PIB Headquarters
azadi ka amrit mahotsav

بجلی (ترمیمی) بل 2025 سےمتعلق اکثر پوچھے جانے والے سوالات

Posted On: 30 OCT 2025 7:18PM by PIB Delhi

بجلی(ترمیمی)بل، 2025 ترقی پسند اصلاحات  پر مبنی ہے جس کا مقصد مالیاتی نظم و ضبط، صحت مند مسابقت اور بہتر کارکردگی کے ذریعے بجلی کی تقسیم کے شعبے کو مضبوط بنانا ہے۔ یہ ترقی یافتہ ہندوستان2047@ کے وژن کے مطابق مستقبل کے لیے تیار بجلی کے شعبے کی بنیاد رکھتا ہے۔ مزید برآں، یہ کسانوں اور دیگر اہل صارفین کے لیےمراعاتی نرخوں کی مکمل حفاظت کرتا ہے۔ ریاستی حکومتیں ایکٹ کی دفعہ 65 کے تحت یہ سبسڈی جاری رکھ سکتی ہیں۔

یہ بل ریاستی بجلی ریگولیٹری کمیشن (سی ای آر سی) کی نگرانی میں بجلی کی فراہمی میں سرکاری اور نجی ڈسکام کمپنیوں کے درمیان صحت مند مسابقت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس کا مطلب بہتر سروس، بہتر کارکردگی، اور صارفین کے لیے حقیقی پسندکی سروس ہوگی۔ اس سے عوامی اور پرائیویٹ ڈسکام یوٹیلیٹیز کو کارکردگی کی بنیاد پر مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے، اجارہ دارنوعیت کی فراہمی کو موثر، جوابدہ اور صارفین کے موافق خدمت میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

1. کیا اس مسابقت سے کسانوں یا عام صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوگا؟

مسابقت سپلائی کی کارکردگی اور جوابدہی کو بہتر بنا کر بجلی کی سپلائی کی مجموعی لاگت کو کم کرتی ہے۔

مشترکہ نیٹ ورک کے استعمال سے ڈسٹری بیوشن لائنوں اور سب اسٹیشنوں کی  ڈبلنگ کا خاتمہ ہو گا۔ اجارہ دار پاور سپلائی ماڈل کے تحت، تکنیکی اور تجارتی نقصانات زیادہ ہوتے ہیں اور اکثر انہیں مجموعی طور پر پیش کیا جاتاہے، جس سے زیاں کاریاں اور چوری چھپ جاتی ہے۔ جب ریاستی حکومتیں کسانوں یا گھریلوصارفین جیسے صارفین کو سبسڈی والی بجلی فراہم کرتی ہیں تو سبسڈی کے بوجھ میں نہ صرف متوقع سماجی مدد بلکہ اجارہ دارانہ کاموں کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔

مشترکہ نیٹ ورک کے استعمال کوبروئے کار لاکر اور مسابقت کو آسان بنا کر،ان  اصلاحات نقصانات کم ہوں گے  اورصارفین کی طرف سے ادا کی جانے والی سبسڈی کی شرحوں کو تبدیل کیے بغیر ریاستی حکومتوں پر سبسڈی کا بوجھ مؤثر طریقے سے کم  ہوگا۔

2. کیا لاگت پرمحیط ٹیرف  سےکسانوں اور غریبوں کے لیے بجلی مہنگی ہوجائےگی؟

لاگت کی عکاسی کرنے والے ٹیرف سے ڈسکام کے قرض کا سلسلہ ٹوٹے  گا،اوراسے قابل بھروسہ سروس، بروقت دیکھ بھال اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے پر قادر بنایا جائے گا۔

مینوفیکچرنگ کی صنعتوں، ریلوے اور میٹرو کے لیے کراس سبسڈی ختم کرنے سے مسابقت بڑھے گی اور ملازمتیں پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ پوشیدہ کراس سبسڈی کو شفاف اور بجٹ سبسڈی (ایکٹ کے سیکشن65 کے تحت) سے تبدیل کر دیا گیا ہے، تاکہ کمزور صارفین جیسے کسانوں اور غریبوں کا تحفظ کیا جاسکے۔

 

3. کیا مسابقت سے نیٹ ورک (وہیلنگ)چارج کم ہوں گے؟

 

مجوزہ بل کے تحت، ریاستی الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن کی طرف سے لاگت  پر محیط وہیلنگ چارج طے کیے جائیں گے۔ تمام ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کے صارفین خواہ وہ عوامی ہوں یا پرائیویٹ-یہ ریگولیٹ شدہ چارج ادا کریں گے۔اس کے بعدحاصل شدہ چارج کو نیٹ ورک کی ملکیت کی بنیاد پر لائسنس یافتگان کے درمیان مساوی طور پرتقسیم کیا جائے گا۔ یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یوٹیلیٹیز کے پاس تنخواہوں، دیکھ ریکھ اور نیٹ ورک کی توسیع کے لیے مناسب فنڈ  دستیاب ہوں۔

ملک  میں پہلے سے ہی بین ریاستی ٹرانسمیشن سسٹم (آئی ایس ٹی ایس) کا ایک کامیاب ماڈل موجود ہے جو مشترکہ انفرا اسٹرکچر پر کام کرتا ہے۔ ٹرانسمیشن سروس فراہم کرنے والے (ٹی ایس پی)، جیسے پاور گرڈ(سی پی ایس یو) اور نجی کمپنیاں دونوں مسابقت کرتی ہیں اورسی ای آر سی کی نگرانی میں آئی ایس ٹی ایس کے اثاثہ جات بناتی ہیں ۔ صارفین ماہانہ ادائیگی کرتے ہیں، جسےٹی ایس پی میں مناسب طریقے سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس ماڈل سے اعتماد کو برقرار رکھتے ہوئے  آئی ایس ٹی ایس کی تعمیر کی لاگت اور وقت کو کم کیاگیا ہے۔

 

4. کیایہ سرکاری  ڈسکام کو ختم کر دے گا یا نجی کمپنیوں کو ان کی مرضی کے مطابق انتخاب کرنے کی اجازت دے گا؟

 

سرکاری ڈسکام پرائیویٹ لائسنس یافتگان کے ساتھ منظم،مساوی میدان میں کام کرنا جاری رکھیں گے۔ مسابقت سے لاگت کو کم گی، کارکردگیوں میں بہتری آئے گی اور سروس کے معیارکوبہتر بنایا جائے گا۔آئی ایس ٹی ایس کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریگولیٹ  شدہ مسابقت سے لاگت کم ہوتی ہے اور نیٹ ورک کی تیزی سے توسیع کو ممکن بنایا جاتا ہے۔

ہر ڈسٹریبیوشن لائسنس ریاستی بجلی ریگولیٹری کمیشن (ایس ای آر سی) کی طرف سے بیان کردہ تقسیم کے علاقے کے اندرموجود تمام صارفین کا احاطہ کرتا ہے—جس میں یا تو پورا میونسپل کارپوریشن، تین ملحقہ اضلاع ہوتے ہیں یا ایک چھوٹا علاقہ ہوتا ہے، اگر متعلقہ حکومت کی طرف سے خاص طور پر نوٹیفائی کیا گیا ہو۔ ریاستی بجلی ریگولیٹری کمیشن (ایس ای آر سی) ان علاقوں کو منضبط کرتے ہیں۔

ریگولیٹر کی طرف سے تمام ڈسٹری بیوشن لائسنس یافتگان کے لیے لاگت کی عکاسی کرنے والی ٹیرف طے کی جاتی ہیں۔ یونیورسل سروس کی ذمہ داری (یو ایس او) کا اطلاق تمام لائسنس یافتگان پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سپلائر کو اپنے علاقے کے تمام صارفین کو بلا تفریق خدمت فراہم کرنی چاہیے۔ مزید برآں، سبسڈی والے صارفین (جیسے کسانوں اور غریب گھرانوں) کو سروس فراہم کرنے والے ڈسٹری بیوشن لائسنس  یافتگان کو ریاستی سبسڈی موصول ہوتی ہے۔یو ایس او تمام صارفین پر لاگو ہو گا، بشمول کسانوں اور گھریلو صارفین، سوائے ان  بڑے صارفین کے جنہیں خاص طور پر ریاستی بجلی ریگولیٹری کمیشن کے ذریعے مستثنیٰ قرار دیا گیاہو۔

اسٹیٹ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن (ایس ای آر سی) کارکردگی کے معیارات (معتبر، وولٹیج، اور آؤٹیج فریکوئنسی) کو نافذ کرتے ہیں اور عدم تعمیل پر جرمانے یا لائسنس منسوخ کر سکتے ہیں۔

یہ بل ریاستی حکومتوں کے ساتھ مشاورت سے ریاستی بجلی ریگولیٹری کمیشن (ایس ای آر سی ) کویہ  اجازت دیتا ہے کہ وہ بڑے صارفین (1 میگاواٹ سے زیادہ) کے لیے یو ایس او کو ہٹا دیں جو فی الحال ایکٹ کے تحت کھلی رسائی کے اہل ہیں۔ یہ بڑے صارفین بغیر کسی ڈسکام کی امداد کے کھلی رسائی کے ذریعے اپنی بجلی حاصل کر سکتے ہیں۔ آخری چارہ کے طور پر،ڈسٹریبیوشن لائسنس  یافتہ کوئی نقصان اٹھائے بغیر، اگر ضرورت ہو، تو سپلائی کی لاگت سے زیادہ قیمت پر سپلائی فراہم کرے گا۔

اس طرح یہ فریم ورک تمام لائسنس یافتگان کے لیے منصفانہ مسابقت، مکمل کوریج، اور مالی استحکام کو یقینی بناتا ہے۔

 

5. کیایہ بل بجلی کومرکزی کنٹرول میں لاتا ہےیا ریاست کی خود مختاری کو ختم کرتا ہے؟

 

بجلی کو کنکرنٹ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے، جس  پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو قانون سازی کی اجازت ہے۔ اس بل میں دونوں حکومتوں کے درمیان مشاورتی عمل کے ذریعے اصلاحات کو نافذ کرنے کا تصور کیا گیا ہے۔

مجوزہ بجلی کونسل پالیسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مشاورتی ادارے کے طور پر کام کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی، ریاستی بجلی ریگولیٹری کمیشن (ایس ای آر سی) اپنے دائرہ اختیار میں ٹیرف طے کرنا، لائسنس جاری کرنا، اور ریاست کے اندر کی سرگرمیوں کو منظم کرنا جاری رکھیں گے۔

اس طرح،یہ بل وفاقی توازن کو برقرار رکھتا ہے، کوآپریٹو گورننس کو فروغ دیتا ہے، اور پاور سیکٹر میں  درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فریم ورک کو مضبوط کرتا ہے۔

*****

 ( ش ح ۔م ش ع۔اش ق)

U. No. 530


(Release ID: 2184482) Visitor Counter : 4