PIB Headquarters
azadi ka amrit mahotsav

سرس فوڈ فیسٹیول 2025


ذائقوں، عزم و استقامت (ریزیلینس) اور لکھ پتی دیدیوں کے عروج کی کہانیاں

प्रविष्टि तिथि: 07 DEC 2025 10:28AM by PIB Delhi

دہلی کی سندر نرسری میں دسمبر کی ایک کھنکتی ہوئی صبح، لان ہندوستان کے بہترین علاقائی پکوانوں کا ذائقہ لینے کے خواہشمند ہجوم کی گہماگہمی سے گونج رہے تھے۔ مگر داخلی دروازے کے قریب ایک اسٹال ایسا تھا جس کی جانب لوگوں کا رجحان کسی اور وجہ سے بڑھ رہا تھا،ایک پُراعتماد کشش، وہی جو ایسے شخص کی موجودگی سے محسوس ہوتی ہے جو جانتا ہو کہ اس نے نہ صرف اپنی زندگی بلکہ سینکڑوں دیگر زندگیوں کا رخ بھی بدل دیا ہے۔

کاؤنٹر کے پیچھے پنجاب کے موہالی سے تعلق رکھنے والی محترمہ وندنا بھاردواج کھڑی تھیں، جو نہایت سلیقے سے اپنے پھُولکاری کے ملبوسات ترتیب دے رہی تھیں۔ سردیوں کی دھوپ میں ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی رنگا رنگ کڑھائی چمک رہی تھی، لیکن اس سے زیادہ روشن ان کا سفر تھا۔

انہوں نے 2018 میں محض دس خواتین پر مشتمل ایک چھوٹے سے سیلف ہیلپ گروپ (ایس ایچ جی) سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ گھر پر پھُولکاری کی سلائی کرتی رہیں، مگر جلد ہی ان کی قیادت اور صلاحیتیں نمایاں ہونے لگیں۔ پہلے انہوں نے اپنے گاؤں کی تنظیم میں 19 ایس ایچ جیز کی قیادت سنبھالی، اور پھر آہستہ آہستہ خواتین کے ایک وسیع ہوتے ہوئے نیٹ ورک کے لیے ایک مضبوط ستون بن گئیں جو ان کی رہنمائی پر بھروسہ کرتی تھیں۔

آج، وندنا 25 دیہاتوں میں پھیلے ہوئے 500 سے زائد سیلف ہیلپ گروپوں کی قیادت کر رہی ہیں،ایک ایسی سماجی و معاشی کمیونٹی انٹرپرائز جو کئی رسمی اداروں سے بھی زیادہ مضبوط اور مؤثر ہے۔

سرس فوڈ فیسٹیول 2025 میں ان کا اسٹال محض دستکاری مصنوعات کی نمائش نہیں تھا، بلکہ خواتین کی اجتماعی ترقی، معاشی خود مختاری اور حقیقی بااختیار بنانے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت بھی تھا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001UXFR.jpg

وندنا دیدی بتاتی ہیں، "حکومت نے ہر قدم پر ہماری بھرپور معاونت کی۔" ہمیں سلائی مشینیں فراہم کی گئیں اور ایک لاکھ روپے کی مالی امداد دی گئی، جبکہ وزارتِ دیہی ترقی کی جانب سے 30,000 روپے بطور ورکنگ کیپٹل ملے۔ ان عملی معاونتوں نے پھُولکاری کی سلائی کو ایک حقیقی، منظم اور پائیدار انٹرپرائز میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ان کی زیرِ قیادت، دیہی خواتین اب مختلف النوع مصنوعات تیار کرتی ہیں جن میں سویٹر، اسکول یونیفارمز اور بالخصوص اعلیٰ معیار کے پھُولکاری سے مزین ملبوسات شامل ہیں۔ ان کی دستکاری کا معیار اس قدر بلند ہو چکا ہے کہ سرکاری محکمے قومی اور بین الاقوامی معززین کو پیش کرنے کے لیے انہی کی تیار کردہ پھُولکاری مصنوعات خریدتے ہیں۔

یہاں تک کہ حکومت مختلف ممالک کو برآمد کے لیے بھی ان کے تیار کردہ سامان کی خرید کرتی ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002UMY4.png

سندر نرسری کے اُس پار بھی یہی جذبہ سرس فوڈ فیسٹیول 2025 کی ہر گلی اور ہر گوشے میں گونج رہا تھا۔ ملک کی 25 ریاستوں سے تقریباً 300 لکھ پتی دیدیاں اور ایس ایچ جی سے وابستہ کاروباری خواتین 500 سے زیادہ انواع و اقسام کے پکوان اور درجنوں دستکاری کی مصنوعات اپنے ساتھ لائی تھیں، جنہوں نے دہلی کو گویا ہندوستان کے ایک زندہ، متحرک نقشے میں بدل دیا تھا۔

فضا میں دال باٹی چُرما، مالابار بریانی، ہماچلی سِدو اور تندوری چائے کی مہک رچی ہوئی تھی،
لیکن ہر خوشبو کے پیچھے ایک ایسی خاتون کی داستان تھی جس کی پرتیں اُس کی ترکیب جتنی ہی گہری اور معنی خیز تھیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0030XSE.jpg

ڈی اے وائی–این آر ایل ایم کے تحت وزارتِ دیہی ترقی کی جانب سے منعقد کیے جانے والے سرس اجیوِکا میلے دیہی خواتین اور سیلف ہیلپ گروپوں کو ایک قومی پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں، جہاں وہ اپنی مصنوعات براہِ راست فروخت کر سکتی ہیں، بچولیوں کا کردار ختم ہو جاتا ہے، اور انہیں مارکیٹ میں نمایاں رسائی اور نمائش حاصل ہوتی ہے۔
پیکیجنگ، ڈیزائن، مواصلات اور مارکیٹنگ پر خصوصی ورکشاپس کے ذریعے، یہ میلے خواتین کو اپنی مصنوعات بہتر بنانے، آمدنی بڑھانے اور ملک بھر بلکہ بیرونِ ملک کے خریداروں سے جڑنے کی مہارتیں فراہم کرتے ہیں۔

وندنا دیدی کے اسٹال کے عین سامنے اوڈیشہ سے تعلق رکھنے والی 'ماں' ایس ایچ جی کی ایک رکن نے اپنا ہینڈلوم اسٹال سجایا ہوا تھا۔ 2019 میں ایس ایچ جی سے وابستہ ہونے کے بعد، انہوں نے مقامی فروخت سے آگے بڑھتے ہوئے اپنی دکان قائم کی اور اب خوردہ فروشوں کو بھی مصنوعات کی فراہمی کر رہی ہیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0046UFR.jpg

ہم پہلے صرف مقامی بنکر تھے،انہوں نے نہایت شائستگی سے کہا۔
ایس ایچ جی میں شامل ہونے کے بعد ہمیں مدد ملی، آسانی سے قرض تک رسائی حاصل ہوئی، اور سرکاری اہلکاروں کے باقاعدہ دوروں نے ہماری کاروباری ضروریات پوری کرنے اور مطلوبہ سامان کی بروقت فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔

سرس میلوں میں سے ایک کے دوران انہوں نے ایک لاکھ روپے سے زائد کی فروخت درج کی، جبکہ اکّت سوتی کپڑوں میں ان کی کمائی پانچ لاکھ روپے تک پہنچ گئی،ایک ایسا سنگ میل جسے ان کا گروپ آج بھی فخر اور مسرت کے ساتھ یاد کرتا ہے۔

جیسے ہی دہلی کے صارفین ہاتھ سے بنے کپڑوں کے اسٹال پر پہنچے، خواتین نے سہولت کے ساتھ ڈیجیٹل ادائیگیوں کا انتظام کیا۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ خریداروں سے بلا رکاوٹ بات چیت کے لیے بھاشنی موبائل ایپ استعمال کرتی ہیں، جو حقیقی وقت میں آواز پر مبنی زبان کے ترجمے کے ذریعے لسانی رکاوٹوں کو مؤثر انداز میں دور کرتی ہے۔

چند اسٹالوں کے فاصلے پر، محترمہ پریتی ساہو آندھرا طرز کے پکوان پیش کر رہی تھیں، جبکہ ساتھ ہی اپنے آبائی ضلع میں قائم راج بہان کینٹین کے آرڈرز بھی سنبھال رہی تھیں۔
2012 میں 10 سے 15 خواتین کے ساتھ اپنے سیلف ہیلپ گروپ (ایس ایچ جی) میں شامل ہونے کے بعد، انہیں بینکوں اور گاؤں کی سطح کے اداروں کے ذریعے آسان اور سستا قرض حاصل ہوا، جس نے انہیں اپنا کاروبار توسیع دینے کے قابل بنایا۔

وہ اب ماہانہ پچاس ہزار روپے سے زائد کماتی ہیں، جبکہ سرس میلے میں اُن کی فروخت عموماً دو سے ڈھائی لاکھ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔بات چیت کے دوران، ان کے فون پر مسلسل ڈیجیٹل ادائیگیاں موصول ہوتی رہیں، اور ان کے کاؤنٹر پر کیو آر کوڈ نمایاں طور پر نصب تھا۔
نقد لین دین نہ ہونے کے برابر تھا، جو ایس ایچ جی اراکین کی اعلیٰ سطح کی ڈیجیٹل مہارت کو ظاہر کرتا ہے، جنہوں نے تمام لین دین کو قابلِ ذکر اعتماد اور مہارت کے ساتھ خود ہی منظم اور ریکارڈ کیا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image005X580.jpg

اسٹالوں کی قطار کے ساتھ ساتھ، بہار کے سہرسہسے تعلق رکھنے والی محترمہ مایا دیوی صبح کے بڑھتے ہوئے ہجوم کے دوران اپنی مکھن مصنوعات کی نمائش کر رہی تھیں۔گھریلو خاتون کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی شروع کرنے والی مایا دیوی نے 2014 میں اپنے جیوکا سیلف ہیلپ گروپ (ایس ایچ جی) میں شمولیت اختیار کی، جہاں گروپ نے صرف 10 روپے کی ہفتہ وار بچت سے اپنی پیش رفت کا آغاز کیا۔آسانی سے دستیاب قرض اور مسلسل ادارہ جاتی معاونت نے انہیں اپنے مکھن سازی کے کاروبار کو بتدریج وسعت دینے میں مدد دی۔
آج وہ دہلی جیسے قومی پلیٹ فارم پر کھڑی ہیں،
اپنی مصنوعات کے استعمال کی تفصیل پیش کر رہی ہیں،
کیو آر کوڈ کے ذریعے ڈیجیٹل ادائیگیاں بآسانی انجام دے رہی ہیں،
اور یہ بتا رہی ہیں کہ کس طرح اجتماعی بااختیار بنانے نے انہیں ایک پائیدار ذرائع معاش قائم کرنے کے قابل بنایا۔

 

A person standing in front of a stall with a variety of food itemsAI-generated content may be incorrect. A group of people standing in front of a displayAI-generated content may be incorrect.

نمائش کنندگان میں جوناگڑھ، گجرات کی محترمہ دکشا مہتا بھی شامل تھیں، جو خوبصورت روایتی گجراتی لباس پہنے ہوئے تھیں اور مہادیو منگلم ایس ایچ جی کی نمائندگی کر رہی تھیں، جس میں انہوں نے 2022 میں شمولیت اختیار کی تھی۔ شمولیت کے بعد سے اب تک وہ ایک کروڑ روپے سے زائد کی فروخت کر چکی ہیں، جن میں سے 5 لاکھ روپے صرف سرس میلوں کے ذریعے حاصل ہوئے۔
روایتی میلوں سے آگے بڑھتے ہوئے، انہوں نے ای۔کامرس میں قدم رکھا اور اپنی مصنوعات کو ایمیزون پر درج کروایا، جس سے نہ صرف ملک گیر تقسیم ممکن ہوئی بلکہ ان کے صارفین کی بنیاد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔
جیسا کہ انہوں نے کہا، "میلوں نے ہمیں ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کیا ہے"۔

مجموعی طور پر، یہ تمام بیانیے دین دیال انتیودیا یوجنا – نیشنل رورل لائیولی ہڈ مشن (این آر ایل ایم) کے وسیع تر اثرات کی عکاسی کرتے ہیں، جس نے طویل عرصے سے خواتین کی صنعت کاری کو ایس ایچ جیز، کریڈٹ لنکیجز، صلاحیت سازی کے پروگراموں اور قومی سطح کے مارکیٹنگ پلیٹ فارمز کے ذریعے مضبوط تعاون فراہم کیا ہے۔مشن نے مالی سال 2024-25 میں مقررہ ہدف 2.5 کروڑ کے اضافے کے ساتھ 2 کروڑ سے زائد ’لکھ پتی دیدیوں‘ کے ابھرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ڈیجیٹل بااختیار بنانا بھی اتنا ہی مؤثر اور تبدیلی لانے والا ثابت ہوا ہے۔ بھاشنی جیسے ٹولز نے لسانی رکاوٹوں کو ختم کیا ہے، جبکہ یو پی آئی پر مبنی ادائیگیوں نے مالی شمولیت کو فروغ دیا ہے۔ ان تمام عوامل نے مجموعی طور پر خواتین کے اعتماد، خود مختاری اور معاشی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کو نئی قوت بخشی ہے۔

دین دیال انتیودیا یوجنا – نیشنل رورل لائیولی ہڈ مشن (ڈی اے وائی–این آر ایل ایم) وزارتِ دیہی ترقی کا فلیگ شپ پروگرام ہے، جس کا مقصد دیہی غربت کا خاتمہ اور غریب گھرانوں کو خود روزگار اور مہارت پر مبنی روزگار کے مواقع کے ذریعے پائیدار معاشی وسائل فراہم کرنا ہے۔یہ مشن دیہی گھرانوں کو سیلف ہیلپ گروپس (ایس ایچ جیز) میں منظم کرنے اور بتدریج اُن کی معاونت کرنے پر مرکوز ہے، تاکہ وہ آمدنی بڑھانے والی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں اور مستقل طور پر غربت کے دائرے سے باہر آ سکیں۔یہ دنیا کے اُن سب سے بڑے اقدامات میں شمار ہوتا ہے جن کا مقصد غریب طبقے کے معاشی حالات کو بہتر بنانا ہے۔5 دسمبر 2025 تک، ڈی اے وائی–این آر ایل ایم کے تحت 10.20 کروڑ گھرانوں کو ایس ایچ جیز میں شامل کیا جا چکا ہے۔لکھ پتی دیدی‘ اُس سیلف ہیلپ گروپ کی رکن کو کہا جاتا ہے جس کا گھرانہ کم از کم چار زرعی موسموں یا کاروباری چکروں کے دوران 10,000 روپے کی مستقل اوسط ماہانہ آمدنی کے ساتھ سالانہ کم از کم 1,00,000 روپے حاصل کرتا ہو۔

جیسے جیسے دن شام میں ڈھلتا گیا اور ثقافتی پروگراموں کی روشنی نے باغ کو منور کیا، یہ تہوار ایک معمولی تقریب کم اور ایک انکشاف زیادہ محسوس ہوا۔وہ خواتین جو کبھی بھیڑ کے سامنے بات کرنے کی اپنی صلاحیت پر تذبذب کا شکار رہتی تھیں، اب دنیا بھر کے صارفین سے بلا جھجھک گفتگو کر رہی تھیں،ترجمہ کر رہی تھیں، سمجھ رہی تھیں اور اعتماد کے ساتھ خود کو منوا رہی تھیں۔
جو خواتین کبھی صرف گھریلو مالیات سنبھالتی تھیں، وہ اب ڈیجیٹل والٹس، آرڈرز اور انوائسوں (رسیدوں)کا انتظام کر رہی تھیں۔زائرین کے لیے، سرس فوڈ فیسٹیول 2025 ذائقے کا جشن ہے۔ اور خواتین کے لیے، یہ آزادی کا جشن ہے۔

ایک ایسی آزادی جو کمائی گئی، بانٹی گئی(شیئر کی گئی) اور جڑی ہوئی زندگی کا حصہ بنی(جیتی گئی)،ایک کہانی، ایک فروخت اور ایک وقت میں ہونے والی ایک گفتگو کے ذریعے۔

حوالہ جات

 وزارت دیہی ترقی

 

https://www.pib.gov.in/FeaturesDeatils.aspx?NoteId=155247

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2181702

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2196537

https://nrlm.gov.in/dashboardForOuter.do?methodName=dashboard

 

پی ڈی ایف میں دیکھیں

***

UR-2568

(ش ح۔اس ک  )


(रिलीज़ आईडी: 2199983) आगंतुक पटल : 14
इस विज्ञप्ति को इन भाषाओं में पढ़ें: English , हिन्दी , Bengali