سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
پارلیمانی سوال: ڈیپ ٹیک کے شعبوں میں تحقیق، ترقی اور اختراعات سے متعلق اسکیم
Posted On:
31 JUL 2025 5:07PM by PIB Delhi
حکومت نے گہری ٹیکنالوجی (ڈیپ ٹیک) کے شعبوں جیسے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی)، روبوٹکس، آٹومیشن، قابلِ تجدید توانائی، چھوٹے نیوکلیائی ری ایکٹرز، ڈرونز، حیاتیاتی ٹیکنالوجی اور موسمیاتی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
محکمہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی)، حکومتِ ہند، بین شعبہ جاتی سائبر-فزیکل سسٹمز پر قومی مشن پر عملدرآمد کر رہا ہے، جس کے لیے 3660.00 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس مشن کے تحت ’’بھارت-جن: بھارت کے لیے جنریٹیو اے آئی ٹیکنالوجیز کا ایک مجموعہ‘‘ کے عنوان سے ایک منصوبہ نافذ کیا جا رہا ہے، جس کے لیے 235.17 کروڑ روپے کی مالی امداد دی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ ٹیکنالوجی انوویشن حب فاؤنڈیشن برائے آئی او ٹی اور آئی او ای، آئی آئی ٹی بمبئی میں چل رہا ہے۔
یہ منصوبہ ایک کثیر طریقہ کار کثیر لسانی زبان ماڈل اقدام ہے، جو 22 بھارتی زبانوں میں مؤثر اور جامع اے آئی حل تیار کرنے پر مرکوز ہے۔
اس مشن کے تحت ملک بھر کے معتبر تعلیمی اداروں میں 25 ٹیکنالوجی انوویشن ہبز (ٹی آئی ایچ ایس)قائم کیے گئے ہیں، جن میں سے بعض ہب ڈیپ ٹیک کے شعبوں جیسے اے آئی، روبوٹکس، آٹومیشن اور ڈرونز سے متعلقہ ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں، جیسا کہ درج ذیل تفصیلات میں بیان کیا گیا ہے:
Technology Innovation Hubs (TIHs) & Host Institute (HI)
|
Technology Vertical (TV)
|
Sanctioned Budget (Amount in Rupees cr)
|
Released Budget (Amount in Rupees cr)
|
IIT Kharagpur AI4ICPS I-Hub Foundation, IIT Kharagpur
|
Artificial Intelligence and Machine Learning
|
24.45
|
24.45
|
I-HUB for Robotics and Autonomous Systems Innovation Foundation, IISc Bengaluru
|
Robotics & Autonomous Systems
|
270.00
|
114.25
|
NMICPS Technology Innovation Hub on Autonomous Navigation Foundation (TiHAN), IIT Hyderabad
|
Autonomous Navigation and Data Acquisition systems (UAV, RoVetc)
|
185.00
|
128.43
|
I-Hub Foundation for Cobotics (IHFC),IIT Delhi
|
Cobotics
|
127.95
|
85.91
|
محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی کے آب و ہوا، توانائی اور دیرپا ٹیکنالوجی شعبے کے تحت تجدید پذیر توانائی اور موسمیاتی ٹیکنالوجی سے متعلق گہرے تحقیقی شعبوں میں تحقیق و ترقی کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان میں نئی اور ابھرتی ہوئی توانائی ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجیز، جدید ہائیڈروجن اور فیول سیلز، میتھین کے اخراج میں کمی، کاربن کے اخذ اور اس کے استعمال، اور ان صنعتی شعبوں میں منصوبے شامل ہیں جنہیں ڈی کاربنائز کرنا مشکل ہے۔
ڈی ایس ٹی کا ’’ایوو-لُوشن‘‘ پروگرام جدید ڈیپ ٹیک اسٹارٹ اپس کو ٹیکنالوجی بزنس انکیوبیٹرز کے ذریعے ان کے پروف آف کانسیپٹ اور پروٹوٹائپس کو تجارتی طور پر قابلِ عمل مصنوعات میں تبدیل کرنے کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد الیکٹرک وہیکل پرزہ جات کی ترقی کو تیز کرتے ہوئے ملک میں ایک مضبوط سپلائی چین ایکو سسٹم تشکیل دینا ہے۔
اس کے علاوہ، موسمیاتی تبدیلی پروگرام کے تحت، مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور مشین لرننگ (ایم ایل) کے آلات کا استعمال کرتے ہوئے موسم اور آب و ہوا کی پیش گوئی کے طریقے بھی تیار کیے گئے ہیں۔
’’انوسندھان نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘کے تحت الیکٹرک وہیکل مشن اور ’’اہم ترجیحی شعبوں میں تحقیق کی شدت‘‘اسکیم کے تحت مجموعی طور پر 310.64 کروڑ روپے کے منصوبوں کی معاونت کی گئی ہے۔
محکمہ حیاتیاتی ٹیکنالوجی معیشت، ماحولیات اور روزگار کے لیے بایو ٹیکنالوجی پالیسی پر عملدرآمد کر رہا ہے، جس کا مقصد مختلف شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کی حامل بایو مینوفیکچرنگ کو فروغ دینا ہے، جن میں بایو پر مبنی کیمیکلز، درست علاج موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مزاحم زراعت اور حیاتیاتی تنوع پر مبنی اختراعات شامل ہیں۔ اس پالیسی کا مقصد اسٹارٹ اپس، چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں، بڑی صنعتوں اور علمی اداروں کو اشتراکی بنیادی ڈھانچے اور سہولیات تک رسائی فراہم کرنا ہے تاکہ پائلٹ اور قبل از تجارتی پیمانے پر بایو پر مبنی مصنوعات کی تیاری ممکن ہو سکے۔
سائنسی و صنعتی تحقیقاتی کونسل بھی گہرے تکنیکی شعبوں جیسے اے آئی، روبوٹکس، ڈرونز، الیکٹرک گاڑیاں، اور سیمی کنڈکٹر ڈیزائنز میں کئی مشن موڈ منصوبوں کے تحت تحقیق و ترقی کی حمایت کر رہی ہے۔ ان منصوبوں میں شامل ہیں:
صنعتی مقاصد کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی ’’سی ایل اے آئی ایم‘‘ منصوبہ (بجٹ: 24.18 کروڑروپے)
گہرے سمندر کے لیے خود مختار زیرآب گاڑی (ڈی اے یو وی) کی ڈیزائن و ترقی (بجٹ: 29.77 کروڑروپے)
اے آئی پر مبنی ٹیکنالوجیز اور نظام (بجٹ: 23.48 کروڑروپے)
طبی آلات و سازوسامان (بجٹ: 17.30 کروڑروپے)
یہ تمام اقدامات ملک میں گہرے ٹیکنالوجی پر مبنی ماحولیاتی نظام کی ترقی اور خود انحصاری کو فروغ دینے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
وزارتِ نئی اور قابلِ تجدید توانائی (ایم این آر ای) اپنے ’’قابلِ تجدید توانائی تحقیق و ٹیکنالوجی ترقیاتی پروگرام‘‘ کے تحت تحقیقی اداروں اور صنعتوں کو معاونت فراہم کرتی ہے تاکہ ملک بھر میں نئی اور قابلِ تجدید توانائی کے مؤثر اور کم لاگت استعمال کے لیے مقامی سطح پر ٹیکنالوجی تیار کی جا سکے اور اس کی پیداوار ممکن ہو۔ یہ وزارت صنعت کے ساتھ اشتراک میں تحقیقی و تکنیکی ترقی کی تجاویز کو فروغ دیتی ہے اور سرکاری یا غیر منافع بخش تحقیقی اداروں کو 100 فیصد مالی معاونت جبکہ نجی صنعتوں، اسٹارٹ اپس اور اداروں کو 50 سے 70 فیصد تک معاونت فراہم کرتی ہے۔ اس اسکیم کے لیے 5 سالہ مدت میں 228 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
محکمہ ایٹمی توانائی (ڈی اے ای) گہرے تکنیکی شعبوں میں سرگرم تحقیق و ترقی میں مصروف ہے، جیسے کہ صاف توانائی کے لیے ’’چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز‘‘ کی تیاری۔ بھابھا ایٹمی تحقیقاتی مرکز (بی اے آر سی) نے خود ساختہ طور پر تین اقسام کے ایس ایم آرایس ڈیزائن اور تیار کیے ہیں۔
ڈی اے ای نے تابکار ماحول میں کام کے لیے روبوٹکس اور آٹومیشن ٹیکنالوجیز بھی تیار کی ہیں، جن کا مقصد مواد کی نقل و حمل، معائنہ، اور ہنگامی حالات میں انسانی مداخلت کو کم کرنا ہے۔ اندرا گاندھی مرکز برائے ایٹمی تحقیق نے ری پروسیسنگ سہولیات کے ’’ہاٹ سیلز‘‘، پوسٹ ایریڈی ایشن تجربہ گاہوں، اور پروٹوٹائپ فاسٹ بریڈر ری ایکٹر (پی ایف بی آر) کے اجزاء کے سروس کے دوران معائنے کے لیے روبوٹک ٹیکنالوجی پر تحقیق کی ہے۔
ویری ایبل انرجی سائکلوٹران سینٹر مختلف گہرے تکنیکی شعبوں جیسے اے آئی، روبوٹکس، ڈرونز، اور سیمی کنڈکٹر ڈیزائنز کو ایٹمی معجلہ جات، نیوکلئیر الیکٹرانکس، سائبر سیکیورٹی، اور دفتری خود کاری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان تحقیقاتی شعبوں سے حاصل شدہ ٹیکنالوجیز دیگر شعبوں میں بھی قابلِ استعمال ثابت ہو رہی ہیں۔
بارک (بی اے آر سی) نے ری ایکٹر ٹیکنالوجیز، روبوٹکس اور آٹومیشن کی ترقی کے لیے تحقیقاتی منصوبوں پر 233.95 کروڑروپے مختص کیے ہیں۔
وزارتِ الیکٹرانکس و اطلاعاتی ٹیکنالوجی بھی کئی اہم شعبوں جیسے نیٹ ورک اور سسٹم سیکیورٹی، ڈیجیٹل فارنزکس، ہارڈویئر سیکیورٹی، سائبر سیکیورٹی آڈٹس، اور حادثاتی ردعمل میں تحقیق و ترقی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ یہ تمام اقدامات ملک کے سائبر سیکیورٹی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے دائرہ کار میں کیے جا رہے ہیں۔
محکمہ خلاء بھی مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور روبوٹکس میں تحقیق و ترقی میں سرگرم ہے، جن کا استعمال لانچ وہیکل ہیلتھ مانیٹرنگ، سیٹلائٹ ڈیٹا تجزیہ، بین السیاراتی روبوٹکس، اور ’’بھارتیہ انترکش اسٹیشن‘‘ جیسے منصوبوں میں کیا جا رہا ہے۔
حکومتِ ہند نے ایک نئی اسکیم ’’تحقیق، ترقی اور اختراع‘‘ شروع کی ہے، جس کا مقصد ابھرتے ہوئے شعبہ جات اور ان شعبوں میں جو معاشی سلامتی، خود انحصاری، اور اسٹریٹجک مفادات کے لیے اہم ہیں، میں نجی شعبے کی شرکت کو فروغ دینا ہے۔ یہ اسکیم ایسے انقلابی منصوبوں کی معاونت کرتی ہے جو ٹیکنالوجی تیاری کی سطح 4 یا اس سے اوپر کے درجے پر ہوں، اس کے تحت اسٹریٹجک طور پر اہم ٹیکنالوجیز کے حصول کو ممکن بنایا جاتا ہے اور ڈیپ ٹیک فنڈ آف فنڈز کے قیام کو فروغ دیا جاتا ہے۔
اس اسکیم کے لیے مجموعی طور پر 1 لاکھ کروڑ روپے کا بجٹ 6 سالوں کے لیے مختص کیا گیا ہے، جس میں مالی سال 2025–26 کے لیے 20,000 کروڑ روپےکی رقم مرکزی مالی فنڈ سے فراہم کی جائے گی۔
یہ اسکیم طویل مدتی زیرو یا کم سودی قرضے، ایکویٹی سرمایہ کاری، اور ڈیپ ٹیک فنڈ آف فنڈز میں شرکت فراہم کرتی ہے۔ تاہم، اس اسکیم کے تحت گرانٹس یا قلیل مدتی قرضے فراہم نہیں کیے جاتے۔
جدت پسندوں، محققین اور اسٹارٹ اپس کو فنڈز کی فراہمی ایک خصوصی مقصد فنڈ کے ذریعے کی جائے گی، جسے ’’انوسندھان نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ کے تحت قائم کیا گیا ہے، اور یہی ادارہ سطح اوّل کے فنڈ کا نگراں ہوگا۔
اسکیم کا نفاذ سطح دوم کے فنڈ مینیجرز کے ذریعے کیا جائے گا، جن میں درج ذیل ادارے شامل ہوں گے:
آلٹرنیٹو انویسٹمنٹ فنڈز
ڈیولپمنٹ فنانس انسٹی ٹیوشنز
نان بینکنگ فائنانشل کمپنیز
مخصوص تحقیقاتی ادارے جیسے بی آئی آر اے سی ، ٹی ڈی بی اور آئی آئی ٹی ریسرچ پارکس
یہ تمام عمل ’’سکریٹریوں کے باختیار گروپ‘‘ کی منظوری سے ہوگا۔
محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی اس اسکیم کا مرکزی ادارہ ہوگا۔ اسکیم کی نگرانی اور حکمرانی ’’اے این آر ایف کی گورننگ بورڈ‘‘ کے تحت ہوگی، جبکہ ای جی او ایس، ایگزیکٹو کونسل (ای سی) اور انویسٹمنٹ کمیٹیاں (آئی سیز) مختلف شعبوں کی منظوری، فنڈ مینیجرز کے انتخاب، منصوبوں کے جائزے، اور مجموعی کارکردگی کی نگرانی کریں گی۔
تحقیق، ترقی اور اختراع اسکیم کے تحت کئی ایسے ٹیکنالوجی شعبے شناخت کیے گئے ہیں جو قومی حکمتِ عملی کے لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں توانائی کی سلامتی، موسمیاتی اقدامات اور گہری ٹیکنالوجیز جیسے کہ کوانٹم کمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت، حیاتیاتی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل معیشت شامل ہیں۔
یہ اسکیم ان شعبوں کو بھی شامل کرتی ہے جو اسٹریٹجک اور اقتصادی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں، اور اس میں اضافی شعبوں کو شامل کرنے کی لچک بھی رکھی گئی ہے، بشرطِ منظوری ازطرف ’’ایمپاورڈ گروپ آف سیکریٹریز‘‘۔
ٹیکنالوجی کی تیاری کے درجے اور اس سے اوپر کے انقلابی منصوبوں کی مالی اعانت کے ذریعے، یہ اسکیم ٹیکنالوجی کی تیاری کو فروغ دیتی ہے، اسٹریٹجک اہمیت کی ٹیکنالوجیز کے حصول کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، اور ڈیپ-ٹیک فنڈ آف فنڈز کے قیام میں معاونت فراہم کرتی ہے تاکہ ایک مضبوط تحقیقاتی و اختراعی ماحولیاتی نظام تیار کیا جا سکے۔
یہ معلومات آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب کے دوران مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے سائنس و ٹیکنالوجی، ارضیاتی علوم، وزیر اعظم کے دفتر، عملہ، عوامی شکایات و پنشن، محکمہ ایٹمی توانائی، اور محکمہ خلاء، جناب ڈاکٹر جتندر سنگھ نے فراہم کی۔
*****
ش ح۔ ش ا ر۔ ول
Uno 3714
(Release ID: 2151066)