وزیراعظم کا دفتر

شانگریلا ڈائیلاگ میں وزیر اعظم کے کلیدی خطے کا متن

Posted On: 01 JUN 2018 7:35PM by PIB Delhi

وزیر اعظم لی سیان لونگ،

 

آپ کی دوستی، بھارت ۔ سنگاپور شراکت داری اور اس خطے کے بہتر مستقبل کے لئے آپ کی قیادت کا شکریہ
وزرائے دفاع،

جناب جان چپمین
معززین اور عالی مرتبہ شخصیات
نمسکار اور آپ سب کو بہت بہت شام کا سلام!


میں ایک ایسے خطے میں واپس آکر بہت مسرور ہوں، جسے بھارت زمانۂ قدیم سے سورن بھومی یا سونے کی سرزمین کے طور پر جانتا آیا ہے۔

 

اس خاص برس میں مجھے یہاں آکر بڑی مسرت ہوئی ہے۔ بھارت کے ساتھ آسیان کی ترقی کا یہ سنگ میل برس ہے۔

 

ماہ جنوری میں ہم نے اپنے یوم جمہوریہ کے موقع پر دسویں آسیان رہنماؤں کی میزبانی کا منفرد اعزاز حاصل کیا تھا۔ آسیان۔ بھارت سربراہ ملاقات آسیان کے تئیں ہماری عہد بندگی اور ایکٹ ایسٹ پالیسی سے ہماری وابستگی کا بین ثبوت ہے۔

 

ہزاروں برسوں سے بھارت مشرق کی جانب دیکھتا آیا ہے۔ صرف طلوع آفتاب دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ اس دعا کے لئے بھی کہ اس کی روشنی پورے عالم کو منور کرے۔ بنی نوع انسان اب ابھرتے ہوئے مشرق کی جانب دیکھتی ہے، اس امید کے ساتھ کہ یہ اکیسویں صدی پوری دنیا کے لئے کیا کیا مواقع لے کر آئی ہے کیونکہ دنیا کا مقدر بھارت۔ بحرالکاہل خطے میں رونما ہونے والی پیش رفتوں سے گہرائی سے متاثر ہوگا۔

کیونکہ امیدوں اور وعدوں کا یہ نیا عہد عالمی سیاست اور تاریخی غلطیوں کی تہوں کو بھی تہہ و بالا کر رہا ہے۔ میں یہاں یہ کہنے آیا ہوں کہ ہم جس مستقبل کے آرزو مند ہیں وہ شانگریلا جیسا چھلاوہ نہیں ہے اور ہم اس خطے کو اپنی اجتماعی امیدوں اور توقعات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ اب یہاں ایسا کرنا زیادہ ضروری ہے جتنا کبھی سنگاپور میں ہوا کرتا تھا۔ اس عظیم ملک نے ہمیں یہ راستہ دکھایا ہے کہ جب سمندر کھلے ہوئے ہوتے ہیں تو سمندر محفوظ ہوتے ہیں، ممالک مربوط ہوتے ہیں، قانون کی حکمرانی قائم رہتی ہے اور خطہ مستحکم رہتے ہیں۔ ممالک خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، خودمختار ممالک کے طور ترقی کرتے ہیں۔ اور اپنے متبادلوں میں آزاد اور بے خوف ہوتے ہیں۔
 

سنگاپور نے ہمیں یہ راستہ بھی دکھایا ہے کہ جب ممالک ایک طاقت یا دوسری طاقت کے پیچھے کھڑے ہونے کی بجائے  اصولوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے ہیں تو وہ دنیا کے لئے عزت کماتے ہیں اور بین الاقوامی امور میں ان کی آواز سنی جاتی ہے۔ جب وہ اندرونِ ملک تنوع اختیار کر لیتے ہیں تو وہ دنیا جہان میں شمولیت تلاش کرتے ہیں۔
 

بھارت کے لئے اگرچہ سنگاپور اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک جذبہ ہے جو ایک بہادر ملک کو ایک بہادر شہر سے جوڑتا ہے۔ سنگاپور آسیان تک پہنچنے کے لئے ہمارا زینہ ہے۔ یہ صدیوں سے بھارت کے لئے مشرق تک پہنچنے کا راستہ رہا ہے۔ دو ہزار سے زائد برسوں سے مانسون کی ہوائیں، سمندر کا تنوع اور انسانی توقعات نے بھارت اور اس خطے کے مابین روابط استوار کیے ہیں۔ یہ امن اور دوستی، مذہب اور ثقافت، فنون لطیفہ اور تجارت، زبان و ادب سے مملو رہا ہے۔ یہ انسانی روابط پائیدار رہے ہیں۔ اگرچہ سیاست اور تجارت کے مدوجزر آتے اور جاتے رہے ہیں۔

گذشتہ تین دہائیوں سے ہم نے اس خطے میں اپنے کردار اور اپنے تعلقات کو بحال کرنے کے لئے اپنے ورثے کو از سر نو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب بھارت کے لئے کوئی اور دیگر خطہ اتنی توجہ کا حامل نہیں ہے جتنی توجہ ہم اس خطے پر دے رہے ہیں ، اس کی بہتر وجوہات ہیں۔
 

سمندر ماقبل ویدک زمانے سے بھارتی فکر میں ایک اہم مقام کا حامل رہا ہے۔ ہزاروں برس قبل سندھو گھاٹی کی تہذیب اور بھارتی جزیرے نما کے مابین بحری تجارت ہوتی رہی ہے۔ سمندر او ورونا یعنی تمام پانی کا خدا دنیا کی قدیم ترین کتابوں۔ ویدوں میں نمایاں طور موجود ہے۔ قدیم پرانوں میں اس کا تذکرہ ہے۔ یہ وہ پران ہے جو ہزاروں برس قبل تصنیف کیے گئے تھے۔ بھارت کی جغرافیائی تاریخ سمندروں سے عبارت ہے۔’اُتّروں یت سمدرسیہ‘ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سرزمین جو ان سمندروں کے شمال میں واقع ہے۔

میرے ہوم اسٹیٹ گجرات میں لوتھل دنیا کی سب سے قدیم بندرگاہ تھی۔ آج بھی ایک گودی کے نشانات باقیات کی شکل میں موجود ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کی گجراتی محنت کش ہوتے ہیں اور دور دور تک کا سفر کرتے ہیں، یہاں تک کہ آج بھی۔ بحر ہند نے بھارت کی تاریخ کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔ اب بھی ہمارے مستقبل کی کلید اسی کے پاس ہے۔ اس سمندر سے بھارت کی 90 فیصد تجارت ہوتی ہے اور توانائی وسائل بہم پہنچائے جاتے ہیں۔ یہ آج بھی عالمی تجارت کی لائف لائن ہے۔  بحرِ ہند متنوع ثقافتوں کے خطوں کو باہم مربوط کرتا ہے، مختلف سطحوں کے امن اور خوشحالی کو بحال رکھتا ہے۔ اب یہاں بڑی طاقتوں کے بحری جہاز آتے ہیں جو استحکام اور نبردآزمائی کے لئے تشویش کن ہے۔
 

مشرق کے تئیں ملاکا اسٹریٹ اور جنوبی چین کا سمندر بھارت کو بحرالکاہل سے مربوط کرتا ہے۔ بھارت کو بحرالکاہل اور ہمارے بہت سے شراکت داروں -  آسیان، جاپان، جمہوریۂ کوریا، چین اور امریکہ سے مربوط کرتا ہے۔اس خطے میں ہماری تجارت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اور سمندر پار سے کی جانے والی سرمایہ کاری کا ایک قابل ذکر حصہ اسی سمت سے آتا ہے۔ خود آسیان کا حصہ بیس فیصد سے زائد کا ہے۔
 

 

اس خطے میں ہمارے مفادات وسیع اور وابستگی گہری ہے۔ بحرہند کے خطے میں ہمارے تعلقات مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم اقتصادی صلاحیتوں کو بڑھانے اور صلاحیتوں میں اقتصادی پہلو شامل کرنے کے حمایتی ہیں اور ہمارے اپنے دوستوں اور شراکت داروں کے لئے بحری سلامتی میں اضافہ چاہتے ہیں۔ ہم بحر ہند، بحریہ سمپوزیم کے توسط سے اجتماعی صلاحیت سلامتی کو فروغ دیتے ہیں۔

ہم بحر ہند سے متعلق رم ایسوسی ایشن کے توسط سے ایک جامع ایجندا برائے علاقائی تعاون کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ہم بحر ہند سے باہر بھی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ عالمی ٹرانزٹ روٹ پر امن اور سبھی کے لئے کھلا رہے۔

تین برس قبل ماریشس میں ہم نے ایک دنیا کے متعلق اپنا وژن ظاہر کیا تھا۔ ساگر ، ہندی زبان میں اس کے معنی ہوتے ہیں سمندر۔ اور ساگر سلامتی اور خطے میں نمو کو سبھی کے لئے ممکن بناتا ہے۔ اور یہی عقل مندی ہے کہ ہم بھی سب سے زیادہ امن کے فروغ کو پورے زور و شور سے چلیں۔ ہماری ایکٹ ایسٹ پالیسی کا مقصد بھارت کو مربوط کرنا ہے، خصوصاً اس کے مشرقی اور شمال مشرقی خطے کے ساتھ اس کے ارتباط میں اضافہ اور ہمارے زمینی اور بحری شراکت داروں کو مشرق سے وابستہ کرنا ہے۔

 

جنوب مشرقی ایشیا زمین اور سمندر دونوں لحاظ سے ہمارا ہمسایہ ہے۔ ہر ایک جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے ساتھ ہمارے افزوں سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تعلقات ہیں۔ آسیان کے ساتھ، ڈائیلاگ شراکت داروں کے ساتھ ہم 25برسوں میں کلیدی شراکت دار بن چکے ہیں۔ ہمارے اپنے ان تعلقات کو سالانہ سربراہ ملاقاتوں اور 30ڈائیلاگ میکنزموں کے ذریعہ تقویت دیتے رہے ہیں۔ تاہم خطے کے لئے زیادہ مشترکہ وژن پر مبنی نظریہ کے ساتھ اور ہمارے قدیم روابط سے پیدا ہونے والی آسانی اور پیشگی تعارف کےساتھ۔
 

ہم آسیان کی رہنمائی والے اداروں مثلاً مشرقی ایشیا سربراہ ملاقات، اے ڈی ایم ایم، پلس اور اے آر ایف کے معاملے میں سرگرم شراکت دار ہیں۔ ہم بی آئی ایم ایس ٹی ای سی اور میکانگ۔ گنگا اقتصادی گلیارے کا ایک حصہ ہیں۔ یہ گلیارا جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے مابین ایک طرح کا پل ہے۔
 

جاپان کے ساتھ ہمارے تعلقات اقتصادی نوعیت سے لے کر کلیدی نوعیت تک کے ہیں اور ان میں مکمل تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ یہ ایک عظیم وجود کی شراکت داری ہے اور اس کا مقصد بھارت کی ایکٹ ایسٹ پالیسی میں سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ جموریہ کوریا کے ساتھ ہمارے تعلقات میں مضبوط روانی آئی ہے اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ ہماری شراکت داری میں بھی ایک تازہ توانائی داخل ہوئی ہے۔
 

ہمارے متعدد شراکت داروں کے ساتھ ہم تین یا اس سے بھی زیادہ شکلوں میں ملاقات کرتے ہیں۔ تین سے بھی زائد برسوں سے میں فجی جاتا رہا ہوں تاکہ بحرالکاہل جزائر والے اس ملک سے روابط کا ایک نیا اور کامیاب دور شروع ہو جائے۔فورم فار انڈیا پیسفک آئی لینڈ کو آپریشن یا ایف آئی پی آئی سی جیسے فورموں کی میٹنگوں نے مشترکہ مفادات اور کاروائیوں کے ذریعہ جغرافیائی فاصلے مٹا دیے ہیں۔
 

مشرق اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ ہماری شراکت داری مضبوط اور نمو پذیر ہے۔ ہماری کلیدی خود مختاری کا یہ قدم ہے کہ بھارت کی کلیدی شراکت داری جو روس کے ساتھ قائم ہے وہ خصوصی اور منفرد شکل میں بالیدہ ہوئی ہے۔
 

دس دن قبل سوچی میں صدر پتین اور میں نے ایک مضبوط قطبی دنیا کے نظام کے لئے اپنے خیالات ساجھا کیے تھے تاکہ عہد حاضر کی چنوتیوں سے نمٹا جا سکے۔ اس کےساتھ ہی ساتھ بھارت کی عالمی کلیدی شراکت داری جو امریکہ کے ساتھ قائم ہے اس میں تاریخ کی جھلک اب باقی نہیں رہ گئی اور تعلقات کی وسعت کے ساتھ غیر معمولی طور پر آگے بڑھی ہے۔ اس نے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک نئی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ اس شراکت داری کا اہم ستون ہمارا وہ مشترکہ وژن ہے جو کھلے، مستحکم اور محفوظ اور خوشحال بھارت۔ بحرالکاہل خطے کے لئے ہے۔ بھارت کے کوئی دیگر تعلقات اتنے تہہ داری والے نہیں ہیں جیسا کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں۔ ہم دنیا کی دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں اور تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی معیشتیں ہیں۔ ہمارے تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تجارت نمو پذیر ہے۔ اور ہم نے معاملات کے انتظام اور ایک پر امن سرحد کو یقینی بنانے کے لئے بالغ النظری اور دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔
 

ماہ اپریل میں صدر ژی کے ساتھ ایک دو روزہ غیر رسمی سربراہ ملاقات نے ہمیں یہ سمجھنے میں بہت مدد دی تھی کہ ہم دونوں ممالک کے مابین مستحکم اور مضبوط تعلقات  امن عالم اور ترقی کے لئے اہم عناصر ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایشیا اور پوری دنیا اس وقت زیادہ بہتر مستقبل کی حامل ہوگی جب بھارت اور چین پورے اعتماد اور بھروسے کے ساتھ ایک دوسرے کے مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے کام کریں گے۔
 

افریقہ کے ساتھ بھارت کی افزوں شراکت داری رہی ہے جس میں بھارت۔ افریقہ فورم سربراہ ملاقاتیں جیسے میکنزموں کا دخل رہا ہے۔ اس کی بنیاد میں افریقہ کی ضروریات پر مبنی تعاون اور تاریخی گرم جوشی اور باہمی احترام کارفرما رہے ہیں۔


دوستو،
 

اپنے خطے کی جانب واپس آتے ہوئے بھارت کے افزوں تعلقات عمیق اقتصادی اور دفاعی تعاون سے مالامال ہیں۔ ہم دنیا کے دیگر کسی حصے کے مقابلے میں اس حصے میں زیادہ بڑی تعداد میں تجارتی معاہدات کے حامل ہیں۔ ہم نے سنگاپور، جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ جامع اقتصادی شراکت داری معاہدات کیے ہیں۔
 

ہم نے آسیان اور تھائی لینڈ کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدات کیے ہیں اور اب ہم  علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے کو حتمی شکل دینے میں سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں۔ میں نے ابھی ابھی انڈونیشیا کا اپنا پہلا دورہ کیا ہے۔ بھارت کا یہ ہمسایہ 90 نوٹیکل میل نزدیک اور 90 نوٹیکل میل فاصلے پر واقع ہے۔
 

 

میرے دوست صدر ویڈوڈو اور میں نے بھارت۔ انڈونیشیا تعلقات کو ایک جامع کلیدی شراکت داری میں بدل دیا ہے۔ دیگر مشترکہ مفادات کے ساتھ بھارت۔ بحرالکاہل میں بحری تعاون کے لئے ہمارا ایک مشترکہ وژن ہے۔ انڈونیشیا سے آتے ہوئے میں تھوڑی دیر کے لئے ملیشیا ٹھہرا تھا تاکہ آسیان کے ازحد معمر رہنما ؤں میں سے ایک یعنی وزیر اعظم مآثر سے ملاقات کر سکوں۔
 

دوستو،
 

بھارتی مسلح دستے خصوصاً ہماری بحریہ بھارت۔ بحرالکاہل خطے میں امن کے لئے شراکت داری قائم کر رہی ہے اور انسانی بنیادوں پر امداد  اور راحت رسانی بھی فراہم کر رہی ہے۔ بحریہ پورے خطے میں تربیت فراہم کرتی ہے، مشقیں کرتی ہے اور خیر سگالی مشن بھی انجام دیتی ہے۔ مثال کے طور پر سنگاپور کے ساتھ ہم نے طویل ترین اور لگاتار جاری رہنے والی بحری مشق کی۔ اور اب یہ اپنے پچیسویں برس میں داخل ہو گئی ہے۔
 

ہم سنگاپور کے ساتھ اب ایک نئی سہ پہلوئی مشق شروع کریں گے اور ہمیں توقع ہے کہ ہم اسے دیگر آسیان ممالک تک وسعت دیں گے۔ ہم ویتنام جیسے شراکت داروں کے ساتھ باہمی صلاحیت سازیوں کے لئے بھی مل کر کام کرتے ہیں۔ بھارت  امریکہ اور جاپان کے ساتھ مالابار جیسی مشقیں بھی کرتا ہے۔ بحر ہند میں بھارت کی مشق ملن کے دوران متعدد علاقائی شراکت داروں نے بھی شرکت کی تھی اور بحرالکاہل میں منعقد ہونے والی آر آئی ایم پی اے سی میں بھی حصہ لیا تھا۔
 

قذاقی سے نمٹنے اور ایشیا میں بحری جہازوں پر ہونے والی مسلح قزاقی کی روک تھام کے لئے ہم اسی شہر میں علاقائی تعاون معاہدے کو حتمی شکل دینے میں سرگرم ہیں۔ معزز حاضرین، ہمارے ملک میں ہمارا اہم مشن بھارت کو 2022 تک ایک نیا بھارت بنا دینے کا ہے۔ اس وقت جب آزاد بھارت 75 برس کا ہوگا۔
 

ہم نے 7.5 سے 8 فیصد تک کی سالانہ شرح نمو برقرار رکھی ہے۔ جیسے جیسے ہماری معیشت نمو پذیر ہوگی، ویسے ویسے ہمارا عالمی اور علاقائی ارتباط بڑھتا جائے گا۔ 800 ملین سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ملک اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کا مستقبل صرف بھارت کی معیشت کے ذریعہ طے نہیں ہوگا بلکہ عالمی رابطے کی گہرائی بھی اس پر اثر انداز ہوگی۔ کسی اور جگہ کے مقابلے میں ہمارے تعلقات اس خطے میں ہماری موجودگی کو اور زیادہ گہرا بنائیں گے۔ تاہم ہم جیسا مستقبل بنانا چاہتے ہیں اس کے لئے ایک مستحکم امن کی بنیاد درکار ہے اور یہ چیز قطعی غیر یقینی ہے۔ عالمی قوتوں میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ عالمی معیشت کا کردار میں تبدیلی اور تکنالوجی میں روزانہ رخنہ اندازی ہوتی ہے۔ عالمی نظام کی بنیاد متزلزل محسوس ہوتی ہے اور مستقبل میں ثبات کم نظر آتا ہے۔ ہماری پیش رفت اور ہماری ترقی کے لئے ہم غیر یقینی صورتِ حال میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
 

 

 

ہمارے سامنے حل طلب مسئلے ہوتے ہیں اور تصفیہ طلب تنازعات، نبردآزمائیاں اور دعوے، نظریات کا ٹکراؤ اور مسابقتی نمو، ہم افزوں باہمی عدم تحفظ اور افزوں فوجی اخراجات، داخلی اتھل پتھل کو بیرونی تناؤ  میں بدلتے ہوئے، نئی فالٹ لائن کو عالمی پیمانے پر تجارت اور مسابقت میں بدلتے ہوئے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ ہم بین الاقوامی اصول و ضوابط کے سلسلے میں طاقت کی بالادستی اور اس کا مظاہرہ ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے درمیان وہ چنوتیاں موجود ہیں جو ہمیں بہت متاثر کرتی ہیں۔ ان میں کبھی نہ ختم ہونے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی بھی شامل ہے۔ یہ باہم ایک دوسرے پر منحصر مقدرات اور ناکامیوں والی دنیا ہے۔ اور کوئی بھی ملک اپنے طور پر سب کچھ محفوظ نہیں کر سکتا۔


یہ ایک ایسی دنیا ہے جو ہمیں تفریقات اور مسابقت سے اوپر اٹھ کر ایک ساتھ مل جل کر کام کرنے کے لئے مدعو کرتی ہے، کیا یہ ممکن ہے؟

 

ہاں یہ ممکن ہے۔ میں آسیان کو ایک مثال اور ایک ترغیب کے طور پر دیکھتا ہوں۔ آسیان ثقافت، مذہب، زبان، حکمرانی، خوشحالی اور دنیا میں قائم ہونے والی کسی بھی حلقہ بندی کے لئے تنوع کی عظیم ترین سطحوں کی نمائندگی کرتی ہے۔
 

یہ اس وقت وجود میں آئی تھی جب جنوب مشرقی ایشیا عالمی مسابقت میں سر فہرست ہوا کرتا تھا۔ سفاکانہ جنگ اور غیر یقینی ممالک کے ایک خطے کی تماشہ گاہ۔ ہاں، آج، آسیان نے دس ممالک کو ایک مشترکہ مقصد کے پیچھے جمع کر دیا ہے۔ اس خطے کے مستقبل کے استحکام کے لئے آسیان اتحاد ناگزیر ہے۔
 

ہم میں سے ہر ایک کو اس کی ہمایت کرنی چاہئے، نہ کہ اسے نقصان پہچانا چاہئے۔ میں نے چار ایشیائی سربراہ ملاقتوں میں شرکت کی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آسیان سرحدی خطے کو متحد کر سکتی ہے۔ متعدد طریقوں سے آسیان اس امر کی پہلے سے قیادت کرتی آئی ہے۔ ایسا کرنے میں اس نے بھارت۔ بحرالکاہل خطے کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ مشرقی ایشیا سربراہ ملاقات اور جامع اجتماعی شراکت داری، آسیان کی دو اہم پہل قدمیاں ہیں جو اسی کا نتیجہ ہیں۔

دوستو،

 

بھارت ۔ بحرالکاہل ایک فطری خطہ ہے۔ یہ عالمی مواقع اور چنوتیوں کا ایک وسیع میدان بھی ہے۔ مجھے افزوں طور پر یقین ہے کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک جو اس خطے میں سکونت پذیر ہے، سب کے مقدرات، ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے جاتے ہیں۔ آج ہمیں تفریق اور مسابقت سے اوپر اٹھ کر اجتماعی طور پر کام کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔
 

 

 

 


جنوب مشرقی ایشیا کے  دس ممالک جغرافیائی اور تہذیبی دونوں معنوں میں دو عظیم سمندروں کو مربوط کرتے ہیں۔ لہٰذا شمولیت، کھلا پن اور آسیان ارتکاز اور اتحاد نئے بھارت۔ بحرالکاہل خطے کی جان ہیں۔ بھارت اپنے طور پر بھارت۔ بحرالکاہل خطے کو محض ایک حکمت عملی یا محدود اراکین کے کلب کے طورپر نہیں دیکھتا۔

نہ ہی کسی ایسی گروپنگ کی شکل میں دیکھتا ہے جو بالادستی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ نہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی ملک کے خلاف کھڑی کی گئی ہے۔ لہٰذا اس کی کوئی جغرافیائی تعریف نہیں طے کی جا سکتی۔ لہٰذا بھارت۔ بحرالکاہل خطے کے لئے بھارت کا وژن مثبت ہے اور اس کے بہت سے عناصر ہیں۔
 

پہلا
 

یہ ایک ایسے آزاد کھلے اور شمولیت پر مبنی خطے کی وکالت کرتی ہے جو ہم سب کو ترقی و خوشحالی کی مشترکہ جستجو کے لئے متحد کرتی ہے۔ اس میں اس جغرافیائی علاقے میں آنے والے ممالک کے علاوہ اس کے باہر کے ممالک بھی شامل ہیں جن کا مفاد اس سے وابستہ ہے۔
 

دو،
 

جنوب مشرقی ایشیا اسکے وسط میں ہے۔ اور آسیان اس کے مستقبل کے معاملے میں مرکزی حیثیت کی حامل ہوگی۔ یہی وہ وژن ہے جو ہمیشہ بھارت کی رہنمائی کرے گا کیونکہ ہم اس خطے میں امن او رسلامتی کے قیام کے لئے تعاون کرنے کے خواست گار ہیں۔

 

تین،
 

ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ ہماری مشترکہ خوشحالی اور سلامتی ہم سے اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم بات چیت کے ذریعہ ایک مشترکہ اصول و ضوابط پر مبنی نظام اس خطے کے لئے قائم کریں۔ اور یہ اصول یکساں طور پر ہر کس و ناکس پر اور عالمی پیمانے پر مشترکہ طو ر پر نافذ ہونا چاہئے۔ ایسے نظام کو خودمختاری اور علاقائی سالمیت اور تمام ممالک کی برابر حیثیت یا مساوات میں یقین کا حامل ہونا چاہئے۔ خواہ ان ممالک کا ہجم کچھ بھی ہو۔ ان قوائد و ضوابط کو سب کی رضامندی حاصل ہونا چاہئے نہ کہ چند لوگوں کی طاقت کے طابع ہونا چاہئے۔ یہ گفت و شنید میں یقین پر مبنی ہونی چاہئے۔ زبردستی اور دھونس کے طابع نہیں ہونی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ جب ممالک بین الاقوامی عہد بندگیاں کریں تو انہیں اسے پورا بھی کرنا چاہئے۔ کثیر پہلوئی نظام اور علاقائیت کے تئیں بھارت کے یقین کی یہی بنیاد ہے۔ اور قانون کی حکمرانی کے اصول پر مبنی یہی ہماری عہدبندگی بھی ہے۔
 

چوتھا،

ہم سب کو بین الاقوامی قانون کے تحت سمندر کی گنجائش اور ہوا میں دستیاب گنجائش کو استعمال کرنے کا یکساں حق حاصل ہونا چاہئے۔اور اس کے لئے نقل و حرکت اور جہاز رانی کی آزادی بلاروک ٹوک والی تجارت اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق تنازعات کے تصفیے کا نظام درکار ہوگا۔ جب ہم ضابطے کے تحت زندگی بسر کرنے پر اتفاق کریں گے تو ہمارے سمندری راستے خوشحالی کی پگڈنڈیاں اور امن کے گلیارے بن جائیں گے۔ہم بحری جرائم کو متحد ہو کر روکنے میں کامیاب ہوں گے۔ بحری ایکولوجی کی حفاظت کر سکیں گے، تباہ کاریوں سے تحفظ حاصل کر سکیں گے اور نیل گوں معیشت سے خوشحالی حاصل کر سکیں گے۔
 

پانچ،

اس خطے اور ہم سب نے عالم کاری سے استفادہ کیا ہے۔ بھارتی کھانہ ان فوائد کی بہترین مثالیں پیش کرتا ہے۔ تاہم ساز و سامان اور خدمات کے معاملےمیں افزوں تحفظات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ تحفظات کی دیواروں کے پیچھے تصفیے نہیں ملتے بلکہ تبدیلیوں کو اپنانے سے راستے کھلتے ہیں۔ ہم سبھی کے لئے یکساں مواقع کے خواہش مند ہیں۔ بھارت کھلی اور مستحکم بین الاقوامی تجارت کے ماحول کا حامی رہا ہے۔ ہم بھارت ۔ بحرالکاہل خطے میں اصول و ضوابط پر مبنی، کھلے، متوازن اور مستحکم تجارتی ماحول کی حمایت کریں گے۔ جو تمام ممالک کو تجارت اور سرمایہ کاری کے فوائد سے ہمکنار کرے گی۔ہم علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری سے یہی توقع رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے اور اس نے جن اصولوں کا اعلان کیا ہے آر سی ای پی کو اسی کے مطابق جامع ہونا چاہئے۔ اسے تجارت، سرمایہ کاری اور خدمات کے مابین ایک توازن قائم کرنا چاہئے۔
 

چھٹواں،
 

رابطہ کاری از حد اہم ہے۔ یہ تجارت اور خوشحالی کو بڑھانے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتی ہے۔ یہ ایک خطے کو مربوط کرتی ہے۔ بھارت صدیوں سے چورستے پر کھڑا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رابطہ کاری کے فوائد کیا ہیں۔ اس خطے میں رابطہ کاری کی بہت سی پہل قدمیاں موجود ہیں۔ اگر انہیں کامیاب ہونا ہے تو ہمیں صرف بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں بنانا چاہئے، بلکہ اعتماد کا پل بھی قائم کرنا چاہئے اور اس کے لئے یہ تمام پہل قدمیاں خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام، باہمی گفت و شنید، اچھی حکمرانی، شفافیت، افادیت اور ہمہ گیری پر مبنی ہونی چاہئے۔ انہیں ممالک کو بااختیار بنانا چاہئے نہ کہ ممکن قرض کے بوجھ کے تلے دبا دینا چاہئے۔انہیں تجارت کو فروغ دینا چاہئے نہ کہ کلیدی مسابقت کو۔ ان اصولوں کے تحت ہم ہر کسی کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بھارت اپنی جانب سے اپنا فرض ادا کر رہا ہے اور اپنے طور پر ادا کر رہا ہے اور جاپان جیسے ملکوں سے ساتھ مل کر بھی یہ فرض ادا کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں، بحر ہند میں، افریقہ میں، مغربی ایشیا اور اس کے آگے بھی۔اور ہم نیو ڈیولپمنٹ بینک اور آسیان بنیادی ڈھانچہ سرمایہ کاری بینک میں اہم شراکت دار ہیں۔
 

 

 

آخر میں،
 

یہ سب کچھ ممکن ہے بشرطیکہ ہم ماضی کے مخاصمتی دور میں واپس نہ جائیں۔ میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ایشیائی مخاصمت ہمیں پچھڑا اور پسماندہ ہی رکھے گی اور ایشیائی تعاون اس صدی کی چہرہ کاری کرے گا۔ اس لئے اب ہر ملک کو خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ کیا اس کے انتخابات ایک مزید متحدہ دنیا بنائے جانے کے بارے میں ہے یا نئی مخاصمتوں کے جبر کے لئے ہے۔ یہ ایک ذمہ داری ہے جو موجودہ اور ابھرتی ہوئی طاقتوں پر ہے۔ مقابلہ تو عام بات ہے لیکن مقابلے ٹکراؤ اور  اختلافات میں تبدیل نہیں ہونے چاہئے۔ اختلافات کو تنازعات نہیں بننے دینا چاہئے۔ معزز سامعین ! مشترکہ قدروں اور مفادات پر مبنی شراکت داری عام بات ہے۔ ہندوستان نے بھی زیر نظر خطے اور اس سے دور علاقوں میں یہ شراکت داری کی ہے۔

 

  ایک پر امن اور مستحکم خطے کے لئے تین مزید خاکوں پر ہم انفرادی طور پر ان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔لیکن، ہماری یہ دوستی کسی ملک کے خلاف اتحاد نہیں ہے۔  ہم اصول اقدار، امن و ترقی کے ساتھ ہیں، نہ کہ انتشار پھیلانے کے۔ دنیا بھر میں ہماری دوستی ہماری اصل حیثیت کو اجاگر کرتی ہے۔


اور جب ہم ایک ساتھ کام کریں گے توہم دورِ حاضرکے اصل مسائل سے نمٹنے میں اہل ہوں گے۔  ہم اپنے سیارے کو فروغ دے سکیں گے۔ ہم عدم افزدوگی اسلحہ کو ضروری بنا سکیں گے۔ ہم اپنے عوام کو دہشت گردی اور سائبر خطرات سے محفوظ رکھ سکیں گے۔
 

آخر میں مجھے ایک بار پھر کہنے دیجئے کہ ہند۔ بحراوقیانوس خطے سے ہندوستان کا رابطہ و تعلق ساحل افریقہ سے امریکی ساحلوں تک قائم ہے۔ یہ رابطہ مجموعیت پر مبنی ہوگا۔ ہم ویدانتا کے اس فلسلفے کے وارث ہیں جو سب کی لازمی یکتائی میں یقین رکھتا ہے اور کثرت میں وحدت کے نظریے کی ستائش کرتا ہے۔ एकम सत्यम, विप्राः बहुदावदंति ۔ یعنی سچائی صرف ایک ہے، عالم حضرات اس کو اپنے اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ یہی ہماری تہذیبی روایات کی بنیاد ہے، ہماری اجتماعیت، ہمارے بقائے باہمی، ہماری کشادہ ذہنی اور مذاکرات کی بنیاد ہے۔ ہم کو ایک قوم کی حیثیت سے قائم کرنے والے جمہوریت کے آدرش بھی ہمارے اس طریقے کی چہرہ کاری کرتے ہیں جس طریقے سے ہم دنیا سے اپنی رابطہ کاری کرتے ہیں۔
 

اس طرح  ہندی میں اسے پانچ ایس میں ترجمہ کیا جا سکتا ہے : سمان (عزت) ؛ سمواد(مذاکرات)؛ سہیوگ (تعاون)، شانتی (امن)، اور سمردھی (خوشحالی)۔ یہ الفاظ یاد کرنا بہت آسان ہے، اس لئے ہم دنیا کے ساتھ امن، مذاکرات، احترامِ باہمی کے ساتھ مذاکرات اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ مطلق عہد بستگی کے ساتھ رابطہ رکھیں گے۔
 

ہم بین الاقوامی نظام پر مبنی ایک ایسی جمہوریت کو فروغ دیں گے جس میں دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ملک مساوات اور خودمختاری کے ساتھ ترقی کر سکیں گے۔ ہم اپنے سمندروں، اپنے خلائی علاقوں اور فضائی شاہراہوں کو کشادہ رکھنے کے لئے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ہم اپنے ملکوں کو دہشت گردی اور سائبر خطرات سے محفوظ رکھیں گے اور اپنے ملک کو خلل اندازی اور ٹکراؤ سے پاک رکھیں گے۔ ہم اپنی معیشت کو کشادہ اور مراسم کو شفاف رکھیں گے۔ ہم اپنے وسائل، اپنے بازار اور اپنی خوشحالی کو اپنے دیگر شراکت دار دوستوں کے ساتھ بانٹیں گے۔ ہم اپنے خطے کے لئے ایک پائیدار مستقبل کی چہرہ کاری کی کوشش کریں گے جس میں بین الاقوامی شمسی اتحاد جیسے نئے اتحاد کے ذریعہ فرانس اور دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

ہم اسی طرح اس وسیع و عریض خطے اور اس سے آگے بھی اپنے آپ کو اور اپنے شراکت داروں کو آگے لے جانے کے خواہش مند ہیں۔ اس خطے کی قدیمی دانائی ہماری مشترکہ وراثت ہے۔ بنی نوع انسان کے لئے بھگوان بدھ کے پیغام امن و شفقت نے ہم سب کو ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھا ہے۔ ہم نے مل کر انسانی تہذیب کو بہت کچھ دیا ہے۔ ہم جنگ کی تباہ کاریوں اور امید امن کے دور سے گزر چکے ہیں۔ ہم طاقت کی حدود سے واقف ہیں۔ اور تعاون کے فائدوں سے بھی واقف ہیں۔

آج یہ دنیا ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔ ہمارے سامنے ورغلانے اور بہکانے کے نتائج کے تاریخی سبق موجود ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جادۂ دانائی بھی موجود ہے۔ جو ہم سے اعلیٰ مقاصد کا متقاضی ہے اور جو ہمارے مفادات کے تنگ نظر نظریے سے بالاتر ہو کر ہم سے یہ بات محسوس کرنے کا متقاضی ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے مفادات کے لئے بہتر طریقے سے کام کر سکتا ہے۔ ہم دنیا کے تمام ملکوں کے وسیع تر مفاد میں مل کر کام کر سکتے ہیں۔ میں یہاں آپ سب سے اسی راستے پر گامزن ہونے کی درخواست کرتا ہوں۔

شکریہ
 

بہت بہت شکریہ

 

*****

  م ن۔ا ذ۔

U- 2922



(Release ID: 1534296) Visitor Counter : 117