سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
صبح کی کافی میں موجود کچھ عناصر کھانوں میں شامل خطرناک رنگوں کا پتا لگانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں
Posted On:
13 OCT 2025 5:10PM by PIB Delhi
سائنسدانوں نے انتہائی کم مقدار میں زہریلے مالیکیولز کا پتہ لگانے کا ایک سادہ مگر مؤثر طریقہ دریافت کیا ہے۔ وہی طریقہ جس کی بدولت کافی کے داغ بنتے ہیں۔
جب کسی میز کی سطح پر کافی کا قطرہ بخارات بن کر خشک ہوتا ہے تو یہ کنارے کے گرد ایک منفرد سیاہ حلقہ بناتا ہے۔ یہ روزمرہ کا مظہر، یا ’’کافی داغ کا اثر‘‘، اس حقیقت کی وجہ سے ہوتا ہے کہ محلول خشک ہونے کے دوران اس میں معلق ذرات باہر کی طرف حرکت کرتے ہیں اور کنارے پر جمع ہو جاتے ہیں۔ محققین طویل عرصے پہلے پتہ لگا چکے تھے کہ یہی اصول نہ صرف کافی پربلکہ دیگر ذرات کے قطرات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
اس قدرتی مظہر کی تحقیق اور اس میں تبدیلی لا کر، سائنسدان نینو ذرات کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہ خشک داغ کے کنارے پر مخصوص اور انتہائی منظم پیٹرن میں خود کو ترتیب دیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے حلقے نما ذرات ایسے مناظر تخلیق کرتے ہیں جہاں روشنی مادے کے ساتھ تعامل کرتی ہے۔ اس سے ایسی منفرد مواقع پیدا ہوتے ہیں جو کچھ مادوں کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں، جن کی مقدار معمول کے طریقوں سے ناپنے کے لیے بہت کم ہوتی ہے۔
شکل 1 ۔ خشک کرنے کے عمل کے دوران انگوٹھے کے کنارے پر ایک بوند میں ذرات کی حرکت
رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آر آر آئی) کے محققین، جو کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ (ڈی ایس ٹی)، حکومت ہند کی معاونت سے ایک خودمختار ادارہ ہے، نے روڈامین بی پر توجہ مرکوز کی، جو کہ ٹیکسٹائل اور کاسمیٹکس میں استعمال ہونے والا ایک فلوروسینٹ مصنوعی رنگ ہے۔ تاہم، یہ رنگ زہریلا ہے اور جلد، آنکھوں اور یہاں تک کہ تنفسی نظام کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے کیونکہ اس کے پانی میں دیر تک موجود رہنے کی بھی پتہ لگاہے۔
تحقیقی ٹیم نے کافی کے داغ کے اثر کو گولڈ نینو راڈز کے ساتھ استعمال کیا، جو چند دسیوں نینو میٹر طویل خوردبینی راڈز ہیں، اس طریقے سے کہ انہیں پانی کے قطرے میں شامل کر کے صاف، پانی کو بہت زیادہ اپنی طرف کھینچنے والی سلکان کی سطح پر ڈالا گیا اور پانی کو بخارات بن کر خشک ہونے دیا گیا۔ جیسے ہی قطرہ خشک ہوا، راڈز قطرے کے کنارے کی طرف منتقل ہو گئے اور وہاں ایک حلقے کی شکل میں رہ گئے۔ قطرے میں راڈز کی کثافت کے حساب سے کنارے پر جمع ہونے والا ذرات کا ڈھانچہ یا تو پتلی اور ڈھیلی تہہ کی صورت میں ہوتا یا گھنی، بلند ساخت کی شکل اختیار کرتا، جہاں راڈز نہ صرف ایک سرے دوسرے سرے تک بلکہ ساتھ ساتھ بھی قریب قریب رکھے جاتے ہیں۔ یہ کمپیکٹ کنارے کی ساختیں خاص اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ یہ سینکڑوں ’’ہاٹ اسپاٹس‘‘ بناتی ہیں جہاں روشنی بہت زیادہ شدید ہو جاتی ہے۔ جب اس داغ پر لیزر کی شعاع ڈالی جاتی ہے، تو ان جگہوں میں گولڈ راڈز سے جڑی روڈامین بی مالیکیولز انفرادی کے مقابلے میں کہیں زیادہ روشن آپٹیکل سگنل پیدا کرتی ہیں۔
شکل 2 ۔ (بائیں اور درمیانی) گولڈ نینوروڈز کا فنکار کا تاثر رنگ کے کنارے پر مختلف ارتکاز پر جمع ہوا ، (دائیں) گولڈ نینوروڈ محلول کے بڑھتے ہوئے ارتکاز میں روڈامین کی شدت کا پتہ چلا
گولڈ نینو راڈز کی کم مقدار میں، صرف نسبتاً زیادہ مقدار میں روڈامین بی کا پتہ لگایا جا سکتا تھا۔ تقریباً ایک گلاس پانی میں ایک قطرے کے برابر۔ جیسے جیسے نینو راڈز کی مقدار میں اضافہ ہوا، پتہ لگانے کی حد میں نمایاں بہتری آئی۔ سب سے گھنے حلقے نما جمع شدہ راڈز کے ساتھ، نظام روڈامین بی کا پتہ ایک ٹریلین میں ایک حصہ تک لگا یا جاسکا ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نینو راڈز کی مقدار میں سو گنا اضافہ، حساسیت میں تقریباً ایک ملین گنا اضافہ کا سبب بنا۔
آر آر آئی کے محقق اے۔ ڈبلیو۔ زیب الدین نے کہا کہ’’رنگ کے مالیکیولز جیسے روڈامین بی کو ان کی زہریلے پن کی وجہ سے خوراک اور کاسمیٹکس جیسی مصنوعات میں استعمال کرنے پر پابندی ہے، لیکن قوانین نافذ کرنے والوں کو مصنوعات میں چھوٹی مقدار کا استعمال اور پتہ لگانے والے آلات کی کمی سمیت ان کے غیر قانونی استعمال کی نگرانی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
سافٹ کونسنسڈ میٹر کے انجینئر بی یاتھیندرن کے ایم نے کہا کہ’’جب یہ رنگ خوراک یا پانی کے ذرائع میں مکس ہو جاتے ہیں، تو ان کی مقدار اتنی کم ہو سکتی ہے کہ یہ ٹریلین کے ایک حصے تک بھی پہنچ جائے، جس کی وجہ سے انہیں روایتی تجزیاتی تکنیکوں سے معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے، زیادہ حساس طریقہ کار، جیسے سرفیس انہانسڈ رمن اسپیکٹروسکوپی (ایس ای آر ایس)، درکار ہو سکتا ہے۔‘‘
عملی طور پر، سائنسدانوں نے یہ دکھایا کہ یہ ممکن ہے کہ ایک سادہ، قدرتی طور پر بننے والے پیٹرن کا استعمال کیا جائے، جو وہی مظہر پیدا کرتا ہے جو میز پر کافی کے حلقے بناتا ہے، اور اسے کیمیائی مواد کے پتہ لگانے کے لیے ایک انتہائی مؤثر اور کم لاگت والی تکنیک میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
سافٹ کونسنسڈ میٹر آر آر آئی کے پروفیسر رنجنی بندیوپادھیائے نے کہا کہ’’یہ تکنیک آسان اور کم لاگت والی ہے۔ جب محلول کا قطرہ خشک ہو جاتا ہے، تو خشک شدہ پیٹرن نینو ذرات کو مرکوز کر دیتا ہے اور بننے والے ہاٹ اسپاٹس کی بدولت ہم زہریلے مادوں کی پیکو مولر مقدار تک کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہینڈ ہیلڈ رمن اسپیکٹرو میٹرز کا استعمال بھی اس تکنیک کے ذریعے زہریلے مادوں کا پتہ لگانے کے لیے ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘
عمومی طور پر، یہ طریقہ وسیع پیمانے پر مضر مادوں کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسے بیماریوں اور ماحولیاتی نقصان کو کم کرنے والی جدید ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
****
ش ح۔ش ب۔ ش ت
U NO: 7486
(Release ID: 2178556)
Visitor Counter : 8