نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
آج کی حکومت بے بس ہے۔ یہ ایف آئی آر درج نہیں کر سکتی کیونکہ عدالتی حکم ایک رکاوٹ ہے: نائب صدر
اگر کوئی جرم سرزد ہوا ہے، قابلِ سزا جرم ہوا ہے تو اسے سزا کیوں نہیں دی گئی؟ کیا جج کو ہٹانے کی تحریک ہی اس کا جواب ہے؟، نائب صدر کا سوال
ایف آئی آر کے اندراج کی اجازت پہلے ہی دن دی جا سکتی تھی۔ کم از کم رپورٹ کے بعد تو دی ہی جانی چاہیے تھی: نائب صدر نے زور دیا
ججوں کی کمیٹی ایف آئی آر یا آئینی عمل کا متبادل نہیں ہو سکتی: نائب صدر
ہمیں تین ماہ سے زیادہ کا وقت کھو چکے ہیں، اور ابھی تک تفتیش شروع نہیں ہوئی ہے: نائب صدر
کیا پیسے نے عدالتی کام کو متاثر کیا ہے؟، نائب صدر کا سوال
اگر انصاف کا مندر ہی داغدار، ناپاک اور بدعنوان ہوچکا ہے… تو عوام انصاف کے لیے کہاں جائے گی؟، نائب صدر جمہوریہ
بار کے وکلاء قانون کی حکمرانی کے محافظ ہیں: نائب صدر
مکمل، معقول اور سائنسی تحقیقات سے ہی عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے: نائب صدر جمہوریہ
یقیناً اتنی رقم کسی مقصد کے بغیر نہیں آئی ہوگی، اور وہ مقصد جائز نہیں ہوسکتا: نائب صدر
Posted On:
06 JUN 2025 7:14PM by PIB Delhi
ہندوستان کے نائب صدر، جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آج کہا، ”اس وقت کی حکومت بے بس ہے۔ وہ ایف آئی آر درج نہیں کر سکتی کیونکہ عدالتی حکم رکاوٹ ہے۔ اور یہ حکم تین دہائیوں سے زیادہ پرانا ہے، یہ تقریباً ناقابل تسخیر تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جب تک کہ عدلیہ کے اعلیٰ ترین سطح پر کوئی شخص اجازت نہ دے، ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔ تو میں خود ایک سوال پوچھتا ہوں – کہ وہ اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ یہ تو کم از کم قدم تھا جو سب سے پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا۔
انھوں نے مزید کہا، ”میں نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے، بالآخر، اگر کسی جج کو ہٹانے کی تجویز آتی ہے - کیا یہی اس کا جواب ہے؟ اگر جمہوریت اور قانون کی بالادستی کی بنیادوں کو ہلا دینے والا کوئی جرم ہوا ہے تو اسے سزا کیوں نہیں دی گئی؟ ہم تین ماہ سے زیادہ کا وقت کھو چکے ہیں اور تحقیقات کا آغاز بھی نہیں ہوا، جب بھی آپ عدالت جاتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ ایف آئی آر میں تاخیر کیوں ہوئی؟“
جناب دھنکھڑ نے مزید کہا، ”کیا ججوں کی کمیٹی کو آئینی یا قانونی شناخت حاصل ہے؟ کیا اس کی رپورٹ پر کوئی ٹھوس کارروائی کی جا سکتی ہے؟ اگر کسی جج کو ہٹانے کا طریقہ لوک سبھا یا راجیہ سبھا میں قرارداد کے ذریعے آئین میں متعین ہے، تو یہ کمیٹی اس طریقہ کار یا ایف آئی آر کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ اگر ہم جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ صرف صدر اور گورنر ہی اپنے دورِ حکومت میں قانونی چارہ جوئی سے مستثنیٰ ہیں، کوئی اور نہیں۔ اب اگر ایسا کوئی عمل – جو کہ ایک جرم ہے – سامنے آتا ہے اور اس کے پیچھے نقد رقم کا معاملہ سپریم کورٹ کے ذریعہ سامنے آتا ہے تو اس پر کوئی کارروائی کیوں نہیں؟
نائب صدر نے کہا، ”مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز اس معاملے کو اٹھا رہی ہیں، مجھے امید ہے کہ ایف آئی آر درج ہو جائے گی، اجازت پہلے دن ہی مل سکتی تھی - ملنی چاہیے تھی، کم از کم رپورٹ کے بعد، کیا یہ اجازت عدالت کی طرف سے دی جا سکتی تھی؟ عدالت کی جانب سے جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
جناب دھنکھڑ نے مزید کہا، ”میں دستاویزات کو عام کرنے کے لیے سابق چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نقد رقم ضبط کی گئی کیونکہ رپورٹ میں ایسا کہا گیا ہے اور رپورٹ کو سپریم کورٹ نے پبلک کیا ہے۔ ہمیں جمہوریت کے خیال کو تباہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی اخلاقیات کو اس حد تک گرانا نہیں چاہیے۔ ہمیں ایمانداری کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔“
پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اراکین کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، نائب صدر نے کہا، ”ہمارا عدالتی نظام ایک بہت ہی دردناک واقعے سے دوچار ہے - جو مارچ کے وسط میں دہلی میں ایک حاضر سروس جج کی رہائش گاہ پر ہوا تھا۔ وہاں سے نقد رقم ملی جو کہ واضح طور پر غیر قانونی، بے حساب اور نا جائز طریقے سے حاصل کی گئی تھی۔ یہ معلومات 6 سے7 دن بعد پبلک ڈومین میں سامنے آئیں۔ سوچیں، اگر یہ سامنے نہ آتا تو کیا ہوتا؟ پھر ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ واحد معاملہ ہے یا اور بھی ہیں۔ جب بھی ایسی بے حساب نقدی ملے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کس کی رقم ہے؟ منی ٹریل کیا ہے؟ کیا اس رقم نے عدالتی کام کو متاثر کیا ہے؟ یہ سب صرف وکلاء کی ہی نہیں بلکہ عام عوام کی بھی تشویش ہے۔
جناب دھنکھڑ نے کہا، ”میں مطمئن ہوں کہ بار ایسوسی ایشن اس پر کام کر رہی ہے۔ لیکن تمام اداروں پر عوام کا اعتماد بہت ضروری ہے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ یہ سوچنا کہ یہ کیس ختم ہو جائے گا، یا میڈیا کی توجہ اس طرف نہیں جائے گی، غلط ہو گا۔ جو لوگ اس جرم کے ذمہ دار ہیں، انھیں بخشا نہیں جانا چاہیے۔ صرف ایک مکمل، سائنسی اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہی عوام کا اعتماد بحال کر سکتی ہے۔“
انھوں نے یاد دلایا، ”سرون سنگھ بمقابلہ ریاست پنجاب 1957 کا ایک مشہور کیس ہے - جس میں سچائی اور فرضی سچائی کے درمیان بہت پتلی لکیر تھی، لیکن اس لکیر کا تعین صرف معتبر شواہد سے کیا جا سکتا ہے، میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا، لیکن یہ یقینی ہے کہ ایک ایسا جرم ہوا ہے جس نے عدلیہ اور جمہوریت کی بنیادیں ہلا دی ہیں، مجھے امید ہے کہ اس پر عمل کیا جائے گا۔“
انھوں نے کہا، ”میں راجستھان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا سابق صدر رہ چکا ہوں۔ شاید یہ پہلا موقع ہے جب ہم اس طرح جمع ہوئے ہیں۔ جمہوریت میں وکلاء کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اور جب نظام انصاف داؤ پر لگا ہوتا ہے تو بار کے اراکین کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔“
ایک جمہوری معاشرے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، انھوں نے کہا، ”اگر کچھ لوگوں کے لیے مساوات اور قانون کے سامنے حکمرانی کا اصول ختم ہو جاتا ہے - اگر کچھ لوگ قانون سے بالاتر ہیں، جانچ سے باہر ہیں - تو یہ جمہوریت کو شدید طور پر کمزور کر دیتا ہے۔“
انھوں نے کہا، ”میرا ماننا ہے کہ ہندوستانی شہریوں کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ مجرم ثابت ہونے تک بے قصور سمجھے جائیں، اس لیے میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا، لیکن اس کی تحقیقات ہونی چاہیے، کیونکہ جب پردہ اٹھایا جائے گا تو ہمیں نہیں معلوم کہ کتنے لوگ سامنے آئیں گے۔“
انھوں نے مزید کہا، ”اگر یہ رقم عدالتی کام سے منسلک ہے، اگر فیصلے پیسے سے متاثر ہوتے ہیں - تو وہ دن کم از کم میں نہیں دیکھنا چاہتا، اور کوئی بھی رکن پارلیمنٹ نہیں دیکھنا چاہے گا - جب تک کہ وہ خود اس میں ملوث نہ ہو۔“
آخر میں نائب صدر نے کہا، ”'میں پوری دنیا میں گیا ہوں، ہمارے جج ذہانت اور محنت میں بہترین ہیں۔ جب عوام کا دوسرے اداروں، حتیٰ کہ ایگزیکٹو پر سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے، تب بھی وہ عدلیہ پر اعتماد کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ جج خدا کے اوتار ہیں جو انصاف فراہم کریں گے۔“
************
ش ح۔ ف ش ع
U: 1540
(Release ID: 2134740)