وزارات ثقافت
نئی دہلی میں راشٹرپتی بھون کلچرل سینٹر میں ‘‘ادب میں کتنی تبدیلی آئی ہے ؟’’موضوع پر دو روزہ ادبی کانفرنس کا انعقاد
Posted On:
30 MAY 2025 6:30PM by PIB Delhi
راشٹرپتی بھون میں ‘‘ادب میں کتنی تبدیلی آئی ہے ؟’’موضوع پر دو روزہ ادبی کانفرنس کا دوسرا دن صبح 10.00 بجے‘‘ہندوستان کا نسائی ادب :نئی راہیں’’ عنوان پر شروع ہوا۔اس کاانعقاد ساہتیہ اکادمی، وزارت ثقافت راشٹرپتی بھون کے تعاون سے کررہا ہے۔آج کے سیشن کی صدارت پرتبھا رے نے کی۔
صدارتی خطاب میں پرتبھا رے نے اس بات پر زور دیا کہ نسائی ادب تخلیقی صلاحیتوں کا متنوع اظہار ہے نہ کہ ایک الگ وجود۔ حقوق نسواں کے مصنفین نے پدرانہ اصولوں کو چیلنج کیا ہے، مستند خواتین کے تجربات کے لیے جگہ پیدا کی ہے، ہندوستان کے ثقافتی اور سماجی منظر نامے کی تشکیل کی ہے اور آنے والی نسلوں کو ایک زیادہ جامع معاشرے کی طرف ترغیب دی ہے۔ پہلی مقرر، انامیکا نے کہا کہ ہندوستانی حقوق نسواں ادب سرحدوں کو آگے بڑھا رہا ہے، رشتوں کی نئی تعریف وضع کر رہا ہے۔ خواتین مردوں میں ذہنی پختگی تلاش کرتی ہیں، ان کی نشوونما کے لیے پرورش کرتی ہیں۔ دوسرے مقرر، تھمیجھاچی تھنگاپانڈین نے تمل اور دراوڑ سیاق و سباق پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، ہندوستان کے سابقہ اور مستقبل کے مسائل کے بارے میں گفتگو کی۔ تیسری مقرر، انوجا چندرمولی نے رائے دی کہ نسائی ادب نے نسلوں کی خاموشی اور سنسر شپ کو توڑا ہے۔ بہادر خواتین نے اپنے اظہار کے لیے بہت زیادہ خطرہ مول لیا ہے۔ چوتھی مقرر، مہوا ماجھی نے حقوق نسواں کے کلیدی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ہندی ادب میں خواتین کی اظہار خیال اور تخلیقی تحریر کا جائزہ لیا۔ پانچویں مقرر، ندھی کلپتی نے مشاہدہ کیا کہ خواتین کی تحریر ابتدا میں ان کے معاشرے میں پسماندہ تھی، لیکن وقت بدل گیا ہے، اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ مہادیوی ورما، مانو بھنڈاری، شیوانی، اور کرشنا سوبتی جیسے اہم مصنفین نےاس کی بنیاد رکھی ہے۔ آخری مقرر، پریتی شینائے نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان میں حقوق نسواں ادب صرف معاشرے کا عکس نہیں ہے، بلکہ ایک رہنمائی کی روشنی ہے جو غیب کو روشن کرتی ہے اور خاموشی کو آواز دیتی ہے۔ آخر میں، ساہتیہ اکادمی کے سکریٹری کے سری نواس راؤنے خواتین مصنفین کی معاونت کے لیے اکادمی کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اکادمی کی طرف سے اکثر منعقد کیے گئے کئی پروگراموں کا ذکر کیا جیسے کہ اسمتا، ملاقات، آل انڈیا دلت مصنفین کا اجلاس، اور قبائلی خواتین مصنفین کا اجلاس جو مکمل طور پر خواتین مصنفین کے لیے وقف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوششیں خواتین کی تحریر کو فروغ دینے اور ان کی آواز کو وسعت دینے کے اکادمی کے پختہ عزم کو ظاہر کرتی ہیں۔
تیسرا سیشن، ‘‘ادب میں تبدیلی بنام تبدیلی کا ادب’’ میں ساہتیہ اکادمی کی نائب صدر کمود شرما نے پانچ ممتاز مقررین کے ساتھ صدارت کی۔ شروع میں، یتندرا مشرا نے تبصرہ کیا کہ ادب صرف وہی ریکارڈ کرتا ہے جو اپنے زمانے یا عہد میں ہوتا ہے، یہ زمانہ یا دور نہیں بدلتا۔ اس کے باوجود، تبدیلی کو وفاداری کے ساتھ دستاویزی شکل دیتے ہوئے، ادب لکھے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ریتا کوٹھاری نے کہا کہ یہ بات قابل غور ہے کہ ایک مصنف تبدیلی کے ساتھ کس طرح وابستہ ہوتاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادب اپنے آپ کو تلاش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ رشمی نرجاری نے کہا کہ ادب میں تبدیلی اور تبدیلی کے ادب پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ گفتگو نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ دونوں کے درمیان یہ تعامل ثقافتوں اور معاشروں کی ترقی، انقلاب، افہام و تفہیم اور انضمام کی کلید ہے۔ ممتا کالیا نے کہا کہ ادب کا معاشرے پر ایک سست لیکن دیرپا اثر پڑتا ہے، جو ایک غیر متوقع تحریک کے ساتھ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ ادب کے خطرے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے، انہوں نے کتابیں پڑھنے کے کلچر کو ضروری بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ گریشور مشرا نے کہا کہ ادب اپنی حقیقتوں کو اپناتے ہوئے وقت کے دائرے میں ابھرتا ہے۔ اپنے تخیلاتی اور روحانی جوہر کے ساتھ، یہ وقتی حدود سے بالاتر ہوکر معاشرے اور ماحول پر تنقید کرتا ہے۔ کمود شرما نے بحیثیت صدارت خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ادب کو دور حاضر سے وابستگی کے ساتھ تاریخ سے رجوع کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کتابیں زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی زندگی کا ایک یقینی حصہ ہے، لیکن یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا ادب یہ تبدیلی لا سکتا ہے؟ انہوں نے فن سے متعلق ایک نظم کی کچھ بند کے ساتھ اپنی بات ختم کی۔
چوتھا سیشن، "عالمی تناظر میں ہندوستانی ادب کی نئی سمتیں" کی صدارت ابھے موریہ نے کی۔ پہلے مقرر، سجاتا پرساد نے ہندوستانی ناولوں کے رول کے بارے میں بات کی، اس کے علاوہ گیتانجلی شری کی ریت سمادھی جیسی حالیہ ہندوستانی تحریروں پر بھی گفتگو کی۔ عزت مآب نوتیج سرنا نے بنیادی طور پر انگریزی میں ہندوستانی تحریر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنی بات رکھی۔انہوں نے کہا کہ انگریزی میں ہندوستانی تحریر اب شکل اور مواد دونوں میں نئی حدود تلاش کر رہی ہے۔ لکشمی پوری نے ثقافتی اور قومی خود پسندی سے ہٹ کر ایک مثالی ادب کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انگریزی زبان بات چیت کے لیے ایک کڑی کے طور پر کام کرتی ہے۔ کمفام سنگھ نونکنریہہ نے کہا کہ وہ ادبی جڑوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیرونی ممالک کے بجائے صرف مقامی ادب کو ترجیح دیا جائے۔ ہندستان میں جمہوریہ لتھوانیا کی سفیر عزت مآب ڈائنا میشے ویسین نے ساہتیہ اکادمی کو ہندوستانی زبانوں میں ادب کو برقرار رکھنے اور بین الاقوامی تعاون اور تراجم کو فروغ دینے میں نمایاں رول ادا کرنے پر ستائش کی۔ صدارتی خطاب میں ابھے موریہ نے کہا کہ جب بھی کسی ملک میں کوئی بڑا ہنگامہ برپا ہوتا ہے تو ادب میں بھی بڑی ہلچل ہوتی ہے۔ انہوں نے روس کی اونتگارڈے تحریک اور اس پر ہونے والی تنقید کی مثال دی۔ ان کا خیال تھا کہ عالمی ادب وہ ہے جو زمان و مکان کی حدود کو عبور کرتا ہے۔ کے سری نواس راؤ نے اختتامی کلمات میں کہا کہ یہ تقریب ساہتیہ اکادمی کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں راشٹرپتی بھون میں اس تقریب کے انعقاد کا یہ نادر موقع ملا اس کے لیے ہم صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرموکا شکریہ ادا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ہم ادبی کانفرنس کے افتتاح کے لیے وقت نکالنے کے لیے ہندوستان کی خاتون اول دروپدی مرمو، عزت مآب صدرجمہوریہ ہند کے انتہائی مشکور وممنون ہیں۔ ہم حکومت ہند کے وزیر ثقافت اور سیاحت جناب گجیندر سنگھ شیخاوت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں،جنہوں نے نہ صرف اس اجلاس کے لیے بلکہ اکادمی کے تمام پروگراموں کے لیے حوصلہ افزائی کی اور تعاون کیا ہے۔
شام کو، ہمانشو باجپائی اور پرگیہ شرما کی طرف سے دیوی اہلیابائی ہولکر کی 300 ویں یوم پیدائش کے موقع پر ان کی شخصیت پر مبنی ایک شاندار پروگرام پیش کیا گیا۔
****
ش ح۔ ع و۔ ج ا
U. No-1417
(Release ID: 2133717)
Visitor Counter : 8