اور آج پیری فیرل ایکسپریس وے کام ہو گیا. 40 ہزار سے زیادہ ٹرک آج یہاں دہلی میں نہیں آتے سیدھے باہر سے جاتے ہیں اور دہلی کو آلودگی سے بچانے میں ایک اہم قدم یہ بھی ہے. لیکن انفراسٹرکچر کی اہمیت کیا ہوتی ہے. 2009 تک مکمل کرنے کا خواب 2014 تک کاغذ کی لکیر بنكركے پڑا رہا. یہ فرق ہے. اسکو سمجھنے کے لئے تھوڑا سا ٹائم لگے گا.

محترم صدر ، کچھ اور موضوعات کو میں ذرا واضح کرنا چاہتا ہوں. ششی تھرور جی، گستاخی ہو گی لیکن پھر بھی کیونکہ کچھ لوگوں نے ذرا بار بار یہاں پر آئین بچانے کی باتیں کی ہیں. اور میں بھی مانتا ہوں. کہ آئین بچانے کی بات کانگریس کو دن میں 100 بار بولني چاہئے. کانگریس کے لئے منتر ہونا چاہئے. 100 بار آئین محفوظ کریں، آئین بچاو یہ ضروری ہے ... کیونکہ آئین کے ساتھ کب کیا ہوا اگر آئین کی عظمت سمجھتے تو آئین کے ساتھ یہ نہ ہوا ہوتا. اور اس وجہ سے جتنی بار آپ آئین بولیں گے ہو سکتا ہے کچھ چیزیں آپ کو آپ کی غلطیوں کا احساس کروا دیں. آپ ان ارادوں کو احساس کروا دے گی اور آپ کو سچ میں آئین اس ملک میں انمول ہے اس کی طاقت کا تجربہ کرائے گی.

محترم صدر، یہی موقع ہے ایمرجنسی میں آئین بچانے کا کام آپ کو یاد نہیں آیا تھا. ایمرجنسی یہی لوگ ہیں جو آئین بچانے کے لئے ان کو بار بار بولنے کی ضرورت ہے. کیونکہ عدلیہ اور عدالتی جائزہ کا حق چھینا ان کو تو آئین بار بار بولنا ہی پڑے گا.

جن لوگوں نے لوگوں سے جینے کا قانون چھیننے کی بات کہی تھی. ان لوگوں کو آئین بار بار بولنا بھی پڑے گا، پڑھنا بھی پڑے گا. جو لوگ سب سے زیادہ بار آئین کے اندر تبدیلی کرنے کی تجویز لائے ان لوگوں کو آئین بچانے کی بات بولے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے. درجنوں بار ریاستی حکومتوں کو برخاست کر دیا ہے. لوگوں کی چنی ہوئی حکومتوں کو برخاست کر دیا ہے. ان کے لئے آئین بچانا یہ بول بول کر ان سنسكاروں کو زندگی میں اتارنے کی ضرورت ہے۔

کابینہ نے ایک قرارداد منظور کی ہے. جمہوریت اور آئین سے بنی ہوئی کابینہ نے ایک قرارداد منظور کی ہے. اس تجویز کو پریس کانفرنس میں پھاڑ دینا ان لوگوں کے لئے آئین بچانے کی تعلیم لینا بہت ضروری ہے. اور اس وجہ سے ان لوگوں کو بار بار آئین بچاو کا منتر بولنا بہت ضروری ہے.

پی ایم اور پی ایم او کے اوپر نیشنل ایڈوائزری کونسل ... ریمورٹ کنٹرول سے حکومت چلانے کا طریقہ کرنے والوں کو آئین کی عظمت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

صدر محترم ، آئین کی وکالت کے نام پر دہلی اور ملک میں کیا کیا ہو رہا ہے. وہ ملک اچھی طرح دیکھ رہا ہے. سمجھ بھی رہا ہے اور ملک کی خاموشی بھی کبھی نہ کبھی تو رنگ لائے گی.

عدالت عظمی ، وہ آئین کے لئے سیدھا سیدھا ایک اہم حصہ ہے. ملک کی عدالت عظمی بار بار کہہ رہی ہے کہ تحریک ایسے نہ ہو جو عام آدمی کو تکلیف دے، تحریک ایسے نہ ہو، جو تشدد کے راستے پر چل پڑے۔

آئین بچانے کی بات والا وقت ... لیکن یہی بائیں بازو والےلوگ ، یہی کانگریس کے لوگ، یہی ووٹ بینک کی سیاست کرنے والے لوگ وہاں جا-جاکر اکسا رہے ہیں. اشتعال انگیز باتیں کر رہے ہیں۔

صدر محترم ، ایک شاعر نے کہا تھا خوب پردہ ہے، کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں. خوب پردہ ہے، کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے نہیں، سامنے آتے بھی نہیں! پبلک سب جانتی ہے، سب سمجھتی ہے۔

صدر محترم، گزشتہ دنوں جو زبانیں بولی گئیں، جس قسم کے بیان دیے گئے ہیں وہ اس کا ذکر آج ایوان کے بڑے بڑے لیڈر بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں اس کا بہت بڑا افسوس ہے. مغربی بنگال کے متاثر لوگ یہاں بیٹھے ہیں، اگر وہ وہاں کیا چل رہا ہے اس کا کچا چٹھا کھول دیں گے نہ تو دادا کو تکلیف ہوگی. بے قصور لوگوں کو کس طرح سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔

صدر محترم ، کانگریس کے وقت میں آئین کی کیا پوزیشن تھی، لوگوں کے حقوق کی صورت حال کیا تھی؛ یہ میں ذرا ان کو پوچھنا چاہتا ہوں. اگر آئین اتنا اہم ہے، جو ہم مانتے ہیں؛ اگر آپ مانتے ہوتے تو جموں و کشمیر میں ہندوستان کا آئین نافذ کرنے سے آپ کو کس نے روکا تھا؟ اسی آئین کے دیے حقوق سے جموں و کشمیر کے میرے بھائیوں بہنوں کو محروم رکھنے کا گناہ کس نے کیا تھا؟ اور ششی جی آپ تو جموں و کشمیر کے داماد رہے ہیں، ارے ان بیٹیوں کی فکر کرتے، آپ آئین کی بات کرتے ہو اور اس وجہ سے صدر محترم ، ایک معزز ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ جموں و کشمیر نے اپنی شناخت کھوئی ہے، کسی نے کہا ، کسی کی نظر میں تو جموں و کشمیر کا مطلب زمین ہی تھا۔

صدر محترم ، کشمیر میں جن کو صرف زمین نظر آتی ہے نہ ان کو اس ملک کا کچھ اندازہ ہے اور وہ ان کے دانشورانہ غربت کا تعارف کرواتا ہے. کشمیر بھارت کے سر کا تاج ہے.

صدر محترم ، کشمیر کی شناخت بم بندوق اور علیحدگی پسندی بنا دی گئی تھی. 19 جنوری، 1990، جو لوگ شناخت کی بات کرتے ہیں؛ 19 جنوری، 1990، وہ کالی رات، اسی دن کچھ لوگوں نے کشمیر کی شناخت کو دفنا دیا تھا. کشمیر کی شناخت صوفی روایت ہے، کشمیر کی شناخت تمام عقیدوں کے ساتھ یکساں رویہ ہے۔ کشمیر کے نمائندے ماں لال دیڑ، نندرشی، سید بلبل شاہ، میر سید علی ہمدانی، یہ کشمیر کی شناخت ہے.

صدر محترم ، کچھ لوگ کہتے ہیں آرٹیکل 370 ہٹانے کے بعد آگ لگ جائے گی، کیسے پیشن گوئی کرنے والے ہیں یہ. آگ لگ جائے گی، 370 ہٹانے کے بعد. اور آج جو لوگ بولتے ہیں، میں ان کو کہنا چاہتا ہوں، کچھ لوگ کہتے ہیں کچھ لیڈر جیل میں ہیں. ذرا میں اس ایوان ... یہ آئین کی حفاظت کرنے والا ایوان ہے، یہ آئین کو وقف ایوان ہے، یہ آئین کا فخر کرنے والا ایوان ہے، یہ آئین کے لئے ذمہ داری نبھانے والے اراکین سے بھرا ہوا ایوان ہے ..... میں تمام معزز اراکین کی روح کو آج چھو نے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں، اگر ہے تو.

صدر محترم، محبوبہ مفتی جی نے 5 اگست کو کیا کہا تھا محبوبہ مفتی جی نے کہا تھا، اور آئین کو وقف لوگ ذرا توجہ سے سنیں، محبوبہ مفتی جی نے کہا تھا، بھارت نے ... یہ الفاظ بڑے سنجیدہ ہیں، انہوں نے کہا تھا-بھارت نے کشمیر کے ساتھ دھوکہ کیا ہے. ہم نے جس ملک کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا، اس نے ہمیں دھوکہ دیا ہے. ایسا لگتا ہے کہ ہم نے 1947 میں غلط انتخاب کر لیا تھا. کیا یہ آئین کو ماننے والے لوگ اس قسم کی زبان کو قبول کر سکتے ہیں کیا؟ ان کی وکالت کرتے ہو؟ ان کی حمایت کرتے ہو؟ اسی طرح سے جناب عمر عبداللہ جی نے کہا تھا، انہوں نے کہا تھا آرٹیکل 370 کا ہٹانا ایسا زلزلہ لے آئے گا کہ کشمیر بھارت سے الگ ہو جائے گا۔

صدر محترم، فاروق عبداللہ جی نے کہا تھا 370 کا ہٹایا جانا کشمیر کے لوگوں کی آزادی کی راہ ہموار کرے گا. اگر 370 ہٹائی گئی تو بھارت کا جھنڈا لہرانے والا کشمیر میں کوئی نہیں بچے گا. کیا اس زبان سے، اس جذبے سے کیا ہندوستان کے آئین کو وقف کوئی بھی شخص اسے قبول کر سکتا ہے، کیا اس سے اتفاق ہو سکتا ہے؟ میں یہ بات ان کے لئے کہہ رہا ہوں جن کے پاس روح ہے۔

صدر محترم، یہ وہ لوگ ہیں جن کو کشمیر کی عوام پر اعتماد نہیں ہے اور اس وجہ سے ایسی زبان بولتے ہیں. ہم وہ ہیں جن کو کشمیر کے عوام پر بھروسہ ہے۔ ہم نے بھروسہ کیا، ہم نے کشمیر کے عوام پر بھروسہ کیا اور آرٹیکل 370 کو ہٹایا. اور آج تیز رفتار سے ترقی بھی کر رہے ہیں. اور اس ملک کے کسی بھی علاقے کے حالات خراب کرنے کی منظوری نہیں دی جاسکتی چاہے وہ کشمیر ہو، چاہے نارتھ ایسٹ ہو، چاہے کیرل ہو، کوئی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی. ہمارے وزیر بھی گزشتہ دنوں مسلسل جموں کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں، عوام کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں. عوام کے ساتھ بات چیت کرکے وہاں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں۔

صدر محترم، میں آج اس ایوان سے جموں و کشمیر کے روشن مستقبل کے لئےجموں و کشمیر کی ترقی کے لئے، جموں و کشمیر کے لوگوں کی امید-توقعات کو پورا کرنے کے لئے ہم پابند عہد ہیں۔ ہم آئین کو وقف لوگ سب کے سب پابند عہد ہیں. لیکن ساتھ ساتھ میں لداخ کے بارے میں بھی کہنا چاہوں گا.

صدر محترم، ہمارے ملک میں سکم ایک ایسا صوبہ ہے جس نے اپنے آپ کو ایک ارگینك اسٹیٹ کے طور پر اس نے اپنی شناخت بنائی ہے. اور ایک طرح سے ملک کی کئی ریاستوں کو سکم جیسے چھوٹی ریاست نے ترغیب دی ہے. سکم کے کسان، سکم کے شہری اس کے لئے ابھینندن کے مستحق ہیں۔ لداخ میں مانتا ہوں لداخ کے بارے میں میرے ذہن میں بہت صاف تصویر ہے. اور اس طرح ہم چاہتے ہیں کہ لداخ جس طرح سے ہمارے پڑوس میں بھوٹان کی تعریف ہوتی ہے، آ ب و ہوا کو لے کر، کاربن نیوٹرل ملک کے طور پر دنیا میں اس کی شناخت بنی ہے. ہم اہل وطن یہ عزم کرتے ہیں اور ہم سب کو عزم کرنا چاہئے کہ ہم لداخ کو بھی ایک کاربن نیوٹرل یونٹ کے طور پر فروغ دے کر ملک کے لئے ایک شناخت بنائیں گے. اور اس کا فائدہ آنے والی نسلوں کو ایک ماڈل کے طور پر مل جائے گا، ایسا مجھے پورا یقین ہے. اور میں جب لداخ جاؤں گا، ان کو ان کے ساتھ رہ کر میں اس کا ایک ڈیزائن بنانے کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہوں۔

صد رمحترم ، یہاں پر جو ایک قانون ایوان نے منظور کیا، جو ترمیم دونوں ایوانوں میں منظور ہوئی، جو نوٹی فائی ہو گیا، اس سلسلے میں بھی کچھ نہ کچھ کوششیں ہو رہی ہیں CAA لانے کی. کچھ لوگ کہہ رہے ہیں CAA لانے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ کچھ معزز اراکین نے یہ کہا کہ یہ حکومت امتیازی سلوک کر رہی ہے، یہ حکومت ہندو اور مسلم کر رہی ہے. کچھ نے کہا کہ ہم ملک کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، بہت کچھ کہا گیا اور یہاں سے باہر بہت کچھ بولا جاتا ہے.خیالی خوف پیدا کرنے کے لئے پوری طاقت لگا دی گئی ہے. اور وہ لوگ بول رہے ہیں جو ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں کے لئے بغل میں کھڑے ہو کر جو لوگ فوٹو كھچواتے ہیں. دہائیوں سے پاکستان یہی زبان بولتا آیا ہے، پاکستان یہی باتیں کر رہا ہے.

بھارت کے مسلمانوں کو بھڑکانے کے لئے پاکستان نے کوئی کسر چھوڑی نہیں. بھارت کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے پاکستان نے ہر کھیل کھیلے ہیں، ہر رنگ دکھائے ہیں. اور اب ان کی بات چلتی نہیں ہے، پاکستان کی بات بڑھ نہیں پا رہی ہے. پھر جب میں حیران ہوں کہ جن کو ہندوستان کی عوام نے اقتدار کے تخت سے گھر بھیج دیا، وہ آج اس کام کو کر رہے ہیں جو کبھی یہ ملک سوچ بھی نہیں سکتا تھا. ہمیں یاد دلایا جا رہا ہے کہ ؛؛؛ انڈیا کا نعرہ دینے والے، جے ہند کا نعرہ دینے والے ہمارے مسلم ہی تھے. دقت یہی ہے کہ کانگریس اور اس کی نظر میں یہ لوگ ہمیشہ ہی صرف اور صرف مسلم تھے. ہمارے لئے، ہماری نظر میں وہ بھارتیہ ہیں، ہندوستانی ہیں. خان عبدالغفار خان ہو

 

 

 

 

 

صدر محترم، میری خوش قسمتی ہے کہ لڑکپن میں خان عبدالغفار خان جی کے چرن چھونے کا مجھے موقع ملا تھا. میں اسے اپنے لئے فخر کی بات مانتا ہوں۔

صدر محترم، خان عبدالغفار خان ہو، اشفاق اللہ خاں ہوں بیگم حضرت محل ہوں، ویر شہید عبدالکریم ہوں یا سابق راشٹرپتی جناب اے پی جے عبدالکلام ہوں، سب کے سب ہماری نظر سے ہندوستانی ہیں۔

صدر محترم،کانگریس اور اس کی طرح جماعتوں نے جس دن بھارت کو بھارت کی نظر سے دیکھنا شروع کیا، اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا، ہوگا ، ہوگا، میں کانگریس کا اور ان کے ایکو سسٹم کا بھی بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے سی اے اے کو لے کر کے شور شرابہ مچائے رکھا ہوا ہے. اگر یہ مخالفت نہیں کرتے، یہ اتنا شور شرابہ نہیں کرتے تو شاید ان کا اصلی روپ ملک کو پتہ ہی نہیں چلتا. یہ ملک نے دیکھ لیا ہے کہ پارٹی کے لئے کون ہے اور ملک کے لئے کون ہے. اور میں چاہتا ہوں، 'جب بحث نکل پڑی ہے تو بات دور تک چلی جائے گی'.

صدر محترم، وزیر اعظم بننے کی خواہش کسی کی بھی ہو سکتی ہے اور اس میں کچھ برا بھی نہیں ہے. لیکن کسی کو وزیر اعظم بننا تھا اس ہندوستان پر ایک لکیر کھینچی گئی اور ملک کو تقسیم کر دیا گیا. تقسیم کے بعد جس طرح پاکستان میں ہندوؤں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں پر ظلم ہوا، ظلم ہوا، زور زبردستی ہوئی اسکا تصور تک نہیں کیا جا سکتا. میں کانگریس کے ساتھیوں سے ذرا پوچھنا چاہتا ہوں، کیا آپ نے کبھی بھوپندر کمار دت کا نام سنا ہے؟ کانگریس کے لئے جاننا بہت ضروری ہے اور جو یہاں نہیں ہیں ان کو بھی جاننا ضروری ہے.

بھوپندر کمار دت ایک وقت میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں تھے، اس کے رکن تھے۔ جنگ آزادی کے دوران 23 سال انہوں نے جیل میں گزارے تھے. وہ ایک ایسے عظیم انسان تھے جنہوں نے انصاف کے لئے 78 دن جیل کے اندر بھوک ہڑتال کی تھی اور یہ بھی ان کا نام ایک ریکارڈ ہے. تقسیم کے بعد بھوپندر کمار دت پاکستان میں ہی رک گئے تھے. وہاں کی آئین ساز اسمبلی کے وہ رکن بھی تھے. جب آئین کا کام چل ہی رہا تھا، ابھی تو آئین کا کام چل ہی رہا تھا، آغاز ہی ہوا تھا اور اس وقت بھوپندر کمار دت نے اسی آئین ساز اسمبلی میں جو کہا تھا، اسے آج میں دہرانا چاہتا ہوں. کیونکہ جو لوگ ہم پر الزام لگا رہے ہیں ان کیلئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے.

بھوپندر کمار دت نے کہا تھا

So for as this side of Pakistan is concerned, the minorities are practically liquidated. Those of us who are here to live represent near a crore of people still left in East Bengal, live under a total sense of frustration

 

. یہ بھوپندر کمار دت نے تقسیم کے فورا بعد وہاں کی آئین ساز اسمبلی میں یہ الفاظ کہے تھے۔ یہ حالت تھی، آزادی کے آغاز کے دنوں سے ہی اقلیتوں کی، وہاں کے اقلیتوں کی. اس کے بعد پاکستان میں صورت حال اتنی خراب ہو گئی کہ بھوپندر دت کو بھارت آ کر پناہ لینی پڑی اور بعد میں ان کا انتقال بھی یہ ماں بھارتی کی گود میں ہوا.

صدر محترم تب کے پاکستان میں ایک اور بڑے مجاہد آزاد ی رک گئے تھے، جوگیندر ناتھ منڈل. وہ معاشرے کے بہت ہی مظلوم، استحصال، کا شکار کچلے ہوئے سماج کی نمائندگی کرتے تھے۔ انہیں پاکستان کا پہلا وزیر قانون بھی بنایا گیا تھا. 9 اکتوبر، 1950- اب آزادی کے اور بٹوارے کے دو تین سال ہوئے تھے. 9 اکتوبر، 1950 کو انہوں نے اپنا استعفی دے دیا تھا. ان کے استعفی کے ایک پیراگراف استعفی میں جو لکھا تھا اس کو میں کوٹ کرنا چاہتا ہوں. انہوں نے لکھا تھا-

- I must say that the policy of driving out Hindus from Pakistan has succeeded completely in West Pakistan and is nearing completion in East Pakistan.

 

انہوں نے مزید کہا تھا

Pakistan has not given the Muslim League entire satisfaction and a full sense of security. They now want to get rid of the Hindu intelligentsia so that the political economic and social life of Pakistan may not in anyway influenced by them.

. یہ منڈل جی نے اپنے استعفی میں لکھا تھا. انہیں بھی آخر کار بھارت ہی آنا پڑا اور ان کا انتقال بھی ماں بھارتی کی گود میں ہوا. اتنے دہائیوں کے بعد بھی

 

پاکستان کی سوچ نہیں بدلی. وہاں آج بھی اقلیتوں پر ظلم ہو رہے ہیں. ابھی ابھی ننکانہ صاحب کے ساتھ کیا ہوا، وہ سارے ملک اور دنیا نے دیکھا ہے. اور یہ ایسا ہی نہیں ہے کہ صرف ہندو اور سکھوں کے ساتھ ہوتا ہے، اور بھی اقلیتوں کے ساتھ ایسا ہی ظلم وہاں ہوتا ہے. عیسائیوں کو بھی ایسی ہی تکلیف جھیلنی پڑتی ہے.

ایوان میں بحث کے درمیان گاندھی جی کے بیان کو لے کر کے بھی بات کہی گئی. کہا گیا کہ سی اے اے پر حکومت جو کہہ رہی ہے، وہ گاندھی جی کا منشا نہیں تھی۔

ٹھیک ہے، کانگریس جیسی پارٹیوں نے تو گاندھی جی کی باتوں کو دہائیوں پہلے چھوڑ دیا تھا. آپ نے تو گاندھی جی کو چھوڑ دیا ہے اور اس لیے میں اور نہ ملک آپ سے کوئی توقع کرتا ہے، لیکن جس کی بنیاد پر کانگریس کی روزی روٹی چل رہی ہے، میں آج ان کی بات کرنا چاہتا ہوں.

1950 میں نہرو لیاقت معاہدہ ہوا. بھارت اور پاکستان میں رہنے والے اقلیتوں کی حفاظت کو لے کر کے یہ معاہدہ ہوا. معاہدے کی بنیاد پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوگا. پاکستان میں رہنے والے جو لوگ ہیں، اس میں جو مذہبی اقلیت ہیں، جس کی بات ہم بول رہے ہیں، اس کے بارے میں نہرو اور لیاقت کے درمیان میں ایک معاہدہ ہوا تھا. اب کانگریس کو جواب دینا ہوگا، نہرو جیسے اتنے بڑے سیکولر ، نہرو جیسے اتنے بڑے عظیم مفکر، اتنے بڑے ویژنری اور آپ کے لئے سب کچھ. انہوں نے اس وقت وہاں کی اقلیت کے بجائے 'سارے شہری' ایسا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا. اگر اتنے ہی عظیم تھے، اتنے ہی لبرل تھے تو کیوں نہیں کیا بھائی، کوئی تو سبب ہوگا۔ لیکن اس حقیقت کو آپ کب تک جھٹھلاوگے۔

بھائیو اور بہنو، محترم صدر اور معزز ارکان، یہ اس وقت کی بات ہے، یہ میں اس وقت کی بات بتا رہا ہوں. نہرو جی معاہدے میں پاکستان کی اقلیتوں، اس بات پر کس طرح مان گئے، ضرور کچھ نہ کچھ وجہ ہوگی. جو بات ہم بتا رہے ہیں آج، وہی بات اس وقت نہرو جی نے بتائی تھی.

صدر محترم،نہرو جی نے اقلیت لفظ کیوں استعمال کیا، یہ آپ بولیں گے نہیں کیونکہ آپ کو تکلیف ہے. لیکن نہروجی خود اس کا جواب دے کر گئے ہیں. نہروجی نے نہرو لیاقت معاہدہ سائن ہونے کے ایک سال پہلے آسام کے سابق وزیر اعلی مسٹر گوپی ناتھ جی کو ایک خط لکھا تھا. اور گوپي ناتھ جي کو خط میں جو لکھا تھا، اسے میں کوٹ کرنا چاہتا ہوں.

نہرو جی نے لکھا تھا- آپ کو ہندو پناہ گزینوں اور مسلم مہاجرین، ان کے درمیان فرق کرنا ہی ہوگا. اور ملک کو ان پناہ گزینوں کی ذمہ داری لینی ہی پڑے گی. اس وقت آسام کے وزیر اعلی کو اس وقت کے ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت نہروجی کا لکھا ہوا خط ہے. نہرو لیاقت معاہدے کے بعد چند ماہ کے اندر ہی نہروجی کا اسی پارلیمنٹ کے فلور پر 5 نومبر، 1950، نہروجی نے کہا تھا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو متاثر لوگ بھارت میں سیٹل ہونے کے لئے آئے ہیں، یہ شہریت ملنے کے حقدار ہیں اور اگر اس کے لئے قانون موزوں نہیں ہے تو قانون میں تبدیلی کی جانی چاہئے۔

1963 میں لوک سبھا میں، اسی ایوان میں اور اسی جگہ سے، 1963 میں کال اٹینشن موشن ہوا۔ اس وقت وزیر اعظم نہرو وقت کے وزیر خارجہ کے طور پر بھی ذمہ داری سنبھال رہے تھے. موشن کا جواب دینے کے لئے وزیر مملکت برائے خارجہ جناب دنیش جی جب بول رہے تھے تو آخر میں وزیر اعظم نےنہرو جی نے بیچ میں انہیں ٹوکتے ہوئے کہا تھا اور انہوں نے جو کہا تھا، میں کوٹ کرتا ہوں- مشرقی پاکستان میں وہاں کی اتھارٹی ہندوؤں پر زبردست دباؤ بنا رہی ہے، یہ پنڈت جی کا بیان ہے. پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے، گاندھی جی نہیں، نہرو جی کا بھی جذبہ یہی ر ہا تھا۔ اتنے سارے دستاویزات ہیں، خطوط ہیں، اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ ہے، سبھی اسی طرح کے قانون کی وکالت کرتے رہے ہیں.

میں نے اس ایوان میں حقائق کی بنیاد پر، اب میں کانگریس سے خاص طور پر پوچھنا چاہتا ہوں اور ان کے ایکو سسٹم بھی یہ میرے سوال سمجھے گی۔ جو یہ ساری باتیں میں نے بتائیں، کیا پنڈت نہرو کمیونل تھے؟ میں ذرا جاننا چاہتا ہوں. کیا پنڈت نہرو ہندو مسلم میں امتیاز کیا کرتے تھے؟ کیا پنڈت نہرو ہندو راشٹر بنانا چاہتے تھے؟

 

صدر محترم ، کانگریس کی دقت یہ ہے وہ باتیں بناتی ہے، جھوٹے وعدے کرتی ہے اور کئی دہائیوں تک وہ وعدوں کو ٹالتی رہتی ہے. آج ہماری حکومت اپنے قوم کے معماروں کے جذبات پر چلتے ہوئے فیصلے لے رہی ہے تو کانگریس کو دقت ہو رہی ہے. اور میں پھر سے واضح کرنا چاہتا ہوں، اس ایوان کے ذریعے، اس ملک کے 130 کروڑ شہریوں کو، بڑی ذمہ داری کے ساتھ آئین کی اقدار کو سمجھتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں، آئین کے تئیں سپردگی کے جذبے سے کہنا چاہتا ہوں، ملک کے 130 کروڑ شہریوں سے کہنا چاہتا ہوں سی اے اےاس ایکٹ سے ہندوستان کے کسی بھی شہری پر کسی بھی قسم کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے. چاہے وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، کسی پر نہیں ہونے والا. اس سے بھارت کی اقلیت کو کوئی نقصان ہونے والا نہیں. پھر بھی جن لوگوں کو ملک کے عوام نے مسترد کردیا ہے، وہ لوگ ووٹ بینک کی سیاست کرنے کے لئے یہ کھیل کھیل رہے ہیں.

اور میں ذرا پوچھنا چاہتا ہوں. میں کانگریس کے لوگوں سے خاص طور پر پوچھنا چاہتا ہوں جو اقلیت کے نام پر اپنی سیاسی روٹیاں سیکتے رہتے ہیں، کیا کانگریس کو 84 کے دہلی کے فسادات یاد ہیں، کیا اقلیت کے ساتھ، کیا وہ اقلیت نہیں تھی؟ کیا آپ ان لوگوں کے ہمارے سکھ بھائیوں کے گلے میں ٹائر باندھ باندھ کرکے انہیں جلا دیا تھا. اتنا ہی نہیں، سکھ فسادات کے ملزمان کو جیل میں تک بھیجنے کا کام آپ نے کیا ہی نہیں. اتنا ہی نہیں، آج جن پر الزام لگے ہوئے ہیں، سکھ فسادات کو بھڑکانے کے جن پر الزام لگے ہیں، ان آج وزیر اعلی بنا دیتے ہو. سکھ فسادات کے ملزمان کو سزا دلانے میں ان ہماری بیوہ ماں کو تین تین دہائی تک انصاف کے لئے انتظار کرنا پڑا. کیا وہ اقلیت نہیں تھی؟ کیا اقلیت کے لئے دو دو ترازوں ہوں گے؟ کیا یہی آپ کے طریقے ہوں گے؟

صد ر محترم ، کانگریس پارٹی جس نے اتنے سالوں تک ملک پر راج کیا، آج وہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ جس کے پاس ایک ذمہ دار اپوزیشن کے طور پر ملک کی توقعات تھیں، وہ آج غلط راستے پر چل پڑے ہیں. یہ راستہ آپ کو بھی مصیبت پیدا کرنے والا ہے، ملک کو بھی بحران میں ڈالنے والا ہے. اور یہ انتباہ میں اس لیے دے رہا ہوں، ہم سب کو ملک کی فکر ہونی چاہیے، ملک کے روشن مستقبل کی فکر ہونی چاہئے.

آپ سوچئے، اگر راجستھان کی اسمبلی کوئی فیصلہ کرے، کوئی انتظام کھڑا کرے اور راجستھان میں وہ کوئی ماننے کو تیار نہ ہو، جلسے جلوس نکالیں، تشدد کریں، آتش زنی کریں، آپ کی حکومت ہے- کیا صورت بنے گی؟ مدھیہ پردیش آپ وہاں بیٹھے ہیں. مدھیہ پردیش کی اسمبلی کوئی فیصلہ کرے اور وہاں کے عوام اس کے خلاف اسی طرح سے نکل پڑے، کیا ملک ایسے چل سکتا ہے کیا؟

آپ نے اتنا غلط کیا ہے اسی لیے تو وہاں بیٹھنا پڑا ہے. یہ آپ کے ہی کارناموں کا نتیجہ ہے کہ عوام نے آپ کو وہاں بٹھایا ہے. اور اس وجہ سے جمہوری طریقے سے ملک میں ہر ایک کو اپنی بات بتانے کا حق ہے. لیکن جھوٹ اور افواہیں پھیلا کر، لوگوں کو گمراہ کرکے ہم کوئی ملک کا بھلا نہیں کر پائیں گے.

اور اس لئے میں آج آئین کی باتیں کرنے والوں کو خاص طور پر درخواست کرتا ہوں،آئیے

آئین کا احترام کریں۔

آیئے مل بیٹھ کرکے ملک چلائیں،

آیئے- ملک کو آگے لے جائیں. 5 ٹریلین ڈالر اکنامی کے لئے ایک عزم لے کرکے ہم چلیں.

آیئے- ملک کے 15 کروڑ خاندان، جن کے پینے کا صاف پانی نہیں مل رہا ہے، وہ پہنچانے کا عزم کریں۔

آیئے- ملک کے کسان ہوں، ماہی گیر ہوں، مویشی پالنے والے ہوں، ان کی آمدنی بڑھانے کے لئے ہم کاموں کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھائیں.آیئے - ملک کے ہر غریب کو پکا گھر لینے کے کام کو ہم مل کر کے آگے بڑھنے تاکہ ان کو پکا گھر ملے.

آیئے ہر پنچایت کو براڈ بینڈ کنیکٹی ویٹی دیں۔

آیئے ایک بھارت شریشٹھ بھارت بنانے کا عزم لے کر کے ہم آگے بڑھیں۔

صدر محترم، بھارت کے روشن مستقبل کے لئے ہم مل بیٹھ کر آگے چلیں اسی ایک جذبے کے ساتھ میں عزت مآب صد رجمہوریہ ہندکا بہت بہت شکریہ کرتے ہوئے، میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ کا بھی میں خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

U-978


(Release ID: 1606735) Visitor Counter : 601