سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

مئی 2024 میں لداخ میں آسمان پر روشن ہونے والے شمسی دھماکوں  کے سائنسی راز کو بے نقاب کردیا گیا ہے

Posted On: 16 JUL 2025 3:27PM by PIB Delhi

ماہرینِ فلکیات نے ایک نہایت دلچسپ اور پیچیدہ داستان کو منظرِ عام پر لایا ہے، جو سورج پر ہونے والے طاقتور شمسی دھماکوں کی ایک خاص قسم ہے، جسے کرونل ماس ایجیکشنز (سی ایم ایز) کہا جاتا ہے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں مئی 2024 میں لداخ میں راتوں کو آسمان پر نایاب اور دلکش روشنیاں نمودار ہوئیں۔ یہ ایک ایسا شمسی طوفان تھا، جو گزشتہ 20 سال کے دوران کبھی نہیں دیکھا گیا۔

سی ایم ایز سورج کے بیرونی فضائی تہوں سے مقناطیسی توانائی سے بھرپور پلازما کے بڑے اخراجات ہوتے ہیں۔ جب یہ طاقتور شمسی دھماکے زمین کی سمت واقع ہوتے ہیں، تو یہ زمین کے مقناطیسی میدان سے ٹکرا کر جیومیگنیٹک طوفان پیدا کر سکتے ہیں۔ایسے طوفان، سیٹلائٹ کے نظاموں کو متاثر کر سکتے ہیں، مواصلاتی نظام میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں، بجلی کی ترسیل کے گرڈز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔10 مئی 2024 کو شروع ہونے والا گریٹ جیومیگنیٹک اسٹارم ایک نایاب سلسلے سے جڑا ہوا تھا، جس میں چھ مختلف سی ایم ایز نے مسلسل ایک دوسرے کے بعد پھوٹ کر زمین کا رخ کیا۔ یہ دھماکے سورج کے ایک پیچیدہ اور باہمی تعامل رکھنے والےسرگرم خطے سے وابستہ تھے، جن کے ساتھ ساتھ شمسی فلیئرزاورفلکیاتی فلیمنٹ دھماکےبھی دیکھے گئے۔یہ غیرمعمولی تعامل اس طوفان کو پچھلے دو عشروں کے سب سے منفرد اور طاقتور شمسی مظاہر میں سے ایک بناتا ہے۔

اب تک یہ مکمل طور پر سمجھنا کہ سی ایم ایز سورج سے زمین کی جانب سفر کے دوران تھرموڈائنامک طور پر کیسے پیش رفت کرتی ہیں (یعنی ان کی حرارتی اور توانائی کی حالتیں کیسے بدلتی ہیں)، ایک مشکل چیلنج رہا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سورج کے قریب مشاہدات محدود ہیں، اورزمین کے قریب خلا میں بھی ڈیٹا اور مشاہداتی سہولیات کی کمی ہے۔ان دونوں وجوہات کی بنا پر سی ایم ایز کے حرارتی ارتقاء کو سائنسی طور پر پوری طرح سمجھنا اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔

اس سائنسی خلا کو پُر کرنے کے لیے، سورج پر تحقیق کرنے والے ماہرینِ فلکیات کی ایک ٹیم نے، جس کی قیادت ڈاکٹر ویگیش مشرا کر رہے ہیں، جو انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایسٹروفزکس (آئی آئی اے) کے فیکلٹی رکن ہیں، نے ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی کے مشاہدات کا استعمال کیا۔اس ٹیم نے ایک ماڈل تیار کیا تاکہ وہ یہ تحقیق کر سکیں کہ ہانلے، لداخ میں آئی آئی اے کے انڈین ایسٹرونومیکل آبزرویٹری سے رپورٹ ہونے والےسورج کے چھ باہم تعامل کرنے والے نایاب دھماکوں ( سی ایم ایز)نے، سورج سے زمین تک کے سفر کے دوران، کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کیا اور کس حرارتی انداز میں یہ دھماکے ارتقا پذیر ہوئے۔اس تحقیق کا نتیجہ آئی آئی اے کی سائنسی سمجھ میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آیا، جو خلا میں شمسی سرگرمیوں کی گہرائی سے وضاحت فراہم کرتا ہے۔

اس ٹیم نے نہ صرف ان شمسی دھماکوں کے راستوں کا سراغ لگایا بلکہ ان کے درجہ حرارت اور مقناطیسی حالات کو بھی جانچا جب وہ نظامِ شمسی میں پھیل رہے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے پایا کہ یہ شمسی بادل صرف حرارت ہی نہیں لے کر جاتے بلکہ اپنے تھرمل رویے کو راستے میں بدل بھی لیتے ہیں۔شروع میں، یہ سی ایم ایز حرارت خارج کرتے ہیں، لیکن بعد میں وہ ایسی حالت میں پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ حرارت کو جذب کر لیتے ہیں اور اسے اپنے اندر محفوظ رکھتے ہیں۔

زمین کے نزدیک، ونڈ اسپیس کرافٹ کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے، سائنس دانوں نے ایک اور بھی حیران کن حقیقت دریافت کی۔ آخری شمسی طوفانی بادل میں دو آپس میں الجھے ہوئے مقناطیسی ڈھانچے پائے گئے، جنہیں ’’ڈبل فلوکس روپز‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ ڈھانچے ایسے تھے جیسے مقناطیسی دھاگے آپس میں گندھے ہوئے ہوں، جن میں مقناطیسی فیلڈ کمپریسڈ تھے اور الیکٹرانز اور آئنز کے درمیان حرارت کے انوکھے انداز میں گرمائش اور ٹھنڈک کے پیٹرن موجود تھے۔ یہ دریافت شمسی طوفانوں کے پیچیدہ اور غیر معمولی رویوں کو سمجھنے میں اہم ہے۔

شکل:ٹاپ پینل کمپلیکس سولر ایکٹیو ریجن کاسورج پر ایس ڈی او/اے آئی اے(بایاں پینل) سے مشاہدہ کیا گیا، جو ایک پیچیدہ فعال شمسی خطہ ہے، جس سے وہ سلسلہ وار کرونل ماس ایجیکشنز (سی ایم ایز) پھوٹے جو مئی 2024 کے جیومیگنیٹک طوفان کے ذمہ دار تھے۔(دایاں پینل) ایف آر آئی ایس ماڈل کی مدد سے ہر سی ایم ای کے پولیٹروپک انڈیکس دکھائے گئے ہیں، جو سورج کے قریب واقع ہیں۔ نیچے والا پینلز زمین کے قریب مشاہدات کی بنیاد پر الیکٹران اور پروٹون کے پولیٹروپک انڈیکسز دکھائے گئے ہیں، جو سی ایم ای کے باہم تعامل کرنے والے ڈھانچوں کے مختلف حرارتی حالات کو ظاہر کرتے ہیں۔پیچیدہ شمسی مواد کے مختلف حصوں کی حرارتی خصوصیات 1 اے یوزمین سے ایک یونٹ فاصلہ پر نمایاں طور پر مختلف ہوتی ہیں، جو بظاہر چھ مسلسل سی ایم ایز کے باہمی تعاملات کا نتیجہ ہیں۔

سومیارنجن کھنتیا نے کہا ، جو کہ اس مطالعے کے مرکزی مصنف اور آئی آئی اے میں ایک ڈاکٹریٹ کے طالب علم ہیں، جو محکمہ سائنس اور ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے تحت ایک خودمختار ادارہ ہے۔’’وسیع میدان والے کوروناگرافی ڈیٹا اور ایک تجزیاتی فریم ورک جسے فلوکس روپ انٹرنل اسٹیٹ (ایف آر آئی ایس) ماڈل کہا جاتا ہے، کا استعمال کرتے ہوئے، ہم نے چھ سی ایس ایز کے تھرموڈائنامک ارتقاء اور ان کے باہمی تعاملات کو سیاروں کے درمیان خلا میں ٹریک کیا‘‘۔ اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر سی ایم ایز شروع میں حرارت خارج کرتے ہیں، لیکن بعد میں وہ ایک ایسی حالت میں منتقل ہو جاتے ہیں جہاں وہ خود حرارت جذب کرتے ہیں، خاص طور پر ایک تقریباً مستقل درجہ حرارت کی حالت میں پہنچ جاتے ہیں جب وہ سورج سے دور مزید پھیلتے ہیں۔

کھنتیا نے کہا کہ ہمارے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سی ایم ای-سی ایم ای کے باہمی تعاملات کے باعث اندرونی حرارتی ساخت میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں۔ جب یہ شمسی دھماکے زمین تک پہنچے ، تو پیچیدہ ایجکٹا میں الیکٹران حرارت خارج کرنے کی حالت میں پائے گئے ہیں، جبکہ آئنز نے حرارت کے جذب اور اخراج دونوں رویے دکھائے، مگر مجموعی طور پر حرارت جذب کرنے کی حالت غالب رہی۔ ڈاکٹر مشرا نے کہاکہ یہ تحقیق اپنی نوعیت کی پہلی ہے، نہ صرف بھارت میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی، جس میں متعدد باہم تعامل کرنے والے سی ایم ایز کی مسلسل تھرموڈائنامک ترقی کو ہیلیوسفیئر میں اس وسیع فاصلے تک کیپچر کیا گیا ہے۔

اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور آئی آئی اے میں  ڈاکٹریٹ کی طالبہ  انجلِی اگروال نے کہاکہ یہ کام سی ایم ایز اور ان کے ارتقا پذیر ذیلی ڈھانچوں کی زمین کے خلائی ماحول کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے منسلک حرارتی علامات کو سمجھنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ ہمارا مقصد یہ جانچنا ہے کہ آیا حرارتی خصوصیات کو شدید جیومیگنیٹک خلل کی پیش گوئی کے لیے بطور پیش خیمہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ نتائج جو ایسٹرونومی اور ایسٹروفزکس جریدے میں شائع ہوئے ہیں جوخلائی موسم کی پیش گوئی کے ماڈلز کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہیں، خاص طور پر زمین کے مقناطیسی میدان پر پیچیدہ سی ایم ای واقعات کے اثرات کی پیش گوئی میں مددگار ثابت ہوں گے۔

ویگیش مشرا نے کہا کہ ان کی تحقیقاتی ٹیم بھارت کے آدیتہ ایل-1 خلائی مشن سے حاصل ہونے والے مشاہدات کو شامل کرنے کی منتظر ہے، جن میں ویزیبل ایمیشن لائن کوروناگراف (وی ای ایل سی) ، سورج کے قریب موجود خلائی جہاز سے مشاہدات اور زمین کے قریب کے مشاہدات شامل ہیں۔ یہ آلات ایسے سی ایم ایز کا سورج سے زمین تک مکمل مطالعہ کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔

*********************

(ش ح۔ع ح۔ش ہ ب)

Urdu-2815


(Release ID: 2145257) Visitor Counter : 2
Read this release in: English , Hindi