سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

جب اندرونی دیوار منہدم ہوئی: ایک نوجوان ستاروی قرص میں پیچیدہ ہائیڈروکاربن سالمات

प्रविष्टि तिथि: 26 DEC 2025 6:31PM by PIB Delhi

ماہرینِ فلکیات نے زمین سے تقریباً 350 نوری سال کے فاصلے پر واقع ایک کم عمر (نوجوان) ستارے ٹی کیمیلیونٹس کے گرد موجود گرد و غبار کی تہہ کے پیچھے ایک دلچسپ راز سے پردہ اٹھایا ہے۔ یہ ستارہ اس وقت خاموشی سے سیاروں کی تشکیل کے عمل میں مصروف تھا جب اس کے گرد موجود قرصِ ستاروی کی اندرونی دیوار جزوی طور پر منہدم ہو گئی۔ یہ دریافت اس بات کی تفہیم ازسرِنو میں مدد دے سکتی ہے کہ سیاروی نظام کس طرح ارتقا پذیر ہوتے ہیں۔

ٹی کیمیلیونٹس (ٹی۔ چا) ایک غیر معمولی ستارہ ہے اور یہ کوئی عام کم عمر (نوجوان) ستارہ نہیں۔ یہ ایک سیارہ ساز قرص سے گھرا ہوا ہے جسے قرصِ ستاروی کہا جاتا ہے، جس میں ایک وسیع خلا موجود ہے—جسے غالباً کسی نوزائیدہ سیارے نے تراشا ہے۔ عام طور پر ایسے قرص کے گھنے اندرونی حصے ایک حفاظتی دیوار یا پردے کی طرح کام کرتے ہیں، جو ستارے کی بالائے بنفشی روشنی کے بڑے حصے کو ٹھنڈے بیرونی حصوں تک پہنچنے سے روکے رکھتے ہیں۔ یہی حفاظتی پردہ پولی ایٹامک ہائیڈروکاربن سالمات (پی اے ایچز)یعنی چپٹی، شہد کے چھتے جیسی ساخت رکھنے والے سالمات (بینزین حلقے) جو کاربن اور ہائیڈروجن پر مشتمل ہوتے ہیں اور جنہیں زندگی کی کیمیائی بنیادوں کے ابتدائی پیش رو سمجھا جاتا ہے—کو کم کمیت، سورج جیسے ستاروں کے گرد تلاش کرنا نہایت مشکل بنا دیتا ہے۔

اگرچہ یہ سالمات بین النجمی بادلوں میں عام پائے جاتے ہیں، لیکن کم کمیت اور سورج جیسے ستاروں کے قرص میں ان کی نشاندہی اس لیے دشوار رہی ہے کہ ایسے ستارے بہت کم بالائے بنفشی روشنی پیدا کرتے ہیں۔

شکل 1:بالائی حصّہ: ٹی چا کا وسطی تحتِ سرخ طیف، جو 2022 میں جیمز ویب خلائی دوربین اور 2002 میں اسپٹزر خلائی دوربین کے ذریعے مشاہدہ کیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ستاروی قرص کی اندرونی دیوار کے انہدام کے باعث طیف کی ڈھلوان میں تبدیلی آئی۔زیریں حصّہ: جیمز ویب اور اسپٹزر سے حاصل شدہ تسلسل منہا شدہ وسطی تحتِ سرخ ڈیٹا، جس میں پی اے ایچ سالمات سے خارج ہونے والی مختلف طیفی اخراجی پٹیاں دکھائی گئی ہیں۔ 2022 میں پی اے ایچ کے سگنلز کہیں زیادہ مضبوط ہیں، تاہم خصوصیات کی باہمی شدت تقریباً یکساں رہی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سالمات وقت کے ساتھ مستحکم رہے ہیں۔

ہندوستانی ادارۂ فلکی طبیعیات (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف آسٹروفزکس)، جو محکمۂ سائنس و ٹیکنالوجی کا ایک خود مختار ادارہ ہے، کے سائنس دانوں نے ناسا کی جیمز ویب خلائی دوربین کے وسطی تحتِ سرخ آلے سے حاصل شدہ محفوظ شدہ طیفی ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے اس ستارے کے طیف میں پولی سائکلک ایرو میٹک ہائیڈروکاربن سالمات کا مطالعہ کیا۔

انتہائی حساس جیمز ویب خلائی دوربین نے تقریباً اتفاقاً 2022 میں وہ لمحہ محفوظ کر لیا جب یہ حفاظتی پردہ پتلا پڑ گیا اور خلا میں قدیم نوعیت کی کیمیا روشن ہو اٹھی۔ ستارے کے قرص سے مادہ اچانک شدید اکریشَن کے ایک مرحلے میں ستارے پر گر پڑا، جس سے اندرونی دیوار پتلی ہو گئی یا جزوی طور پر منہدم ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں بالائے بنفشی شعاعیں اچانک باہر کی طرف پھیل گئیں اور قرص کے اُن حصّوں کو منور کر دیا جو پہلے سایے میں تھے۔ اس عمل نے ایک کم عمر (نوجوان)، سورج جیسے ستارے کے گرد موجود سیارہ ساز قرص میں پیچیدہ ہائیڈروکاربن سالمات کے بقا اور تنوع پر روشنی ڈالی۔

ٹی چا اپنے گرد موجود قرصِ ستاروی میں ایک نمایاں خلا رکھنے کے لیے جانا جاتا ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ایک ابھرتے ہوئے قبل از سیارہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ خلا اس نظام کو اس بات کے مطالعے کے لیے ایک اہم ہدف بناتا ہے کہ کم عمر (نوجوان) سیارے اپنے ابتدائی قرص کے ساتھ کس طرح تعامل کرتے ہیں اور سیاروں کی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں اپنے ماحول کو کس طرح تشکیل دیتے ہیں۔

یہ سالمات مرکزی ستارے سے آنے والے بالائے بنفشی فوٹونز کو جذب کرتے ہیں اور 5 سے 15 مائیکرون کے درمیان وسطی تحتِ سرخ شعاعوں میں وسیع اخراجی پٹیاں پیدا کرتے ہیں۔

ہندوستانی ادارۂ فلکی طبیعیات کے بعد از ڈاکٹری محقق ارون رائے نے کہا:
اب جیمز ویب خلائی دوربین کے وسطی تحتِ سرخ آلے نے انہیں ٹی چا میں واضح طور پر ظاہر کر دیا ہے، اور یہ اُن کم ترین کمیت والے ستاروں میں سے ایک ہے جن کے قرصِ ستاروی میں پی اے ایچ سالمات کی نشاندہی ہوئی ہے۔

فلکیاتی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کو غیر معمولی بنانے والی بات یہ ہے کہ اس میں ستارے کے گرد موجود قرص میں رونما ہونے والی ایک ڈرامائی تبدیلی کا کردار نمایاں ہے، جو شدید اکریشَن کے واقعے کے باعث اس کے انہدام کے دوران پیش آئی۔

شکل 2:جیمز ویب خلائی دوربین کے آئینوں اور پی اے ایچ سالماتی ساخت کی فنکارانہ عکاسی (کریڈٹس: جیمز ویب خلائی دوربین)

ارون رائے نے کہا:“اس اچانک روشنی نے قرص میں موجود پی اے ایچ سالمات کو متحرک کر دیا، جس سے وہ جیمز ویب خلائی دوربین کے حساس آلات میں نہایت شدت سے چمکنے لگے۔ یہ ایسے تھا جیسے ایک پردہ اٹھ گیا ہو اور وہ کیمیا سامنے آ گئی ہو جو برسوں سے چھپی ہوئی تھی۔

جب انہوں نے اسپٹزر خلائی دوربین کے محفوظ شدہ ڈیٹا کا دوبارہ جائزہ لیا تو اُس وقت بھی پی اے ایچ سالمات کے مدھم مگر واضح آثار ملے، جس سے یہ ٹی چا کے طیف میں ان سالمات کی پہلی مصدقہ نشاندہی ثابت ہوئی۔ تقابلی مطالعے سے معلوم ہوا کہ اگرچہ جیمز ویب خلائی دوربین میں یہ سالمات زیادہ روشن دکھائی دیے، تاہم ان کی داخلی خصوصیات، جیسے برقی حالت اور جسامت، دو دہائیوں کے دوران تبدیل نہیں ہوئیں۔

مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ ٹی چا میں موجود پی اے ایچ آبادی نسبتاً چھوٹے سالمات پر مشتمل ہے، جن کی ساخت میں 30 سے کم کاربن ایٹم شامل ہیں۔

ارون رائے نے مزید کہا:“چونکہ جیمز ویب خلائی دوربین ابھی اپنے عروج پر ہے، ہم مختلف اوقات میں ٹی چا کے قرص کا دوبارہ مشاہدہ کر سکتے ہیں اور یہ جانچ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ پی اے ایچ سالمات کس طرح ارتقا پذیر ہوتے ہیں۔

اشاعت کا حوالہ:
10.3847/1538-3881/adf637

 ***

 

UR-3953

(ش ح۔اس ک  )


(रिलीज़ आईडी: 2208982) आगंतुक पटल : 10
इस विज्ञप्ति को इन भाषाओं में पढ़ें: English , हिन्दी