سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
‘‘ستاروں کے ماحول کا نمونہ تیار کر کے، کائنات میں جھانکنے کی ایک نئی راہ’’
Posted On:
22 AUG 2025 5:02PM by PIB Delhi
ریاضیاتی فلکیات (کمپیوٹیشنل ایسٹروفزکس) میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر، سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ستاروں کے ماحول کی زیادہ حقیقت پسندانہ خصوصیات کا حساب لگانے کا ایک طریقہ تیار کیا ہے۔ یہ طریقہ ستاروں کے طیف (اسپیکٹرا) کی زیادہ درست نقالی (سیمیولیشن) کی راہ ہموار کرتا ہے — جو کہ وہ بنیادی ذریعہ ہے جس کے ذریعے ماہرینِ فلکیات ستاروں، ان کے گرد موجود گیس و گرد کے حلقوں (سرکم اسٹیلر ڈسک)، اور بین النجمی بادلوں (انٹراسٹیلر کلاؤڈس) میں موجود طبیعی حالات کو سمجھتے ہیں۔
سورج اور ستاروں کے ماحول کو غیر جانبدار اور آئنائزڈ مادے کا ایک متفاوت مرکب کے طور پر جانا جاتا ہے جو پھیلی ہوئی تابکاری کے میدان میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایسی فضا میں مادے اور تابکاری کے درمیان تعامل میں متعدد جسمانی مظاہر شامل ہوتے ہیں جو دونوں اجزاء کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔
اگرچہ ان کی خصوصیات کا حساب لگانا آسان ہے اگر ہم فرض کریں کہ وہ توازن میں ہیں، حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ بناتا ہے۔
اب تک، زیادہ تر ماڈلز ایک اہم سادگی پر انحصار کرتے تھے جس میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ جب کہ ایٹم توانائی کی حالتوں کے لحاظ سے توازن سے ہٹ سکتے ہیں، ان کی رفتار (وہ کتنی تیزی سے گھومتے ہیں) پھر بھی ایک صاف، پیش گوئی کی جانے والی تقسیم کی پیروی کرتے ہیں - میکسویلان وکر جو توازن کو بیان کرتا ہے۔ یہ مفروضہ، اگرچہ آسان ہے، ہمیشہ حقیقت پسندانہ نہیں ہوتا، خاص طور پر قلیل المدتی پرجوش حالتوں میں ایٹموں کے لیے۔
حقیقت میں، تارکیی ماحول افراتفری کے شکار ہیں۔ فوٹون بکھرتے ہیں، توانائی کی سطح میں اتار چڑھاؤ آتا ہے، اور رفتار کی تقسیم توازن کی تصویر سے بھٹک سکتی ہے۔ اس پیچیدگی کو حاصل کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے جسے فلکیاتی طبیعیات مکمل غیر مقامی تھرموڈینامک توازن (ایف این ایل ٹی ای) ریڈی ایٹیو ٹرانسفر کہتے ہیں - ایک زبردست مسئلہ جسے سائنسدانوں نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں بیان کیا تھا لیکن کمپیوٹیشنل حدود کی وجہ سے حل نہیں ہو سکا۔
فیگر1'سورس فنکشن' کو مختلف فریکوئنسیز (رنگوں) کے لیے 'آپٹیکل ڈَیپتھ' کے مقابلے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ بائیں جانب معیاری تخمینہ دکھایا گیا ہے، جبکہ دائیں جانب نیا ایف این ایل ٹی ای ماڈل استعمال کرتے ہوئے حاصل کردہ نتائج ہیں، جو حقیقت پر مبنی حالات کو شامل کرنے کی وجہ سے نمایاں فرق ظاہر کرتے ہیں۔
ایف این ایل ٹی ای ماڈلنگ ہر چیز کو متغیر رکھنے کی اجازت دیتی ہے: ہر توانائی کی حالت میں ایٹمز کی تعداد، ان کی رفتار کی تقسیم، اور خود ریڈی ایشن فیلڈ — سب کچھ۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام مقداریں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں، جس کی وجہ سے مساواتوں کا ایک ایسا پیچیدہ جال بنتا ہے کہ طاقتور کمپیوٹرز بھی اسے حل کرنے میں دشواری محسوس کرتے تھے۔
اب، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹروفزکس (آئی آئی اے) کے ایک محقق نے، فرانس کے آئی آر اے پی (انسٹی ٹیوٹ دے ریشرش آن ایسٹروفزیکس اینڈ پلینیٹولوجی) کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر، اس شعبے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔
اس ٹیم نے سب سے پہلے ایف این ایل ٹی ای مسئلے کا ایک آسان ورژن حل کیا: دو سطحی ایٹم کا معاملہ (جہاں ایٹم صرف دو توانائی کی حالتوں کے درمیان چھلانگ لگا سکتا ہے)۔ اب، انہوں نے ایک جراتمندانہ قدم اٹھایا ہے: تین سطحی ایٹم کا مسئلہ حل کیا ہے۔
جب ایٹم کی تین توانائی کی سطحیں ہوں، تو نئی اقسام کی ‘‘اسکیٹرنگ’’ عمل میں آتی ہیں، جن میں رامن اسکیٹرنگ بھی شامل ہے — جس میں ایٹم روشنی کو جذب کرتا ہے اور پھر اسے کسی مختلف فریکوئنسی پر خارج کرتا ہے۔ ان پیچیدہ عمل کو معیاری ماڈلز میں صرف ایک تخمینی انداز میں شامل کیا جاتا ہے، مگر نیا ایف این ایل ٹی ای طریقہ ان کو قدرتی طور پر ظاہر کرتا ہے۔
جب ٹیم نے اپنے ایف این ایل ٹی ای نتائج کو روایتی ماڈلز سے موازنہ کیا، تو فرق واضح اور حیران کن تھا۔ پرجوش ہائیڈروجن ایٹمز کی رفتار کی تقسیم اب صاف ستھری میکسویلی تقسیم (Maxwellian distribution) کی پیروی نہیں کر رہی تھی، بلکہ اس میں خاصا انحراف نظر آیا — خاص طور پر ستارے کی سطح کے قریب، بالکل وہی جگہ جہاں ماہرینِ فلکیات ستاروں کے طیفی نشانات (spectral fingerprints) حاصل کرتے ہیں۔
فیگر2، تین سطحی ہائیڈروجن ایٹم کی دوسری پرجوش سطح کے لیے ایف این ایل ٹی ای رفتار کی تقسیم میں معیاری تخمینے (standard approximation) سے انحراف کو ظاہر کیا گیا ہے، جو ستاروں کے ماحول کی سطح کے قریب نمایاں فرق کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ پیش رفت اس بات کی علامت ہے کہ فلکیاتی طبیعیات دان (astrophysicists) اب ستاروں کے طیف (stellar spectra) کو بے مثال حقیقت پسندی کے ساتھ نقالی (simulate) کرنے کے ایک قدم اور قریب پہنچ چکے ہیں۔ زیادہ درست ماڈلز ماہرینِ فلکیات کو ستاروں کے درجہ حرارت اور ترکیب کا زیادہ قابلِ اعتماد اندازہ لگانے میں مدد دیتے ہیں، ستاروں اور سیاروں کی پیدائش کی جگہوں جیسے کہ سرکم اسٹیلر ڈسک اور مالی کیولر کلاؤڈس کی طبیعیات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتے ہیں، اور زمین جیسے بیرونی سیاروں (exoplanets) کی تلاش کو بھی آگے بڑھاتے ہیں — کیونکہ ستاروں کی روشنی (starlight) کو سمجھنا ان چھوٹے سیاروی نشانات کی شناخت کے لیے کلیدی ہے۔
ڈاکٹر سمپورنا ایم ،جو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹروفزکس (آئی آئی اے) سے وابستہ ہیں، نے کہا‘‘دو سے تین یا اس سے زیادہ ایٹمی سطحوں کی جانب جو بڑا فکری قدم اٹھایا گیا تھا، وہ اب مکمل ہو چکا ہے،’’۔یہ ادارہ سائنس و ٹیکنالوجی کے محکمے (ڈی ایس ٹی) کا خودمختار ادارہ ہے۔
اس ٹیم میں ٹی۔ لاگاشے اور ایف۔ پالیٹو (آئی آر اے پی، تولوز، فرانس) اور ایم۔ سمپورنا (آئی آئی اے، بنگلورو) شامل ہیں، جو اب اس طریقے کو مزید پیچیدہ ایٹمز پر لاگو کرنے اور بھاری ریاضیاتی حسابات کو سنبھالنے کے لیے تیز رفتار عددی طریقے تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
ان کا یہ کام، جو‘‘ ایسٹرونامی اور ایسٹرو فزکس’’ ("Astronomy & Astrophysics" )جریدے میں شائع ہوا ہے، ستاروں کو ان کی اصل حالت — پیچیدہ، متحرک اور حیرت انگیز — میں سمجھنے کی ہماری کوشش میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔
*****
ش ح۔ ا م ۔ن ع
(U N. 5197)
(Release ID: 2159871)