جدید اور قابل تجدید توانائی کی وزارت
نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت نے کارکردگی کی نگرانی اور تیزی سے سی ایف اے کی تقسیم کو بڑھانے کے لیے فضلہ سے توانائی کے منصوبوں کے لیے نظر ثانی شدہ رہنما خطوط جاری کئے
Posted On:
28 JUN 2025 8:52AM by PIB Delhi
نئی اور قابلِ تجدید توانائی کی وزارتِ (ایم این آر ای) نے قومی حیاتیاتی توانائی پروگرام کے تحت فضلے سے توانائی پہل کے لئے نظرِ ثانی شدہ رہنما اصول جاری کیے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا مقصد بھارت میں بایو ویسٹ سے توانائی پیدا کرنے کے لیے ایک زیادہ مؤثر، شفاف اور کارکردگی پر مبنی نظام کو فروغ دینا ہے۔ ان رہنما اصولوں میں طریقہ کار کو آسان بنایا گیا ہے، مالی معاونت کی فراہمی کو تیز کیا گیا ہے اور پلانٹ کی کارکردگی سے وابستہ کیا گیا ہے، تاکہ سرکاری و نجی شعبوں کے لیے کاروبار کرنے میں آسانی کو نمایاں طور پر بہتر بنایا جا سکے۔
نئے طریقہ کار کے تحت، وزارت نے کئی طریقوں کو آسان کیا ہے، جیسے کاغذی کارروائی میں کمی اور منظوری کے تقاضوں میں نرمی۔ اس سے خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعت کاروں (ایم ایس ایم ایز) کو کمپریسڈ بایو گیس (سی بی جی) ، بایو گیس اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ تبدیلیاں فضلہ جات کے بہتر بندوبست، بشمول فصلوں کی باقیات اور صنعتی فضلے اور بھارت کے 2070 تک کے نیٹ زیرو اخراج کے ہدف کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
نظرِ ثانی شدہ رہنما اصولوں کی ایک اہم خصوصیت مرکزی مالی امداد (سی ایف اے) کے اجرا کے نظام میں بہتری ہے۔ منصوبہ سازوں کو 80فیصد پیداواری ہدف حاصل کرنے میں درپیش مشکلات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسکیم میں لچکدار طریقہ کار شامل کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے کمپنیوں کو پوری ڈبلیو ٹی ای اسکیم کے 80 فیصد پیداواری سطح تک پہنچنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا، تب جا کر مالی معاونت ملتی تھی۔ اب نئی ہدایات کے مطابق، سی ایف اے دو مراحل میں جاری کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں، منصوبے کی کارکردگی کی بنیاد پر، ریاستی ماحولیاتی کنٹرول بورڈ سے ’’اجازتِ عمل‘‘ حاصل کرنے کے بعد، بینک گارنٹی کے بدلے کل سی ایف اے کا 50 فیصد جاری کیا جائے گا، جبکہ باقی سی ایف اے اس وقت جاری ہوگی جب پلانٹ 80 فیصد پیداواری صلاحیت یا اہل سی ایف اے کی زیادہ سے زیادہ حد (جو بھی کم ہو) حاصل کر لے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگر کوئی پلانٹ کارکردگی کے معائنے کے دوران مذکورہ دونوں شرائط کے تحت 80 فیصد پیداواری سطح حاصل نہ کر سکے، تب بھی پیداوار کی فیصد کے حساب سے مالی امداد کے تناسب سے ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ البتہ، اگر پلانٹ لوڈ فیکٹر (پی ایل ایف) 50 فیصد سے کم ہو، تو کوئی مالی امداد نہیں دی جائے گی۔
یہ تبدیلی عملی دنیا کے چیلنجز کو تسلیم کرتی ہے اور آپریشَن کے دوران مالیاتی لچک اور پائیداری فراہم کرکے منصوبہ سازوں کو سہارا دیتی ہے۔
معائنے کے عمل کو بھی بہتر بنایا گیا ہے تاکہ اس میں زیادہ شفافیت، اعتبار اور جوابدہی کو یقینی بنایا جا سکے۔ نظرِ ثانی شدہ ضوابط کے مطابق، مشترکہ معائنہ لازمی قرار دیا گیا ہے، جس کی قیادت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایو انرجی (ایس ایس ایس۔این آئی بی ای) کرے گا، جو ایم این آر ای کا خودمختار ادارہ ہے۔ اس معائنے میں ریاستی نوڈل ایجنسیوں (ایس این اے ایس) ، بایو گیس ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ سینٹرز (بی ٹی ڈی سیز) ، یا ایم این آر ای کی جانب سے منظور شدہ کسی بھی ایجنسی میں سے ایک کی شمولیت لازمی ہوگی۔ جن منصوبہ سازوں نے پیشگی سی ایف اے کے لیے درخواست نہیں دی ہے، ان کے لیے صرف ایک بار کارکردگی کا معائنہ درکار ہوگا، جس سے طریقہ کار میں تاخیر کم ہوگی۔
نظرِ ثانی شدہ اصول منصوبہ سازوں کو سی ایف اے کے دعوے میں لچک فراہم کرتے ہیں، یعنی وہ منصوبے کے آغاز (کمیشننگ) کی تاریخ یا سی ایف اے کی اصولی منظوری کی تاریخ، ان دونوں میں سے جو بھی بعد کی ہو، سے 18 ماہ کے اندر معاونت حاصل کر سکتے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ نظرِ ثانی شدہ رہنما اصول حکومت کی جانب سے صنعتوں میں صاف توانائی کو فروغ دینے کی ایک فعال کوشش ہیں۔ مالی معاونت کو حقیقی کارکردگی سے جوڑ کر، ضوابط کو آسان بنا کر اور فنڈنگ کو زیادہ قابلِ رسائی بنا کر، ایم این آر ای ایک کاروبار دوست ماحول تشکیل دے رہا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف نجی شعبے کے فضلے سے توانائی (ڈبلیو ٹی ای) منصوبوں کی مدد کرتا ہے بلکہ بھارت کی پائیدار فضلہ انتظام کاری اور قابلِ تجدید توانائی کے اہداف کی جانب پیش رفت کو بھی تقویت دیتا ہے۔
******
ش ح۔ ش ا ر۔ ول
Uno-2231
(Release ID: 2140352)