نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز(آئی آئی پی ایس)کے 65ویں اور 66ویں تقریب تقسیم اسناد  میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب  کامتن(اقتباسات)

Posted On: 28 MAY 2025 9:50PM by PIB Delhi

لڑکوں اور لڑکیوں، مجھے آپ سب کے ساتھ ہونے پر بہت خوشی اور مسرت محسوس ہو رہی ہے۔

معزز اساتذہ کرام، فخر کرنے والے والدین، اور میرے پیارے طلبہ و طالبات، مجھے بے حد خوشی اور قلبی اطمینان حاصل ہو رہا ہے کہ میں اس یادگار موقع پر، بین انٹرنیشنل  انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنس (آئی آئی پی ایس) کے 65ویں اور 66ویں تقریب تقسم  اسناد میں آپ سب سے مخاطب ہوں۔

محترم وزیر نے آپ کی سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کی حیثیت بے حد اہم ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ کا کردار بڑھتا جائے گا۔ یقیناً یہ دن تعلیمی کامیابی کا جشن منانے کا دن ہے۔ لیکن میرے عزیز نوجوان طلباء و طالبات، یہ دن ایک گہری ذمے داری کے احساس کا دن بھی ہے۔ جیسا کہ محترمہ وزیر، انوپریا پٹیل نے اشارہ دیا، قوم اُمید اور امکانات سے لبریز ہے۔ اور تیزی سے ترقی کر رہا ہےایک ایسی ترقی جو اب ناقابلِ روک ہے۔

یہ تمام طلباء اور اپنی ڈگریاں اور ڈپلومے حاصل کرنے والے مدعو افراد کے لیے ایک بہت ہی خاص دن ہے۔ آپ سب کو مبارک ہو، لیکن پیارے طلباء، یہ صرف آپ کی کامیابی نہیں ہے۔ یہ آپ کے لیے، آپ کے خاندانوں، آپ کے سرپرستوں اور ان تمام لوگوں کے لیے اجتماعی فخر کا لمحہ ہے جنہوں نے اس سفر میں آپ کے ساتھ کام کیا ہے۔

میری آپ سے درخواست ہے، میری آپ سے اپیل ہے کہ براہِ کرم اپنے مادرِ علمی سے ہمیشہ رابطے میں رہیں۔ اپنے ادارے پر ہمیشہ فخر محسوس کریں اور اپنے ساتھیوں سے زندگی بھر رابطہ قائم رکھیں۔دوستو، جب ہم اپنے ملک کے مستقبل پر غور کرتے ہیں تو یہ نہایت ضروری اور سبق آموز ہے کہ ہم اُس طاقتور تین نکاتی اصول کو یاد رکھیں: آبادی ، جمہوریت  اور تنوع یہ تین ڈی نیا بھارت کی روح کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ تین ستون بھارت کی شناخت اور اُس کی امنگوں کا نچوڑ ہیں۔

بچو، اس وقت بھارت دنیا کا سب سے زیادہ پرامید ملک ہے، اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہے۔ آبادی ہماری متحرک انسانی وسائل کی نمائندگی کرتی ہے جو ترقی کی رفتار کو آگے بڑھاتی ہے۔ جمہوریت اجتماعی فیصلہ سازی کے لیے ایک مضبوط فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ کسی بھی دوسرے حکومتی نظام میں عوام کی فیصلہ سازی میں شرکت نہیں ہوتی۔ اسی نقطہ نظر سے جمہوریت منفرد ہے، اور بھارت دنیا کو تنوع کی مثال دیتا ہے۔ ہمارے پاس دلکش مناظر، ثقافتوں، روایات، اور نظریات کا ایک وسیع رنگ ہے جو ہمارے عظیم بھارت کو دنیا میں منفرد بناتا ہے۔

دوستو، آبادی کے رجحانات صرف اعداد و شمار نہیں ہیں اور آپ اس بات کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ آبادییات اس سے کہیں زیادہ گہری ہے، آبادییات ایک قوم کی نبض ہے۔ یہ ایک قوم کی تبدیلی کو متعین کرتی ہے۔ ان اعداد و شمار کو سمجھنا پالیسی سازوں کو طاقت حاصل کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ بغیر ان ڈیٹا کے، پالیسی ساز اندھیرے میں ہاتھ مار رہے ہوں گے۔ یہ سمت فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے اور نوجوان آبادی کی صلاحیت کو دریافت کرنے میں معاون ہے۔ اسی وقت، آپ کے ڈیٹا سے حکومت کے ذمہ داران ان سنگین چیلنجز کو سنجیدگی سے حل کر سکتے ہیں۔ بے روزگاری، صحت کی غیر مساوات، علاقائی عدم توازن جیسے مشکل مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اگر میں کہہ سکتا ہوں تو، آبادییات بھارت کے پائیدار ترقی کی راہنمائی کرنے والا کمپاس ہے، جو عالمی ضرورت بھی ہے۔

میرے نوجوان دوستو، ہمیشہ یاد رکھیں کہ بھارت دنیا کی سب سے قدیم، سب سے بڑی اور سب سے متحرک جمہوریت ہے۔ بھارت 1.4 ارب لوگوں کو ایک شراکتی پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جہاں مختلف آوازیں، مختلف آراء، اور کبھی کبھار متصادم آراء قومی چیلنجز اور حل پر بات چیت، مباحثہ اور اتفاق رائے کے ذریعے سامنے آتی ہیں۔ تنوع ہماری طاقت ہے۔ یہ ہمارے متنوع ثقافت، ہماری بھرپور زبانوں، اور ہماری نسلیت میں واضح طور پر جھلکتا ہے جو بھارت کو پوری دنیا میں بہت خاص بناتا ہے۔

 

ہمیشہ یاد رکھیں کہ شمولیت انسانیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور ہندوستان میں، شمولیت ہماری تہذیب کی رگ و پے میں ہے، شمولیت ہمارے خون میں ہے۔

محترم طلباء، بطور طلباءِ علومِ آبادی، آپ ایک منفرد مقام پر کھڑے ہیں جہاں یہ تین ستون ملتے ہیں: آبادیات، جمہوریت، اور تنوع۔ بطور طلباءِ علومِ آبادی، آپ اس سنگ میل پر کھڑے ہیں جہاں آبادی، جمہوریت، اور تنوع ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ آبادی کے رجحانات کا تجزیہ کرنے کی آپ کی مہارت ایک باخبر ذہن کو فیصلے کرنے کے قابل بنائے گی۔ یہ، میری بات غور سے سنیں، خطرات کو روکنے میں بھی مدد دے گی۔ جمہوری تبدیلیاں جو آبادیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آتی ہیں، وہ بہت مشکل، تشویش ناک اور گہری فکر کا باعث ہیں۔ یہ چیلنجز، جو کہ بہت بڑے ہیں، آپ کے ڈیٹا تجزیے کی کوششوں سے روکے جا سکتے ہیں۔

 

آپ خام اعداد وشمار اور بامعنی حکمرانی کے درمیان پل ہیں کیونکہ آپ ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں، آپ ڈیٹا کا مطالعہ کرتے ہیں، اور وہ ڈیٹا بہت مددگار ثابت ہوتا ہے اعداد و شمار کو کہانیوں میں تبدیل کرنے میں جو بھارت کے مستقبل کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہمارا ملک دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہونے کا اعزاز رکھتا ہے، اور اس لیے آبادیاتی تحقیق محض علمی موضوع نہیں بلکہ قومی ضرورت ہے۔ آبادی کی حرکیات، اس کی ترقی، تقسیم، اور ساخت کو سمجھنا پالیسی بنانے کے لیے بنیادی ہے تاکہ پائیدار ترقی، اقتصادی نمو، اور سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ پہلو قومی سلامتی اور ہم آہنگی کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔

 

میں جانتا ہوں کہ آپ چیلنجوں سے واقف ہیں۔ آپ کا ڈیٹا ان لوگوں کو بیدار کرے گا جنہیں ان چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے ، جنہوں نے انتہائی سنگین صورت اختیار کر لی ہے۔ اور، بچوں اور نوجوانوں، میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ ہمیں اپنی نوجوان آبادی کی طاقت کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنی ہوگی۔ بھارت کو اس بات پر فخر ہے اور دنیا کی رشک کا باعث ہے کہ یہاں کی درمیانی عمر صرف 28 سال ہے، جبکہ چین اور امریکہ کی درمیانی عمر بالترتیب 38 اور 39 سال ہے۔

اس لیے ہماری ترقی کی رفتار آپ کی شرکت کی بدولت پوری طرح سے چلتی رہے گی۔ آپ کو کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ آپ حکمرانی میں سب سے اہم فریق ہیں۔ آپ 2047 میں “وکست بھارت” (ترقی یافتہ بھارت) کی راہ متعین کریں گے، لیکن مجھے ایک انتباہ کرنا ہوگا۔ اس نوجوان توانائی کو مؤثر پالیسیوں کے ذریعے رہنمائی اور سنوارنا ضروری ہے جو ہنر مند بنانے، کاروبار کو فروغ دینے، جدت طرازی اور صحت کی سلامتی کو فروغ دیں۔

 

یہ سب آپ کے ذریعے ڈیٹا کے تجزیے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بھارت حکومت کا حالیہ فیصلہ، ایک اہم فیصلہ، حکمرانی میں ایک سنگ میل ہے کہ آنے والی دہائی کی مردم شماری میں ذات پات کی بنیاد پر شمار شامل کیا جائے گا۔ یہ ایک تبدیلی لے آئے گا، یہ ہمیں مساوی طور پر خواہشات کو پورا کرنے میں مدد دے گا تاکہ مساوات قائم ہو سکے اور یہ سماجی انصاف کی طرف ایک فیصلہ کن قدم ہوگا۔

جب یہ ڈیٹا دستیاب ہوگا تو یہ ہماری عدم مساوات کو سمجھنے میں مدد دے گا کیونکہ اگر عدم مساوات موجود ہے تو وہ ناانصافیوں کو جنم دیتی ہے اور پروان چڑھاتی ہے جو حکمرانی کا جوہر نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری، جو ڈیٹا فراہم کرے گی، ہمیں ہدفی ترقی کی رہنمائی دے گی۔ ترقی ان شعبوں تک پہنچے گی جہاں اس کی ضرورت ہے، یہ میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ آئی آئی پی ایس جیسے ادارے اس ڈیٹا کی تشریح کرنے اور جامع حل پیش کرنے میں ایک منفرد اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔

 

 

لڑکوں اور لڑکیوں، قدرتی اور طویل مدتی آبادیاتی تبدیلیوں کے برخلاف جو عام طور پر آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوتی ہیں، یہاں کچھ منظم، منظم شدہ اور غیر مناسب تبدیلیاں ہوتی ہیں جو خاص علاقوں کی آبادیاتی تشکیل کو بدلنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ یہ سب سے زیادہ پریشان کن رجحانات ہیں۔ جہاں قدرتی آبادیاتی تبدیلیاں بتدریج ہوتی ہیں، وہاں جان بوجھ کر اور منصوبہ بندی کے تحت مخصوص علاقوں کی آبادیاتی ساخت میں تبدیلیاں ایک سنگین مسئلہ ہیں۔

نوجوان دوستو، یہ سوچ سمجھ کر کی گئی تبدیلیاں اکثر سیاسی یا حکمت عملی کے مقاصد سے کی جاتی ہیں جو ہماری قوم کے لیے بالکل بھی مفید نہیں ہوتیں۔ یہ ہمارے سماجی اور ثقافتی توازن کو خراب کرتی ہیں۔ ایسے خطرناک رجحانات کی سخت نگرانی اور فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کی سالمیت اور خود مختاری کو محفوظ رکھا جا سکے۔

لڑکوں اور لڑکیوں، ایسے مشکل فیصلے لینے کے لیے ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہاں آپ کا کردار آتا ہے۔ میں آپ کو ایک انتباہ بھی دوں گا کہ بھارت آبادیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک تشویشناک اور خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، جو غیر قانونی مہاجرین کی بے روک ٹوک آمد اور ایک اور مکار طریقے یعنی دھوکہ دہی پر مبنی تبدیلیوں سے جنم لے رہی ہے، جو ہمارے سماجی ڈھانچے کو بگاڑ رہی ہیں۔

لڑکوں اور لڑکیوں، یہ عام چیلنجز نہیں ہیں، یہ معمولی مسائل نہیں، بلکہ وجودی مسائل ہیں جو فوری، پختہ اور مؤثر قومی ردعمل کے متقاضی ہیں۔ اب عمل کرنے کا وقت ہے، وضاحت اور یقین کے ساتھ عمل کرنے کا وقت ہے کیونکہ یہ بم ٹک ٹک کر رہا ہے۔ ہمیں ثابت کرنا ہوگا۔ ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ ہم اپنی تہذیب کی اصلیت، پاکیزگی اور سالمیت کو بچانے کے لیے غیر متزلزل، غیر متحرک اور پرعزم ہیں۔ لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت کیا ہے؟ ہم جمہوریت کی قدر کیوں کرتے ہیں؟ ہم جمہوریت کی قدر دو چیزوں کی وجہ سے کرتے ہیں۔ ایک ہمارا اظہار کا حق اور دوسرا آزاد گفتگو کی آزادی۔ حقیقی معنوں میں جمہوریت مساوات کی ایک ساخت ہے، یہ ایک مقدس یقین دہانی ہے کہ ہر شہری، چاہے اس کی ابتداء یا وسائل کچھ بھی ہوں، ملک کی اجتماعی تقدیر میں برابر کا حصہ دار ہوگا۔ میرے عزیز نوجوان دوستوں، آپ کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا۔

 

یقینی مکالمہ ہماری تہذیبی اور تمدنی قدر کا مرکز ہے، ہم زبانی بازی یا جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتے، عوامی مکالمہ لازمی طور پر حقیقی اور مستند ہونا چاہیے۔ ہماری وراثت، جو کہ اپنشدوں اور دھرم شاستروں سے ماخوذ ہے، مکالمے کو سخت نظریات پر فوقیت دیتی ہے اور غصے پر ضبط نفس کو ترجیح دیتی ہے۔

مجھے کبھی کبھی دکھ ہوتا ہے جب سخت نظریات اور غصہ غالب آ جاتے ہیں، ملک کے نوجوان، جو ملک کا مستقبل ہیں، ان کا ایک اہم کردار ہے کہ وہ عوامی مکالمے کو زیادہ منطقی اور معقول بنائیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہ مکالمہ ہماری تہذیبی اقدار کے مطابق ہو۔ عوام کے ساتھ بات چیت کی سچائی بنیادی ہے۔ کچھ استثنائی صورتیں ہیں جیسے سیکورٹی کے معاملات، مگر باقی تمام صورتوں میں یہ اصول ناقابلِ مذاکرات ہے۔

جمہوریت کی روح ایماندار، مخلص، صاف گو، حقائق پر مبنی اور درست مکالمے میں بسی ہے۔ دوستو، کچھ مسائل دیوار پر لکھے ہوئے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن ہمارے ملک میں ایسے داخل ہو رہے ہیں جیسے ایک جغرافیائی حملہ ہو، اور جعلی تبدیلی مذہب کا مسئلہ بھی بہت زیادہ پریشان کن ہے۔ ملک کے نوجوانوں کو اپنا ذہن تبدیل کرنا ہوگا جو اس تبدیلی کو سوشل میڈیا پر بھی ظاہر کرے تاکہ ایک قومی جذبہ پیدا ہو۔ ہم ان چیلنجز کا مقابلہ کریں جو ہماری تہذیب کی اصل روح کو ہلا سکتے ہیں اور ہمارے جمہوری اقدار کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہو سکتے ہیں۔

لڑکوں اور لڑکیوں، میں تم سے کہتا ہوں کہ کچھ چیلنجز چپکے سے نہیں آتے بلکہ وہ ہمارے سامنے کھل کر کھڑے ہوتے ہیں۔ جب ہمارے سرحدوں کی حرمت غیر قانونی تارکین وطن کی بے روک ٹوک آمد سے متاثر ہوتی ہے، تو یہ صرف قانون اور نظم و ضبط کا مسئلہ نہیں رہ جاتا، بلکہ یہ ہمارے وجود، ہمارے قومی وقار کا سوال بن جاتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے قومی وسائل پر بہت بڑا بوجھ ڈالتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاتھوں سے روزگار چھین لیتے ہیں اور ہماری قومی سلامتی اور خودمختاری کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ہمیشہ ایسے تباہ کن چیلنجز سے آگاہ رہو جب آبادیاتی توازن مصنوعی طریقے سے بدل رہا ہو، نہ کہ قدرتی ترقی کے ذریعے، بلکہ کسی سازشی منصوبے کے تحت۔

 

دوستو، اب بات ہجرت کی نہیں رہی۔ یہ ایک آبادیاتی تسلط کا مسئلہ ہے۔ بھارت نے اس کا سامنا کیا ہے۔ کیا آپ سرکاری اعداد و شمار کا تصور کر سکتے ہیں؟ اور میں کہتا ہوں کہ یہ اب کہیں زیادہ ہے۔ اس ملک میں لاکھوں غیر قانونی مہاجرین ہیں۔ کیا ہم انہیں برداشت کر سکتے ہیں؟ ہمیں اس ملک میں ایسے لوگ چاہیے جو ہماری تہذیب کے پابند ہوں، جو بھارتیّت پر ایمان رکھتے ہوں، جو ہمارا قومی جذبہ سمجھتے ہوں، اور جو قوم کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہوں۔ ہم ایسے لوگ کیسے اس ملک میں رہنے دیں؟ ہمیں اس مسئلے کو بہت جلدی حل کرنا ہوگا۔

 

جیسا کہ میں نے کچھ دیر پہلے کہا تھا، اتنا ہی تشویشناک، فکر انگیز، اور گہری پریشانی کا باعث ہے ایمان کو ہتھیار بنانے کا عمل، جب زبردستی یا مجبور کر کے تبدیلیِ مذہب کروائی جاتی ہے، جہاں عقیدہ کشش کے ذریعے نہیں بلکہ مجبور کرنے سے بنتا ہے۔ ہر عقیدہ لازمی طور پر رضاکارانہ اور اختیاری ہونا چاہیے۔ اسے کشش اور انتخاب کے ذریعے حاصل کیا جانا چاہیے، نہ کہ کسی ایجنڈے کے تحت۔ یہ واقعات الگ تھلگ نہیں ہیں۔ یہ سماجی ہم آہنگی کو کمزور کرتے ہیں، ثقافتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور قومی سلامتی کو متاثر کرتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں، اور بھارت دنیا میں اس کے لیے مشہور ہے، جمہوریتوں کو ہمدرد ہونا چاہیے، جیسا کہ معزز وزیر نے بھی بیان کیا۔ لیکن جمہوریت سستی برداشت نہیں کر سکتی۔

 

دوسرا، حال ہی میں معزز وزیر محترمہ انوپریہ پٹیل کے بیان کے مطابق، آپریشن سندور میں ہم اپنی مسلح افواج پر فخر کرتے ہیں۔ ان کی کامیابی قابلِ ذکر ہے۔ صرف سوچیں، دشمن کی سرزمین کے اندر گہرائی تک، بین الاقوامی سرحدیں عبور کرتے ہوئے، بہاولپور اور مریدکے، جو کہ جماعت الدعوۃ اور لشکر طیبہ کے ٹھکانے ہیں، وہاں پر ان ٹھکانوں کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا۔ اس کا اثر اتنا گہرا تھا کہ تابوتوں کے ساتھ ان کے فوجی، وزراء اور دہشت گرد بھی موجود تھے۔

اس لئے  میں زور دے کر کہتا ہوں کہ امن جمہوریت کی بقاء کے لیے لازمی اور بنیادی ہے۔ کبھی نہ بھولیں کہ امن قوت کی مزاحمت سے حاصل ہوتا ہے۔ جمہوریت صرف اسی وقت پھل پھول سکتی ہے اور ترقی کر سکتی ہے جب امن ہو، جو طاقت، مؤثر سلامتی، معاشی مضبوطی اور داخلی ہم آہنگی کے ذریعے حاصل کیا جائے۔ تاریخ اس کا ثبوت ہے۔ حملے صرف تب ہی روکے جا سکتے ہیں اور امن قائم رکھا جا سکتا ہے جب ہم جنگ کے لیے ہمیشہ تیار ہوں۔

 

بھارت نے ایک عالمی پیغام بھیجا ہے۔ اب ہم دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہم اسے ختم کریں گے اور اس کے منبع کو تباہ کر دیں گے۔ امن کا مطلب صرف تصادم کی غیر موجودگی نہیں ہے، بلکہ یہ تیار رہنے کی حالت ہے۔ جمہوریت ایک نازک پھول ہے جو اپنی زرخیز زمین یعنی تحفظ میں پنپتی ہے۔ اگر سلامتی نہ ہو تو جمہوریت ترقی نہیں کر سکتی۔ اقتصادی مواقع کی روشنی اور سماجی ہم آہنگی کی مسلسل بارش بھی امن کی محتاج ہے۔ جمہوریت کی بات کرتے ہوئے، بغیر امن کے جمہوریت خوف، بے اعتمادی اور افراتفری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مگر ہمیں امن کو غفلت نہ سمجھنا چاہیے۔

پائیدار امن، میرے عزیز دوستو، نوجوان دوستو، کبھی تحفے میں نہیں ملتا۔ اسے حاصل کیا جاتا ہے اور اسے محفوظ بھی کیا جاتا ہے۔ ایک قوم اپنی سرحدوں کی حفاظت فیصلہ کن حکمت عملیوں سے کرتی ہے، اپنی معیشت میں مضبوط ہو کر۔ پھر وہ قوم امن کا قلعہ بن جاتی ہے۔ ہمیں خطے میں ایک طاقتور فوجی قوت کے طور پر ابھرنا ہوگا۔ حالیہ ایسے اتحاد جو ہمارے ذریعے فیصلہ کن شکست کھا چکے ہیں، ہمیں ان سے ہمیشہ ہوشیار رہنا ہوگا۔ ہمیں قدیم حکمت کو اپنانا ہوگا۔ اور یاد رکھیں، بھارت قدیم صحائف کی بدولت عالمی علم کا خزانہ ہے۔

یہ شانتی منتر ہے، ہم شانتی پر ایمان رکھتے ہیں، اسی وجہ سے ہمارا ملک کبھی وسعت پسندی پر یقین نہیں رکھتا۔ لیکن ہمیں کوٹلیہ کی دانائی بھرے مشورے کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ میں انہیں نقل کرتا ہوں: ایک بادشاہ جو جنگ کے لیے تیار ہوتا ہے، وہ اپنی شرائط پر شانتی کو یقینی بناتا ہے۔ دوستو، ہماری جمہوریت ہماری تہذیب کی اصل روح پر ثابت قدم ہے۔

 

ہندوستان کی بنیادی روحانی بنیاد سناتن دھرم کی لازوال حکمت سے جنم لیتی ہے جو فطری طور پر شمولیت اور ہم آہنگی کو قبول کرتی ہے۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جو شمولیتی ترقی، شمولیتی زندگی اور ہم آہنگی کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ ہندو اکثریتی معاشرہ جو تہذیبی روح سے گہرا تعلق رکھتا ہے کبھی بھی اکثریتی نظریہ (میجرٹیریئن ازم) پر مبنی نہیں رہا۔ لوگ اس کو غلط سمجھتے ہیں۔ ہندو اکثریت میجرٹیریئن ازم نہیں ہے۔ یہ جذبات ہمارے لیے متضاد ہیں۔ اور دنیا کی دیگر روایات کے فرق کو دیکھیں۔ ان کے عدم برداشت کی سطح، ان کے بنیاد پرستی کی سطح کو دیکھیں۔

وہ آبادی کے دھماکے کے ذریعے کنٹرول کا مشن طے کرتے ہیں۔ صدیوں سے، یہ واضح امتیاز بھارت کی کثرت پسند شناخت کو تشکیل دیتا رہا ہے۔ توسیع پسندی کا ہندو مت میں کوئی مقام نہیں۔ سناتن میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ ایک سوچ ہے کیونکہ ہم فتح کے خواہاں نہیں، بلکہ بقائے باہمی کے متلاشی ہیں۔

 

لڑکوں اور لڑکیوں، آخر میں، تمہاری تعلیم صرف ایک سند نہیں ہے۔ یہ ایک اخلاقی قطب نما ہے۔ تمہارا سیکھنا یہاں ختم نہیں ہوتا۔ سیکھنا ایک عمر بھر کا عمل ہے۔ تم اب علم اور قوم سازی کے سنگم پر کھڑے ہو۔ تمہارے ڈیٹا سے پالیسیاں متاثر ہوں گی۔ تمہاری بصیرت مستقبل کو تشکیل دے گی۔ تمہاری ضمیر فیصلہ کرے گی کہ بھارت کتنے منصفانہ طریقے سے ترقی کرے گا۔ ترقی بنیادی ہے، لیکن وہی ترقی خوشی لاتی ہے جو منصفانہ ہو۔

 

اپنے کام میں صرف علمی مہارت ہی نہیں بلکہ جمہوری ذمہ داری کی بھی عکاسی کریں۔ یاد رکھیں کہ کسی معاشرے کی ترقی کا اصل پیمانہ یہ نہیں کہ وہ کتنی تیزی سے آگے بڑھتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ کتنی ہمدردی اور یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ آئی آئی پی ایس کی اقدار محنت، انکساری، حوصلہ اور عزم کو آگے بڑھائیں۔ ہمدردی کے ساتھ قیادت کریں، بصیرت کے ساتھ حکمرانی کریں۔ اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اعداد و شمار اہم ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار حکومت کے فیصلوں کا تعین کرتے ہیں، لیکن انسان ان اعداد سے بڑھ کر اہم ہیں  اور یہی آپ کی اصل ذمہ داری ہے۔ آپ کے اعداد و شمار یہ طے نہیں کریں گے کہ کون منتخب ہوگا، بلکہ یہ طے کریں گے کہ خوشی کس طرح پھیلے گی، اور لوگ کس طرح سکون کی نیند سو سکیں گے۔

ایک بار پھر، مبارکباد۔ دعا ہے کہ آپ کا علم دنیا بھر میں پھیلے ، آپ کی دیانت قائم رہے، اور آپ کا سفر دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بنے۔ میں محترمہ انوپریا پٹیل جی، معزز وزیر، کا دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہ عظیم موقع عطا فرمایا۔ میں اندرا دیوتا کا بھی شکر گزار ہوں۔ تھوڑی تاخیر ہوئی، لیکن میں پہنچ گیا۔

لڑکوں اور لڑکیوں، آخر میں بس اتنا کہنا ہے کہ یہ تو اوپر والے کا فیصلہ ہے کہ مجھے یہاں آ کر آپ کو دعوت دیناتھا۔ اب اس دعوت کو ٹھکرا مت دینا۔ دعوت ٹھکرانے کا ایک طریقہ ہے ۔ تاخیر کرنا۔ میں نے تین ہفتے دیے ہیں، میں تیار ہوں، پلکیں بچھا کر۔ میں راجستھان سے آیا ہوں، راجستھان میں کہا جاتا ہے - پدھارو مہرے دیش۔

شکریہ

****

ش ح۔ ش آ۔  ش ب ن

U-1354


(Release ID: 2133263)
Read this release in: English , Hindi