کارپوریٹ امور کی وزارتت

پریس انفارمیشن بیورو گورنمنٹ آف انڈیا


کمپنیز(ترمیمی )ایکٹ،2017 وضع کیا گیا: 93 دفعات میں سے، 92 دفعات کو متعلقہ افادی قواعد کے ساتھ نافذ العمل بنایا گیا

ایم سی اے کے کمپنیز(ترمیمی) آرڈی نینس-2018 کی جگہ پارلیمنٹ کے رواں اجلاس کے دوران کمپنیز(ترمیمی) بل-2018 متعارف کرایا جائے گا

دیوالیہ پن اور دیوالیہ قرار دیئے جانے سے متعلق ضابطہ(ترمیمی) ایکٹ،2018 اور دیوالیہ پن اور دیوالیہ قرار دیئے جانے سے متعلق ضابطہ(دوسری ترمیم) ایکٹ 2018 کی مشتہری

این ایف آر اے اس مقصد سے قائم کیا گیا ہے کہ کمپنیوں کے مالی انکشافات میں سرمایہ کاران اور عوامی اعتماد کو تقویت پہنچائی جاسکے۔

مختلف النوع  امورکو منظم بنانے کے لئے ای -حکمرانی ا قدا مات کاآغاز

Posted On: 20 DEC 2018 10:33AM by PIB Delhi

نئی دہلی،20دسمبر/ تمام ترشراکت داروں کے لئے‘‘ کاروبار کرنا آسان بنانے’’  کے مقصد کے حصول  کے سلسلے میں کارپوریٹ ڈھانچے میں افزوں شفافیت لانے، کمپنیز ایکٹ 2013 کے تحت تمام تر امورکی اثر انگیزی میں اضافہ کرنے کی غرض سے تاکہ بہتر طور پر کمپنی قوانین پر عملدرآمد ممکن ہوسکے، کمپنی امور کی وزارت( ایم سی ا ے) نے  گزشتہ ایک برس  (جنوری۔ نومبر 2018) کے دوران ، متعدد  سنگ میل اقدامات کئے ہیں۔

ان میں اہم امور میں، کمپنیز(ترمیمی) ایکٹ ،2017، کمپنیز(ترمیمی) آرڈیننس 2018، قومی مالی رپورٹنگ اتھارٹی(این ایف آر اے) کا قیام ، دیوالیہ قرار دیئے جانے اور دیوالیہ پن  سے متعلق ضابطہ، تمام تر کمپنیوں کے ڈائرکٹر حضرات کے لئے  ای- کے وائی سی، قیام سے متعلق درخواستوں کی تیز رفتار پروسیسنگ یا نپٹارا، قواعد کے نفاذ میں یکسانیت اورصوابدید کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں۔

بھارت نے عالمی بینک کے تحت‘‘ کاروبار کرنے’’ سے متعلق 2019 کی رپورٹ میں جو 31 اکتوبر 2018 کو جاری کی گئی تھی، اپنی درجہ بندی میں ترقی حاصل کی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ،بھارت 23 درجات کی ترقی کرکے 2017 کی 100ویں پوزیشن کے  مقابلے میں اب 77 ویں پوزیشن پرپہنچ گیا ہے اور بھارت ،  کاروبار شروع کرنے اور کاروبار کرنے کی زمرہ بندی کے لحاظ سے  اپنی درجہ بندی کےمعاملہ میں 10 کسوٹیوں میں سے چھ کسوٹیوں پر کھرا اترا ہے۔کمپنیوں کی وزارت نے کاروبار شروع کرنے، دیوالیہ قرار دیئے جانے سے متعلق قرار دادوں اور اقلیتی مفادات کے تحفظ کے معاملے میں اپنی جانب سے تعاون فراہم کیا ہے۔

 

کمپنی امور کی وزارت کی سال بھر کی حصولیابیوں کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

کمپنیوں کا قانون

کمپنیوں کاقانون2013:

اب تک ایک دفعہ کے علاوہ کمپنیوں کے قانون 2013(سی اے۔13) کی تمام دفعات یعنی دفعہ 465 کو مشتہر کیا گیا ہے۔ دفعہ 2 کا حصہ(شق۔(ix)67 اور دفعہ 230 کا حصہ ذیلی دفعہ(11) اور (12) کا ابھی آغاز ہونا ہے۔

 

کمپنیوں کا )ترمیمی( قانون 2017:

کمپنیوں کے(ترمیمی) بل 2017، 3 جنوری2018 کو صدرجمہوریہ ہند کی جانب سے منظوری دی گئی تھی اور اسے کمپنیوں کے (ترمیمی) قانون 2017( سی اے اے۔17) کے طور پر نافذ کیا گیا تھا۔ سی اے اے۔17 کل 93 دفعات پر مشتمل ہے۔ اب تک سی اے اے۔17 کی کل93 دفعات میں سے92 دفعات متعلقہ قواعد کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے۔ایک دفعہ(ندھیوں سے متعلق دفعہ 81) اور سی اے اے۔17 کی دفعہ 23اور 80 کے حصوں کے آغاز میں قواعد اور شکلوں کے تین سیٹوں میں ترمیم درکار تھی۔جنہیں کمپنیوں کے قانون 2013 کے تحت مشتہر کیا گیا ہے۔جس کی وزارت میں جانچ درکار تھی اور توقع ہے کہ  یہ کچھ مزید وقت لے گا۔وزارت نے 31 دسمبر 2018 تک متعلقہ ضابطوں کے ساتھ سی اے اے۔17 کی دفعہ 81 اور اس طرح کے قانون دفعہ 23 کے حصے کو مشتہر کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

کمیٹی نے جو کمپنیوں کے قانون 2013 کے تحت جرائم سے نمٹنے کے سلسلے میں موجودہ فریم ورک کا جائزہ لیتی ہے، خزانہ اور کارپوریٹ امور کے مرکزی وزیر جناب ارون جیٹلی کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ کمیٹی نے جرائم کی نوعیت کی بنیاد پر پینل کی تمام شقوں کو آٹھ زمروں میں تقسیم کردیا تھا۔ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ قانون کی موجودہ سختی سنگین جرائم کے لئے جاری رہنی چاہئےجس کا 6 زمروں میں  احاطہ کیا گیا ہے جبکہ  ایسی کوتاہیوں کے لئے جو لازمی طور پر تکنیکی  نوعیت کی حامل ہوں یا اپنی نوعیت کے لحاظ سے ضابطہ  جاتی ہوں، انہیں  اندرون خانہ چارہ جوئی کے لئے منتقل کیاجاسکتا ہے۔ اس سے دوہرے مقاصد پورے ہوسکیں گے جن میں ایک یہ کہ کاروبار کرنے کو آسان بنانے کو فروغ دیا جاسکے گا اور دوسرا یہ کہ بہتر کارپوریٹ عمل  کی تعمیل ہوسکے گی۔ اس سے  خصوصی عدالتوں میں دائر مقدمات کی تعداد میں بھی کمی واقع  ہوگی۔ جس کے نتیجے میں سنگین جرائم کو تیزی سے نمٹانے میں آسانی ہوگی اور سنگین نوعیت کے مجرموں کے خلاف مقدمات درج کئے جاسکیں گے۔دفعہ 447 کے تحت بنیادی ذمہ داری جس کا تعلق کارپوریٹ جعلسازی سے ہے وہ ان صورتوں میں نافذالعمل رہے گی۔ جہاں جعلسازی پائی جائے گی۔ بہت سی دفعات زیر غور ہیں اور آغاز کےلئے متعلقہ سفارش کومشتہر کیا گیا ہے۔کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر اور کاروبار کو آسان بنانے کو تقویت دینے کے مقاصد کے  حصول اور بہتر کارپوریٹ کی تعمیل کے لئے حکومت نے ایک آرڈیننس نافذ کرنے کافیصلہ کیا تھا اس کے مطابق کمپنیوں کے (ترمیمی) آرڈیننس 2018 کو 2-11-2018 کو نافذ کیا گیا تھا۔

ایم سی اے نے پارلیمنٹ کے موسم سرما کے اجلاس 2018  کے دوران کمپنیز(ترمیمی) آرڈیننس 2018 کی جگہ  کمپنیز (ترمیمی) بل  2018 متعارف کرانے کی تجویز رکھی ہے۔

 

دیوالیہ پن اور  دیوالیہ قرار دیئے جانے سے متعلق ضابطہ

سال 2018 میں صدرجمہوریہ نے دیوالیہ پن اور دیوالیہ قرار دیئے جانے سے متعلق ضابطہ (ترمیمی) آرڈیننس 2018 کو نافذ کرنے کو منظوری دی تھی۔دیوالیہ پن اور دیوالیہ قرار دیئے جانے کے عمل نے 2017 کے بعد سے ایک ا چھا رخ اختیار کیا ہے اور یہ ایک تیزی سے نمو پذیر ہونے والا قانون ہے۔اس نئے ضابطے کی اثر انگیزی کے پیچھے ایک اہم بنیاد یہ ہے  عدلیہ کی جانب سے چارہ جوئی کی جاتی ہے۔یہ ضابطہ اپنے تحت مختلف ضابطوں کے لئے وقت کی  سخت حد بندیاں  فراہم کرتا ہے۔ اس عمل کے تحت مقدمات کے نمٹائے جانے کی ایک عمدہ روایت قائم ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں قانونی غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہوگیا ہے۔

دیوالیہ پن اور دیوالیہ قرار دیئے جانے سے متعلق ضابطہ(ترمیمی) قانون 2018   آئی بی سی(ترمیمی) آرڈیننس کی جگہ19-1-2018 کو مشتہر کیا گیا تھا۔جس نے کچھ افراد کو قرار داد کے ایک منصوبے کو پیش کرنے سے روکنے سے متعلق شقوں میں مزید ترمیم کی۔تاکہ مزید وضاحت پیش کی جاسکے۔مزید یہ کہ دیوالیہ پن کے قانون سے متعلق کمیٹی کی سفارشات  میں  اگست 2018 میں آرڈیننس کے ذریعہ دوسری ترمیم بھی کی گئی تھی۔ یہ آرڈیننس اس ضابطے میں شامل مختلف النوع شراکت داروں خصوصاً مکانات کی خریداری کرنے والوں بہت چھوٹی ، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں کے مفادات کا تحفظ کرنے ، قرض حاصل کرنے والوں کی کمیٹی کے لئے ووٹنگ کی شرائط میں نرمی لانے اور تصفیہ چاہنے والے درخواست دہندگان  کے استحقاق سے متعلق تجاویز کو منظم بنانے کی غرض سے متعلقہ ضابطے میں ترمیم کی غرض سے نوٹیفکیشن نمبر مورخہ 6 جون2018 کے توسط سے مشتہر کیا گیا تھا۔ دیوالیہ پن اور دیوالیہ قرار دیئے جانے سے متعلق ضابطے( دوسری ترمیم) قانون 2018 کو آئی بی سی (ترمیم) آرڈیننس 2018 کی جگہ 17اگست 2018 کو مشتہر کیا گیا تھا۔

 

قومی مالیاتی  رپوٹنگ اتھارٹی

کارپوریٹ سیکٹر میں اکاؤٹنگ گھپلوں اور جعلسازی کے پیش نظر نیشنل فائنانشیل رپوٹنگ اتھارٹی( این ایف آر اے) کو آڈٹنگ پیشے کے لئے ایک آزاد  ریگولیٹرکے طورپر مشتہر کیا گیا تھا جو کمپنیز قانون 2013 کے ذریعہ لائی گئی ایک اہم تبدیلی ہے۔ این ایف آر اے کچھ زمروں اور کمپنیوں کے ذیلی زمروں میں کارپوریٹ مالیاتی رپورٹنگ کے معیار کا جائزہ لے گا اور آڈیٹرس/ آڈٹ فرموں کے خلاف اس بات کے لئے تادیبی کارروائی کرے گا کہ وہ واجب جانفشانی کے ساتھ اپنے قانونی فرائض ادا نہیں کررہی ہیں۔ آڈٹ پیشے کے ارتقاء میں مدد  کرنےاور بین الاقوامی معیارات کی تصدیق کرکے کاروبار کی زیادہ عالم کاری کی حمایت کرتے ہوئے توقع ہے کہ اس فیصلے کے نتیجہ میں زیادہ بیرونی/ گھریلو سرمایہ کاری ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔قانون کی دفعہ 132 کے تحت چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس حضرات اور ان کی کمپنیوں کے سلسلے میں تفتیش کے لئے این ایف آر اے کے دائرہ اختیار فہرست بند کمپنیوں اور بڑی غیر فہرست کمپنیوں تک احاطہ کرے  گا اس کے لئے حدود کاتعین اور اس کی تشخیص قواعدکےذریعہ عمل میں لائی جائے گی۔حکومت نے یہ اتھارٹی تشکیل دی ہے اوراین ایف آر اے( چیئرپرسن اور ممبروں کی ملازمت کی تقرری ،شرائط اور تقرری اور دیگر شرائط کا طریقہ) ضابطے 2018  اور این ایف آر اے ضابطے 2018 تجویز کئے ہیں۔ جناب آر سی دھرن اور ڈاکٹر پرسن جیت مکھرجی کو یکم  اکتوبر 2018 کو بالترتیب این ایف آر کا چیئرپرسن اور کل وقتی ممبر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔

وزارت نے 13 نومبر 2018 کو مشتہری جی ایس آر نمبر 1111(ای) کے ذریعہ کمپنیز ایکٹ 2013 کے قواعد کو ذیلی دفعات 2 اور 4 کے تحت مشتہر کی تھی جن کاتعلق قومی ،مالی رپورٹنگ اتھارٹی قواعد 2018 سے ہے۔

 

ای۔ گورنینس

تیز اور شفاف عمل فراہم کرنے کے لئے ا یم سی اے نے کاروبار کو معیاری اور آسان بنانے کی سمت اہم پہل قدمیاں کی ہے جو حسب ذیل ہیں:

  1. نام کے لئے ریزرو  یونیک نیم ویب سروس ۔رن کی شروعات:  کمپنیوں کے لئے 26 جنوری 2018  اور لمٹیڈ لائبیلٹی پارٹنرشپ ایل ایل پیز کے لئے 2 اکتوبر 2018 کے لئے  بہت سے ضابطوں کو کم کرنے اور ‘‘نیم ریزرو یشن کے عمل کو تیز بنانے ،رواں اور سادہ بنانے کے لئے ریزرو یونیک نیم ۔رن کے نام سے ایک ویب پر مبنی سروس کا آغاز کیا گیا۔
  2. ڈی آئی این  کی  تخصیص کے عمل کی ازسر نو  تشکیل:         ڈی آئی این کے مختص کئے جانے کے عمل کی تشکیل نو مشترکہ ایس پی آئی سی کے ذریعہ عمل میں آئے گی اور یہ صرف ڈائرکٹر کے طور پر انفرادی تقرری کی صورت میں ہی کی جائے گی۔(شرط یہ ہے کہ وہ فرد/ یا خاتون ڈی آئی این کی / کا حامل نہ ہو)
  3. کمپنی کے قیام کے لئے ایم سی اے فیس کی چھوٹ:     تشکیل نو کا سرکاری عمل نافذ کیا گیا ہے جہاں دس لاکھ روپے تک کے مجاز سرمایہ کے ساتھ تمام کمپنیوں کے قیام کے لئے کوئی فیس عائدنہیں ہے یا ان کمپنیوں کے لئے جن کا سرمایے میں حصہ نہیں ہے لیکن ان کمپنیوں کےاراکین کی تعداد 20 تک ہے۔
  4. آئی ایف ایس سی کے لئے درکار ای۔ فارموں کی فراہمی اور استثنائی نوٹیکفیشن:  ترمیم ایکٹ ، سی آر ایل۔1تاخیر سے متعلق اسکیم کے سلسلے میں معافی کانفاذ(سی او ڈی ایس):        آئی ایف ایس سی سے متعلق تبدیلیوں کی بنیاد پر 16۔ ای فارموں میں تبدیلیاں عمل میں لائی گئی، استثنائی سے متعلق نوٹیفکیشن  اور اس سے متعلق تبدیلیاں، سی آر ایل۔01 کی فراہمی کے ساتھ کمپنیز ایکٹ کی ترمیم(ِذیلی کمپنیوں کی تعداد کے سلسلے میں کمپنی کے ذریعہ رجسٹرار کو اطلاعات  کی فراہمی) اور ماہ فروری 2018۔ مارچ 2018 میں سی او ڈی ایس 2018 کا اہتمام۔
  5. تمام کمپنیوں کے ڈائرکٹروں کے لئے ای -کے وائی سی مہم:   ایم سی اے نے سبھی ڈی آئی این  رکھنے والوں کے لئے  ایک لازمی ای۔ فارم یعنی ڈی آئی آر۔ 3 کے وائی سی کاآغاز کیا ہے جنہیں 31 مارچ 2018 کو یا اس سے پہلےڈی آئی این تخصیص کیا گیا ہے اور جن کا ڈی آئی این منظوری کی حیثیت میں ہے۔اس مہم کا مقصد منفرد ڈی آئی این رکھنے والوں کی تصدیق کرنا ہے اور جعلی ڈی آئی این رکھنے والوں کا خاتمہ کرنا ہے اور بالاخر ڈائرکٹرز ای۔ رجسٹری ختم کرنا ہے۔کے وائی سی عمل آدھار، پاسپورٹ، ذاتی موبائل نمبر اور ذاتی ای۔ میل آئی ڈی جیسی اضافی تفصیلات حاصل کررہا ہے۔مزید یہ کہ ان شراکت داروں کے لئے جن کے پاس آدھارنمبر  نہیں ہے، ایک استثنائی بندوبست  بھی فراہم کیا گیا ہے۔رجسٹری میں تقریباً 33 لاکھ ڈی آئی این ہیں اور تقریباً 15.88 لاکھ ڈی آئی این ہولڈرس (رکھنے والوں) نے 30 نومبر 2018 کو ڈی آئی آر کے وائی سی داخل کیا ہے اس مہم میں ایم سی اے نے 11 لاکھ آدھار کارڈ رکھنے والوں کا اندراج کیا ہے یہ اپنی نوعیت کی ایک مثالی مہم ہے جو ہندوستان میں کہیں شروع کی گئی ہے۔
  6. ایل ایل پی(ایف آئی ایل ا یل  آئی پی) کے قیام کے لئے مربوط فارم:    ایف آئی ایل ایل آئی پی نام کا ایک نیا مربوط فارم(لمٹیڈ ذمہ داری والی شراکت داری کے قیام سے متعلق فارم) نے سابقہ فارم۔ 2 (دستاویزات اور سبکرائبروں کے اسٹیٹ منٹ سے متعلق) کے فارم  کی جگہ لی ہے۔اس طریقہ سے نام کے ریزرویشن کی تین خدمات کو یکجا کردیا گیا ہے،تشخیص کردہ شراکت دار شناخت نمبر(ڈی پی آئی این/ ڈی آئی این) کی تخصیص کا کام اور ایل ایل پی کا قیام اس کے تحت شامل ہیں۔
  7. نیم ریزرویشن کے لئے سینٹرل رجسٹریشن سینٹر کا قیام اور ایل ایل پیز کے لئے گنجائش:          نیم ریزرویشن کے لئے سی آر سی اور کمپنیز کے قیام کے عمل کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے۔گزشتہ دو سال کے بعد سے سی آر سی کی کارروائی کو مستحکم کیا گیا ہے۔ وزارت نے ایل ایل پیز( لمٹیڈ لائبیلٹی پارٹنر شپ) کے لئے نیم ریزرویشن اور ان۔ کارپوریشن کے لئے اسی طرح جی پی آر عمل مکمل  کیا ہے اور اس کے تعلق ا یل ایل پی( محدود ذمہ داری شراکت داری) سے ہیں اور اسے سی آر سی آپریشن کےتحت لایا گیا ہے۔سرکاری تشکیل نو کا عمل(جی پی آر) ایک ایسا عمل ہے جو وزارت کے اس کے مقصد کی تکمیل کرتا ہے جو تمام شراکت داروں کو کاروبار کرنے کو آسان بنانے کے نقطہ نظر سے لایا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں کمپنیوں کے قیام کا عمل تیز رفتاری سے یقین ہوسکا ہے۔ یعنی کمپنیوں کے سلسلے کے قیام اپیلی کیشن، قواعد کا یکساں نفاذ اور صوابدید کا خاتمہ ممکن ہوسکا ہے۔

 

قومی کمپنی قانون خصوصی عدالت

دیوالیہ پن اور دیوالیہ قرار دیئے جانے سے متعلق معاملات کی سماعت میں تیزی لانے کی غرض سے کمپنی امور کی وزارت نے قومی کمپنی قانون خصوصی عدالت کے تحت 8 خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی تجویز رکھی ہے تاکہ دیوالیہ پن سے متعلق معاملات کو نمٹایا جا سکے ۔ یہ عدالتیں ممبئی ، دلی ، چنئی، کولکاتہ اور حیدرآباد میں قائم کرنے کی تجویز ہے۔ مذکورہ تجویز کا مقصد ملک بھر میں گیارہ بینچوں کی موجودگی کے باوجود خصوصی عدالت پر پڑنے والے  افزوں وزن میں تخفیف لانا ہے۔ آئی بی سی مقدمات کے بروقت تصفیے کا راستہ ہموار کرنے کے لئے تجویز ہے کہ دلی اور ممبئی کی  این سی ایل ٹی  بینچوں کے تحت خصوصی آئی بی عدالتیں قائم کی جائیں  تاکہ این سی ایل ٹی کی بنیادی ڈھانچے  کو تقویت پہنچانے کا عمل شروع ہو سکے۔ مقصد یہ ہے کہ دیوالیہ پن سے متعلق اس عمل کو این پی اے سے متعلق تنازعات کو تیزی سے نمٹانے کی سہولت کو مستحکم بنایا جا سکے۔

 

بھارتی احتساب کے معیارات

مزید شفاف احتساب کو رواج دینے کے لئے ایم سی اے نے بھارتی احتسابی معیارات  (آئی این ڈی اے ایس)115 اور مشتہر کئے ہیں جو یکم اپریل 2018 سے نافذ العمل ہو چکے ہیں۔ آئی این ڈی اے ایس 115 بین الاقوامی مالی رپورٹنگ معیارات سے مماثلت رکھنے والا ایک نیا مالیہ اعتراف معیار ہے جس کا تعلق صارفین کے معاہدوں سے ہے اور یہ مالیات کے معاملے میں زیادہ شفافیت پر مبنی احتساب کا راستہ ہموار کرے گا ساتھ ہی ساتھ ٹیکنالوجی ، زمین جائیداد اور ٹیلی مواصلات سمیت مختلف شعبوں میں مصروف عمل کمپنیوں پر بھی معقول اختیار اور اثرات مرتب کرے گا۔ آئی این ڈی اے ایس 115 کا مقصد ایسے اصولوں کی تشکیل ہے جنہیں مالی گوشواروں کے استعمال کنندگان کے لئے مفید اطلاعات کی بہم رسانی کےلئے  بروئے کار لایا جانا چاہئے۔ یہ معیار اپنے طور پر ایک ایسے ادارے یا تنظیم کا متقاضی  ہوتا ہے جو مالیات کے سلسلے میں ’’وعدہ کئے گئے سازو سامان کی منتقلی یا خدمات کو صارفین تک اس مقدار میں پہنچانے کی تفصیلات فراہم کرتا ہے جن کے تحت اس کی قیمت کاتعین بھی ہوتا ہے اور مذکورہ ادارہ یا تنظیم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کے بدلے میں ان سازو سامان اور خدمات کا متبادل پیش کر سکتی ہے‘‘۔

 

غیر فہرست بند سرکاری کمپنیوں کے تمسکات  کی اہمیت کا خاتمہ

کارپوریٹ ڈھانچے میں افزوں شفافیت متعارف کرانے اور تمسکات سے حاصل ہونے والے فوائد کی اہمیت ختم کرنے کی غرض سے خصوصاً کے وائی سی اور سرمایہ کاروں کے تحفظ کے مقصد سے ، حکومت کی توجہ ’’ڈیجیٹل انڈیا ‘‘پر مرکوز ہے اور وزارت کے تحت دفعہ 29(1)(b)CA-13- کی متعلقہ تجاویز کے سلسلے میں وزارت نے متعلقہ قوائد میں ترمیم کی ہے تاکہ سرکاری کمپنیوں کو جو فہرست بند نہیں ہیں، ان کے سلسلے میں درج فہرست کمپنیوں کے ساتھ ساتھ مذکورہ تمسکات سے متعلق ضروریات کی تکمیل کی جا سکے۔  اس سلسلے میں تمام تر شراکت داروں سے گفتگو شنید اور رائے مشورہ کیا گیا تھا اور 10ستمبر 2018 کو قوائد میں ترمیم عمل میں لائی گئی تھی جنہیں 2 اکتوبر 2018 سے نافذ ہونا تھا اور ان کا تعلق   صرف ڈیمیٹ شکل میں غیر فہرست بند سرکاری کمپنیوں کے  تمسکات کی منتقلی سے تھا۔

 

سرمایہ کاروں کے لئے ضروری جانکاریاں اور تحفظاتی فنڈ

سرمایہ کاروں کے لئے ضروری جانکار ی اور تعلیم نیز تحفظ فنڈ (آئی ای پی ایف ) اتھارٹی  نے اپنے نئے علامتی نشان کو 2018 میں  منظر عام پر پیش کیا تھا۔ تاکہ مضبوطی سے برانڈ کی موجودگی اور اس کی تشہیر ممکن ہو سکے۔ آئی ای پی ایف اتھارٹی نے سی ایس سی ای -گورنینس سروسز انڈیا کے ساتھ ایک مفاہمتی عرضداشت پر دستخط بھی کئے تھے جس کے تحت  دیگر سرگرمیوں کے علاوہ سی ایس سی ای-گورنینس سروسز انڈیا گاؤں کی سطح پر سرمایہ کاروں کی جانکاری سے متعلق پروجیکٹوں کے لئے شناخت کا کام انجام دے گی ۔ کمپنی امور کی وزارت آئی ای پی ایف میں مزید اصلاحات  کے امکانات پر سرگرمی سے غور و فکر کر رہی ہے۔  انسٹی ٹیوٹ آف کمپنی سکریٹریز  آف انڈیا (آئی سی ایس آئی ) کے توسط سے مصروف عمل کمپنی سکریٹریوں کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا عمل شروع کیا گیا تھا تاکہ موجودہ دعوؤں  کو نمٹانے سے متعلق عمل پر نظر ثانی کی جا سکے ۔  اس کمیٹی نے موجودہ تمام امور کا جائزہ لیا ہے اور شفارش میں کہا ہے کہ تمام تر متعلقہ کارروائی آن لائن بنائی جانی چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ کمپنیوں کے ذریعے دعوؤں کی ای تصدیق بھی کی جانی چاہئے ۔ آن لائن پی اے این پر مبنی تصدیق بھی دعویداروں کےسلسلے میں  لازمی ہوگی۔

www.iepfportal.in نام کا ایک نیا پورٹل وضع کیا گیا ہے جس کا مقصد آئی اے پی کے دائرۂ کار میں توسیع کرنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پیشہ ورانہ اداروں  سی ایس سی  ای-گورنینس اور دیگر شراکت دار اداروں  کے ذریعے چلائے جانے والے پروگراموں کی نگرانی بھی کرنا ہے۔ یہ پورٹل شراکت دار اداروں مثلاً آئی سی اے آئی ، آئی سی ایس آئی ، آئی سی او اے آئی اینڈ آئی آئی سی اے  اور سی ایس سی  سی-گورنینس وغیرہ کے ذمہ  ماضی اور مستقبل کے پروگراموں کی تفصیلات کو اپلوڈ کرنے کے سلسلے میں رسائی فراہم کرتا ہے۔

 

مسابقت کی اہمیت ہے:

بھارت میں مسابقت پر جاری مباحثے کے دائرے کو وسعت دینے اور گرد و نواح کی دنیا سے بہترین طریقہ ہائے کار کو مسابقتی موضوعات کے طور پر شامل کرنے کی غرض سے ، بھارت کے مسابقتی کمیشن (سی سی آئی ) نے بڑی کامیابی سے مارچ 2018 میں نئی دلی میں 17 ویں بین الاقوامی مسابقتی نیٹ ورک (آئی سی این) کی سالانہ کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ 70 ممالک کے تقریباً 500 پیشہ وران نے  اس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اس میں مسابقتی ایجنسیوں کے سربراہان قانونی اور اقتصادی پیشہ وران پر مشتمل  شراکت وران ، بین الاقوامی ادارے اور اکیڈمیاں شامل تھیں۔

کمپنی امور کی وزارت نے  یکم جون 2018 کو صنعتی پالیسی اور فروغ کے محکمے کے سکریٹری جناب رمیش ابھیشیک کی صدارت میں ’موجودہ پالیسیوں کے مسابقی احتساب کا عمل‘  انجام دینے کے لئے ایک بین وزارتی کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اس کمیٹی میں سات دیگر وزارتوں ؍اداروں کی نمائندگان بھی شامل تھے۔ کمیٹی کی خاص توجہ منتخبہ ایکٹ  ؍ قوائد ؍ پالیسیوں ؍ ضوابط پر مرکوز تھی جنہیں ماضی قریب میں تشکیل دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ آئندہ وضع کئے جانے والے قوانین بھی اس کے تحت شامل تھے ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ انسداد مسابقت کے پہلوؤں سے وابستہ امور پر غور و فکر کیا جائے اور قانون کے کسی بھی ایسی رکاوٹ ؍ تجویز پر توجہ مرکوز کی جائے جو مسابقت کے لئے بڑا خطرہ بن سکتی ہو۔

مزید برآں قانون کو مضبوط اقتصادی بنیادوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے قانون سازی عمل میں لانے کے اپنے مقصد کی جستجو میں حکومت نے ایک مسابقتی قانون نظر ثانی کمیٹی یکم اکتوبر 2018 کو کمپنی امور کے سکریٹری جناب انجیتی سری نواس کی صدارت میں تشکیل دی تھی ۔ اس کمیٹی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بہترین بین الاقوامی طریقہ ہائے کار  اور شعبہ جاتی متعلقہ پہلوؤں  کو مدنظر رکھتے ہوئے مسابقتی قانون ؍ قوائد ، ضوابط پر نظر ثانی کا عمل انجام دے۔

بھارت کے مسابقتی کمیشن (سی سی آئی ) نے یکجائی سے متعلق قوائد و ضوابط میں ترمیم کی ہے۔ ترمیم کے بعد قوائد میں دیگر چیزوں کے علاوہ اس نوٹس کو واپس لینے اور پارٹیوں کے ذریعے دوبارہ داخل کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے جس کے ذریعے پارٹیاں نوٹس کے جواب میں رضاکارانہ طور پر اپنی جانب سے کچھ ترمیم کرنے کی خواہشمند ہوں ۔ اس سلسلے میں ترامیم وغیرہ کے نفاذ کے لئے انہیں ایجنسیوں کی تقرری کا بھی حق حاصل ہوگا۔

قومی اور ریاستی سطح پر شروع کی گئی مسابقتی کارروائی کے ایک حصے کے طور پر سی سی آئی نے ’’عوامی حصولیابی اور مسابقتی قانون ‘‘ کے موضوع پر ایک قومی کانفرنس کے اہتمام سمیت ممبئی اور دلی میں روڈ شوز کا اہتمام کیا ہے ۔  اسی طرح کے مماثل روڈ شوز جن میں مسابقتی معاملات پر توجہ مرکوز کی جائے گی ، وقفے وقفے سے منعقد کئے جا رہے ہیں اور آئندہ مہینوں میں بھی ایسے ہی مزید شوز منعقد کرانے کا منصوبہ وضع کیا گیا ہے۔

 

**************

U.No: 6355

 



(Release ID: 1556956) Visitor Counter : 468


Read this release in: Tamil , English , Marathi , Bengali