سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

آسام کے ماکم کول فیلڈ میں فوسل پتوں کی دریافت سے  24 ملین سال پرانا راز کاافشا ہوا

Posted On: 17 JUN 2025 5:53PM by PIB Delhi

شمال مشرقی بھارت میں کوئلہ کی گھنی تہوں میں، سائنسدانوں نے ایک پتے کا رازدریافت کیا ہے جس نے جنوبی ایشیا کی حیاتیاتی تنوع کی کہانی کو نئے سرے سے لکھ دیا ہے۔

یہ تحقیق اس وقت شروع ہوئی جب کچھ سائنسدانوں نے آسام کے ماکُم کوئلہ فیلڈ میں کچھ رکازی پتّے دریافت کیے، جو اُنہیں کسی مانوس پودے جیسے محسوس ہوئے۔ یہ علاقہ قدیم رکازی  دولت کے لیے پہلے سے مشہور رہا ہے۔

لکھنؤ کے بیربل ساہنی انسٹیٹیوٹ آف پیلیوسائنسز (بی ایس آئی پی)، جو کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے (ڈی ایس ٹی) کا خود مختار ادارہ ہے، کے محققین کی ایک ٹیم نے یہ رکازی پتّے جمع کیے، ان کی ساختی خصوصیات کا تجزیہ کیا، اور  سوکھی پتیوں  کا موازنہ اور گچھوں کے تجزیے کے ذریعے ان کی پہچان کی ۔

انہوں نے پایا کہ یہ  ناتھو پیگیا (پھول دینے والے پودے ) نسل کی جدید پودوں  سے مشابہت رکھتے ہیں۔جو ہزاروں کلومیٹر دور، مغربی گھاٹ کے  بارش  والے اور گھنے جنگلات میں اُگتا ہے اور یہ  یونیکسو کا عالمی ورثہ ہے اور  دنیا بھرکے اہم ترین حیاتیاتی تنوع کے مقامات میں سے ایک ہے۔

یہ رکازی پتّے تقریباً 23 سے 24 ملین سال پرانے ہیں اور اولی گوسین عہد کے آخر میں  نوتھوپیگیا نامی پودے  کا نسل کا دنیا کی سب سے قدیم معروف  فوسل ریکارڈ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب یہ نسل شمال مشرقی بھارت میں پائی ہی نہیں جاتی۔

سائنسدانوں نےریوویو آف پیلیو باٹنی اینڈ پیلونو لوجی جریدے میں شائع مطالعے  میں برصغیر کے شمال مشرق سے مغربی گھاٹ تک  اس نسل کے سفر کا پتہ لگایا۔

اولی گوسین کے آخری دور میں، شمال مشرقی بھارت کا موسم بالکل مختلف تھا۔ کلائمٹ لیف انالیسس ملٹی ویریٹ پروگرام  (سی ایل اے ایم پی)جیسی جدید تکنیکوں کا استعمال کرکے سائنسدانوں نے  ایک گرم ،مرطوب آب و ہوا پیدا کی جو بالکل ویسا ہی ہےجیسا آج ویسٹرن گھاٹ میں پایا جاتا ہے۔

1.jpg

شکل: یہ خاکہ بیان کرتا ہے کہ لاکھوں سالوں پر محیط موسمیاتی تبدیلیوں نے کس طرح شمال مشرقی بھارت سے نوتھو پیگیاکے خاتمے کا سبب بنا، جبکہ یہ نسل مغربی گھاٹ میں موجود رہنے لگی اور وہیں کی مخصوص بن گئی۔ فوسلز تقریباً 24 ملین سال پرانے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمال مشرقی بھارت کا قدیم ماحول ایک وقت میں نو تھو پیگیا کے لیے بالکل موزوں تھا۔ لیکن لاکھوں سالوں کے دوران زمین کی معتدل قوتوں نے منظرنامہ تبدیل کر دیا۔ ٹیکٹونک حرکتوں کے باعث ہمالیہ میں اچانک اضافہ شروع ہوا، جس کے ساتھ درجہ حرارت، بارش اور ہوا کے نمونوں میں زبردست تبدیلیاں آئیں۔ یہ رضیاتی اتھل پتھل شمال مشرق کو ٹھنڈا کرتی چلی گئی، جس سے یہ خطہ بہت سی گرم و مرطوب پودوں کی انواع کے لیے غیر موزوں بن گیا-جس  میں نوتھوپیگیا بھی شامل  ہے ، جو اس علاقے سے غائب ہو گیا۔ تاہم، مغربی گھاٹ میں یہ  نسل موجود رہی ، جہاں آب و ہوا نسبتاً مستحکم رہی، اور وہ قدیم ماحولیاتی دور کی ایک زندہ نشانی بن گئی۔

ا  ن تبدیلیوں کا پتہ لگانا پیلیو باٹنی، نظامیاتی حیاتیات اور موسمیاتی ماڈلنگ کے تال میل سے ممکن ہوا۔ یہ ایک طاقتور ،کثیر موضوعاتی نقطہ نظر ہے جو ہمیں لاکھوں سال  پہلے کےدور میں جھانکنے کا موقع دیتا ہے۔

لیکن یہ صرف غائب ہونے والے پتوں کی کہانی نہیں بلکہ یہ اس بات کی ایک جھلک ہے کہ کس طرح ماحولیاتی نظام  دباؤ کے تحت ارتقاء پذیر ہوتے ہیں، اور کچھ جاندار کس طرح ڈرامائی تبدیلیوں کے باوجود زندہ بچ جاتے ہیں۔

یہ مطالعہ بتاتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والا انقراض اور ہجرت کوئی نئی بات نہیں- بلکہ یہ صدیوں سے ہماری زمین کی حیاتیاتی تنوع کو تشکیل دے رہی ہے۔ لیکن آج کی موسمیاتی تبدیلیاں بے مثال رفتار سے ہو رہی ہیں، جنہیں انسانی سرگرمیاں تیز کر رہی ہیں۔

یہ سمجھنا کہ نوتھو پیگیا نے ماضی میں کس طرح ہجرت کی اور پناہ حاصل کی، سائنسدانوں کو یہ جاننے میں مدد دیتا ہے کہ  جدید پودے عالمی تمازت کس طرح ردعمل دے سکتے ہیں۔ یہ اس بات کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ ایسے قدرتی پناہ گاہوں  جیسے مغربی گھاٹ  کی حفاظت کتنی ضروری ہے، جہاں قدیم نسلیں آج بھی مشکلات کے باوجود باقی ہیں۔جیسے کہ شریک مصنفہ ڈاکٹر ہرشیتا بھاٹیا کہتی ہیں’’یہ فوسل دریافت  تاریخی دور کی تفصیلات فراہم کرکے ہمیں مستقبل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔”ان کی ٹیم کا کام ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ بھارت کی بھرپور حیاتیاتی تنوع کو آنے والے موسمیاتی چیلنجوں سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

******

UN-1841

(ش ح۔  ع ح۔ش ا )


(Release ID: 2137112)
Read this release in: English , Hindi , Assamese