سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
نیا اسمارٹ سینسر دھماکہ خیز ہائیڈروجن اور زہریلی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ جیسے خطرناک گیسوں کا پتہ لگا سکتا ہے
Posted On:
14 AUG 2025 3:40PM by PIB Delhi
کم توانائی استعمال کرنے والی، چھوٹے سائز کی یہ ٹیکنالوجی اب ماحولیات کے لیے ساز گار ایندھن کے طور پر ہائیڈروجن کے استعمال کے دوران دھماکہ خیز ہائیڈروجن کے معمولی رساؤ کا پتہ لگا سکتی ہے اور ساتھ ہی غیر روایتی ایندھن کو گیس چولہوں یا مٹی کے تیل کے چولہوں میں جلانے سے خارج ہونے والی زہریلی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی نہایت کم مقدار کو بھی محسوس کر سکتی ہے۔
ہائیڈروجن ماحولیات کے لیے ساز گار ایک توانائی کے ذریعے کے طور پر اُبھر رہی ہے، جس کا استعمال فیول سیلز، نقل حمل کے ذرائع اور صنعت میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم یہ کم ارتکاز پر بھی نہایت آتش گیر اور دھماکہ خیز ہوتی ہے۔ ہائیڈروجن گیس کے رساؤ کا قابل اعتماد پتہ لگانا—خصوصاً کمرے کے درجہ حرارت پر—اس کی ذخیرہ اندوزی، ترسیل اور استعمال کے دوران حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
روایتی گیس سینسرز عموماً زیادہ درجہ حرارت پر کام کرنے کے متقاضی ہوتے ہیں اور بڑی مقدار میں توانائی استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ پورٹیبل یا آن-چِپ ایپلیکیشنز کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ اس لیے نہایت حساس، چنندہ اور قابل توسیع، چھوٹے سائز کے، کم توانائی خرچ کرنے والے، کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے ہائیڈروجن سینسرز کی فوری ضرورت ہے۔
اسکول آف فزکس، آئی آئی ایس ای آر، تروننت پورم کے محققین ایک ایسے سینسر کی تلاش میں رہے ہیں جو کمرے کے درجہ حرارت پر، حتیٰ کہ نہایت معمولی مقدار میں بھی، ہائیڈروجن کا پتہ لگا سکے۔ یہ منصوبہ محکمۂ برائے سائنس و ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے نینو مشن پروگرام کی معاونت سے مکمل کیا گیا ہے۔

تصویر: ڈاکٹر ونایک کامبلے، لیبارٹری میں تیار کردہ چھوٹے سائز کے سینسر ڈیوائس چِپ کے ساتھ۔
اس کی تیاری اورترقی ایک جہتی نکل آکسائیڈ(این آئی او) نینو اسٹرکچرز، جیسے کہ معلق نینو بیمز اور نینو وائرز، پر بننے والے انٹرفیس سے ممکن ہوئی، جنہیں نکل دھات کے نینو پارٹیکلز اور/یا زنک آکسائیڈ (زیڈ این او) نینو پارٹیکلز جیسے مواد سے کام کاج میں لایا گیا۔ روایتی طور پر نکل آکسائیڈ(این آئی او) ایک پی-ٹائپ سیمی کنڈکٹر ہے، جبکہ زیڈ این او این-ٹائپ ہوتا ہے۔
جب ان مواد کو کور-شیل جیسے نینو اسٹرکچرز میں تہہ بہ تہہ بنایا جاتا ہے تو ان کی سرحد—جسے نینو اسکیل پراین آئی او-زیڈ این او کے درمیان پی این جنکشن کہا جاتا ہے—ماحول میں تبدیلیوں کے لیے نہایت حساس ہو جاتی ہے۔
محض ہائیڈروجن کی ایک ہلکی سی جھلک نے اس مواد میں برقی ترسیل کو ڈرامائی طور پر بدل دیا۔ اس ٹیم میں ڈاکٹر ونایک بی کامبلے، ایسوسی ایٹ پروفیسر، آئی آئی ایس ای آر تروننت پورم، ڈاکٹر کسم اُرس ایم بی، پی ایچ ڈی طالب علم آئی آئی ایس ای آر تروننت پورم، پروفیسر نوکانت بھٹ، پروفیسر،سی ای این ایس ای، آئی آئی ایس سی بنگلور، اور جناب کروتکیش ساہو، سی ای این ایس ای، آئی آئی ایس سی بنگلور شامل تھے، جنہوں نے اس خیال کو مزید پروان چڑھایا۔
انہوں نے سیمی کنڈکٹر فیبریکیشن ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے نکل اور نکل آکسائیڈ کے معلق نینو بیمز کو نہایت درستگی سے تیار کیا۔ انہوں نے ایک زیادہ کم لاگت والا طریقہ بھی تلاش کیا — یعنی سادہ محلول کے طریقوں سے این آئی او/زیڈ این او جنکشنز کو اُگانا۔ دونوں ہی صورتوں میں، اس کا نتیجہ کمرے کے درجہ حرارت پر نہایت چنندہ قسم کی ہائیڈروجن کی شناخت کی صورت میں نکلا، جس کی کارکردگی نے روایتی سینسرز کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
سینسرز اور ایکچیویٹرز بی اور اے سی ایس اپلائڈ الیکٹرانک مٹیریئلس جرنل اینڈ اسمال میں شائع شدہ مطالعات کا سلسلہ اسٹریٹجک شعبوں جیسے کہ صاف توانائی، ایرو اسپیس اور ماحولیاتی نگرانی کے لیے تیز، قابل بھروسہ، اور توانائی سے موثر گیس سینسر کی ضرورت پر توجہ دیتا ہے۔ آنے والی انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) ٹیکنالوجیز کے ساتھ، سینسرز کو نہ صرف حفاظتی اور احتیاطی تدابیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ماحول کے عین مطابق کنٹرول کے لیے اس کا استعمال توانائی سے بھرپور ماحول کے لیے بھی ہوتا ہے۔
زیادہ تر استعمال ہونے والے ہائیڈروجن سینسرز اس وقت ایک مہنگی دھات پیلیڈیم (پی ڈی) سے بنائے جاتے ہیں، جس میں ہائیڈروجن کے لیے اعلیٰ رغبت پائی جاتی ہے۔ تاہم، اس میں مسائل بھی ہیں، جیسے سینسر کے سگنل کی کمزور بحالی، اور پی ڈی کے استعمال سے پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب نکل پیریاڈک ٹیبل میں اسی کیمیکل گروپ سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اس کی کیمیائی خصوصیات بھی تقریباً ایک جیسی ہیں، لیکن اس کی قیمت پی ڈی کے مقابلے میں صرف دسواں حصہ ہے۔
تیار کردہ سینسرز فیول اسٹیشنز، گاڑیوں اور صنعتی پلانٹس میں ہائیڈروجن کے رساؤ کا بروقت پتہ لگا کر حادثات کو روکنے اور جانیں بچانے میں مدد دے سکتے ہیں، آلودہ شہری ماحول میں موجود اتار چڑھاؤ والے نامیاتی مرکبات (وی او سی ایس) کی نگرانی کر سکتے ہیں، ہائیڈروجن کو بطور صاف توانائی محفوظ طریقے سے استعمال کے قابل بنا سکتے ہیں، بھارت کے ماحولیات کے لیے ساز گار ایندھن کی تبدیلی کے اہداف میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں اور ہلکے وزن کی بدولت دفاع اور ایرو اسپیس میں بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
چونکہ قابل توسیع تیاری پہلے ہی دکھائی جا چکی ہے، لہٰذایہ تحقیق درست، مؤثر اور اسمارٹ گیس سینسرز کی نئی نسل کے لیے راہ کھولتی ہے، جو مختلف صنعتوں میں حفاظت اور نگرانی کے نظام کے معیاری اجزاء بن سکتے ہیں۔
اس کے بعد اس گروپ نے پچھلے سال اے آئی معاونت یافتہ سینسرز کی ترقی کے لیے این آئی او،سی یواو اورزیڈ این او پر مبنی آکسائیڈ سیمی کنڈکٹر ارے استعمال کرتے ہوئے ایک ڈیٹا سیٹ تیار کیا اور فی الحال یہ تحقیق انتہائی کم توانائی والے اور خود سے چلنے والے گیس سینسر ڈیوائسز تک ترقی کر چکی ہے، جو ایٹمی طور پر پتلے مواد کی بنیاد پر ہائبرواسٹرکچر سے بنائے گئے ہیں اور سی ایم او ایس ہم آہنگ طریقوں سے تیار کیے گئے ہیں۔ یہ ڈیوائسز صرف جمع کرنے کی شرائط کو تبدیل کر کے ایک صورت میں ہائیڈروجن اور دوسری صورت میں زہریلی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ ( این او2) کے لیے چنندہ حیثیت رکھتی ہیں۔
*****
( ش ح ۔م ع ۔اش ق)
U. No. 4705
(Release ID: 2156406)