• Skip to Content
  • Sitemap
  • Advance Search
Farmer's Welfare

کسانوں کی فلاح و بہبود

Posted On: 07 JUN 2025 10:06AM

بھارتی کسانوں کو بااختیار بنانا

 

‘‘کسانوں کی آمدنی بڑھانا، کھیتی کی لاگت کم کرنا اور بیج سے بازار تک کسانوں کو جدید سہولیات فراہم کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔’’

–وزیر اعظم نریندر مودی

 

 

 

 

تعارف

زراعت بھارت کی معیشت اور تہذیب کا دل ہے، جو لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے اور ملک کو شناخت  دلاتی ہے۔ گزشتہ گیارہ برسوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کے زرعی شعبے میں ایک گہری اور ہمہ گیر تبدیلی رونما ہوئی ہے، جو بیج سے بازار تک کے نظریے پر مبنی ہے۔

یہ تبدیلی شمولیت کو فروغ دیتی ہے، چھوٹے کسانوں، خواتین کی قیادت میں چلنے والے گروپوں اور منسلک شعبوں کی حمایت کرتی ہےاور ساتھ ہی بھارت کو عالمی سطح پر ایک زرعی رہنما کے طور پر پیش کرتی ہے۔ کسان زرعی پالیسی کا مرکز بن چکے ہیں، جہاں آمدنی کے تحفظ، پائیداری اور مضبوطی کو یقینی بنانے کے لیے ایک فعال اور ٹیکنالوجی پر مبنی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔

جدید آبپاشی نظام اور قرضوں کی سہولت سے لے کر ڈیجیٹل مارکیٹس اور ایگریکلچرل ٹیکنالوجی کی جدت تک، بھارت اسمارٹ  زراعت کو اپنا رہا ہے اور باجرے کی کاشت و قدرتی کھیتی جیسی روایتی زرعی روایات کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔ نیز ڈیری اور ماہی پروری جیسے منسلک شعبے بھی ترقی کر رہے ہیں، جو دیہی خوشحالی اور ماحولیات سے ہم آہنگ زرعی نظام کو فروغ دے رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کرسوچ میں تبدیلی آئی ہے ۔ جس سےاب کسانوں کو بھارت کی ترقی کے اہم شراکت دار اور قائدین کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔

جیسے جیسے بھارت امرت کال میں داخل ہو رہا ہے، اس کے بااختیار کسان ملک کو خوراک کی سلامتی سے عالمی زرعی قیادت تک لے جانے کے لیے تیار ہیں۔

مختص بجٹ میں اضافہ

زراعت بھارت کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جو نہ صرف غذائی تحفظ کو یقینی بناتی ہے بلکہ روزگار فراہم کر کے مجموعی اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ آبادی کے ایک بڑے حصے کے روزگار کا ذریعہ ہے اور بھارت کے سماجی و معاشی ڈھانچے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

اسی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، بھارت سرکار نے اس شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں اور بجٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔

زراعت اور کسان فلاح و بہبود کی وزارت کے لیے بجٹ تخمینے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو 14-2013 میں27,663 کروڑ روپے سے بڑھ کر 25-2024 میں 1,37,664.35 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔یعنی اس میں تقریباً پانچ گنا اضافہ ہوا ہے، جو اس شعبے کی ترجیحی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔

مختص بجٹ میں اس خاطر خواہ اضافے نے زرعی شعبے میں تبدیلی لانے، بنیادی ڈھانچے میں زیادہ سرمایہ کاری، کاشتکاری کے طریقوں کی جدیدیت، امدادی اسکیموں کے پھیلاؤ اور ملک بھر کے کسانوں کے لیے آمدنی کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

خوراکی اجناس کی پیداوار میں اضافہ

بھارت کی خوراکی اجناس (اناج) کی پیداوار 15-2014میں 265.05 ملین ٹن سے بڑھ کر 25-2024

 میں اندازاً 347.44 ملین ٹن ہو گئی ہے، جو زرعی پیداوار میں مضبوط اور مسلسل اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔

اہم فصلوں میں چاول، گیہوں، جوار، باجرہ، مکئی، راگی، جو، چنا، ارہر، دالیں، مونگ پھلی، سویابین، ریپ سیڈ اور سرسوں، تیل دار بیج، گنا، کپاس، اور جوٹ و میسٹا شامل ہیں۔

ایم ایس پی میں اضافہ اور کسانوں کے لیے معاونت

15-2014 سے25-2024 کے عرصے کے دوران 14 خریف فصلوں کی خریداری 7871 ایل ایم ٹی رہی، جبکہ 05-2004 سے14-2013 کے دوران یہ خریداری 4679 ایل ایم ٹی تھی۔

گندم کے لیے ایم ایس پی میں اضافہ اور ریکارڈ خریداری

گندم کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) 14-2013 میں 1,400 روپے فی کوئنٹل تھی، جو بڑھ کر 25-2024 میں 2,425 روپے فی کوئنٹل ہو گئی ہے، جس سے گندم اگانے والے کسانوں کو بہتر منافع حاصل ہوا۔

2014 سے 2024 کے دوران گندم کے لیے ایم ایس پی کی مد میں کل 6.04 لاکھ کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی، جو کہ 2004 سے 2014 کے دوران ادا کیے گئے 2.2 لاکھ کروڑ روپے کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔

دھان کے لیے ایم ایس پی میں اضافہ اور ریکارڈ خریداری

دھان کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) 14-2013 میں 1,310 روپے فی کوئنٹل سے بڑھ کر 26-2025 میں 2,369 روپے فی کوئنٹل ہو گئی ہے، جس سے لاکھوں دھان کاشتکاروں کو فائدہ پہنچا۔

15-2014سے 25-2024 کے دوران دھان کی کل خریداری 7608 ایل ایم ٹی رہی، جبکہ 05-2004 سے 14-2013 کے دوران یہ خریداری 4590 ایل ایم ٹی تھی۔

اسی مدت میں دھان اگانے والے کسانوں کو ایم ایس پی کی مد میں 14.16 لاکھ کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی، جبکہ 05-2004 سے 14-2013 کے دوران کسانوں کو 4.44 لاکھ کروڑ روپے کی ادائیگی ہوئی تھی۔

گریڈ-اے دھان کے لیے ایم ایس پی

2013-14 میں 1,345 روپے فی کوئنٹل سے بڑھ کر 2025-26 میں 2,389 روپے فی کوئنٹل ہو گئی ہے۔

دالیں

گزشتہ گیارہ برسوں میں حکومت نے دالوں کے شعبے میں نمایاں تبدیلیاں لائی ہیں۔

یہ شعبہ جو پہلے کم کاشت، محدود خریداری، درآمدات پر انحصار اور صارفین کے لیے مہنگی قیمتوں جیسے مسائل سے دوچار تھا، اب نمایاں بہتری کی مثال بن چکا ہے،جہاں زیادہ کاشت، اعلیٰ ایم ایس پی کے تحت بھرپور خریداری، درآمد پر کم انحصار اور صارفین کے لیے قیمتوں میں استحکام دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 

کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر دالوں کی خریداری میں 7350 فیصد کا زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے، جو 2009-2014 کے دوران 1.52 لاکھ میٹرک ٹن (ایل ایم ٹی) سے بڑھ کر 2020-2025 کے دوران 82.98 ایل ایم ٹی ہو گئی ہے۔

 

ایم ایس پی پر تیل دار بیجوں (تلہن) کی خریداری

گزشتہ گیارہ برسوں میں کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر تیل دار بیجوں کی خریداری میں 1500 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت تیل دار بیج اُگانے والے کسانوں کو بھرپور تعاون فراہم کر رہی ہے۔

مارکیٹنگ سیزن 2025-26 کے لیے تمام خریف فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)

ت

نمبر شمار

فصل

ایم ایس پی

2013-14

(روپے /کوئنٹل)

ایم ایس پی

262025-

(روپے /کوئنٹل)

2013-14 سے فیصداضافہ

1

دھان(عام)

1310

2369

 فیصد81

2

دھان (گریڈ اے)

1345

2389

فیصد 78

3

جوار (سنکر)

1500

3699

فیصد 147

4

جوار (مالدندی)

1520

3749

147فیصد

5

باجرہ

1250

2775

122فیصد

6

راگی

1500

4886

226فیصد

7

مکہ

1310

2400

83فیصد

8

توار/ارہر

4300

8000

86فیصد

9

مونگ

4500

8768

95فیصد

10

اُڑد

4300

7800

81فیصد

11

مونگ پھلی

4000

7263

82فیصد

12

سورج مکھی

3700

7721

109فیصد

13

سویابین (پیلا)

2560

5328

108فیصد

14

تل

4500

9846

119فیصد

15

کالا تل

3500

9537

172فیصد

16

کپاس (درمیانہ ریشہ)

3700

7710

فیصد 108

17

کپاس (لمبا ریشہ)

4000

8110

103فیصد

کسانوں کے لیے مالی تحفظ

پی ایم-کسان سمان ندھی

• اب تک 11 کروڑ سے زائد کسانوں کو 3.7 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم منتقل کی جا چکی ہے۔

• کسان مرکوز ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، جو کہ بروکروں (بیچولیوں) کو ختم کرتے ہوئے ملک بھر کے کسانوں تک شفاف اور براہِ راست فائدہ پہنچانے کو یقینی بناتا ہے۔

فروری 2019 میں شروع کی گئی مرکزی حکومت کی اسکیم "پی ایم-کسان" کا مقصد زمین رکھنے والے کسانوں کی مالی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔

یہ اسکیم براہِ راست فائدہ منتقلی ( ڈی بی ٹی) کے تحت آدھار سے منسلک بینک کھاتوں میں ہر سال 6,000 روپے کی رقم تین برابر قسطوں میں براہِ راست منتقل کرتی ہے، تاکہ چھوٹے اور معمولی کسان معیاری زرعی ان پٹ میں سرمایہ کاری کر سکیں اور اپنی پیداوار میں اضافہ کر سکیں۔ اس سے انہیں بروقت مالی مدد بھی حاصل ہوتی ہے۔

• اب تک 7.71 کروڑ کسانوں کو 10 لاکھ کروڑ روپے کا قرض فراہم کیا جا چکا ہے۔

• کسان کریڈٹ کارڈ (کے سی سی) کے تحت قرض کی حد کو 2025-26 کے لیے 3 لاکھ روپے سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔

 

کسان کریڈٹ کارڈ (کے سی سی) اسکیم کسانوں کو مختصر مدت اور طویل مدت کی کاشتکاری، فصل کی کٹائی کے بعد کے اخراجات، اور ضروریاتِ روزمرہ کے لیے آسان اور سستی قرض فراہم کرتی ہے۔

یہ اسکیم زرعی اور متعلقہ شعبوں میں قرض تک آسان رسائی یقینی بناتی ہے، جس سے کسانوں کی مالی استحکام کو فروغ ملتا ہے۔

خطرات کو کم کرنا اور استحکام بڑھانا

وزیراعظم فصل بیمہ اسکیم

• اب تک اس اسکیم کے تحت 63.23 کروڑ کسانوں نے درخواستیں دی ہیں۔

• 19.91 کروڑ سے زائد کسانوں (غیر حتمی) کو بیمہ کے دعوے دیے گئے ہیں۔

• کسانوں کو دعووں کی صورت میں 1.75 لاکھ کروڑ روپے (غیر حتمی) کی ادائیگی کی گئی ہے۔

 

2016 میں شروع کی گئی وزیراعظم فصل بیمہ اسکیم (پی ایم ایف بی وائی) کا مقصد بھارتی کسانوں کو ایک سادہ، سستا اور جامع فصل بیمہ فراہم کرنا ہے۔ یہ اسکیم تمام غیر روکی جانے والی قدرتی خطرات کا احاطہ کرتی ہے۔

 

یہ اسکیم بوائی سے لے کر کٹائی تک کے دوران قدرتی خطرات، قدرتی آفات، کیڑوں یا بیماریوں کی وجہ سے فصل کے خراب ہونے کی صورت میں مالی مدد فراہم کرتی ہے۔

 

ایک قوم، ایک فصل، ایک پریمیم کے اصول پر عمل کرتے ہوئے، پی ایم ایف بی وائی کسانوں کو غیر متوقع قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والے فصل کے نقصانات کے خلاف مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔

یہ تحفظ نہ صرف کسانوں کی آمدنی کو مستحکم کرتا ہے بلکہ انہیں جدید زرعی طریقے اپنانے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔

وزیراعظم زرعی آبپاشی اسکیم

• اب تک 2021-26 کے لیے 93,000+ کروڑ روپے مختص کیے جا چکے ہیں۔

• 112 آبپاشی منصوبے نافذ کیے گئے ہیں، جس سے مون سون پر انحصار کم ہوا ہے۔

وزیراعظم زرعی آبپاشی اسکیم ((پی ایم کے ایس وائی) سال 2015-16 کے دوران شروع کی گئی تھی، جس کا مقصد کھیت پر پانی کی رسائی کو بڑھانا اور یقینی آبپاشی کے تحت کاشت کے قابل رقبے کو وسیع کرنا، کھیت پر پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بنانا، اور پائیدار آبی تحفظ کے طریقے متعارف کروانا ہے۔

مٹی صحت کارڈ

مٹی کی صحت اور زرخیزی کی اسکیم کو حکومت نے 2014-15 سے نافذ کیا ہے۔ مٹی صحت کارڈ کسانوں کو ان کی مٹی کی غذائیت کی صورتحال کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے، اور ساتھ ہی مٹی کی صحت اور زرخیزی میں بہتری کے لیے غذائی اجزاء کی مناسب مقدار پر سفارشات دیتا ہے۔

 

مٹی صحت کارڈ اسکیم کی اب تک کی کامیابیاں:

• پورے ملک میں 1.75 کروڑ مٹی صحت کارڈ (ایس ایچ سی) تیار کیے گئے ہیں۔

• نفاذ کے لیے ریاستوں/مرکزی زیر انتظام علاقوں کو 1,706.18 کروڑروپے جاری کیے گئے ہیں۔

• پورے ملک میں 8,272 مٹی تجزیہ لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔

 

زرعی جدید انفراسٹرکچر

زرعی انفراسٹرکچر فنڈ (اے آئی ایف)

2020-21 میں شروع کیا گیا زرعی انفراسٹرکچر فنڈ (اے آئی ایف) ایک اہم اقدام ہے جس کا مقصد کھیت کی دہلیز پر اسٹوریج، لاجسٹکس اور پروسیسنگ انفراسٹرکچر کی ترقی کے ذریعے فصل کی کٹائی کے بعد انتظامی خلا کو پر کرنا ہے۔

یہ اسکیم گوداموں، کولڈ اسٹوریج یونٹس، گریڈنگ اور پروسیسنگ سینٹرز جیسی سہولیات کے قیام کو فروغ دیتی ہے، جس سے کسانوں کی بازاروں تک براہ راست رسائی بڑھتی ہے اور ان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔

کل خرچ 1 لاکھ کروڑ روپے کے ساتھ، یہ فنڈ فصل کی کٹائی کے بعد کے انتظام اور کمیونٹی زرعی اثاثوں کی تعمیر کی حمایت کرتا ہے، اور 2020-21 سے 2032-33 تک 13 سال کی مدت کے لیے نافذ ہے۔

 

مالی سال 2024-25 میں زرعی انفراسٹرکچر فنڈ (اے آئی ایف) کی کارکردگی:

• 42,864 منصوبوں کے لیے 21,379 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی۔

• اس میں سے 14,284 کروڑ روپے منصوبہ فوائد کے تحت شامل کیے گئے۔

• اے آئی ایف کے تحت منظور شدہ اہم منصوبوں میں شامل ہیں:

12,550 کسٹم ہائرنگ سینٹرز

8,015 پروسیسنگ یونٹس

2,765 گودام

843 چھانٹی اور گریڈنگ یونٹس

668 کولڈ اسٹوریج منصوبے

اور تقریباً 18,023 کٹائی کے بعد انتظام اور موثر زرعی اثاثہ منصوبے۔

وزیراعظم کسان سمردھی مرکز

وزیراعظم کسان سمردھی مرکز بیج، کھاد، آلات اور کاشتکاری کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکیموں کی بروقت معلومات فراہم کرنے والا ایک ون اسٹاپ سنٹر ہے، جو کسانوں کے لیے کاشتکاری کو مزید آسان اور معلوماتی بناتا ہے۔

• 23 ریاستوں اور 4 مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 1,473 منڈیاں ای-نام کے ساتھ مربوط کی گئی ہیں۔

دسمبر 2024 تک:

• 1.79 کروڑ کسان رجسٹرڈ

• 2.59 لاکھ تاجر رجسٹرڈ

کل تجارت درج شدہ:

• 11.02 کروڑ میٹرک ٹن اجناس

• 36.39 کروڑ یونٹس (بانس، پان، ناریل، لیموں اور سویٹ کارن)

کل تجارتی قدر: 4.01 لاکھ کروڑ روپے

• 1.8 لاکھ مرکز ایک ون-اسٹاپ شاپ کے طور پر قائم کیے گئے ہیں جو کسانوں کو ان پٹ اور معلومات فراہم کرتے ہیں۔

ای-نام اور مارکیٹ اصلاحات

قومی زرعی مارکیٹ (ای-نام)، ایک پورے ملک کا الیکٹرانک تجارتی پورٹل ہے، جو زرعی اجناس کے لیے ایک مربوط قومی مارکیٹ بنانے کے لیے موجودہ زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹی (اے پی ایم سی) منڈیوں کو جوڑتا ہے۔ اس پہل کا آغاز 14 اپریل 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔ ای-نام پلیٹ فارم کسانوں کو آن لائن مقابلہ جاتی اور شفاف قیمت تلاش کرنے کے نظام اور آن لائن ادائیگی کی سہولت کے ذریعے اپنی پیداوار فروخت کرنے کے بہتر مواقع فراہم کرتا ہے۔ ای-نام پورٹل اے پی ایم سی سے جُڑی تمام معلومات اور خدمات کے لیے سنگل ونڈو سروسز فراہم کرتا ہے۔ اس میں دیگر خدمات کے علاوہ اجناس کی آمد، معیار اور قیمتیں، خرید و فروخت کی پیشکشیں، اور کسانوں کے کھاتوں میں براہِ راست ای-ادائیگیاں شامل ہیں۔

کسانوں کے کھاتوں میں دیگر خدمات کے علاوہ قرضے بھی فراہم کیے جائیں گے۔

میگا فوڈ پارک

میگا فوڈ پارک منصوبہ کسانوں، پراسیسرز اور خوردہ فروشوں کو جوڑ کر زرعی پیداوار کو مارکیٹوں سے مربوط کرتا ہے، جس کا مقصد قیمت میں اضافہ کرنا، ضیاع کو کم کرنا اور کسانوں کی آمدنی بڑھانا ہے۔ کلسٹر کے نقطہ نظر پر مبنی یہ منصوبہ خوراک کی پروسیسنگ اور دیہی روزگار کو فروغ دینے کے لیے ذخیرہ مراکز، پروسیسنگ یونٹس، کولڈ چین اور صنعتی پلاٹ جیسے جدید بنیادی ڈھانچے فراہم کرتا ہے۔

زرعی جدت اور کاروباریت

نمو ڈرون دی دی

نمو ڈرون دی دی مرکز کی ایک اسکیم ہے جس کا مقصد خواتین کی قیادت میں چلنے والے خود امدادی گروپوں (ایس ایچ جی) کو ڈرون ٹیکنالوجی سے لیس کر کے انہیں زرعی خدمات فراہم کرنے کے لیے بااختیار بنانا ہے۔ اس اسکیم کا ہدف 2024-25 سے 2025-26 کے دوران 15,000 منتخب خواتین ایس ایچ جی کو زرعی مقاصد (فی الحال مائع کھاد اور کیڑے مار ادویات کے استعمال) کے لیے کسانوں کو کرایہ پر خدمات فراہم کرنے کے لیے ڈرون فراہم کرنا ہے۔ اس اقدام سے ہر ایس ایچ جی کے لیے سالانہ کم از کم 1 لاکھ روپے کی اضافی آمدنی پیدا ہونے کی توقع ہے، جو اقتصادی خود مختاری اور پائیدار روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد دے گا۔

ایگریشور: زرعی جدت اور دیہی کاروباریت کو فروغ دینا۔

 

بھارت کے زرعی شعبے میں جدت اور کاروباریت کے ایک نئے دور کا آغاز کرتے ہوئے 7,000 سے زائد زرعی اور متعلقہ اسٹارٹ اپس رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2019-20 سے مالی سال 2024-25 کے درمیان، قومی زرعی ترقیاتی منصوبہ (آر کے وی وائی) کے تحت 1,943 زرعی اسٹارٹ اپس کو مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کی گئی ہے۔

 

بجٹ 2022-23 کے اعلان کے مطابق، بھارت حکومت اور نابرڈ نے ایگریشور (زراعت کے اسٹارٹ اپ اور دیہی کاروباروں کے لیے زرعی فنڈ) کا آغاز کیا ہے، جو 750 کروڑ روپے کی کٹیگری-II متبادل سرمایہ کاری فنڈ (اے آئی ایف) ہے، جسے اعلیٰ خطرے اور اعلیٰ اثر والے زرعی اسٹارٹ اپس کو بااختیار بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

زرعی ویلیو چین میں جدت، استحکام اور کاروباریت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، ایگریشور ایف پی او سپورٹ، کرائے کی زرعی مشینری، اورآئی ٹی پر مبنی زرعی ٹیکنالوجی جیسے حل فراہم کرنے والے کاروباروں کو ایکوئٹی اور قرضہ فراہم کرتا ہے۔

اس فنڈ کے مقاصد یہ ہیں:

• زرعی اور متعلقہ اسٹارٹ اپس کے لیے سرمایہ کاری کے موافق ماحول بنانا۔

• دیہی کاروباروں میں سرمایہ جذب کرنے کی صلاحیت بڑھانا۔

• زرعی اسٹارٹ اپ کے ماحولیاتی نظام کی ترقی کو تیز کرنا۔

ایگریشور اگلی نسل کے زرعی کاروباریوں کو مضبوط بنا کر بھارتی زراعت کو بدلنے کی ایک جرات مندانہ کوشش ہے۔

 

کسانوں کی آمدنی میں تنوع

زراعت کے علاوہ، متنوع سرگرمیاں کسانوں کو خطرات کے انتظام، غیر متوقع عوامل پر انحصار کم کرنے اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ حکومت مویشی، ڈیری، ماہی گیری، اور خوراک کی پراسیسنگ جیسی متعلقہ سرگرمیوں کو فروغ دے رہی ہے، اور غیر زرعی روزگار کو بھی بڑھا رہی ہے تاکہ متعدد آمدنی کے ذرائع فراہم کیے جا سکیں۔ یہ کوششیں نہ صرف دیہی روزگار کو بڑھاتی ہیں بلکہ دیہی بھارت میں ساختی تبدیلی اور معاشی ترقی کے وسیع تر اہداف میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

 

خوراک کی پروسیسنگ کا شعبہ: کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کا ایک اہم ذریعہ

گزشتہ گیارہ سالوں میں، خوراک کی پراسیسنگ کا شعبہ کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں ایک مؤثر محرک کے طور پر ابھرا ہے۔ کھیت سے مارکیٹ تک مضبوط روابط قائم کرکے، فصل کی کٹائی کے بعد ہونے والے نقصان کو کم کرکے اور جدید پروسیسنگ کے بنیادی ڈھانچے کے ذریعے قیمت میں اضافہ کرکے، اس شعبے نے زرعی پیداوارکے منافع کو بڑھایا ہے۔ حکومت کی پہل، خاص طور پر وزیراعظم کسان سمردھی یوجنا کے تحت، پروسیسنگ کی صلاحیت اور برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، نیز کافی آف فارم روزگار بھی پیدا ہوا ہے جو دیہی روزگار کی حمایت کرتا ہے۔

 

کسانوں کی آمدنی میں مددگار اہم کامیابیاں:

• خوراک کی پروسیسنگ کی صلاحیت میں 20 گنا سے زائد اضافہ: 12 لاکھ میٹرک ٹن (2013-14) سے بڑھ کر 242 لاکھ میٹرک ٹن (2024-25) تک، جس سے کسانوں کے لیے زیادہ قیمت میں اضافہ ممکن ہوا۔

• پروسیس شدہ خوراک کی برآمدات تقریباً دوگنا ہو گئیں: 4.9 بلین امریکی ڈالر (2013-14) سے بڑھ کر 9.03 بلین امریکی ڈالر (2024-25) تک، جس سے زرعی پیداوار کے لیے بازار کے دائرہ کار میں توسیع ہوئی۔

• یہ شعبہ اب منظم مینوفیکچرنگ سیکٹر میں کل روزگار کا 12.41فیصد حصہ فراہم کرتا ہے، جس سے دیہی خاندانوں کے لیے متبادل آمدنی کے ذرائع میسر آتے ہیں۔

نیلا انقلاب

بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مچھلی پیدا کرنے والا ملک ہے، جس کا عالمی مچھلی کی پیداوار میں تقریباً 8فیصد حصہ ہے۔ پچھلے دو دہائیوں میں، بھارت کے مچھلی پالنے کے شعبے میں قابلِ ذکر ترقی اور تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں ہیں۔ تکنیکی ترقی سے لے کر پالیسی اصلاحات تک، 2014 سے 2024 کے درمیان کے سال ایسے سنگِ میل ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے عالمی مچھلی پالنے اور آبی زراعت میں بھارت کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ مرکزی بجٹ 2025-26 میں مچھلی پالنے کے شعبے کے لیے اب تک کا سب سے زیادہ کل سالانہ بجٹ 2,703.67 کروڑ روپے تجویز کیا گیا ہے۔ پیداوار بڑھانے اور اس شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے حکومت نے مچھلی پالنے کے لیے ایک مخصوص محکمہ بھی قائم کیا ہے۔

2024-2014 کی کامیابیاں:

• پیداوار میں اضافہ: مچھلی کی پیداوار 95.79 لاکھ ٹن (2013-14) اور 63.99 لاکھ ٹن (2003-04) سے بڑھ کر 184.02 لاکھ ٹن (2023-24) ہو گئی، جو 10 سالوں (2014-24) میں 88.23 لاکھ ٹن کے اضافے کی نمائندگی کرتی ہے، جبکہ 2004-14 کے دوران 31.80 لاکھ ٹن کا اضافہ ہوا تھا۔

• اندرونی اور آبی زراعت کی مچھلی کی پیداوار میں اضافہ: اندرونی اور آبی زراعت کی مچھلی کی پیداوار میں 2004-14 کے دوران 26.78 لاکھ ٹن کے مقابلے میں 2014-24 میں 77.71 لاکھ ٹن کا شاندار اضافہ ہوا ہے۔

• سمندری مچھلی کی پیداوار 5.02 لاکھ ٹن (2004-14) سے دوگنا ہو کر 10.52 لاکھ ٹن (2014-24) ہو گئی۔

ڈیری شعبہ

اس شعبے میں اوسط سالانہ ترقی کی شرح 5.7فیصد رہی ہے، جو عالمی اوسط 2فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔

بھارت دنیا میں دودھ کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے، جو عالمی پیداوار کا 25فیصدحصہ فراہم کرتا ہے۔ ملک میں دودھ کی پیداوار پچھلے 10 سالوں میں 63.56 فیصد بڑھ کر 2014-15 میں 146.3 ملین ٹن سے 2023-24 میں 239.2 ملین ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت میں فی کس دودھ کی دستیابی 48 فیصد بڑھ کر 2023-24 میں 471 گرام فی شخص فی دن ہو گئی ہے، جبکہ عالمی اوسط 322 گرام فی شخص فی دن ہے۔

ڈیری دنیا کے لیے ایک کاروبار ہے، لیکن بھارت جیسے وسیع ملک میں یہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ ہے، دیہی معیشت کو مضبوط بنانے کا ایک ذریعہ ہے، غذائی قلت کے مسائل کو حل کرتا ہے اور خواتین کو بااختیار بناتا ہے۔

19 مارچ 2025 کو مرکزی کابینہ نے 2021-22 سے 2025-26 کے لیے 2,790 کروڑ روپے کے کل خرچ کے ساتھ ترمیم شدہ نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ پروگرام (این پی ڈی ڈی) اور 3,400 کروڑ روپے کے ساتھ ترمیم شدہ نیشنل گوکول مشن (آر جی ایم) کی منظوری دی۔ ان اسکیموں کا مقصد دودھ کی خرید، پروسیسنگ اور قیمت میں اضافہ کو فروغ دینا، مقامی مویشیوں کی افزائش نسل کو بڑھانا، ڈیری سپلائی چین کو مضبوط کرنا اور دیہی آمدنی اور ترقی کو فروغ دینا ہے۔

• دودھ کی پیداوار میں 63.56فیصد اضافہ ہوا، جو 146.3 میٹرک ٹن سے بڑھ کر 239.3 میٹرک ٹن ہو گیا۔

• دیسی مویشیوں کے دودھ میں 69.27فیصد اضافہ ہوا، جو 29.48 میٹرک ٹن سے بڑھ کر 49.90 میٹرک ٹن ہو گیا۔

• بھینس کے دودھ میں 39.73فیصداضافہ ہوا، جو 74.70 میٹرک ٹن سے بڑھ کر 104.38 میٹرک ٹن ہو گیا۔

• دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد میں 30.46فیصد اضافہ ہوا، جو 85.66 ملین سے بڑھ کر 111.76 ملین ہو گئی۔

• ڈیری سیکٹر میں 8 کروڑ سے زیادہ کسان کام کر رہے ہیں۔

میٹھا انقلاب

قومی شہد کی پیداوار اور مکھن مشن (این بی ایچ ایم) کو 2020 میں آتم نربھر بھارت مہم کے تحت شروع کیا گیا تھا، جس کے لیے 2020-21 سے 2022-23 کی مدت کے لیے کل 500 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کو 2023-24 سے 2025-26 تک مزید تین سالوں کے لیے بڑھا دیا گیا ہے، جس کا باقی بجٹ 370 کروڑ روپے ہے۔ اس کا مقصد ‘‘میٹھا انقلاب’’ حاصل کرنا اور آمدنی کے مواقع اور دیہی روزگار کو فروغ دینے کے لیے سائنسی شہد کی پیداوار کے جامع ترقی کو بڑھانا ہے۔

 

مودی حکومت کے تحت شہد کی برآمد تین گنا بڑھ گئی

این بی ایچ ایم کی اہم کامیابیاں:

بھارت نے 2022-23 میں 1.42 لاکھ میٹرک ٹن شہد پیدا کیا اور 79,929 میٹرک ٹن برآمد کیا۔

خواتین کی خود مدد گروپ (ایس ایچ جی) کی 167 سرگرمیوں کی حمایت کی گئی۔

شہد کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر، 31 دسمبر 2025 تک فی میٹرک ٹن کم از کم برآمدی قیمت 2000 امریکی ڈالر مقرر کی گئی ہے۔

6 عالمی معیار کی اور 47 منی شہد ٹیسٹ لیبارٹریز کے ساتھ ساتھ 6 بیماریوں کی لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔

8 کسٹم ہائرنگ سینٹر، 26 شہد پروسیسنگ یونٹس اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی گئی ہے۔

آن لائن رجسٹریشن اور ٹریسبیلیٹی کے لیے ‘‘مدھو کرانتی’’ پورٹل لانچ کیا گیا، جس میں 14,800 سے زائد شہد پالک اور 22.39 لاکھ کالونیاں رجسٹرڈ ہیں۔

ٹرائیفیڈ،نیفیڈاور این ڈی ڈی بی کے تحت شہد  پروری کے لیے 100  ایف پی او(پیداواکے تعلق سے کسانوں کی تنظیم)میں سے 7 کا قیام عمل میں آیا۔

ایتھانول کی خریداری

ایتھانول مکسنگ پروگرام کے ذریعے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ

بھارت حکومت متبادل، ماحول دوست ایندھن کے استعمال کو فروغ دینے اور درآمد شدہ خام تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے ایتھانول مکسڈ پٹرول (ای بی پی) پروگرام نافذ کر رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت، تیل کی مارکیٹنگ کمپنیاں (او ایم سیز) بنیادی طور پر گنے سے تیار شدہ ایتھانول کو پٹرول کے ساتھ مکس کرتی ہیں۔ حکومت کا ہدف 2025-26  ای ایس وائی تک پٹرول میں 20فیصد ایتھانول مکسنگ حاصل کرنا ہے، جو 2030 کے ہدف کو آگے بڑھاتا ہے۔ 28 فروری 2025 تک، ایتھانول مکسنگ 17.98فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو جون 2022 میں حاصل شدہ 10فیصد سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف صاف توانائی کی حمایت کرتا ہے بلکہ ایتھانول کی مسلسل طلب پیدا کر کے گنے کے کاشتکاروں کو مستحکم آمدنی فراہم کرتا ہے۔ ایتھانول کی قیمتوں میں اضافہ اور  جی ایس ٹی اور ٹرانسپورٹ چارجز کی علیحدہ ادائیگی کسانوں کی آمدنی کو مزید مضبوط بناتی ہے۔

اہم کامیابیاں:

• ایتھانول کی خریداری 2013-14 میں 38 کروڑ لیٹر سے بڑھ کر 2023-24 میں 441 کروڑ لیٹر ہو گئی۔

• چینی سیزن 2023-24 میں گنے کے کسانوں کو 1,11,703 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔

• کسانوں کے لیے بہتر منافع یقینی بنانے کے لیے سی ہیوی مولا سس( سی ایچ ایم)) ایتھانول کی قیمت میں 3فیصد اضافہ کیا گیا۔

• جی ایس ٹی اور ٹرانسپورٹ چارجز کی علیحدہ ادائیگی سے کسانوں کی آمدنی میں براہ راست فائدہ ہوتا ہے۔

یہ پروگرام کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے، خام تیل کی درآمد پر انحصار کم کرنے، غیر ملکی زرِ مبادلہ کی بچت کرنے اور ماحول کی حفاظت کے حوالے سے ایک بڑا قدم ہے۔

بنجر زمین پر سولر پینل

وزیر اعظم کسان توانائی تحفظ اور ترقی مہم (پی ایم-کُسُم) کا مقصد زرعی شعبے میں ڈیزل کے استعمال کو کم کرنا اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ اسکیم اسٹینڈ الون سولر پمپس نصب کرنے اور موجودہ پمپس کو سولرائز کرنے کے لیے 30 سے 50 فیصد تک مرکزی سبسڈی فراہم کرتی ہے۔ کسان بنجار زمین پر 2 میگاواٹ تک کے سولر پلانٹس بھی لگا سکتے ہیں اور بجلی ڈسکوم (بجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنی) کو بیچ سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ صاف توانائی اور آمدنی کے مواقع کو فروغ دیتا ہے اور اسے ریاستی حکومت کے محکموں کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے۔

پی ایم-کُسُم اسکیم کے تحت کامیابیاں

  • کسانوں کے لیے سولر پمپس کی تعداد میں 92 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
  • اس اسکیم کے تحت 49 لاکھ زرعی پمپس کو سولر توانائی سے چلایا جائے گا۔

اس سے صاف توانائی کو فروغ ملے گا، ڈیزل پر انحصار کم ہوگا اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔

 

قدرتی اور موسمیاتی ہوشیار زراعت کی طرف

روایتی زرعی ترقیاتی منصوبہ (پی کے وی وائی)

روایتی زرعی ترقیاتی منصوبہ (پی کے وی وائی) کو 2015-16 میں بھارت میں حیاتیاتی کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے پہلی جامع، مرکز کی مالی امداد والی اسکیم کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ کلسٹر پر مبنی نقطہ نظر کے ذریعے حیاتیاتی کاشتکاری کو فروغ دیتا ہے، قدرتی زراعت کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور حیاتیاتی مصنوعات کی براہِ راست مارکیٹنگ کے لیے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس منصوبے میں قبائلی علاقوں، جزیروں اور پہاڑی علاقوں سمیت روایتی حیاتیاتی علاقوں کو تصدیق شدہ بنانے کے لیے وسیع رقبے کی تصدیق (ایل اے سی) پروگرام بھی شامل ہے۔پی کے وی وائی پائیدار زراعت کو آگے بڑھانے، مٹی کی صحت کو بہتر بنانے اور حیاتیاتی طریقوں کے ذریعے کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

پی کے وی وائی اور ایل اے سی کے تحت اہم کامیابیاں:

2015-16 میں شروع ہونے سے اب تک پی کے وی وائی کے تحت کل 2,078.67 کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔

38,043 حیاتیاتی کلسٹرز بنائے گئے ہیں (ہر ایک 20 ہیکٹر رقبہ پر محیط)، جن میں کل 8.41 لاکھ ہیکٹر رقبہ حیاتیاتی کاشتکاری( ایل اے سی کے تحت شامل رقبے سمیت) کے تحت آیا ہے۔

قدرتی کاشتکاری کے تحت 8 ریاستوں میں 4.09 لاکھ ہیکٹر رقبے کو سپورٹ دیا گیا ہے۔

نمامی گنگے پروگرام کے تحت 272.85 کروڑ روپے جاری کیے گئے؛ 9,551 کلسٹرز بنائے گئے جو 1.91 لاکھ ہیکٹر رقبہ کو کور کرتے ہیں۔

کسانوں کو صارفین کو حیاتیاتی پیداوار کی براہِ راست فروخت کی سہولت کے لیے ایک مخصوص آن لائن پورٹل، www.jaivikheti.com، لانچ کیا گیا ہے، جس پر اب تک 6.23 لاکھ کسان رجسٹر ہو چکے ہیں۔

اس منصوبے کے تحت حیاتیاتی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے مختلف ریاستی مخصوص برانڈز تیار کیے گئے ہیں۔

 

وسیع رقبے کی تصدیق (ایل اے سی) کے تحت:

کار نکوبار اور نانکوری جزیرہ گروپ (انڈمان و نیکو بار جزائر) میں 14,445 ہیکٹر زمین کو حیاتیاتی زمین کے طور پر تصدیق دی گئی ہے۔

لکشدیپ میں کاشت کے قابل 2,700 ہیکٹر زمین کو حیاتیاتی کے طور پر تصدیق کیا گیا ہے۔

سکم ریاست حکومت کو 60,000 ہیکٹر زمین کی تصدیق کے لیے 96.39 لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔

لداخ سے 5,000 ہیکٹر زمین کی تصدیق کی درخواست موصول ہوئی ہے، جس میں سے 11.475 لاکھ روپے پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔

 

قومی قدرتی کاشتکاری مشن (این ایم ان اے ایف)

اب تک پیداوار 15.99 ملین ٹن (2021-22) سے بڑھ کر 17.57 ملین ٹن (2023-24) ہو گئی ہے، جو 2023-24 میں کل اناج کی پیداوار کا 5.29فیصد ہے۔

ایم ایس پی کے تحت خرید 6.3 لاکھ ٹن (2021-22) سے بڑھ کر 12.55 لاکھ ٹن (2023-24) ہو گئی ہے۔

قومی قدرتی کاشتکاری مشن 26 نومبر 2024 کو شروع کیا گیا تھا۔ اس مشن کا مقصد ایک کروڑ کسانوں کے درمیان کیمیکل فری کاشتکاری کو فروغ دینا اور 2184 کروڑ روپے کے مالیاتی اخراجات کے ساتھ 10,000 بایو-ان پٹ ریسورس سینٹرز قائم کرنا ہے۔

 

موٹا اناج: شری اناج

بھارت دنیا میں بجرا کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے، جو عالمی بجرا کی پیداوار میں 18.1فیصد اور عالمی موتی بجرا (بجرا) کی پیداوار میں 38.4فیصد حصہ رکھتا ہے۔

اس قدیم اناج کی غذائیت اور ماحولیاتی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، اقوام متحدہ نے 2023 کو بین الاقوامی بجرا کا سال قرار دیا ہے۔ بھارت میں اسے ‘‘شری اناج’’کے طور پر منایا جاتا ہے، جو اسے سپر فوڈ کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ بجرا انسانی تاریخ کی سب سے قدیم اگائی جانے والی فصلوں میں سے ایک ہے اور اب اسے مستقبل کی فصلوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا، ‘‘بجرا صارفین، کسانوں اور ماحول کے لیے اچھا ہے۔’’

اگر آپ کو اس میں مزید ترجمہ یا تفصیل چاہیے ہو تو ضرور بتائیں۔

بیج سے لے کر بازار تک اصلاحات

بیج اور پودا کاری مواد پر ذیلی مشن (ایس ایم ایس پی)

اعلیٰ پیداوار دینے والے بیجوں کے لیے قومی مشن کے تحت 100 کروڑ روپے مختص کیے گئے تاکہ تحقیق کو فروغ دیا جا سکے، اعلیٰ پیداوار دینے والی، کیڑوں سے محفوظ، اور موسمیاتی لحاظ سے لچکدار اقسام تیار کی جا سکیں اور ان کی وسیع پیمانے پر دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔

بیج اور پودا کاری مواد پر ذیلی مشن (ایس ایم ایس پی)2014-15 میں شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد ملک بھر میں بیج کی پیداوار، پروسیسنگ، ذخیرہ اندوزی اور سرٹیفیکیشن کو فروغ دے کر کسانوں کو معیاری بیج کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے۔

 

اہم کامیابیاں:

  • 6.85 لاکھ بیج دیہات قائم کیے گئے؛ 1649.26 لاکھ کوئنٹل معیاری بیج پیدا کیا گیا؛ 2.85 کروڑ کسانوں کو فائدہ پہنچا۔
  • 13.70 لاکھ کینٹل بیج پراسیسنگ اور 22.59 لاکھ کوئنٹل ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت تیار کی گئی۔
  • گاؤں کی سطح پر 517 بیج پروسیسنگ اور ذخیرہ اندوزی کی یونٹس قائم کی گئیں (2017-20)۔
  • قومی بیج ذخیرہ کے تحت 29.68 لاکھ کوئنٹل بیج کا انتظام کیا گیا۔
  • بیج کی کوالٹی کنٹرول کو مضبوط بنانے کے لیے 67 بیج جانچ لیبارٹریز، 14 ڈی این اے فنگر پرنٹنگ لیبارٹریز، 7 بیج صحت کی جانچ لیبارٹریز، اور 42 گرو آؤٹ ٹیسٹنگ سہولیات کو مدد فراہم کی گئی۔
  • بیج کی دستیابی 351.77 لاکھ کوئنٹل (2014-15) سے بڑھ کر 508.60 لاکھ کوئنٹل (2023-24) ہو گئی ہے۔ سال 2024-25 کے لیے تصدیق شدہ اور معیاری بیج کی دستیابی 531.51 لاکھ کوئنٹل ہو گئی ہے۔
  • بیج کی ٹریس ایبلیٹی کے لیے ساتھی پورٹل لانچ کیا گیا، جو 20 ریاستوں میں پہلے سے چل رہا ہے۔
  • کپاس کے بیج کی قیمتوں کے کنٹرول کا حکم (2015) مناسب قیمت کو یقینی بناتا ہے؛ 2024 کی قیمتیں 635 روپے (BG-I) اور 864 روپے (BG-II) فی پیکٹ مقرر کی گئی ہیں۔
  • 2014-15 سے اب تک 2,593 زرعی اور 638 باغبانی کی فصلوں کی اقسام نوٹیفائی کی گئی ہیں۔

مرکزی بجٹ 2025-26 میں وزیراعظم دھن-دھانیا زراعتی منصوبہ کا اعلان

مرکزی بجٹ 2025-26 میں اعلان کردہ وزیراعظم دھن-دھانیا زراعتی منصوبہ ریاستوں کے ساتھ شراکت داری میں 100 کم پیداواری اضلاع میں شروع کیا جائے گا۔ اس پروگرام کا مقصد زراعت کی پیداوار کو بڑھانا، آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لانا، اور قلیل مدتی و طویل مدتی دونوں قسم کے قرضوں تک رسائی کو آسان بنا کر 1.7 کروڑ کسانوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔

یہ وسیع، کثیرالعلائقہ اقدام مہارت، تکنیکی مداخلت، سرمایہ کاری اور دیہی معیشت کی بحالی کے ذریعے زراعت میں کم روزگار کے مسئلے کو بھی حل کرے گا۔

دیگر سرکاری اقدامات:

  1. ایک ضلع ایک مصنوعات (او ڈی او پی)

773 اضلاع سے 1,240 مصنوعات کی شناخت کر کے متوازن علاقائی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ عوامی خریداری کو بڑھانے کے لیے او ڈی او پی کے تحت جی ای ایم مارکیٹ میں 500 سے زائد زمرے شامل کیے گئے ہیں۔

  1. مکھانا بورڈ

مکھانا کی پیداوار، پراسیسنگ اور مارکیٹنگ کو مضبوط بنانے کے لیے بہار میں قائم کیا جائے گا۔ کسانوں کو ایف پی او (فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن) میں منظم کیا جائے گا اور انہیں تربیت اور سرکاری اسکیموں تک رسائی فراہم کی جائے گی۔

نتیجہ:

کسان بھارت کے زرعی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں جو ملک کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ ترقی پسند اصلاحات، تکنیکی پیش رفت اور مضبوط سرکاری اقدامات نے اہم ترقی اور بہتر کارکردگی کو فروغ دیا ہے۔ مودی حکومت نے کسانوں کو خودمختار، بااختیار اور خوشحال بنانے کے لیے مالی شمولیت، ماحولیاتی ذہین زراعت اور جدید بنیادی ڈھانچے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک جامع اور مستقبل کے لیے تیار نظریہ پیش کیا ہے۔ خوراک کی سلامتی سے لے کر کسانوں کی خوشحالی تک بھارت کا سفر جاری ہے، جو بصیرت، عمل اور اپنے اناج دینے والوں کے خوابوں سے متاثر ہے۔

حوالہ جات

Click here to download PDF

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ش ح –م ح-اش ق)

U. No.1590

(Backgrounder ID: 154599) Visitor Counter : 4
Read this release in: English , Hindi
Link mygov.in
National Portal Of India
STQC Certificate