عملے، عوامی شکایات اور پنشن کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

ڈاکٹر جتندر سنگھ نے پنشن سے متعلق شکایات کے بروقت ازالے پر زور دیا


’کسی ریٹائرڈ ملازم  کواپنے حقوق کے لیے دوڑنا نہ پڑے‘: 13ویں پنشن عدالت میں وزیر موصوف نے انصاف کی فوری فراہمی  کی وکالت کی

پنشن عدالتوں کے ذریعے 18,000 سے زائد شکایات کا تصفیہ کیا گیا

🔹 ڈاکٹر جتندر سنگھ نے ریٹائرڈ افراد کے لیے ڈیجیٹل رسائی میں توسیع کی اپیل کی

Posted On: 04 JUN 2025 4:16PM by PIB Delhi

مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے سائنس و ٹیکنالوجی، ارضیاتی سائنس اور وزیرِ اعظم کے دفتر، محکمہ ایٹمی توانائی، محکمہ خلاء، عملہ، عوامی شکایات و پنشن کے وزیر مملکت  ڈاکٹر جتندر سنگھ نے آج پنشن سے متعلق شکایات کے بروقت ازالے کے لیے مؤثر نظام کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ اقدام وزیر اعظم نریندر مودی کے جامع طرزِ حکمرانی کے ساتھ ہم آہنگ ہے، جس میں شہریوں کو مرکزِ توجہ میں رکھا گیا ہے۔

نئی دہلی میں منعقدہ 13ویں آل انڈیا پنشن عدالت سے خطاب کرتے ہوئے، ڈاکٹر جتندر سنگھ نے بھارت کے پنشنروں کے وقار کو یقینی بنانے کے لیے انتظامی حساسیت اور کارکردگی کی ضرورت پر زور دیا۔

دن بھر چلنے والی یہ تقریب ، جس میں ملک بھر سے پنشنروں، سرکاری افسران اور مختلف محکموں کے سربراہان شریک ہوئے، وزیرِ مملکت نے کہا کہ پنشن عدالت کا ماڈل حالیہ برسوں میں شہری دوست اصلاحات میں سے ایک نمایاں مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ’’ ایک پنشنر، جس نے پوری زندگی ملک کی خدمت میں وقف کی ہو، اسے اپنے حق کے لیے دفتروں کے چکر نہیں کاٹنے چاہئیں۔‘‘انھوں نے تمام محکموں پر زور دیا کہ وہ شکایات کے ازالے کے لیے ’’ہول آف گورنمنٹ‘‘کا نقطہ نظر اپنائیں، یعنی تمام سرکاری ادارے مل کر مربوط انداز میں مسائل حل کریں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شکایات کا ازالہ صرف ردِعمل کے طور پر نہ ہو، بلکہ پیشگی انداز میں، ٹیکنالوجی سے آراستہ اور ہمدردی سے بھرپور ہونا چاہیے ۔

1.jpg

ستمبر 2017 میں اپنے قیام کے بعد سے، ملک بھر میں 12 پنشن عدالتیں منعقد کی گئی ہیں، جن میں کل 25,416 مقدمات  زیر سماعت آئے،جن میں سے 18,157 معاملوں کا کامیابی کے ساتھ تصفیہ کیا گیا۔ اس طرح71 فیصد سے زیادہ  کی شرح سے معاملات حل کیے گئے۔ ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ان اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اس  پہل کی مؤثریت کا ثبوت قرار دیا۔

وزیر موصوف نے پچھلی عدالتوں کی کامیابی کی کئی کہانیاں شیئر کیں، جن میں جسودا دیوی کا کیس، جنھوں نے 36 سال کے بعد اپنے جائز واجبات وصول کیے اور انیتا کنک رانی، جنہیں، ان کے کیس کی سماعت کے دن ہی20 لاکھ روپے کا ایریئر دیا گیا۔ انھوں نےاس بات کا تذکرہ کیا کہ اس طرح کی کئی کہانیاں اب محکمہ پنشن اور پنشنرز ویلفیئر کے جاری کردہ فلائرز میں دستاویزی طور پر درج ہیں۔

تیرہویں آل انڈیا پنشن عدالت میں، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے 12ویں پنشن عدالت سے کامیابی کی کہانیوں کا ایک مجموعہ بھی جاری کیا، جس کا عنوان’ بریو شولجرس اینڈ ویر ناریاں‘ تھا۔ یہ کتابچہ طویل عرصے سے زیر التوا پنشن شکایات کے متاثر کن اکاؤنٹس پر روشنی ڈالتا ہے جو عدالت کے طریقہ کار کے ذریعے حل کیے گئے تھے، جس میں دفاعی پنشنرز اور مسلح افواج کے اہلکاروں کے اہل خانہ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ یہ حقیقی زندگی کی کہانیاں ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی میں بروقت انصاف اور وقار کو یقینی بنا کر اپنے ریٹائر ہونے والوں، خاص طور پر خواتین اور ویر ناریوں کی خدمات اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے حکومت کے عزم کا ثبوت ہیں۔

2.jpg

اس سال کی عدالت نے خاندانی پنشن کے مسائل پر توجہ مرکوز کی، جن میں سے اکثر کو خواتین نے دعویدار یا وصول کنندہ کے طور پر اٹھایا۔ ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ڈی او پی پی ڈبلیو کو ایک ایسے موضوع کا انتخاب کرنے پر مبارکباد دی جو پنشنروں کے ایک بڑے اور اکثر کمزور طبقے کے اہم خدشات کو تسلیم کرتا ہے۔

پنشنروں تک رسائی کے لیے ڈیجیٹل ذرائع کے استعمال کی مزید حوصلہ افزائی کی گئی جو ذاتی طور پر شرکت کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عدالتیں نہ صرف شکایات کے ازالے کے لیے محض ایک پلیٹ فارم کی نمائندگی کرتی ہیں، بلکہ حکومت کی طرف سے اس وعدے کی نمائندگی کرتی ہیں کہ کوئی بھی آواز  اَن سُنی نہ رہ جائے۔ وزیر موصوف نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ سی پی ای این جی آر اے ایم ایس(سینٹرلائزڈ پنشن شکایات کے ازالے اور نگرانی کا نظام) جیسے ڈیجیٹل اقدامات کو حقیقی وقت سے باخبر رہنے اور حل کرنے کے لیے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے محکموں اور اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ پنشنروں کے ساتھ صرف مستفیدین کی طرح سلوک نہ کریں بلکہ ’انتظامی خاندان کے معزز افراد‘ جیسا سلوک کریں۔ اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ زیادہ تر شکایات قابل گریز تاخیر یا طریقہ کار کے مسائل کی وجہ سے ہوتی ہیں، انہوں نے زیادہ سے زیادہ بین محکمانہ ہم آہنگی اور جوابدہی پر زور دیا۔ وزیر موصوف نے کہا کہ عدالت صرف ایک ازالے کافورم نہیں ہے بلکہ انتظامی کارکردگی کا اندازہ لگانے کا ایک پیمانہ بھی ہے، جس سے حکمرانی میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔

3.jpg

پنشن عدالتیں، جو اب ایک باقاعدہ کیلنڈر ایونٹ کی شکل اختیار کر چکی ہیں، حکومت اور ریٹائرڈ ملازمین’  بشمول مرکزی سرکاری ملازمین، دفاعی اہلکاروں، اور فیملی پنشنروں‘ کے درمیان ایک اہم رابطے کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ وزیر موصوف نے پی پی اوز، مربوط پورٹلز اور شکایات کے ڈیش بورڈز جیسی اصلاحات کو ادارہ جاتی بنانے میں محکمہ پنشن اور پنشنروں کی بہبود کے کردار کی بھی تعریف کی۔

ڈاکٹر جتندر سنگھ نے اپنے اختتامی خطاب میں پنشن کے انتظامی نظام میں مزید شہری مرکزیت اور ہمدردانہ   اختراعات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بزرگ شہریوں کے ساتھ فوری اور  پرخلوص رویہ اختیار کرے۔انھوں نے کہا کہ’’ وزیر اعظم کا طرز حکمرانی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ملک کے بزرگ شہریوں اور ریٹائرڈ ملازمین کو تحفظ، عزت، اور اہمیت کا احساس نہ دلایا جائے‘‘۔

*******

ش ح۔ م ش۔ص ج

UN-NO-1440


(Release ID: 2133903)
Read this release in: English , Hindi , Tamil