وزیراعظم کا دفتر
شری رام جنم بھومی مندر دھوجاروہن اتسو کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
Posted On:
25 NOV 2025 3:16PM by PIB Delhi
سیاور رام چندرکی جے!
سیاور رام چندرکی جے!
جے سیا رام!
اتر پردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سب سے قابل احترام سرسنگھ چالک، ڈاکٹر موہن بھاگوت جی، اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، شری رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر ٹرسٹ کے صدر، قابل احترام مہنت نرتیہ گوپال داس جی، سنت برادری، یہاں آئے سبھی عقیدت مند، ملک اور دنیا کے رام بھکت کی جو اس تاریخی لمحے کے گواہ ہیں، خواتین و حضرات!
آج ایودھیا شہر بھارت کی ثقافتی شعور کے ایک اہم لمحے کا شا ہد بن رہا ہے۔ آج پورا بھارت، پورا جہان، رام مے ہے۔ ہر رام بھکت کے دل میں بے مثال سکون ہے، لامحدود شکرگزاری ہے، بے پناہ روحانی خوشی ہے۔ صدیوں کے زخم بھر رہے ہیں، صدیوں کی تکلیف آج اختتام پا رہی ہے، صدیوں کا عزم آج اپنی تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ آج اُس یگ میں مکمل اثر پایا جا رہا ہے، جس کی اگنی 500 سال تک روشن رہی۔ وہ یُگ جو ایک لمحے کے لیے بھی عقیدت سے نہیں ہٹا، ایک لمحے کے لیے بھی یقین سے نہیں ٹوٹا۔ آج، بھگوان شری رام کے گربھ گرہ کی لافانی توانائی، شری رام کنبےکابے پناہ نور، اس دھرم دھوج کی صورت میں، اس سب سے پوتر، شاندار مندر میں نصب کیا گیا ہے۔
اور ساتھیوں،
یہ دھرم دھوج صرف ایک پرچم نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی تہذیب کی نشاۃ ثانیہ کا پرچم ہے۔ اس کا زعفرانی رنگ، اس پر کندہ سوریاونش کی شہرت، اس پر لکھا ہوا اوم لفظ، اور اس پر کندہ کوویدار کا درخت رام راجیہ کی شان کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ پرچم ایک عہد ہے، یہ پرچم کامیابی ہے۔ یہ پرچم جدوجہد کے ذریعے تخلیق کی کہانی ہے۔ یہ پرچم ان خوابوں کا مجسمہ ہے جو صدیوں سے دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ پرچم سنتوں کی سادھنا اور معاشرے کی شرکت کی ظاہری علامت ہے۔
ساتھیوں،
آنے والی صدیوں اور ہزاروں سالوں تک یہ مذہبی پرچم بھگوان رام کے نظریات اور اصولوں کا اعلان کرے گا ۔ یہ دھرم-دھوج کہے گا-ستیہ میوہ جیتے نانرتم یعنی صرف سچائی کی ہی جیت ہوتی ہے ، جھوٹ کی نہیں ۔ یہ دھرم-دھوج اعلان کرے گا-ستیم-ایک پدم برہما ستیہ دھرم: پرتھشٹ۔ یعنی ، سچائی برہمن کا عکس ہے اور سچائی میں مذہب قائم ہوتا ہے ۔ یہ دھرم-دھوج ایک تحریک بن جائے گا- پَران جائے پر وچن نا جائے یعنی جو کہا جائے وہی کیا جائے ۔ یہ دھرم-دھوج پیغام دے گا-کرم پردھان وشو روچی راکھا! یعنی دنیا میں عمل اور فرض کی اولین حیثیت ہونی چاہیے ۔ یہ دھرم-دھوج خواہش کرے گا- بیرنا بگرا آس نا تراسا ۔ سکھ مئیں تاہی سدا سب آسا یعنی بھید بھاؤ ، درد اور پریشانی سے آزادی ، معاشرے میں امن اور خوشی ہو۔ یہ دھرم دھوج ہمیں یہ عہد بستہ کرے گا ۔ ناہیں دردر کوو دکھی نہ دینا۔ یعنی ہمیں ایسا سماج بنانا چاہیے جہاں غربت نہ ہو ، کوئی تکلیف میں یا یا بے بس نہ ہو ۔
ساتھیوں،
ہمارے گرنتھ میں کہا گیا ہے ،’’اروپتم دھوجہ درشتم ، یہ ا ابھینندنتی دھرمیکہْ تے اپی سرو ےپرموچیتے، مہا پاتک کوٹیبھیہ۔‘‘ یعنی جو لوگ کسی وجہ سے مندر میں نہیں آ سکتے، لیکن جو مندر کے دھوج کو دور سے سلام کرتے ہیں، انہیں بھی اتنی ہی پنہ مل جاتا ہے۔
ساتھیوں،
یہ دھرم دھوج بھی اس مندر کے مشن کی علامت ہے۔ یہ پرچم دور سے رام للا کی جنم بھومی کے درشن کرائے گا ۔ اور آنے والے زمانوں تک، یہ بھگوان شری رام کے احکامات اور ترغیبات کو تمام بنی نوع انسان تک پہنچاتا رہے گا۔
ساتھیوں،
میں اس ناقابل فراموش لمحے، اس منفرد موقع پر دنیا بھر کے لاکھوں رام بھکتوں کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آج، میں ان تمام عقیدت مندوں کو بھی سلام کرتا ہوں اور رام مندر کی تعمیر میں تعاون کرنے والے ہر انسان دوست کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں رام مندر کی تعمیر میں شامل ہر مزدور، ہر کاریگر، ہر منصوبہ ساز، ہر معمار، سبھی کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیوں،
ایودھیا وہ سرزمین ہے جہاں آدرش طرز عمل میں بدل جاتے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جہاں سے شری رام نے اپنی زندگی کا سفر شروع کیا تھا۔ اس ایودھیا نے دنیا کو دکھایا کہ کس طرح ایک شخص سماج کی طاقت اور اس کی اقدار سے پروشتم بنتا ہے۔ جب شری رام نے ونواس کے لیے ایودھیا چھوڑا تو وہ شہزادہ رام تھے، لیکن جب وہ واپس آئے تو وہ مریادا پروشتم بن کر آئے اور مریادا پروشتم بننے میں مہارشی وشیسٹھ کا علم، مہارشی وشوامتر کی دیکشا، مہارشی آگستیہ کی رہنمائی، نشادراج کی دوستی، ماں شبری کی محبت، بھکت ہنومان کا خود کو وقف کر دینے کا جذبہ، ان سب کا اور بے شما ر دیگر اہم کردار رہا ہے۔
ساتھیوں،
وکست بھارت کی تعمیر کے لیے بھی سماج کی اس اجتماعی طاقت کی ضرورت ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ رام مندر کا یہ وسیع صحن بھی ہندوستان کی اجتماعی طاقت کے شعور کی جگہ بن رہا ہے۔ یہاں سپتمندر بنے ہیں ۔ یہاں ماتا شبری کا مندر ہے، جو قبائلی برادری کی محبت اور مہمان نوازی کی علامت ہے۔ یہاں نشادراج کا مندر بنا ہے، جو اس دوستی کا گواہ ہے جو اسباب نہیں، سادھنا کرنے والے کے جذبے کو پوجتا ہے۔ یہاں، ایک جگہ، ماتا اہلیہ ہیں، مہارشی والمیکی ہیں، مہارشی وشیسٹھ ہیں، مہارشی وشوامتر ہیں، مہارشی آگستیہ ہیں اور سنت تلسی داس ہیں۔ رام للا کے ساتھ یہ سارے سنتوں کے درشن بھی یہاں پر ہوتے ہیں۔ جٹایو اور گلہری کی مورتیاں بھی ہیں، جو بڑے عزائم کی تکمیل کے لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی کوشش کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ آج میں ملک کے ہر شہری سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ جب بھی رام مندر جائیں تو سپت مندر کے درشن بھی ضرور کریں۔ یہ مندر ہمارے عقیدے کے ساتھ، دوستی، فرض اور سماجی ہم آہنگی کی اقدار کو تقویت دیتے ہیں۔
ساتھیوں،
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے رام بھید سے نہیں بھاؤ سے جڑتے ہیں ۔ ان کے لیے کسی شخص کا نسب نہیں ، بلکہ ان کی عقیدت اہم ہے۔ انھیں نسب نہیں اصول پیارے ، انھیں طاقت نہیں اشتراک عظیم لگتا ہے، آج ہم بھی اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ گزشتہ 11 سالوں میں خواتین ، دلت ، پسماندہ ، انتہائی پسماندہ ، قبائلی ، محروم ، کسان ، مزدور ، نوجوان ، ہر طبقے کو ترقی میں مرکزی حیثیت دی گئی ہے ۔ جب ملک کا ہر فرد ، ہر طبقہ ، ہر خطہ بااختیار ہوگا تو اس عزم کو پورا کرنے کے لیے سب کی کوششیں ہوں گی اور سب کی کوششوں سے ہمیں 2047 تک ایک وکست بھارت کی تعمیر کرنی ہوگی ، جب ملک آزادی کے 100 سال منائے گا ۔
ساتھیوں،
رام للا کی پران پرتشٹھاکے تاریخی موقع پر میں نے رام سے ملک کے عزم پر تبادلہ خیال کیا تھا ۔ میں نے کہا تھا کہ ہمیں اگلے ایک ہزار سالوں کے لیے ہندوستان کی بنیاد کو مضبوط کرنا ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا ، جو صرف حال کے بارے میں سوچتے ہیں ، وہ آنے والی نسلوں کے ساتھ نا انصاف کرتے ہیں ۔ ہمیں حال کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا ۔ کیونکہ جب ہم نہیں تھے ، یہ ملک تب بھی تھا ، جب ہم نہیں رہیں گے ، یہ ملک تب بھی رہے گا ۔ ہم ایک زندہ سماج ہیں ، ہمیں دور اندیشی کے ساتھ ہی کام کرنا ہوگا ۔ ہمیں آنے والی دہائیوں ، آنے والی صدیوں کو ذہن میں رکھنا ہی ہوگا ۔
اورساتھیوں،
اس کے لیے بھی ہمیں بھگوان رام سے سیکھنا ہوگا ۔ ہمیں ان کی شخصیت کو سمجھنا ہے ، ہمیں ان کے رویے کو اپنانا ہے ، ہمیں یاد رکھنا ہے ، رام یعنی آدرش ، رام یعنی مریادا ، رام یعنی زندگی کااعلی ترین کردار ۔ رام یعنی سچائی اور شجاعت کا سنگم – دویا گنے شکرسموہ رام ستیہ پراکرم ۔ رام یعنی – دھرم پتھ پر چلنے والے شخص ، رام ستیہ پرشو لوکے ستیہ ستیہ پراین ، رام یعنی عوام کے سکھ کو ترجیح پر رکھنا ، پر جا سکھت وے چندرسے۔ رام یعنی صبر اور معافی کا دریا ۔ وسو دھایا چھما گنے ۔ رام یعنی – علم اور دانشمند ی کی علامت،بودھیا برہسپتے تلیہ۔ رام یعنی –نرم مزاجی میں مضبوطی ، مردو پورو چہ بھاشتے۔رام یعنی دیانت داری کی عظیم مثال ،کداچن نوپکارین، کرتی نکین تشیتی۔ رام یعنی بہترین صحبت کا انتخاب ، شیل وردھیہ، گیان وردھیہ ویو وردھیہ چہ سجننے۔ رام یعنی عاجزی میں طاقت ، ویروان چہ ورین مہتا سوین وسمت ۔ رام یعنی سچائی کا غیر متزلزل عزم ، نا چے انرت کتھو ودوان۔ رام یعنی بیدار مند ، نظم و ضبط اور مخلص ذہن ، نستندری آپرمتہ چہ سوا دوش پر دوش وت۔
ساتھیوں،
رام صرف ایک شخص نہیں ہے۔ وہ ایک قدر، مریادا، ایک سمت ہے۔ اگر ہندوستان کو 2047 تک وکست بنانا ہے ، اگر ہمیں معاشرے کو بااختیار بنانا ہے، تو ہمیں اپنے اندر کے ’’رام‘‘ کو بیدار کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے اندر رام کی پران پرتشٹھا کرنی ہوگی ، اور اس عہد کے لیے آج سے بہتر دن اور کیا ہو سکتا ہے؟
ساتھیوں،
پچیس نومبر کا یہ تاریخی دن ہماری وراثت میں فخر کا ایک اور شاندار لمحہ لے کر آتا ہے۔ اس کی وجہ دھرم دھون پر کندا کوویدر درخت ہے۔ یہ کوویدر کا درخت اس بات کی مثال ہے کہ جب ہم اپنی جڑوں سے کٹ جاتے ہیں تو ہماری شان تاریخ کے اوراق میں دفن ہو جاتی ہے۔
ساتھیوں،
جب بھرت اپنی فوج کے ساتھ چترکوٹ پہنچے تو لکشمن نے ایودھیا کی فوج کو دور سے پہچان لیا۔ والمیکی نے بیان کیا ہے کہ یہ کیسے ہوا اور والمیکی نے جو بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے کہا۔’’ویراجتی اُدر گت سکندھم، کویدار دھوجہ رتھے ۔’’ لکشمن کہتے ہیں ہے رام، سامنے جو انتہائی روشن عظیم درخت جیسا پرچم دکھائی دے رہا ہے ، وہی ایودھیا کی فوج کا دھوج ہے ، اس پر کوویدار کا شبھ علامت کندہ ہے ۔‘‘
ساتھیوں،
آج، جب رام مندر کے صحن میں کوویدار کو دوبارہ قائم کیا جا رہا ہے، یہ صرف ایک درخت سے منسوب نہیں ہے بلکہ اس کا رشتہ ہماری یادوں سے وابستہ ہے ، یہ ہماری شناخت کی نشاۃ ثانیہ ہے، ہماری عزت نفس کی تہذیب کا دوبارہ اعلان ہے۔ کوویدر کا درخت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب ہم اپنی شناخت بھول جاتے ہیں تو ہم خود کو کھو دیتے ہیں۔ اور جب شناخت واپس آتی ہے تو ملک کا خود اعتمادی بھی لوٹ آتا ہے اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اگر ملک کو ترقی کرنی ہے تو اسے اپنی میراث پر فخر کرنا چاہیے۔
ساتھیوں،
اپنے وراثت پر فخر کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم چیز بھی اہم ہے: غلامی کی ذہنیت سے مکمل آزادی۔ آج سے 190 سال قبل 1835 میں میکالے نامی ایک انگریز نے ہندوستان کی جڑیں کمزور کرنے کا بیج بویا تھا۔ میکالے نے ہندوستان میں ذہنی غلامی کی بنیاد رکھی۔ دس سال بعد 2035 میں اس ناپاک واقعے کو 200 سال مکمل ہو جائیں گے۔ ابھی چند دن پہلے میں نے ایک پروگرام میں زور دیا تھا کہ ہمیں آنے والےدس سالوں تک اس دس سال کا ہدف لے کر آگے بڑھنا ہوگا کہ ہندوستان کو غلامی کی ذہنیت سے آزاد کر کے رہیں گے ۔
ساتھیوں،
سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ میکالے نے جو سوچا اس کا دور رس اثر پڑا ۔ ہمیں آزادی ملی ، لیکن احساس کمتری سے آزادی نہیں ملی ۔ ہمارے یہاں ایک برائی آگئی کہ بیرون ملک کی ہر چیز ، ہر نظام اچھا ہے اور جو ہماری اپنی چیزیں ہیں ان میں کھوٹ ہی کھوٹ ہے ۔
ساتھیوں،
غلامی کی یہی ذہنیت ہے جس نے لگاتار یہ ثابت کیا کہ ہم نے بیرونی ملکوں سے جمہوریت حاصل کی ، کہا گیا ہے کہ ہمار ا آئین بھی بیرونی ممالک سے تر غیب یافتہ ہے جب کہ سچ یہ ہے کہ ہندوستان مادر جمہوریت ہے ، جمہوریت ہمارے ڈی این اے میں ہے ۔
ساتھیوں،
اگر آپ تمل ناڈو جائیں تو تمل ناڈو کے شمالی حصے میں اترمیرور نام کا ایک گاؤں ہے۔ ہزاروں سال پہلے کا ایک شیلا لیکھ موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس دور میں بھی کس طرح جمہوری طرز حکمرانی چلائی گئی، کس طرح لوگوں نے اپنی حکومت کا انتخاب کیا۔ لیکن یہاں، میگنا کارٹا کی تعریف کرنے کا رواج غالب رہا۔ یہاں تک کہ بھگوان بسونّا اور ان کے انوبھو منٹپا کی جانکارے بھی محدود رکھی گئیں۔ انو بھوو منٹپا یعنی جہاں سماجی ، مذہبی ، اقتصادی موضوعات پر اجتماعی طور پر بات چیت ہوتی ، جہاں اجتماعی طور پر فیصلے کیے جاتے تھے۔ لیکن غلامی کی ذہنیت کی وجہ سے ہندوستان کی کئی نسلیں اس علم سے بھی محروم تھیں۔
ساتھیوں،
غلامی کی یہ ذہنیت ہمارے نظام کے ہر کونے میں پیوست تھی۔ آپ یاد کیجئے بھارتی بحریہ کا پرچم ، صدیوں تک اس پرچم پر ایسی علامات بنی رہیں جن کا ہماری تہذیب، ہماری طاقت، ہماری وراثت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اب ہم نے بحریہ کے پرچم سے غلامی کی ہر علامت کو ہٹا یاہے۔ ہم نے چھترپتی شیواجی مہاراج کی وراثت کو قائم کیا ہے۔ اور یہ صرف ڈیزائن کی تبدیلی نہیں تھی۔ یہ ذہنی تبدیلی کا لمحہ تھا۔ یہ ایک اعلان تھا کہ ہندوستان اب اپنی طاقت کا اظہاراپنی علامات سے کرے گی نہ کہ کسی اور کی وراثت ۔
اور ساتھیوں،
یہی تبدیلی آج ایودھیا میں نظر آرہی ہے۔
ساتھیوں،
یہی غلامی کی ذہنیت ہے جس نے اتنے سالوں تک رامتوسے انکار کیا ہے۔ بھگوان رام اپنے آپ میں ایک قدر کا نظام ہے۔ اورچھا کے راجہ رام سے لے کر رامیشورم کے بھکت رام تک، اور شبری کے بھگوان رام سے لے کر متھیلا کے مہمان رام تک، رام ہر گھر میں، ہندوستان کے ہر گھر میں ہر ہندوستانی کے دل میں اور ہندوستان کے ہر گوشے میں رام ہیں ، لیکن غلامی کی ذہنیت اس قدر غالب ہو چکی ہے کہ بھگوان رام کو بھی خیالی قرار دیا جانے لگا۔
ساتھیوں،
اگر ہم عزم کر لیں ، اگلے دس سال میں ذہنی غلامی سے پوری طرح سے نجات حاصل کر لیں گے ، اور تب جا کر ایسی روشنی پھیلے گی ، ایسا اعتماد بڑھے گا کہ 2047 تک وکست بھارت کا خواب پورا ہونے سے ہندوستان کو کوئی روک نہیں پائے گا ۔ ہندوستان کی بنیاد اگلے ہزار سال تک اسی وقت مضبوط ہو گی جب ہم اگلے دس سالوں میں میکالے کی غلامی کے منصوبے کو مکمل طور پر ختم کر کے دکھا دیں گے ۔
ساتھیوں،
ایودھیا دھام میں رام للا مندر کمپلیکس پہلے سے زیادہ شاندار ہوتا جا رہا ہےاور ساتھ ہی ایودھیا کو سنوارنے کا کام مسلسل جاری ہے۔ آج ایودھیا ایک بار پھر ایک ایسا شہر بن رہا ہے جو دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرے گا۔ تریتا یُگ کی ایودھیا نے انسانیت کو اخلاقیات دی، اور 21ویں صدی کی ایودھیا انسانیت کو ترقی کا ایک نیا ماڈل پیش کر رہی ہے۔ اس وقت، ایودھیا مریاداکا مرکز تھا، اور اب ایودھیا وکست بھارت کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر ابھر رہا ہے۔
ساتھیوں،
مستقبل کا ایودھیا افسانوں اور اختراعات کا سنگم ہوگا۔ دریائے سریو کا امرت اور ترقی کی دھارا ایک ساتھ بہیں گی ۔ یہاں ، روحانیت اور مصنوعی ذہانت کا تال میل نظر آئے گا ۔ رام پتھ، بھکتی پتھ، اور جنم بھومی پتھ سے نئی ایودھیا کی درشن ہوتے ہیں ۔ ایودھیا میں ایک شاندار ہوائی اڈہ اور ایک شاندار ریلوے اسٹیشن ہے۔ وندے بھارت اور امرت بھارت ایکسپریس جیسی ٹرینیں ایودھیا کو ملک کے باقی حصوں سے جوڑ رہی ہیں۔ ایودھیا کے باشندوں کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل کام جاری ہے۔
ساتھیوں،
جب سے پران پرتشٹھا ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک تقریباً 45 کروڑ عقیدت مند یہاں درشن کے لیے آچکے ہیں۔ یہ وہ پوترسرزمین ہے جہاں45 کروڑ لوگوں کے پاؤں زمین کو چھو چکے ہیں۔ اور اس سے ایودھیا اور آس پاس کے لوگوں میں اقتصادی تبدیلی آئی ہے اور اس میں اضافہ ہو ا ہے ۔ ایودھیا، جو کبھی ترقی کے پیمانے میں بہت پیچھے تھا، اب اتر پردیش کے سرکردہ شہروں میں سے ایک بنتا جا رہا ہے۔
ساتھیوں،
اکیسویں صدی کا آنے والا وقت بہت اہم ہے۔ آزادی کے بعد کے 70 سالوں میں، ہندوستان 11 ویں سب سے بڑی معیشت بنا ، لیکن گزشتہ 11 برس میں ہی ہندوستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔آنے والا وقت نئے مواقع اور نئے امکانات کا ہے۔ اور دور حاضرمیں بھی بھگوان رام کے نظریات ہی ہماری تحریک کا باعث بنیں گے ۔ جب بھگوان شری رام کے سامنے راون کو شکست دینے جیسا بڑا ہدف تھا تب انھوں نے کہا تھا کہ ۔سورج دھیرج تیہی رتھ چاکا۔ ستیہ سیل درڑھ دوھہ پتاکا۔بل ببیک دم پر ہت گھورے ۔ چھما کرپا سمتا رجو زوروے ۔ یعنی روان پر جیت حاصل کرنے کے لیے جو رتھ چاہیے بہادری اور ہمت اس کے پہیے ہیں ۔اس کا دھوج سچائی اور اچھے برتاؤ ہیں ۔ طاقت سمجھ بوجھ صبر اور صلہ رحمی اس رتھ کے گھوڑے ہیں ۔ لگام کی شکل میں معافی ، ہمدردی اور مساوات ہیں جو رتھ کو صحیح سمت میں رکھتے ہیں ۔
ساتھیوں،
وکست بھارت کے سفر کو رفتار دینے کے لیے ایسا ہی رتھ چاہیے ، ایسا رتھ جس کے پہیے بہادری اور ہمت ہو۔یعنی چیلنجوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی ہو اور نتائج آنے تک عزم کے ساتھ ڈٹے رہنے کی ہمت بھی ہو۔ ایسا رتھ جس کا دھوج سچائی اور بہترین اخلاق ہوں ،یعنی پالیسی، نیت اور اخلاقیات پرکبھی سمجھوتہ نہ ہو۔ ایسا رتھ جس کے گھوڑے طاقت ،سمجھ بوجھ ، صبر اور صلہ رحمی ہو یعنی طاقت بھی ہو ، عقل و دانش بھی ہو ، ضبط و تحمل بھی ہو اور دوسروں کے مفادات کے تئیں جذبہ بھی ہو۔ ایسا رتھ جس کی لگام معافی، ہمدردی ، مساوات کا جذبہ ہو ۔ یعنی جہاں کامیابی کا غرور نہیں ، اور ناکامی میں بھی دوسروں کا احترام رہے ۔ اور اس لیے میں احترام سے کہتا ہوں ، یہ لمحہ شانہ بشانہ ہونے کا ہے ، یہ لمحہ رفتار بڑھانے کا ہے ،ہمیں وہ ہندوستان بنانا ہے جو رام راجیہ سے ترغیب یافتہ ہو۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ذاتی مفادات سے پہلے ملک کے مفادات ہوں گے ۔ جب ملک مقدم رہے گا۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔
جے سیا رام!
جے سیا رام!
جے سیا رام!
****
ش ح۔ ا ع خ۔ ش ب ن
Uno-1781
(Release ID: 2194248)
Visitor Counter : 8