سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

ہمالیائی بادلوں میں زہریلی دھاتوں کی موجودگی، انسانی صحت کے لیے خطرہ

Posted On: 01 AUG 2025 3:19PM by PIB Delhi

ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں پر منڈلاتے بادلوں کی خوبصورتی کے پس منظر میں ایک خطرناک راز چھپا ہوا ہے۔ ایک نئی سائنسی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بادل جنہیں طویل عرصے سے خالص پانی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا،دراصل آلودہ میدانی علاقوں سے زہریلی بھاری دھاتوں کو زمین کی بلند ترین اور نازک ماحولیاتی نظاموں تک خاموشی سے لے جا رہے ہیں۔

یہ تحقیق نہ صرف ‘‘صاف ستھری پہاڑی بارش’’ کے تصور کو جھٹلا دیتی ہے بلکہ انسانی صحت کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بجاتی ہے، کیونکہ ان دھاتوں سے کینسر اور نشوونما سے متعلق مختلف طبی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

بادلوں میں دھاتوں کی موجودگی اب ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے، کیونکہ یہ دھاتیں براعظمی سطح پر طویل فاصلے تک سفر کر کے انسانی صحت پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔ خاص طور پر بھارت میں اواخر گرمیوں اور ابتدائی مانسون کے دوران سطح زمین سے قریبی بادلوں میں دھاتی آلودگی کے بارے میں معلومات ناکافی رہی ہیں۔

محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے خود مختار ادارے، بوس انسٹی ٹیوٹ نے مغربی گھاٹ اور مشرقی ہمالیہ کے علاقوں میں مانسون کی آمد کے دوران بارش نہ برسانے والے بادلوں میں زہریلی دھاتوں کی نشاندہی کی ہے۔ تحقیق سے پتا چلا کہ مشرقی ہمالیہ کے بادلوں میں آلودگی کی سطح مغربی گھاٹ کے مقابلے میں 1.5 گنا زیادہ تھی، کیونکہ یہاں بھاری ٹریفک اور صنعتی فضلے سے خارج ہونے والی دھاتوں جیسے کیڈمیم (Cd)، کاپر (Cu)، اور زنک (Zn) کی مقدار 40 سے 60 فیصد زیادہ پائی گئی، جو کینسر جیسے مہلک امراض کے امکانات میں اضافہ کرتی ہیں۔

یہ تحقیق ماحولیاتی تحفظ، آبی وسائل کی خالصیت اور انسانی صحت کے تحفظ کے حوالے سے نہایت اہم قرار دی جا رہی ہے۔

Possible trajectories of cloud movements in India

(a-b) source apportionment (%) and individual cloud-borne metal specific source contribution (%); and (c-d) source-specific health risk parameters like total HI and total HQ with individual cloud-borne toxic metal contribution over Mahabaleshwar and Darjeeling

 

 

 (a) Non-carcinogenic health risk (HI) through different exposure routes for children and adults, and (b) carcinogenic health risk (ILCR) through inhalation of carcinogenic metals over Mahabaleshwar and Darjeeling in India.

 (a) Heavy metal pollution index (HPI), and (b) non-carcinogenic risk from the cloud water over different locations in the world.

فضائی تحقیق کی ٹیم، جس کی قیادت بوس انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر سَنَت کمار داس کر رہے ہیں، نے بادلوں میں موجود زہریلی دھاتوں کے ذریعے سانس، جلد کے رابطے اور پانی کے ذریعے لاحق ہونے والی کینسر پیدا کرنے والی اور غیر کینسر بیماریوں کے خطرات کا تخمینہ لگایا ہے۔ ٹیم نے شماریاتی ماڈلز کی مدد سے ان دھاتوں کے ممکنہ ذرائع کی نشاندہی کی۔

تحقیق کے مشاہدات اور ماڈل پر مبنی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ بھارت میں بچے ان زہریلی دھاتوں سے بالغوں کی نسبت 30 فیصد زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مشرقی ہمالیہ کے بادلوں میں شامل ان دھاتوں کی سانس کے ذریعے جسم میں رسائی، غیر کینسر بیماریوں کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

مزید یہ کہ، تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بادلوں میں موجود تحلیل شدہ کرومیم (Cr) کے سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہونے سے کینسر کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔ مشرقی ہمالیہ کے علاقے زیادہ آلودہ بادلوں کی زد میں آ رہے ہیں جن میں کیڈمیم (Cd)، کرومیم (Cr)، کاپر (Cu)، اور زنک (Zn) جیسی دھاتیں شامل ہیں۔ یہ زہریلی دھاتیں زیادہ تر گاڑیوں کے دھوئیں اور صنعتی فضلے سے نکل کر ہمالیہ کے دامن میں موجود علاقوں سے بلند ہو کر بادلوں میں شامل ہو جاتی ہیں۔

تحقیق میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بادل ایک نقل و حمل کے ذریعہ کے طور پر کام کرتے ہیں، جو ان زہریلی دھاتوں کو سانس، جلدی رابطہ، اور بارش کے پانی کے استعمال کے ذریعے انسانی جسم تک پہنچاتے ہیں، خاص طور پر بلند پہاڑی علاقوں میں۔

یہ تحقیق عالمی جریدے انوارن مینٹل ایڈوانسز میں شائع ہوئی ہے اور ماحولیاتی آلودگی اور عوامی صحت کے میدان میں نئی تحقیق کی راہیں کھولتی ہے۔ تاہم، مطالعہ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اب تک بھارت کے بادل نسبتاً کم آلودہ ہیں، جس کی وجہ سے بھارت اب بھی چین، پاکستان، اٹلی اور امریکہ جیسے ممالک کے مقابلے میں صحت کے حوالے سے نسبتاً محفوظ زون میں شامل ہے۔

*****

UR-3802

(ش ح۔ اس ک۔ش ب ن)


(Release ID: 2151468)
Read this release in: English , Hindi , Bengali