پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کی وزارت
سووچھ بھارت مشن کے بارے میں رائٹر ز کی حالیہ اسٹوری پر ایم ڈی ڈبلیو ایس کی طرف سے سرکاری رد عمل
Posted On:
17 MAY 2019 2:16PM by PIB Delhi
نئی دہلی؍15مئی 2019؍خبر رساں ایجنسی رائٹرز نےاس سے پہلے آج‘‘ مودی ایک صاف ستھرے بھارت کادعوی کرتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے’’کی سرخی سے اسٹوری شائع کی ہے۔اس اسٹوری میں ایجنسی نے سووچھ بھارت مشن( دیہی)، خصوصی طور پر قومی سالانہ دیہی صفائی سروے2018-19 کی حالیہ تحقیقات کے تحت کی گئی پیش رفت کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔قومی سالانہ دیہی صفائی سروے 2018-19(این اے آر ایس ایس) ملک میں سب سے بڑا آزادانہ صفائی سروے ہے۔جسے آزاد تصدیق ایجنسی نے نمونہ فریم ورک کے ساتھ انجام دیا ہے۔سروے میں 6136گاؤوں، 92040گھرانوں،5782اسکولوں،5803آنگن واڑی مراکز،1015 عوامی بیت الخلاء اور6055 عوامی مقامات کو شامل کیا گیا ہےجس سے یہ ملک میں صفائی سے متعلق سب سے زیادہ نمائندہ سروے بن گئی ہے۔2018-19 این اے آر ایس ایس نے دیہی ٹوائلیٹ کااستعمال 93.4 فیصد اور دیہی ہندوستان میں ٹوائیلٹ کااستعمال 96.5 فیصد پایا ہے۔ ماضی میں کوالیٹی کونسل آف انڈیا کے ذریعہ 2017 میں اور نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے ذریعہ 2016 میں کئے گئے دو آزادانہ سروے میں بھی ان ٹوائیلٹوں کااستعمال باالترتیب 91 اور 95 فیصد پایاگیا ۔
اس اسٹوری کی اشاعت سے پہلے رائٹرز نے پینے کے پانی اور صفائی کی وزارت سے رابطہ قائم کیا تھا اور وزارت نے ایجنسی کو تفصیل سے پوچھے گئے ہر ایک سوال کا جواب دیاتھا۔تاہم ایجنسی کی طرف سے شائع اسٹوری میں این اے آر ایس ایس سروے کے بارے میں وزارت کے ذریعہ رائٹرز کے ساتھ شیئر کی گئی تمام تفصیلات کے ساتھ صورت حال کا ایک طرفہ منظر پیش کیاگیا ہےجس کی محدود، آدھے ادھورے جملوںاور ناقص جوابات کے طور پر عکاسی کی گئی ہے۔
وزارت مشن کی زمینی حقیقت کا مکمل ورژن یہاں پیش کرنا چاہے گی اور اسی کے ساتھ اس متعصبانہ اسٹوری میں لگائے گئے الزامات کے تناظر میں سروے بھی پیش کرے گی۔
- عالمی بینک حمایت یافتہ سروے پر ریسرچ کرنے والی پائل ہتھی نے کہا کہ ‘‘یہ پورا معاملہ لوگوں کی صحت سے متعلق ہے۔ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ ڈیٹا بہت زیادہ گمراہ کن ہے’’۔ہتھی اور ان کے ساتھی تحقیق کار نکھل سری واستو کا بھی کہنا ہے کہ سروے کا خاکہ تیار کرنے کے لئے منعقدہ میٹنگوں میں انہوں نے متعدد خامیاں دیکھیں’’۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ وزارت نے واضح طور پربغیر کوئی تفصیل بیان کئے آر آئی سی ای کے دو تحقیق کاروں کے دعوؤوں کو مسترد کردیا ہے۔تاہم سچائی یہ ہے کہ وزارت نے ایک تفصیلی پس منظر اور توضیح آر آئی سی ای کے تحقیق کاروں کے ذریعہ کئے گئے دعوؤوں کو مسترد کرنے کے ساتھ شیئر کی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ این اے آر ایس ایس کے طریقہ کار اور طریقوں کو ماہرین کے ورکنگ گروپ(ای ڈبلیو جی) نے تیار کیا ہے اور اسے منظوری دی ہے۔اس گروپ کی صدارت جے این یو کے پروفیسر امیتابھ کندو اور قومی اعداد وشمار کے کمیشن کے سابق رکن اورمشترکہ صدارت حکومت ہند کے سابق سیکریٹری ڈاکٹر این سی سکسینہ کررہے ہیں۔ای ڈبلیو جی عالمی بینک ، یونیسیف،بی ایم جی ایف، واٹر اے انڈیا، اعداد وشمار اور پروگراموں کی وزارت(ایم او ایس پی آئی) اور نیتی آیوگ وغیرہ سمیت قومی عالمی ترقیاتی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے صفائی ستھرائی سے جڑے متعدد ماہرین اورنمائندوں پر مشتمل ہے۔جیسا کہ رائٹرز کی ٹیم کو بتایا گیا تھا، ماہرین کے ایک گروپ نے سوالات تیار کرنے سے لے کر نمونہ سازی تک ،سروے کرنے والوں کی تربیت سے لے کر اس شعبے میں حقیقی سر وے تک این اے آر ایس ایس کے سروے کی دیکھ بھال کی ہے اور شرکت کی ہے۔آر آئی سی ای کے کچھ نمائندوں نے این اے آر ایس ایس 2017-18 کے دوران ای ڈبلیو جی کی چند میٹنگوں میں شرکت بھی کی ہے اوروہ این اے آر ایس ایس 2018-19 سے بہر حال وابستہ نہیں تھے۔
این اے آر ایس ایس2018-19 کے بارے میں سوالات کھڑے کرکے آر آئی ای سی کے نمائندے نہ صرف یہ کہ این اے آر ایس ایس(ای ڈبلیو جی کے نامور ارکان سمیت) کی معتبریت کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلکہ رائٹرز کے قارئین کو گمراہ بھی کررہے ہیں۔ایک ایسی صورت حال میں جبکہ آر آئی سی ای ،این آر اے ایس ایس 2018-19 کی کسی بھی میٹنگ میں شامل نہیں رہا ہے،ان کا یہ کہنا کہ انہوں نے این اے آر ایس ایس کی میٹنگوں میں بہت زیادہ خامیاں دیکھی ہیں،قارئین کو مکمل طور پر غلط معلومات فراہم کرنا ہے اور یہ آر آئی سی ای کی حقائق کے تعلق سے جو متعصبانہ اور غیر حقیقی رپورٹنگ کی تاریخ رہی ہے اس سے یہ مطابقت رکھتا ہے۔ (Ref http://pib.nic.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=1569875, http://pib.nic.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=1570908, http://pib.nic.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=1559229)
- دو(سروے کرنے والوں) نے این اے آر ایس ایس کی تحقیقات کو‘‘ ناممکن’’ بتایا ہے اور کہا ہے کہ جواب دہندگان سے سوال کرنے میں بہت کم وقت خرچ کیا گیا تھا۔
جیسا کہ رائٹرز کی ٹیم کو واضح طور پر بتادیا گیا تھا( لیکن یہ بات ان کے مضمون سے غائب ہے)، این اے آر ایس ایس کے پروٹوکول کے مطابق،کسی مخصوص گاؤں کا دورہ کرنے والے سروے کرنے والے سےکسی ممکنہ تعصب سے بچنے کے لئے گاؤں کی او ڈی ایف کے صورتحال کے بارے میں نہیں بتایا جاتا ہے ۔سچائی تو یہ ہے کہ انفرادی طور پر سروے کرنے والے شخص کو سروے کے لئے کسی ریاست میں انتہائی محدود تعداد میں ہی گاؤں ملتے ہیں،جو کہ ریاست میں سروے کئے گئے گاؤں کی کل تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہوتے ہیں۔تاہم سروے کرنے والا(یا چند سروے کرنے والے) اس حالت میں نہیں ہوتا ہے کہ وہ ریاستی سطح پر تخمینے فراہم کرے۔ مزید برآں،سی اے پی آئی۔کمپیوٹر ایڈڈ پرسنل انٹرویوننگ کا استعمال کرکے سروے کا پورا عمل کیا جاتا ہے۔اس کی رو سے انفرادی سروے کرنے والوں کو کسی بھی قسم کا تجزیہ کرنے اور یا تخمینہ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ہر ایک انٹرویو پر خرچ کئے گئے وقت کی ریکارڈنگ بھی سی اے پی آئی کے ذریعہ ہوتی ہے اور آئی وی اے اس پر نظر رکھتا ہے۔
- ‘‘اگر ہم کسی گاؤں کے اصل مرکز سے دور کچھ شاذ ونادر معاملوں میں کھلے میں رفع حاجت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہم اس گاؤں کو غیر او ڈی ایف کے طور پر نشان زد نہیں کرسکتے ہیں’’ انہوں نے کہا کہ وزارت کی طرف سے ٹریننگ دینے والوں نے سروے کرنے والوں سے اس طرح کے طریقوں پر عمل کرنے کو کہا تھا۔
اسے پرزور طریقے سے مسترد کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ رائٹرز کی ٹیم کو ای میل اور وزارت کے دفتر میں نجی ملاقات کے ذریعہ دونوں ہی صورتوں میں آگاہ کردیا گیا تھا کہ این اے آر ایس ایس سروے کا یہی عمل اس دعوے کو نا ممکن بناتا ہے۔درحقیقت‘‘ کسی گاؤں کے اصل مرکز’’ کا تصور غیر متعلق ہے۔ کیونکہ اس سلسلے میں واضح ہدایات ہیں کہ ایسے گاؤں کو او ڈی ایف نہ قرار دیا جائے اگراسکولوں، ہسپتالوں ، عوامی صحت مرکز، پنچایت بھون، کمیونٹی سینٹر، ہال، عبادت کی جگہوں، مندر، مسجد ، گردوارہ، چرچ، بس اسٹینڈ، مارکیٹ، مقامات، سرکاری دفاتر اور پینے کے پانی کے وسائل سمیت گاؤں میں کسی بھی جگہ فضلہ پایا جاتا ہے۔
فی الحال یہ تمام مقامات مل کر بے شک گاؤں کی رفع حاجت اورگندگی سے پاک ایک مجموعی یا جامع تصویر پیش کرتے ہیں اور اس لئے نارس طریقہ کار میں یہ اس طریقہ کار سے متعلق کوئی اہم مرکز نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یہ نوٹ کرلینا چاہئے کہ وزارت اس عمل کو کم از کم مربوط بنائے رکھنے کے لئے سروے کرنے والوں سے براہ راست رابطہ نہیں کرتی ہے۔ سروے کرنے والوں کے کام کی مجموعی طورپر نگرانی انڈیپنڈینٹ ویری فکیشن کی سینئر پروجیکٹ ٹیم کے ذریعے کی جاری ہے۔
‘‘جواب دہندگان آپ کو غلط جواب دیں گے۔ ’’ نیتیا جیکوب نے کہا کہ محترمہ نیتیا آبی اور صفائی ستھرائی کی مشیر ہیں۔ وہ سب کہتے ہیں ہاں- ہاں ہم سب بیت الخلاء استعمال کرتے ہیں۔
اس مرتبہ بھی اس کا پرزور طریقے سے انکار کیاگیا۔ الزام ہے کہ بڑے پیمانے کے سروے کے تمام 92,000پلس ریسپونڈینٹس بہترین طور پر یا تو بالکل معصوم ہیں اور بدترین طورپر عادتاً دروغ بین ہیں۔ اس کے برعکس، رائٹر کے ساتھ مشترک کئے گئے سرکاری ردعمل میں ذکر کیا گیا ہے کہ عام طورپر گھروں میں ایک مخصوص جگہ بیت الخلاء کے لئے موجود ہے، مگر ان کا اہم جواب دہندگان اس سلسلے میں گمراہ کرتا ہے کہ وہ حکومت سے ایک اور مالی حوصلہ افزائی کی امید کرتےہیں۔ یہ جانبداری ای ڈبلیو جی اور این اے آر ایس ایس (نارس) کی آئی وی اے دونوں کے ذریعے مشاہدہ اور ریکارڈ کی گئی ہے جو بیت الخلاء تک رسائی اور اس کے استعمال سے متعلق غلط رپورٹ کی جانب لے جاتا ہے جیسا کہ اقتباس میں کہا گیا ہے۔ اسی طرح نارس پروٹوکول کے ایک حصے کے طورپر، چاہے گاؤں او ڈی ایف ہے یا نہیں، کی نشاندہی سرویئر کے ذریعے نہیں کی گئی ہے، بلکہ ڈیٹا کے تجزیے کے وقت مرکز؍سینٹر میں آئی وی اے کے ذریعے تجزیہ کیاجاتاہے۔
ہریانہ میں کھلے میں رفع حاجت کے واقعات
این اے آر ایس ایس(نارس) نے ایک رینڈم (بے ترتیب) نمونے کے عمل کے ذریعے ہریانہ کے 102 گاؤں میں 1530 گھروں میں آئی وی اے سروے کرلیا ہے۔ یہ نمونہ سرے تمام ریاست کے صاف صفائی تک رسائی اور ان کے استعمال کی مجموعی طورپر نمائندگی کرتا ہے۔ حقیقت میں گزشتہ چند برسوں میں، سروے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہریانہ بیت الخلاء کے استعمال کے معاملے میں دیہی ہندوستان میں بہترین کارکردگی پیش کرنے والی ریاستوں میں سے ایک رہی ہے۔ اسے کیوسی آئی 2017 اور نارس (این اے آر ایس ایس) 18-2017ء دونوں کے مطابق 100 فیصد پایا گیا(جس میں نمونے کا سائز بالترتیب 1.4 گھر اور 92040 گھر ہے)
اس سلسلے میں جبکہ غیر استعمال کے الگ الگ واقعات پر تبصرہ کرنا مشکل ہے۔ علاوہ ازیں جیسا کہ مذکورہ بالا جواب دہندہ کی جانبداری کی اس کے علاوہ نارس (این اے آر ایس ایس) نے ایک رینڈم سیمپلنگ سروے کیا اور ہریانہ میں 102 گاؤں میں 1530 گھروں کا آئی وی اے نے تجزیہ کیا۔ یہ نمونہ سروے تمام ریاست کی صاف صفائی تک رسائی اور ان کے استعمال کی مجموعی طورپر نمائندگی کرتاہے۔
کرناٹک میں زبردستی کے واقعات
سووچھ بھارت مشن نے رویے میں مثبت تبدیلی کی حمایت کی ہے اور وزارت اسے سنجیدگی سے نافذ کرنے میں کسی بھی طرح کی ڈھیل نہیں دے گا۔ بدقسمتی سے کئی رپورٹیں خصوصی طورپر رائس (آر آئی سی ای) جیسی ترغیب دینے والی ایجنسیوں کے ذریعے زبردستی اور مثبت سماجی کارروائی کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہی ہیں۔مثال کے طورپر مقامی نگرانی کمیٹیاں یا کھلے میں رفع حاجت پر مقامی جی پی یا معاشرے کی سطح پر پابندی جو معاشرے کے نظریے کی محدود سمجھ کو ظاہر کرتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ رائٹر ٹیم کے ذریعے اس پوائنٹ کو وزارت کے سامنے رکھے گئے سوالوں میں کبھی بھی نہیں اٹھایاگیا تھا۔ وزارت کسی بھی ایجنسی ؍شخص کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو زمینی سطح پر زور زبردستی کے واقعات کا پتہ لگا کر وزارت کو اس بارے میں مطلع کرتا ہے۔ وزارت انہیں یقین دلاتی ہے کہ واقعات کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی۔
پینے کے پانی اور صاف صفائی کی وزارت، رائٹرس جیسی مصروف ایجنسی کے ذریعے کی گئی رپورٹنگ کی خراب کوالٹی کی رپورٹنگ سے مایوس ہے۔
م ن۔ش ت۔ن ا۔ن ع۔ر ض
(17-05-19)
U: 2144
(Release ID: 1572209)
Visitor Counter : 238