وزارت خزانہ

’’شہری ترقیات :ٹیکنالوجیکل حل اور گورننس چیلنجز‘‘ کے موضوع پر  احمدآباد میں منعقدہ دو روزہ  علاقائی کانفرنس آج اختتام پذیر

Posted On: 20 APR 2018 3:43PM by PIB Delhi

نئی دہلی؍20 اپریل2018،’’شہری ترقیات: ٹیکنالوجیکل حل اور گورننس چیلنجز‘‘ کے موضوع پر گجرات کے احمد آباد میں منعقدہ دو روزہ علاقائی کانفرنس آج اختتام پذیر ہوئی۔ اس کانفرنس کا انعقاد وزارت خزانہ، حکومت ہند نے ایسوسی ایٹیڈ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری آف انڈیا (ایسوچیم)،ایشین انسفراسٹرکچر  انویسٹمنٹ بینک(اے آئی آئی بی)اور امورخارجہ کے تحت کام کرنے والے ایک خود مختار تحقیقی ادارہ ریسرچ اینڈ انفارمیشن سسٹم فار ڈیولپنگ کنٹریز(آر آئی ایس)کے ساتھ مل کر کیا  تھا۔یہ کانفرنس 25 اور 26 جون 2018 کو ممبئی میں منعقد ہونے والی اے آئی آئی بی کی تیسری سالانہ مجوزہ میٹنگ  کے لئے تیسری اہم ترین تقریب تھی۔اس کانفرنس سے قبل کولکاتہ اور وشاکھاپٹنم میں بالترتیب ماس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹمز اور ساحل و بندرگاہ سے متعلق بنیادی ڈھانچہ کے موضوع پر دو علاقائی کانفرنس پہلے ہی منعقد کی جاچکی ہے۔مجموعی طورپر ملک کے مختلف جگہوں میں مختلف موضوعات پر اس طرح کے 8 علاقائی کانفرنسوں کا انعقاد عمل میں آئے گا۔

اس دو روزہ کانفرنس کے آخر میں  اختتامی تقریر کرتے ہوئے بجلی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر  اور سینٹرل یونیورسٹی آف گجرات کے چانسلر ڈاکٹر وائی کے الاگ نے زور دے کر کہا کہ پالیسی ساز افراد کو شہری ترقی کے معاملے  میں سب سے نچلے طریقہ کار اور نقطہ نظر سے اوپری نقطہ نظر اور طریقہ کار کی جانب منتقل ہونا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم چھوٹے شہروں کو  شہری ترقی ، منصوبہ  بندی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے شامل کیا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ متاثرہ افراد ، سول سوسائٹی اور دیگر شراکت داروں کی آراء اور تجاویز کو بھی شہری منصوبہ بندی کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیئے، تاکہ شہری منصوبہ بندی کا عمل کامیاب ہوسکے۔

اس دو روزہ علاقائی کانفرنس کے مختلف اجلاسوں میں شریک ہونے والے افراد اور پینلسٹوں میں مرکزی حکومت ، ریاستی حکومتوں اور مقامی اداروں کے افسران کے علاوہ سول سوسائٹی ، تعلیمی برادری اور کثیر جہتی مالیاتی اداروں کے مندوبین شامل تھے ۔  اس کانفرنس میں شریک ہونے والے افراد نے متعدد مثالوں کا حوالہ دیا کہ شہری ترقیات کی منصوبہ بندی کے درمیان  کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہیے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ  ان مندوبین نے مہارت سے بھرپور اپنے خیالات اور تجاویز بھی پیش کئے۔

اس اجلاس کے دوران جن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا، ان میں چار وسیع موضوعات، بشمول ادارہ جاتی مسائل،  وسائل اکٹھا کرنے سے متعلق حکمت عملی ،کثیر جہتی مالیاتی اداروں کے لئے سفارشات کے علاوہ پالیسی اصلاحات کے لئے تجاویز شامل ہیں۔

جون 2018 کے آخری ہفتے میں ممبئی میں منعقد ہونے والی تیسری اے آئی آئی بی سالانہ میٹنگ کے دوران تفصیلی رپورٹ تیار کی جائے گی اور پھر اس رپورٹ کو اسی میٹنگ کے دوران پیش کیا جائے گا۔

زیادہ تر مقررین نے عمومی طورپر ایشیا میں اور خصوصی طور پر ہندوستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے مالیات  کی کمی کا حوالہ دیا۔اس بات کو  بھی اجاگر کیا گیا کہ بنیادی ڈھانچے کے تمام شعبوں میں سب سے بڑا  مسئلہ فائنانس کی کمی  ہے جو شہری بنیادی ڈھانچے کو درپیش ہے۔

ادارہ جاتی امور شہری ، مقامی اداروں یو ایل بی سے متعلق ہیں۔کانفرنس کے دوران اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ فی الحال شہری ترقیات کا کام شہری علاقوں کے افقی پھیلاؤ کے سبب بے ترتیبی کے ساتھ ہورہا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ پیداواریت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ لہٰذا تجویز پیش کی گئی کہ ارتفاعی ترقی کی جانب منتقل ہونے کی ضرورت ہے،تاکہ خدمات کی ڈیلیوری اور آمدنی میں بہتری کے علاوہ پیداواریت میں بھی اضافہ ہوسکے ، تاہم توانائی کا زیادہ خرچ  اورقابل انحصار بجلی کی کمی سے متعلق تشویشات کو بھی  فوری طورپر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

مرکزی حکومت نے کچھ اہم شہری ترقیاتی  پروگرام مثلاً اسمارٹ سٹی ، سبھی کے لئے گھر اور اَمرُت شروع کئے ہیں، تاہم ان پروگراموں  کے نفاذ میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ شہری منصوبہ بندی کے نئے ایجنڈے میں اقوام متحدہ  کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے اجزاء کو شامل کیا جائے اور اس کو آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے کے تحت لایاجائے۔

یہ بھی بات سامنے آئی کہ بڑے میونسپل کارپوریشنوں کے پاس بہتر انتظامیہ کے علاوہ بہترین صلاحیتیں موجود  ہوتی ہیں، جبکہ چھوٹے میونسپل کارپوریشنوں کے پاس ٹیکس کی وصولی اور یوزر چارجز کی صلاحیت کی کمی کے سبب اتنا بہترانتظام دستیاب نہیں ہوتا ہے، اس لئے ایک علاقائی میونسپلٹی کمشنر کا عہدہ جو کہ متعدد میونسپلٹی کے کاموں اور کارکردگیوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کرسکتا ہے،حال ہی میں گجرات میں بنایا گیا ہے ۔

شہری ترقیات  کے راہ میں در پیش چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے کانفرنس کے مقررین نے کہا کہ اچھی خاصی خود مختاری کے ساتھ متعدد سطح کی حکمرانی کے سبب یہ چیزیں بین شعبہ جاتی  اشتراک و تعاون کی کمی سے منسلک ہیں۔منصوبہ بندی کرنے والی ایجنسی اور تنفیذی ایجنسی کے درمیان  رابطے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح شہری ترقیاتی ایجنسیوں بشمول یوایل بی اور ضلع سطح پر  دیگر سرکاری ڈیلیوری ایجنسیوں کے درمیان بہتر اشتراک تعاون کی ضرورت ہے، تاکہ ضلعی منصوبہ بندی کمیٹیوں کو متحرک اور مستحکم کیا جاسکے۔اسی طرح سے شہری مقامی اداروں سے متعلق قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے، تاکہ ان اداروں کو مزید مستحکم اور با اختیار بنایاجاسکے۔ مزید برآں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا کہ  صرف ٹیکنالوجیکل حل سے گورننس کے چیلنجوں کو حل نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ یہا ں  اس کے لئے سیاسی حل کی ضرورت ہے۔

وسائل کے حصول کی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے اس میں کہا گیا ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ( پی پی پی) میں کافی صلاحتیں موجود ہیں جن سے استفادہ نہیں کیا جاسکا ہے اور یہ کہ پی پی پی کو واٹر ٹریٹمنٹ،ٹھوس فضلات کےبندوبست، کثیر منزلہ پارکنگ اور شہری ٹرانسپورٹ سمیت متعدد شعبوں میں موثر ڈھنگ سے استعمال میں لایاجاسکتا ہے۔

دوسرے مشورے میں زمین سے متعلق طریقہ کار کو بہتر کرنا، قرض دینے سے متعلق  ریٹنگ میکانزم میں اصلاحات، میونسپل اثاثوں میں زیادہ شفافیت لانے  کے ساتھ ساتھ پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کے میکانزم کو بہتر بنانے کی ضرورت شامل ہے۔

متعدد مقررین نے مشورہ دیا ہے کہ ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں غیرملکی راست سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) میں  اسی وقت اضافہ ہوگا جب من جملہ  دیگرباتوں میں زمین کو تحویل میں لینے اور زمین کی قیمت کے تعین میں قومی معیارات اور شفافیت پیدا ہوگی۔

شہروں میں سرمایہ کاری کس طرح ہوتی ہے اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ عام طور پر فنڈ یافتہ شہروں کے مقابلے میں یقینی امداد اور سرمایہ کے زیادہ کاروباری وسائل کے  طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے اور اس سے شہری بنیادی ڈھانچے میں پرائیویٹ ادارے آئیں گے۔ شہری شعبے میں پرائیویٹ فرموں کے داخلہ میں سب سے بڑی روکاوٹ متعدد پروجیکٹوں  کا کاروباری طور پر غیر افادی ہونا ہے۔ یہاں یہ سفارش کی گئی ہے کہ شہری بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں لین دین کے دستاویز کا  ماڈل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔اس میں پرائیویٹ سیکٹر کے شراکت داروں کی مدد کے لئےجوکھم کا بیمہ کی افادیت تلاش کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ شہری بلدیاتی اداروں کو میونسپل بانڈس کے اجراء ، قابل استعمال زمین کو یکجا کرنا(پولنگ)، اور زمین کی مالیت کا پتہ لگانے سمیت وسائل یکجا کرنے کے میکانزم میں جدت لانی چاہئے۔زمین کی مالیت کاپتہ لگانے کے لئے معیاری پیمانے کے استعمال کی ضرورت ہے تاکہ ان کا وسیع پیمانے پر استعمال ہو سکے۔ اس میں یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ حصص سے متعلق طریقہ کار پر مبنی قرض کے اثرات پر وسیع پیمانے پر بات چیت ہونی چاہئے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کثیر سطحی مالی ادارے جہاں سرمایہ لگاتے ہیں وہاں  انہیں‘‘ تھری آر’’ طریقہ (ریڈیوس، ری سائیکل اور ری یوز) کے ذریعہ پروجیکٹ کی پائیداری پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ کثیر سطحی مالی اداروں کو سرمایہ کاری کے فرق کو دور کرنے میں زیادہ موثر کردار ادا کرناچاہئے۔

مزید برآں شہر پر مبنی صنعتی راہ داری پر منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔پوری ریاست سے گزرنے والی ان راہ داریوں کالازمی حصہ ہاؤسنگ ہونا چاہئے۔اس سے نقل ومکانی کو کم کرنے اور معاشی ترقی میں لا مرکزیت لانے میں بھی مدد ملے گی۔

شہری بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں در پیش ان تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے اہم طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔شہری ترقی کے لئے مستقبل کی حکمت عملی میں ‘‘ تھری ایف’’( فنڈ فنکشن اور فنکشنریز)  مسئلے کے حل  کے اعتبار سے شہری بلدیاتی اداروں میں اصلاحات شامل ہونی چاہئے۔

سفارشات میں شہری بلدیاتی اداروں کو مالی طور پر با اختیار بنانا،زیادہ اہلیت کو یقینی بنانے کی میکانزم ،یوزر فیس کلیکشن میں اثر انگیزی ، ضلعی منصوبہ بندی  کمیٹی کو بااختیار بنانا، پیشہ وارانہ بیورو کریسی، اور مارکیٹ سے خدمات حاصل کئے گئے ماہرین کو ضروری اختیارات دینا شامل ہے۔

معتبر اور معیاری اعداد وشمار کے فقدان اور پالیسی سازی پر اس کے منفی اثرات سے متعلق مسائل پر اس میں مشورہ دیاگیا ہے کہ شہری بنیادی ڈھانچہ سے متعلق ڈاٹا بیس، طویل مدتی منصوبہ سازی میں معاون ہونے چاہئیں۔یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ اوپن ڈاٹا جیسے تکنیکی ذرائع کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے اوراس کے اپ گریڈیشن کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے منصوعی آرٹی فیشل ضروری ہے۔ مقررین نے فعال ادارہ جاتی ڈھانچے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مالی وسائل ضائع نہ ہوسمیت وسائل کے لئے حکمرانی کی بنیاد پر زو دیا۔

پروجیکٹوں میں ہونے والی تاخیر کے موضوع پر اس میں کہا گیا ہے کہ ریاستوں میں ترتیب کے لحاظ سے سرکار کے تمام سطحوں سے اجازت حاصل کرنے سے متعلق مسائل اس کی  اصل وجہ ہیں۔لہذا کاروبار کے لئے مشورہ دیا گیا ہے کہ سرمایہ کاری سے قبل سرمایہ کاری کے دوران اور سرمایہ کاری کے بعد سرمایہ کاروں کے لئے اقدامات کے لئے ایک طول کٹ ہوناچاہئے۔ اس میں یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ طریقہ کار کو  سہل بنانے اور حساب وکتاب کے طریقہ کو  تبدیل کرنے کے علاوہ ادارہ جاتی ڈیزائن کی ازسر نو ترتیب کی ضرو رت ہے۔اس میں یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ میٹروںشہروں کو نئے ریاستوں کے طور پرتصور کرنے کی ضرورت ہے۔

مقررین نے شہر کاری کے لئے شمولیتی طریقہ کار کو یقینی بنانے کی ضرورت  پر  بھی توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے کہا کہ غریبوں کے لئے جو یہاں کام کرتے ہیں ان کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔سب کے لئے گھر کی پالیسی متوسط طبقے کے غیر رسمی شعبے میں معاشی طور پر کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ان پر توجہ ہونی چاہئے۔زمین کی مناسب حق ملکیت بغیر اثاثے رکھنے کے چیلنجوں کے حوالے سے قرض دینے والوں اداروں سے قرض دینا یقینی بنانا پر مشورہ دیا گیا۔

 پالیسی سازوں کو زمینوں کو آسانی سے تحویل میں لینے کے لئے اراضی کے تحویل میں لینے کے عمل کے دوران سماج کو زیادہ سے زیادہ شریک کرنا چاہئے۔

 

U: 2189

 



(Release ID: 1529770) Visitor Counter : 140


Read this release in: Tamil , English , Gujarati