وزیراعظم کا دفتر
‘من کی بات2.0 ’کی پہلی کڑی میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن (30.06.2019)
Posted On:
30 JUN 2019 12:08PM by PIB Delhi
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! ایک لمبے وقفے کے بعد، پھر سے ایک بار، آپ سب کے بیچ، ‘من کی بات’، جن کی بات، جن-جن کی بات، جن-من کی بات اس کا ہم سلسلے وار شروعات کر رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں بہت مشغولیت تھی لیکن ‘من کی بات’ کا جو مزہ ہے، وہ غائب تھا۔ ایک کمی محسوس کر رہا تھا۔ اپنوں کے بیچ بیٹھ کے، ہلکے پھلکے ماحول میں، 130 کروڑ ہم وطنو کے باشندوں کےخاندانوں کے ایک رکن کے طور پر، کئی باتیں سنتے تھے، دہراتے تھے اور کبھی کبھی اپنی ہی باتیں، اپنوں کے لیے تحریک بن جاتی تھی۔آپ تصور کرسکتے ہیں اس بیچ کاوقت گیا ہوگا، کیسے گیا ہوگا۔اتوار، آخری اتوار-11 بجے، مجھے بھی لگتا تھا کہ ارے، کچھ چھوٹ گیا – آپ کو بھی لگتا تھا نا! ضرور لگتا ہوگا۔ شاید، یہ کوئی بے جان پروگرام نہیں تھا۔ اس پروگرام میں زندگی تھی ،، اپنا پن تھا، من کا لگاؤ تھا، دلوں کو جڑاؤ تھا، اور اس کی وجہ، بیچ کا جو وقت تھا، وہ وقت بہت ہی مشکل لگا مجھے۔ میں ہر پل کچھ کھویا ہوا محسوس کر رہا تھا اور جب میں ‘من کی بات’ کرتا ہوں تب، بولتا بھلے میں ہوں، الفاظ شاید میرے ہیں، آواز میری ہے، لیکن، داستان آپ کی ہے، خواہشات آپ کے ہیں، طاقت آپ کی ہے، میں تو صرف، اپنے الفاظ، اپنی آواز کا استعمال کرتا تھا اور اس کی وجہ سے اس پروگرام کو نہیں، آپ کویاد کر رہا تھا۔ ایک خالی پن محسوس کر رہا تھا۔ ایک بار تو من کر گیا تھا کہ انتخاب ختم ہوتے ہی فوراً آپ کے بیچ ہی چلا جاؤں۔ لیکن پھر لگا نہیں، وہ اتواروالا سلسلہ بنا رہنا چاہیے۔ لیکن اس اتوار نے بہت انتظار کروایا۔ خیر ، آخر موقع مل ہی گیا ہے۔ ایک خاندانی ماحول میں ‘من کی بات’، چھوٹی- چھوٹی، ہلکی-پھلکی، سماج، زندگی میں، جو بدلاؤ کی وجہ بنتی ہے ایک طرح سے اس کا یہ سلسلہ، ایک نئے جذبے کو جنم دیتا ہوا اور ایک طرح سے نیو انڈیا کی روح کو طاقت دیتا ہوا یہ سلسلہ آگے بڑھے۔
کئی سارے پیغام پچھلے کچھ مہینوں میں آئے ہیں جس میں لوگوں نے کہا کہ وہ ‘من کی بات’ کو یاد کر رہے ہیں۔ جب میں پڑھتا ہوں، سنتا ہوں، مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں اپناپن محسوس کرتا ہوں، کبھی کبھی مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ میری خود سے روح کا سفر ہے۔ یہ میری اہم سے ویم کا سفر ہے۔ میرے لیے آپ کے ساتھ میرا یہ خاموش پیغام ایک طرح سے میرے روحانی سفر کے احساس کا بھی حصہ تھا۔ کئی لوگوں نے مجھے انتخابات کی مشغولیت میں، میں کیدارناتھ کیوں چلا گیا؟ بہت سارے سوالات پوچھے ہیں۔ آپ کا حق ہے، آپ کا تجسس بھی، میں سمجھ سکتا ہوں اور مجھے بھی لگتا ہے کہ کبھی اپنے ان جذبات کو آپ تک کبھی پہنچا ہوں، لیکن آج مجھے لگتا ہے کہ اگر میں اس سمت میں چل پڑوں گا تو شاید ‘من کی بات’ کی تصویر ہی بدل جائے گی۔ اور اس لیے انتخابات کی اس مشغولیت، ہار جیت کے تخمینے، ابھی پولنگ بھی باقی تھی اور میں چل پڑا۔ زیادہ تر لوگوں نے اس کا سیاسی مطلب نکالا ہے۔ میرے لیے خود سے ملنے کا وہ موقع تھا۔ ایک طرح سے میں خود سے ملنے چلا گیا تھا۔ میں اور باتیں تو آج نہیں بتاؤں گا لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ ‘من کی بات’ کے کس مختصر وقفے کے باعث جو خالی پن تھا کیدار کی گھاٹی میں اُس تنہائی والے غار میں شاید اس میں کچھ بھرنے کا موقع ضرور دیا تھا۔ باقی آپ کا تجسس ہے۔ سوچتا ہوں کبھی اس پر بھی بات کروں گا۔ کب کروں گا میں نہیں کہ سکوں گا، لیکن کروں گا ضرور، آپ کا مجھ پر حق بنتا ہے۔ جیسے کیدار کے حوالے سے لوگوں نے جاننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ویسے ایک مثبت چیزوں کو مستحکم کرنے کی آپ کی کوشش، آپ کی باتوں میں لگاتار میں محسوس کرتا ہوں۔ ‘من کی بات’ کے لیے جو خطوط آتے ہیں، جو ان پٹ حاصل ہوتے ہیں وہ حسب معمول سرکاری کام کاج سے بالکل الگ ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے آپ کے خطوط بھی میرے لیے کبھی ترغیب کا باعث بن جاتے ہیں تو کبھی توانائی کی وجہ بن جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو میرے فطری عمل کو دھار دینے کا کام آپ کے کچھ الفاظ کر دیتے ہیں۔ لوگ، ملک اور سماج کے سامنے درپیش چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہیں۔تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے حل بھی بتاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ خطوط میں لوگ مسائل کی تو وضاحت کرتے ہی ہیں لیکن یہ بھی خصوصیات ہیں کہ ساتھ ساتھ حل کا بھی کچھ نہ کچھ مشورے، کچھ نہ کچھ تصور، بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ظاہر کردیتے ہیں۔اگر کوئی صفائی کے بارے میں لکھتا ہے تو گندگی کے تئیں اپنی ناراضگی تو ظاہر کر رہا ہے لیکن صفائی کی کوششوں کی ستائش بھی کرتاہے۔ کوئی ماحولیات کی باتیں کرتاہے تو اپنی تکلیف تو محسوس کرتا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ اس نے ، خود نے جو تجربہ کئے ہیں وہ بھی بتاتا ہے۔ جو استعمال اس نے دیکھے ہیں وہ بھی بتاتا ہے۔ اور جو تصورات اس کے ذہن میں ہیں اسے بھی پیش کرتاہے۔ یعنی ایک طرح سے مسائل کا حل پورے سماج کے لیے کیسے ہو اس کی جھلک آپ کی باتوں میں میں محسوس کرتا ہوں۔ ‘من کی بات’ ملک اور سماج کے لیے ایک آئینے کی طرح ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم وطنوں کے اندر باطنی مضبوطی طاقت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ضرورت ہے، ان مضبوطیوں اور صلاحیتوں کو شامل کرنے کی، موقع فراہم کرنے کی، اس کو بروئے کار لانے کی ۔ ‘من کی بات’ یہ بھی بتاتا ہے کہ ملک کی ترقی میں سبھی 130 کروڑ ہم وطن مضبوطی اور فعال طریقے سے جڑنا چاہتے ہیں اور میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ ‘من کی بات’ میں مجھے اتنے خطوط آتے ہیں، اتنے ٹیلی فون کال آتے ہیں، اتنے پیغامات حاصل ہوتے ہیں لیکن شکایات کا عنصر بہت کم ہوتا ہے۔ اور کسی نے کچھ مانگا ہو، اپنے لیے مانگا ہو، ایسی تو ایک بھی بات گذشتہ پانچ برسوں میں، مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، ملک کے وزیر اعظم کو کوئی خط لکھے لیکن خود کے لیے کچھ مانگے نہیں یہ ملک کے کروڑوں لوگوں کا جذبہ کتنا بلند ہوگا۔ میں جب ان چیزوں کا تجزیہ کرتا ہوں ۔ آپ تصور کرسکتے ہیں میرے دل کو کتنا سکون ہوتا ہوگا۔ مجھے کتنی توانائی ملتی ہوگی۔ آپ تصور نہیں کرسکتے کہ آپ مجھے چلاتے ہیں، آپ مجھے دوڑاتے ہیں، آپ مجھے لمحہ بہ لمحہ کتنا اہم بناتے رہتے ہیں۔ اور یہی ناطہ میں کچھ مس کرتا تھا۔ آج میرا من خوشیوں سے بھرا ہوا ہے۔ جب میں نے آخر میں کہا تھا کہ ہم تین چار مہینے کے بعد ملیں گے تو لوگوں نے اس کے بھی سیاسی مطلب نکالے تھے اور لوگوں نے کہا کہ ارے! مودی جی کو کتنا یقین ہے، کتنا بھروسہ ہے۔ یقین مودی کو نہیں تھا۔ یہ اعتماد آپ کے اعتماد کی بنیاد کا تھا۔ آپ ہی تھے جس نے اعتماد کی شکل اختیار کر لی تھی اور اس کے باعث آسانی سے آخری ‘من کی بات’ میں ، میں نے کہہ دیا تھا کہ میں کچھ مہینوں کے بعد پھر آپ کے پاس آؤں گا۔ درحقیقت میں آیا نہیں ہوں آپ نے مجھے لایا ہے، آپ نے ہی مجھے بٹھایا ہے اور آپ نے پھر سے مجھے ایک بار بولنے کا موقع دیا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ چلیے ‘من کی بات’ کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
جب ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوا تب اس کی مخالفت صرف سیاسی دائرے تک محدود نہیں رہی تھی، سیاسی قائدین تک محدود نہیں رہی تھی، جیل کی سلاخوں تک آندولن سمٹ نہیں گیا تھا۔ جن جن کے دل میں ایک غصہ تھا، کھوئی ہوئی جمہوریت کی ایک تڑھ تھی، دن رات جب وقت پر کھانا کھاتے ہیں تب بھوک کیا ہوتی ہے اس کا پتہ نہیں ہوتا ہے۔ ویسے ہی عام زندگی میں جمہوریت کے حقوق کا کیا مزہ ہے وہ تو تب پتہ چلتا ہے جب کوئی جمہوری حقوق کو چھین لیتا ہے۔ ایمرجنسی میں ملک کے ہر شہری کو لگنے لگا تھا کہ اس کا کچھ چھین لیا گیا ہے۔ اس کا اس نے زندگی میں کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ وہ اگر چھن گیا ہے تو اس کا درد اس کے دل میں تھا اور یہ اس لئے نہیں تھا کہ ہندوستان کے آئین میں کچھ انتظامات کیے ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت فروغ پایا ہے۔ سماجی انتظام کو چلانے کے لیے، آئین کی بھی ضرورت ہوتی ہے، قاعدے قانون اور ضابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، حقوق اور فرائض کی بھی بات ہوتی ہے لیکن ہندوستان فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ہمارے لیے قانون وضوابط سے پرے، جمہوریت ہمارے سنسکار ہیں۔جمہوریت ہماری ثقافت ہے، جمہوریت ہماری وراثت ہے اور اس وراثت کو لیکر ہم پلے بڑھے لوگ ہیں۔ اور اس لیے اس کی کمی ہم وطن محسوس کرتے ہیں۔ اور ایمرجنسی میں ہم نے محسوس کیا تھا کہ اسی لیے ملک ، اپنے لیے نہیں، ایک مکمل انتخاب اپنے مفاد کے لیے نہیں جمہوریت کے تحفظ کے لیے وقف کرچکاتھا۔ شاید دنیا کے کسی ملک نے وہاں کے عوام میں جمہوریت کے لیے اپنے باقی حقوق کی ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صرف جمہوریت کے لیے رائے دہی کی ہو۔ تو ایسا ایک انتخاب اس ملک میں 77 نے دیکھا تھا۔ حال ہی میں جمہوریت کا بڑا تہوار بہت بڑی انتخابی مہم ہمارے ملک میں اختتام پذیر ہوئی ہے۔ امیر سے لے کر غریب سبھی لوگ اس تہوار میں خوشی سے ہمارے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے مستعد تھے۔
جب کوئی چیز ہمارے بہت قریب ہوتی ہے تو ہم اس کی اہمیت کو کم کردیتے ہیں، اس کے حیرت انگیز حقائق بھی نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ ہمیں جو قیمتی جمہوریت ملی ہے اسے ہم بہت آسانی سے مان لیتےہیں لیکن، ہمیں خود کو یہ یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ ہماری جمہوریت بہت ہی عظیم ہے اور اس جمہوریت کو ہماری رگوں میں جگہ ملی ہے۔ صدیوں کی محنت سے نسل در نسل کے سنسکاروں سے ایک عظیم وسیع ذہنی رجحان سے۔ ہندوستان میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، 61 کروڑ سے زیادہ لوگوں نے ووٹ دیئے، 61 کروڑ۔ یہ اعداد وشمار ہمیں بہت ہی معمولی لگ سکتا ہے لیکن اگر دنیا کے حساب سے میں کہوں اگر ایک چین کو ہم چھوڑ دیں تو ہندوستان میں دنیا کے کسی بھی ملک کی آبادی سے زیادہ لوگوں نے ووٹنگ کی تھی۔ جتنے رائے دہندگان نے 2019 کے انتخابات میں ووٹ دیئے ان کی تعداد امریکہ کی کُل آبادی سے بھی زیادہ ہے تقریباً دوگنی ہے۔ ہندوستان میں مجموعی رائے دہندگانوں کی جتنی تعداد ہے وہ پورے یوروپ کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کی عظمت اور وسعت کا ثبوت ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات اب تک کی تاریخ میں دنیا کا سب سے بڑا جمہوری انتخاب تھا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، اس قسم کے انتخابات کرانے میں کتنی بڑی سطح پر وسائل اور افرادی قوت کی ضرورت ہوئی ہوگی۔ لاکوں اساتذہ، افسران اور حکام کی دن رات محنت سے انتخابات ممکن ہوا۔ جمہوریت کے اس عظیم تہوار کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جہاں نیم فوجی دستوں کے تقریباً تین لاکھ عملوں نے اپنا فرض نبھایا وہیں الگ الگ ریاستوں کے 20 لاکھ پولیس حکام نے بھی، بڑی جدوجہد کی۔ انھیں لوگوں کی کڑی محنت کے نتیجے میں اس بار پچھلی بار سے بھی زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹنگ کے لیے پورے ملک میں تقریباً 10 لاکھ پولنگ مراکز تقریباً 40 لاکھ سے زیادہ ای وی ایم مشین، 17 لاکھ سے زیادہ وی وی پیٹ مشین، آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کتنا بڑا تام جھام۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی رائے دہندہ اپنے حق رائے دہندگی سے محروم نہ ہو۔ اروناچل پردیش کے ایک دور دراز علاقے میں صرف ایک خاتون رائے دہندہ کے لیے پولنگ اسٹیشن بنایا گیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انتخابی کمیشن کے افسران کو وہاں پہنچنے کے لیے دو دو دن تک سفر کرنا پڑا- یہی تو جمہوریت کی سچی عزت افزائی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بلندی پر قائم پولنگ مرکز بھی ہندوستان میں ہی ہے۔ یہ پولنگ مرکز ہماچل پردیش کے لاہول اسپتی علاقے میں 15000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ اس انتخاب میں فخر سے معمور کردینے والی ایک اور حقیقت بھی ہے۔ شاید تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ خواتین نے مردوں کی طرح جوش وخروش کے ساتھ ووٹنگ کی ہے۔ اس انتخاب میں خواتین اور مردوں کا ووٹنگ فیصد تقریباً برابر تھا۔ اسی سے جڑا ایک اور حوصلہ افزا حقیقت یہ ہے کہ آج ایوان میں ریکارڈ 78 خواتین اراکین پارلیمان ہیں۔میں انتخابی کمیشن کو اور انتخابی عمل سے جڑے ہر فرد کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ اور ہندوستان کے باشعور رائے دہندگان کو سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو! آپ نے کئی بار میرے منھ سے سنا ہوگا ‘بُکے نہیں بک’ میری درخواست تھی کہ کیا ہم استقبال کرنے میں پھولوں کے بجائے کتابیں دے سکتے ہیں ۔ تب سے کافی جگہ لوگ کتابیں دینے لگے ہیں۔ مجھے حال ہی میں کسی نے ‘پریم چند کی مقبول کہانیاں’ نام کی کتاب دی۔ مجھے بہت اچھا لگا۔ حالاں کہ، بہت وقت تو نہیں مل پایا، لیکن سفر کے دوران مجھے ان کی کچھ کہانیاں پھر سے پڑھنے کا موقع مل گیا۔ پریم چند نے اپنی کہانیوں میں سماج کی سچائی کی جو تصویر کشی کی ہے، پڑھتے وقت اس کی تصویر آپ کے ذہن میں بننے لگتی ہے۔ ان کی لکھی ایک ایک بات زندہ ہو اٹھتی ہے۔ آسان، سادہ زبان میں انسانی جذبات کو اظہار کرنے والی ان کی کہانیاں میرے من کو بھی چھو گئی۔ ان کی کہانیوں میں پورے ہندوستان کے جذبات شامل ہیں۔ جب میں ان کی لکھی ‘نشہ’ نام کی کہانی پڑھ رہا تھا تو میرا ذہن اپنے آپ ہی سماج میں موجود اقتصادی مساوات پر چلا گیا۔ مجھے اپنی جوانی کے دن یاد آگئے کہ کیسے اس موضوع پر رات رات بھر بحث ہوتی تھی۔ زمین دار کے بیٹے ایشوری اور غریب خاندان کے بیر کی اس کانی سے سبق ملتا ہے کہ اگر آپ محتاط نہیں ہیں تو بری صحبت کا اثر کب پڑ جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔ دوسری کہانی جس نے میرے دل کو اندر تک چھو لیا وہ تھی ‘عیدگاہ’، ایک بچے کی حساسیت، اس کا اپنی دادی کے لیے بے لوث محبت اتنی کم عمر میں اتنا پختہ جذبہ، 5-4 سال کا حامد جب میلے سے چمٹا لے کر اپنی دادی کے پاس پہنچتا ہے تو صحیح معنوں میں انسانی حساسیت اپنے بلندی پر پہنچ جاتی ہے اس کہانی کی آخری سطر بہت ہی جذبات انگیز ہے۔ کیونکہ اس میں زندگی کی ایک بہت بڑی سچائی ہے، ‘‘بچے حامد نے بورھے حامد کا کردار ادا کیا تھا – بوڑھی امینہ، بچی امینہ بن گئی تھی’’۔
ایسی ہی ایک بڑی جذباتی کہانی ہے ‘‘پوس کی رات’’۔ اس کہانی میں ایک غریب کسان زندگی کی ستم ظریفی کی زندہ تصویر دیکھنے کو ملی۔ اپنی فصل برباد ہونے کے بعد بھی ہلدو کسان اس لیے خوش ہوتا ہے کیوں کہ اب اسے کڑاکے کی سردی میں کھیت میں نہیں سونا پڑے گا۔ حالاں کہ یہ کہانیاں تقریباً صدی بھر پہلے ہی لیکن ان کی موزونیت آج بھی اتنی ہی محسوس ہوتی ہے۔ انہیں پڑھنے کے بعد مجھے ایک الگ قسم کا احساس ہوا۔
جب پڑھنے کی بات ہو رہی ہے تبھی کسی میڈیا میں ، میں کیرل کی اکشرا لائبریری کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ لائبریری ایڈوکی کے گھنے جنگل کے درمیان بسے ایک گاؤں میں ہے یہاں کے پرائمری اسکول کے استاد پی کے مرلی دھرن اور چھوٹی سی چائے دکان چلانے والے چنا تھمپی، ان دونوں نے اس لائبریری کے لیے انتھک کوشش کی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی رہا جب گٹھر میں بھر کر اور پیٹھ پر لاد کر کتابیں لائی گئیں، آج یہ لائبریری قبائلی بچوں کے ساتھ ہر کسی کو ایک نئی راہ دکھا رہی ہے۔
گجرات میں وانچے گجرات مہم ایک کامیاب تجربہ رہا۔ لاکھوں کی تعداد میں ہر عمر، طبقہ کے لوگوں نے کتابیں پڑھنے کی اس مہم میں حصہ لیا تھا۔ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں، گوگل گرو کے وقت میں میں آپ سے بھی درخواست کروں گا کہ کچھ وقت نکال کر روز مردہ کے معمول میں کتاب کو بھی ضرور جگہ دیں۔ آپ سچ مچ بہت لطف اندوز ہوں گے اور جو بھی کتاب پڑھیں اس کے بارے میں نریندر مودی ایپ پر ضرور لکھیں تاکہ من کی بات کے سبھی سامعین بھی اس کے بارے میں جان پائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو! مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ ان مسئلوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کے لیے بھی بڑی چیلنج ہے۔ میں نریندر مودی ایپ اور مائی گوو پر آپ کے رد عمل پڑھ رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ پانی کے مسئلے کو لے کر کئی لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ بیل گاوی کے پون گورائی، بھوبنیشور کے سیتانشو موہن پریدا۔ اس کے علاوہ یش شرما ، شہاب الطاف اور بھی کئی لوگوں نے مجھے پانی سے جڑے چیلنجوں کے بارے میں لکھا ہے۔پانی کا ہماری ثقافت میں بہت اہمیت ہے۔ ری گریٹ کے آپہ سکتمے میں پانی کے بارے میں کہا گیا ہے:
आपो हिष्ठा मयो भुवः, स्था न ऊर्जे दधातन, महे रणाय चक्षसे,
यो वः शिवतमो रसः, तस्य भाजयतेह नः, उषतीरिव मातरः |
یعنی پانی ہی زندگی دینے والی طاقت، توانائی کی وسیلہ ہے۔ آپ ماں کو احترام یعنی ماں جیسا آشیرواد دیں۔ اپنی رحمت ہم پر برساتے رہیں۔ پانی کی کمی سے ملک کے کئی حصے ہر سال متاثر ہوتے ہیں۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ سال بھر میں بارش سے جو پانی حاصل ہوگا ہے اس کا صرف آٹھ فیصد ہمارے ملک میں بچایا جاتا ہے۔ صرف اور صرف آٹھ فیصد۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلہ کاحل نکالا جائے۔ مجھے یقین ہے ، ہم دوسرے اور مسائل کی طرح ہی عوامی شراکت داری سے، عوامی طاقت سے 130 کروڑ ہم وطنوں کی صلاحیت، تعاون اور عزم سے اس بحران کو بھی حل کرلیں گے۔ پانی کی اہمیت کو سب سے عزیز رکھتے ہوئے ملک میں نئی آبی طاقت وزارت بنائی گئی ہے۔ اس سے پانی سے متعلق سبھی موضوعات پر تیزی سے فیصلے لیے جاسکیں گے۔ کچھ دن پہلے میں نے کچھ الگ کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ملک بھر کے سرپنچوں کو خط لکھا۔ گرام پردھان کو۔ میں نے گرام پردھان کو لکھا کہ پانی بچانے کے لیے ، پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے، بارش کے بوند بوند پانی کو بچانے کے ، وہ گرام سبھا کی میٹنگ بلا کر گاؤں والوں کے ساتھ بیٹھ کر غور وفکر کریں۔ مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے اس کام میں پوری سرگرمی دکھائی ہے۔ اور اس مہینے کی 22 تاریخ کو ہزاروں پنچایتوں میں کروڑوں لوگوں نے شرمدان کیا۔ گاؤں گاؤں میں لوگوںن ے پانی کی ایک ایک بوند کو جمع کرنے کا عزم کیا۔
آج ‘من کی بات’ پروگرام میں میں آپ کو ایک سرپنچ کی بات سنانا چاہتا ہوں۔ سنئے جھارکھنڈ کے ہزاری باغ ضلع کے کٹکم سانڈی بلاک کی لوپنگ پنچایت کے سرپنچ نے ہم سب کو کیا پیغام دیا ہے۔
میرا نام دلپ کمار روی داس ہے۔ پانی بچانے کے لیے جب وزیر اعظم نے ہمیں خط لکھا تو ہمیں یقین ہی نہیں ہوا کہ وزیر اعظم نے ہمیں خط لکھا ہے۔ جب ہم نے 22 تاریخ کو گاؤں کے لوگوں کو جمع کرکے وزیر اعظم کا خط پڑھ کر سنایا تو گاؤں کے لوگ بہت جوش میں آگئے اور پانی بچانے کے لیے تالاب کی صفائی اور نیا تالاب بنانے کے لیے شرمدان کرکے اپنی اپنی حصہ داری نبھانے کے لیے تیار ہوگئے۔ بارش سے پہلے یہ کام کرکے آنے والے وقت میں ہمیں پانی کی کمی نہیں ہوگی۔ یہ اچھا ہوا کہ ہمارے وزیر اعظم نے ہمیں صحیح وقت پر آگاہ کردیا’’۔
برسا منڈا کی سرزمین جہاں فطرت کے ساتھ تال میل بٹھا کر رہنا ثقافت کا حصہ ہے، وہاں کے لوگ ایک بار پھر پانی کے تحفظ کے لیے اپنا سرگرم کردار نبھانے کے لیے تیار ہیں۔ میری طرف سے سبھی گرام پردھانوں کو ، سبھی سرپنچوں کو ، ان کی اس سرگرمی کے لیے بہت بہت مبارکباد۔ ملک بھر میں ایسے کئی سرپنچ ہیں جنھوں نے پانی کے تحفظ کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ ایک طرح سے پورے گاؤں کا ہی وہ موقع بن گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ گاؤں کے لوگ اب اپنے گاؤں میں جیسے پانی کا مندر بنانے کے کوشش میں مصروف ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اجتماعی کوشش سے بڑے مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ پورے ملک میں پانی کے بحران سے نمٹنے کا کوئی ایک فارمولہ نہیں ہوسکتا ہے اس کے لیے ملک کے الگ الگ حصوں میں الگ الگ طریقے سے کوشش کئے جارہے ہیں۔ لیکن سب کا ہدف ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے پانی بچانا، آبی تحفظ۔
پنجاب میں ڈریمج لائن کو ٹھیک کیا جارہا ہے۔ اس کوشش سے پانی کے جماؤ کے مسئلہ سے نجات مل رہا ہے۔ تلنگانہ کے تھیمائی پلی میں ٹینک کی تعمیر سے گاؤں کے لوگوں کی زندگی بدل رہی ہے۔ راجستھان کے کبیر دھام میں کھیتوں میں بنائے گئے چھوٹے تالابوں سے ایک بڑا بدلاؤ آیا ہے۔ میں تمل ناڈو کے ویلور میں ایک اجتماعی کوشش کے بارے میں پڑھ رہا تھا جہاں ناگ ندی کے از سر نو احیا کے لیے 20000 خواتین ایک ساتھ آئیں۔ میں نے گڑھوال کی ان خواتین کے بارے میں بھی پڑھا ہے جو آپس میں مل کر رین واٹر ہار ویسٹنگ پر بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی کئی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اور اب ہم متحد ہوکر مضبوطی سے کوشش کرتے ہیں تو ناممکن کو بھی ممکن کرسکتے ہیں۔ جب جن جن جڑے گا جل بچے گا۔ آج من کی بات کے توسط سے میں ہم وطنوں سے تین درخواست کر رہا ہوں۔
میری پہلی درخواست ہے۔ جیسے ہم وطنوں نے سوچھتا کو ایک عوامی تحریک کا روپ دے دیا۔ آیئے ویسے ہی پانی کے تحفظ کے لیے ایک عوامی تحریک کی شروعات کریں۔ ہم سب ساتھ مل کر پانی کے ہر بوند کو بچانے کا عزم کریں۔ اور مجھے تو یقین ہے کہ پانی خدا کا دیا ہوا عطیہ ہے۔ پانی پارس کا روپ ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ پارس کے لمس سے لوہا سونا بن جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں پانی پارس ہے اور پارس سے پانی کے لمس سے نئی زندگی تعمیر ہوجاتی ہے۔ پانی کے ایک ایک قطرے کو بچانے کے لیے ایک بیداری مہم کی شروعات کریں اس میں پانی سے جڑے مسئلوں کے بارے میں بتائیں۔ ساتھ ہی پانی بچانے کے طریقوں کی تشہیر کریں۔ میں خاص طور سے الگ الگ علاقوں کی ہستیوں سے پانی کے تحفظ کے لیے اختراعی مہم کی قیادت کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ فلمی دنیا ہو، کھیل کی دنیا ہو، میڈیا کے ہمارے ساتھی ہوں، سماجی تنظیموں سے جڑے ہوئے لوگ ہوں، ثقافتی تنظیموں سے جڑے ہوئے لوگ ہوں، کتھا کرتن کرنے والے لوگ ہوں، ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے اس تحریک کی قیادت کرے۔ سماج کو بیدار کریں، سماج کو جوڑیں، سماج کے ساتھ جڑیں۔ آپ دیکھئے اپنی آنکھوں کے سامنے ہم تبدیلی دیکھ پائیں گے۔
ہم وطنوں سے میری دوسری درخواست ہے ۔ ہمارے ملک میں پانی کے تحفظ کے لیے کئی روایتی طور طریقے صدیوں سے استعمال میں لائے جارہے ہیں۔ میں آپ سبھی سے پانی کے تحفظ کے ان روایتی طریقوں کو شیئر کرنے کی درخواست کرتا ہوں ۔ آپ میں سے کسی کو اگر پور بندر قابل پرستش باپو کی جائے پیدائش پر جانے کا موقع ملا ہوگا تو قابل پرستش باپو کے گھر کے پیچھے ہی ایک دوسرا گھر ہے وہاں پر 200 سال پرانی پانی کی ٹنکی ہے اور آج بھی اس میں پانی ہے۔ اور برسات کے پانی کو روکنے کا انتظام ہے۔ تو میں ہمیشہ کہتا تھا کہ جو بھی کرتی مندر جائیں وہ اس پانی کے ٹینک کو ضرور دیکھیں۔ ایسے کئی قسم کے استعمال ہرجگہ ہوں گے۔
آپ سبھی سے میری تیسری درخواست ہے۔ پانی کے تحفظ کی سمت میں اہم خدمات دینے والے افراد کا، خود سے خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا اور اس شعبہ میں کام کرنے والے ہر کسی کا ان کی جو جانکاری ہو اسے آپ شیئر کریں تاکہ ایک بہت ہی خوشحال پانی کے لیے وقف ، پانی کے سرگرم سنگٹھن کا، لوگوں کا ایک ڈاٹا بیس بنایا جاسکے۔ آیئے ہم پانی کے تحفظ سے جڑیں، زیادہ سے زیادہ طریقوں کی ایک فہرست بناکر لوگوں کو پانی کے تحفظ کے لیے ترغیب دیں۔ آپ سبھی # JanShakti4JalShakti کا استعمال کرکے اپنا مواد شیئر کرسکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! مجھے اور ایک بات کے لیے بھی آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے اور دنیا کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے۔ 21 جون کو پھر سے ایک بار یوگ دیوس میں جس سرگرمی کے ساتھ امنگ کے ساتھ ایک ایک خاندان کے تین- تین، چار- چار نسل ایک ساتھ آکر یوگ دیوس کو منایا۔ مجموعی حفظان صحت کے لیے جو بیداری آئی ہے اس میں یوگ دیوس کی اہمیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہر کوئی دنیا کے ہر خطے میں سورج طلوع ہوتے ہی اگر کوئی یوگ سے پریم کرنے والا استقبال کرتا ہے تو سورج ڈھلتے کا پورا سفر ہے۔ شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہوگی جہاں انسان ہو اور یوگ کے ساتھ جڑا ہوا نہ ہو۔ اتنا بڑا، یوگ نے روپ لے لیا ہے۔ ہندوستان نے ہمالیہ سے بحر ہند تک ، سیاچین سے لے کر سب مرین تک ، ایئرفورس سے لے کر ایئرکرافٹ کیریئر تک، اے سی جیم سے لے کر تپتے ریگستان تک، گاؤں سے لے کر شہروں تک۔ جہاں بھی ممکن تھا ایسی ہر جگہ پر نہ صرف یوگ کیا گیا بلکہ اس کی تقریب اجتماعی طور پر بھی منائی گئی۔
دنیا کے کئی ملکوں کے صدور، وزرائے اعظم، جانی مانی ہستیاں، اہم شہریوں نے مجھے ٹوئٹر پر دکھایا کہ کیسے انھوں نے اپنے اپنے ملکوں میں یوگ منایا۔ اس دن دنیا ایک بڑے خوشحال خاندان کی طرح لگ رہی تھی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ایک صحت مند سماج کی تعمیر کے لیے صحتمند اور حساس افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یوگ یہی یقینی بناتا ہے۔ اسی لیے یوگ کی تشہیر سماجی خدمت کا ایک عظیم کام ہے۔ کیا ایسی خدمت کو تسلیم کرکے اس کی عزت افزائی نہیں کی جانی چاہیے؟ سال 2019 میں یوگا کے فروغ اور ترقی میں زبردست خدمات دینے کے لیے وزیر اعظم ایوارڈ کا اعلان اپنے آپ میں میرے لیے ایک بہت ہی اطمینان کی بات تھی۔ یہ ایوارڈ دنیا بھر کی ان تنظیموں کو دیا گیا ہے جس کے بارے میں آپ نے سوچا تک نہیں ہوگا کہ انھوں نے کیسے یوگا کی تشہیر میں اہم کردار ادا کئے ہیں۔ مثال کے طور پر جاپان یوگ نکیتن کو لیجیے جس نے یوگا کو پورے جاپان میں مقبول بنایا ہے۔ جاپان یوگ نکیتن وہاں کے کئی ادارے اور تربیتی کورسز چلاتا ہے۔ یا پھر اٹلی کی مسز اینٹونی ایٹا روزی انہیں کا نام لے لیجیے جنھوں نے سرو یوگ انٹرنیشنل کی شروعات کی اور پورے یورپ میں یوگ کی تشہیر کی۔ یہ اپنے آپ میں ترغیب دینے والی مثالیں ہیں۔ اگر یہ یوگا سے جڑے وشے ہیں تو کیا ہندوستانی اس میں پیچھے رہ سکتے ہیں؟ بہار یوگ ودیالیہ مونگیر اس کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔ پچھلے کئی دہائیوں سے یوگا کے لیے وقف ہے۔ اسی طرح سوامی راج شری منی کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔ انھوں نے لائیف مشن اور لکولش یوگا یونیورسٹی قائم کی۔ یوگا کو وسیع پیمانے پر منانا اور یوگا کا پیغام گھر گھر پہنچانے والوں کو اعزاز بخشنا دونوں نے ہی اس یوگا دیوس کو خاص بنا دیا۔
میرے پیارے ہم وطنو! یہ سفر آج شروع ہو رہا ہے۔ نئے جذبے، نئے احساس، نئے تصور، نئی صلاحیت لیکن ہاں میں آپ کے مشوروں کا انتظار کرتا رہوں گا۔ آپ کی رایوں سے وابستہ رہنا میرے لیے ایک بہت اہم سفر ہے۔ من کی بات تو مسلسل ہے۔ آیئے ہم ملتے رہیں، باتیں کرتے رہیں، آپ کے جذبات کو سنتا رہوں، سنوارتا رہوں، سمجھتا رہوں۔ کبھی کبھی ان جذبوں کو جینے کی کوشش کرتا رہوں ۔ آپ کا آشیرواد بنا رہے۔ آپ ہی میری ترغیب ہیں، آپ ہی میری توانائی ہیں۔آؤ مل بیٹھ کر من کی بات کا مزہ لیتے لیتے زندگی کی ذمہ داریوں کو نبھاتے چلیں۔ پھر ایک اگلے مہینے من کی بات کے لیے پھر سے ملیں گے۔ آپ سب کو میری جانب سے بہت بہت شکریہ۔
نمسکار!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
U. No. 2703
(Release ID: 1576381)
Visitor Counter : 547