صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت
نیشنل میڈیکل کمیشن (این ایم سی )بل 2019 کے بارے میں اکثر پوچھے جانے والے سوالات
Posted On:
06 AUG 2019 9:58AM by PIB Delhi
دفعہ 32 : درمیانہ درجے کے کمیونٹی ہیلتھ پروائڈر کو پریکٹس کرنے کا محدود لائسنس :
نئیدہلی 06 اگست ۔بھارت میں آبادی کے لحاظ سے ڈاکٹروںکا تناسب ایک ہزار 456 کے مقابلے ایک ہے۔ جبکہ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او ) کے معیار کے مطابق 1000 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر ہوناچاہئے ۔اس کے علاوہ شہری اور دیہی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کے تناسب میں بھی زبردست فرق پایا جاتا ہے ۔شہری علاقوںمیں 3.8 ڈاکٹروں کے مقابلے میں دیہی علاقوںمیں صرف ایک ڈاکٹر پایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دیہی اور غریب آبادی کا بیشتر حصہ اچھے معیار کی صحت کی دیکھ بھال سے محرو م رہتا ہے اوروہ لوگ نیم حکیموں کے چنگل میں پھنس جاتے ں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس وقت ایلوپیتھک دواؤں کی پریکٹس کرنے والے 57.3فیصد افراد میڈیکل لیاقت کے حامل نہیں ہیں۔
اس سال کی بجٹ تقریر میں جس شاندار آیوشمان بھارت اسکیم کا اعلان کیا گیا تھا ،اس کے مطابق اگلے تین سے پانچ برسوں میں جامع بنیادی اوراحتیاطی دیکھ بھال کے درمیان درجے کے ایک لاکھ50 ہزار پرووائڈروں کی ضرورت ہوگی۔ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے میں سات آٹھ سال لگیں گے ۔ اس لئے عارضی طورپر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ درمیان درجے کے خصوصی طور پر تربیت یافتہ پرووائڈروں پر انحصار کیا جائے جو صحت مراکزکا کام سنبھال سکیں۔
بین الاقوامی طورپر اس طرح کی مثالیں موجود ہیں کہ اس طرح کے کمیونٹی صحت کارکنوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تھائی لینڈ ، برطانیہ ،چین اوریہاں تک کہ نیویارک میں بھی کمیونٹی صحت کارکنوں / نرسوں کو صحت خدمات کے اصل دھارے میں کام کرنے کی اجازت دی گئی جس کے نتیجے میں بہتر صحت خدمات فراہم ہوئیں ۔ہمارے یہاں ڈاکٹروں اور خصوصی طبی ماہرین کی کمی ہے ،اس لئے درمیانہ درجے کے پرووائڈروں کی خدمات حاصل کرنے کی وجہ سے خصوصی طبی ماہرین کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا ،جن پر پہلے ہی کام کا بوجھ زیادہ ہے۔یہ محض ایک ضابطہ ہے کہ بنیادی اور احتیاطی صحت کی دیکھ بھال کے سلسلے میں محدود لائسنس دیا جائے تاکہ درمیان درجے کے اس طرح کے افراد پریکٹس کرسکیں جو متعلقہ طریقہ کار پر پورا اترے ۔ یہ طریقہ کار ڈاکٹروں کی زبردست اکثریت سے منظور کیا جائے گا۔ چھتیس گڑھ اور آسام میں کمیونٹی صحت کارکنوں کے سلسلے میں تجربہ کیا گیا ہے ۔ آزاد جائزے کے مطابق ( جو ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیتھ نے انجام دیا ہے ) ان لوگوں نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر درمیانہ درجے کے پرووائڈروں کے بارے میں ضابطے پر سختی سے عمل کیا جائے تو تشویش کی کوئی بات نہیں ہے ۔
دفعہ 15: این ای ایکس ٹی امتحان:
میڈیکل تعلیم (ایم ای ) ایک خصوصی شعبہ ہے ،جس میں خاص توجہ تکنیکی صلاحیت پر دی جاتی ہے۔ آخری سال کا ایک مشترکہ انڈر گریجویٹ امتحان (این ای ایکس ٹی ) جو ڈاکٹروں کے لئے معلومات اور صلاحیت کے مشترکہ معیارات پر مشمل ہوتا ہے ۔ ملک گیر پر کرایا جاتا ہے۔
مشترکہ معیارات کو یقینی بنانے کے لئے ایک ضابطہ وضع کیا گیا ہے۔یوجی سطح کی کلینکل پریکٹس اور تھیوری کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے مناسب وقت پر این ای ایکس ٹی کو بروئے کار لانے کے ضابطے بنائے جائیں گے ۔ این ایم سی میں 75فیصدڈاکٹر مرکزی اور ریاستی اداروں ، کونسلوں اور صحت یونیورسٹیوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔این ایم سی کی اس طرح کی ہیئت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ تھیوری اور کلینکل صلاحیت دونوں کی پابندی کی جائے ۔اگلا این ای ایکس ٹی چالو ہوجانے سے پہلے تین سال کا وقفہ ہے ،جس میں امتحان کی شکل وصورت کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کی کافی گنجائش موجود ہے۔
دفعہ 10( ایک )(آئی ) : فیس کے بارے میں ضابطہ مقرر کرنا :
1956 کے آئی ایم سی ایکٹ میں فیس کو باضابطہ بنانے کا کوئی طریقہ مقرر نہیں ہے ۔اس کے نتیجے میں بعض ریاستیں ،کالج انتظامیہ کے ساتھ دستخط کردہ مفاہمت نامے کے ذریعہ پرائیویٹ کالجوں میں بعض سیٹوں کی فیس طے کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے ایک عبوری اقدام کے طورپر پرائیویٹ کالجوں میں فیس مقرر کرنے کے بارے میں ہائی کورٹ کے ریٹائر ججوں کی سربراہی میں کمیٹیاں قائم کررکھی ہیں۔ ڈیمڈ ٹوبی یونیورسٹیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کمیٹیوں کے تحت نہیں آتیں ۔
ملک میں ایم بی بی ایس سیٹوں کی تقریباََ 50 فیصد تعداد سرکاری کالجوں میں ہے ۔ جن کی فیس برائے نام ہے باقی کی سیٹوں میں سے 50 فیصد کو این ایم سی کے ذریعہ منضبط کیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک میں کل سیٹوں کا 75فیصد حصہ مناسب فیس پر دستیاب ہوگا۔ وفاق کے جذبے کے تحت ریاستی حکومتوں کو یہ آزادی حاصل ہوگی کہ وہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں ان کالجوں کے ساتھ دستخط کئے گئے باہمی رضا مندی کی بنیاد پر مفاہمت ناموںکی بنیاد پر باقی سیٹوںکی فیس کے بارے میں فیصلہ کرسکیں ۔
ریاستیں لیاقت /ذرائع کی بنیا د پر اسکالر شپ فراہم کرتی ہیں اور وہ تمام طلبا کو سستی میڈیکل تعلیم فراہم کرنے کی خاطر یہ سلسلہ جاری رکھیں گی۔ ہمیں سیٹوں میں توسیع کرنے کی خاطر غریب لیکن لائق طلبا اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے پروموٹروں کے مفادات کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ غیر منضبط سیٹوں کے سلسلے میں کالجوںکو فیس میں یکطرفہ طور پر اضافہ کرنے کی آزادی ہوگی۔ این ای ایکس ٹی نتائج کے ذریعہ فراہم کردہ شفافیت کے نتیجے میں مارکیٹ فورسوں کے ذریعہ فیس کو منضبط کیا جاسکے گا۔ کالجوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہوگی جو ان کی طرف سے چارج کی جانے والی فیس کے مطابق ہوگی ورنہ ان کے انتظامیہ کے کوٹے کی سیٹیں لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔
میڈیکل اداروں کے لئے درجہ بندی ایم اے آر بی کے ذریعہ کی جائے گی اور یہ تعلیم /تربیت کے معیار کی بنیاد پر ہوگی۔ اس سے مارکیٹ فورسوں کے ذریعہ فیس کو منضبط کرنے میں مدد ملے گی۔
کسی کی اثباتی کارروائی کے لئے ذمہ داری کا امتحان پاس کرنا ہوگا۔ بھارت میں متوسط طبقے کے افرادکی آبادی زیادہ ہے۔ آج کی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے تمام طبقوں کے لئے بنیادی ڈھانچہ تشکیل دے ۔
ہم میڈیکل تعلیم کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج مالی لحاظ سے مضبوط ہوں ۔سرکاری سیکٹر میں مزیدسیٹیں تشکیل دینے کی ذمہ داری سے اس حکومت نے اپنا دامن نہیں بچایا ہے ۔ ہم نے پچھلے پانچ برسوں میں سرکاری سیٹوں کی تشکیل کے لئے دس ہزار کروڑروپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے اور ہم میڈیکل تعلیم کے شعبے کو فروغ دینے کے لئے 30 ہزارکروڑروپے سے زیادہ کی لاگت سے 21 نئے ایمس قائم کررہے ہیں ۔ سرکاری سیٹوں کی تشکیل کا یہ رجحان مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔
میڈیکل تعلیم کو صرف رئیسوں کے لئے محدود کرنے کا این ایم سی بل میں کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔اس کے برخلاف سبھی جانتے ہیں کہ این ای ای ٹی میں اصلاحات اور ہماری حکومت کی طرف سے متعارف کردہ مشترکہ صلاح ومشورے کے سلسلے سے پہلے مال دار طلبا جو بڑی بڑی فیس اور بے حساب کتاب عطیات دینے کے متحمل ہوسکتے تھے، وہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کرلیتے تھے۔ ہماری اصلاحات نے میڈیکل تعلیم میں کالے دھن کے رول کو محدود کردیا ہے اور این ایم سی بل کے ذریعہ ان اصلاحات کو قانونی تحفظ حاصل ہوجائے گا۔
ایک اور غلط خیال جس کو اچھالا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ مجوزہ ضابطے ک ےذریعہ لیاقت کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا۔ یہ خام خیالی سچائی سے بہت دورہے ۔اس سے پہلے کا ضابطہ یہ تھا کہ ایسا کوئی بھی طالبعلم جو بارہویں سطح کے امتحان میں 50فیصد نمبر حاصل کرلیتاتھا اور ایم بی بی ایس کورسوں میں داخلہ لینے کا مجاز ہوجاتا تھا۔کالج ، طلبا کے ساتھ بات چیت کرتے تھے اور بالکل ہی غیر شفاف طریقے پر داخلے کے خوداپنے ٹیسٹ کرایا کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے غیر مستحق طلبا کو داخلہ مل جاتا تھا ،لیکن اب صرف این ای ای ٹی سے پاس شدہ طلبا ہی داخلہ لے سکتے ہیں ،جس کی وجہ سے یہ بات یقینی بن جاتی ہے کہ داخلے میں صرف لیاقت کا لحاظ رکھا گیا ہے۔بادآ
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
U-3610
(Release ID: 1581333)
Visitor Counter : 230