نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

آئی سی اے آر- سی سی اے آر آئی ، گوا میں سائنسی اور  زرعی  برادریوں کے ساتھ نائب صدر  جمہوریہ کی بات چیت کےمتن کے (اقتباسات)

Posted On: 22 MAY 2025 3:33PM by PIB Delhi

سب کو  نمسکار!

ڈائریکٹر ڈاکٹر پروین کمار  جو خوش مزاج اور کام میں مصروف ہیں۔ وہ بڑی خوشی  کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ انہوں نےکتنی ترقی کی ہے۔ اس وقت اس کا چہرہ دیکھنے کے لائق  تھا۔ لیکن انہوں  نے مرچ کی بہت سی چیزیں تیار کر رکھی  ہیں جو   تیکھی  ہوں گی ۔

 جناب  سنجے اننت پاٹل جی،  جنہیں قدرتی کھیتی کے لیے ’پدم شری‘ ملا ہے ۔ قدرتی کاشتکاری نامیاتی کاشتکاری سے بہت مختلف ہے۔ گجرات کے معزز گورنر دیوورت آچاریہ جی، ان کے دل و  دماغ اور روح میں قدرتی کھیتی بسی ہوئی ہے اور وہ اس  کو بہت زیادہ  اہمیت دیتے ہیں۔ مجھے اس بات کی خوشی  ہورہی ہے  کہ   ان کو  پدم شری سے نوازا گیا۔ لیکن 'قدرتی کاشتکاری' کا موضوع زمین سے کتنا جڑا ہوا ہے؟

میرے لیے یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ  مذکورہ تنظیم بہت سرگرم ہے، اس کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے  نیز اس کا سلسلہ بھی خاص ہے۔ انڈین کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ (آئی سی اے آر)، سینٹرل کوسٹل ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی سی اے آر آئی)  ایک عظیم اتفاق ہے۔ اس کی شروعات  1989 میں ہوئی تھی ا اور میرا سیاسی سفر بھی 1989 میں ہی  شروع ہوا پھر میں لوک سبھا کا ممبر بنا۔ اس کے بعد انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ سے میری وابستگی بڑھتی  ہی چلی گئی۔

 اس وقت چوہدری دیوی لال،  جوکسانوں کے ایک عظیم خیر خواہ اور ایک عظیم سیاست دان تھے، ہندوستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر زراعت تھے۔  لہذا  میں نےکافی وقت  انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ میں گزارا، اور بہت سے اداروں کا دورہ کیا۔  اس کے بعد میں نے  مغربی بنگال کے گورنر  کی حیثیت سے وہاں کادورا کیا  اور اب، نائب صدر کی حیثیت سے، جب بھی مجھے موقع ملتا ہے، میں زرعی مراکز، زرعی سائنسی مراکز، زرعی اداروں کا دورہ ضرور کرتا ہوں۔

اس کی ایک وجہ بھی ہے، اور وجہ  بہت خاص ہے۔ زراعت کا ہندوستان کی معیشت، ہندوستان کے سماجی نظام اور دیہی ترقی میں  بہت بڑا حصہ ہے۔ ترقی یافتہ ہندوستان بننے کا راستہ کسانوں کے کھیتوں اور دیہاتوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اور اسی لیے میں اپنے کسان بھائیوں اور بہنوں سے خاص طور پر درخواست کروں گا کہ وہ خود کو پیداوار تک محدود نہ رکھیں۔ کسان کا کام پیداوار تک  ہی محدود رہ گیا ہے۔ اس کے بعد، کسان خود کو ایک طرح سے الگ تھلگ کر لیتا ہے۔  لہذا وہ خود کو بڑی معیشت سے جوڑ نہیں پا رہا ہے۔ کسان کو بھی اپنی پیداوار کی خرید و فروخت میں حصہ لینا چاہیے۔

کسان کو زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ، زرعی پیداوار کی ویلیو ایڈیشن میں اچھی طرح سے شامل ہونا چاہیے۔ کتنے ہی کارخانے زرعی پیداوار کی بنیاد پر چلتے ہیں اور کسان ان کی پیداوار کا محض گاہک بن جاتا ہے۔ کسان کی آمدنی میں بڑی تبدیلی تب آئے گی جب وہ زراعت کا کاروبار بھی کرے گا۔ کھاد،  جراثیم کش  دوا، اور ہر وہ  چیز – اور سازو سامان  جو زراعت کے دائرے میں آتے ہیں  ان تمام باتوں میں بھی  کسان حصہ لے گا اور   اگر کسان اور اس کے بچے محدود  ائرے میں رہیں گے تو  ہندوستان کی معیشت کی ترقی میں جو بڑی رفتار حاصل کی جا سکتی تھی تو اس میں  کمی آ جائے گی۔

 لہذا  اسی لیے میں نے خاص طور پر تین چیزوں پر زور دیا ہے۔ ایک، زرعی معیشت صرف زرعی پیداوار تک محدود نہیں ہے۔ زرعی معیشت کے تمام پہلوؤں میں، اس کی پیداوار، اس کی مارکیٹنگ، اس کی قیمت میں اضافہ، اس میں کسان کا بہت زیادہ حصہ ہونا چاہیے اور اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ کسان برادری سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد کی ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں  کہ زرعی ماہرین  اس ملک میں کروڑوں زرعی سرمایہ کار ہونے چاہئیں۔

میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، آپ کی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحبہ ایک خاتون ہیں۔ ان کے ورکنگ ممبران اپنی ملازمتیں چھوڑ کر زرعی کاروبار میں شامل ہورہے ہیں ۔ وہ لوگ جنہوں نے آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم میں بہت اچھی تعلیم حاصل کی  ہے ۔وہ   دودھ کے کاروبار میں آرہے ہیں، سبزیوں اور پھلوں کے کاروبار میں آ رہے ہیں۔ تو آپ کیوں نہیں  آ رہے ہیں ، آپ کے بچے کیوں نہیں آ رہے ہیں ؟

ان باتوں کے لئے تربیت کی ضرورت  نہیں ہے ۔ پیدائش سے ہی  یہ علم ہمارے پاس ہے اور جو سب سے اہم قدم  جوہے وہ یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیاں بہت ہی مثبت ہیں۔ ان کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔ اگر ذخیرہ کرنے کی سہولت ہو ، قرض کی سہولت  ہو اور اگر تعاون سے کام لیا جائے تو بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اور آج یہ بھی ضروری ہے کہ جو کسان کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جو کسان کی پیداوار سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جو بڑے صنعت کار ہیں، میں ان کی  تنقید نہیں کر رہا بلکہ مشورہ دے رہا ہوں کہ انہیں  بھی کسان کی معیشت کو بڑھانے میں تعاون دینا چاہئے۔ کسانوں کی شراکت قائم ہونی چاہیے، تحقیق  کی جانی چاہیے۔ اور ان  کا جو سی ایس آر   فنڈ ہوتا ہے – وہ  دیہی ترقی کے اہم مسائل میں لگایا جانا چاہئے۔ تب ہی  ایک بڑی تبدیلی آئے گی۔

ہندوستان کی روح کسانوں اور دیہاتوں میں بستی ہے۔ ہم سماجی استحکام کا سب سے اہم حصہ ہیں۔ ہمیں  غور کرناپڑے گا کہ آج گاؤں میں سبزیاں اور پھل باہر سے آتے ہیں۔ اس نظام کو بدلنا ہوگا۔ دوسرا یہ کہ  مویشی  دھن ،دنیا کے بہت سے ممالک مویشیوں پر  انحصار کرتے  ہیں۔ نیوزی لینڈ جیسے ملک کو دیکھیں، آبادی بہت کم ہے لیکن مویشی بہت زیادہ ہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر پا رہے؟ ہم نئی ٹیکنالوجی کیوں نہیں لا پا رہے؟ اور مویشیوں کے معاملے میں بھی گاؤں کا آدمی دودھ بیچنے تک محدود ہوگیا ہے ۔ اور اس کی خرید کاری بھی کون کرتاہے؟ جو آپ کے دودھ کی قیمت طے کرتا ہے، جو آپ کے دودھ کا معیار طے کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کتنی محنت سے کتنی لگن سے اور کتنے عزم اور تخلیق کے ساتھ  آپ  مشکل کام کرتے ہیں۔

جب  آپ اس پر غور کریں گے  تو آپ  ایسا کیوں کر رہے ہوآپ   کو دودھ سے چھاچھ، دودھ سے دہی، دودھ سے رس ملائی، دودھ سے آئس کریم بنانے سے کس نے روکا ہے؟ کیوں نہیں ایک ایسے علاقے  کے اندر  ایسا انتظام ہوں  کہ جو پیداوار وار ہوتی ہے اس کی  شیئرنگ ہوں ۔ ہماری قدیم تہذیب کو دیکھئے،  اس وقت ہماری قدیم معیشت کو دیکھئے، کوئی بھی چیز  شاید باہر سے نہیں  آتی تھی ۔ صابن نہیں آتا تھا، دنت منجن نہیں آتا تھا،تیل  نہیں آتا تھا گھی نہیں آتا تھا ، سبزیاں  نہیں آتی تھیں ، پھل نہیں آتے  تھے، سب کچھ وہی  موجود تھا۔

اب ہم پیکیج آئٹمز کی طرف  چلے گئے ہیں۔ اورپیکیجنگ کر نے والا  بہت کماتا ہے۔ پہلے وہ پیکیجنگ میں  کماتا ہے اور پھر قیمت خود طے کرتا ہے۔ اس پیکچ آئٹم کے اندر وہی ہے جو آپ کے گھر میں ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دوں گا۔

ایک  شخص کسی دکان پر گیا اور کہنے لگا  کہ مجھے گڑ دے دو۔ اور تاجر بیچنے کا بہت اچھا فن رکھتا ہے، اور میں اس  کا قائل ہوں  اور میں نے مارواڑی سماج کی اس ضمن   میں بہت تعریف کی ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو پیدائش سے ہی سکھاتے ہیں کہ انہیں خود انحصار ہونا چاہئے، انہیں دکان پر وقت گزارنا چاہئے، انہیں وقت کی پابندی کرنی چاہئے، انہیں صحیح طریقے سے حساب کتاب کرنا چاہئے۔  لہذا میں اس سے بے حد متاثر ہوں۔

تو ا انہوں نے  کہا، ’’گڑ اور چینی لے لو‘‘ کیونکہ  چینی گڑ سے تھوڑی بہتر ہوتی  ہے۔ تو کسان نے سوچا کہ آج میں بچوں کو چینی ہی کھلا دوں  تھوڑا اور پیسہ دے دونگا ۔  اس نے کہا سیٹھ جی نے  مجھے چینی دکھاؤ۔ تو  سیٹھ جی نے کہا کہ چینی لے لو، یہ  کھانڈ  کی طرح ہے۔ تو اس نے کہا، ’’اگر چینی ہو جائے تو مجھے چینی دے دو" تو سیٹھ جی نے کہا، چینی لے لو، خراب کوالٹی کی ہے۔ تو کسان نے اصرار کیا، ‘‘آج کچھ بھی ہو جائے، میں صرف بچوں کو خراب ہی کھلاؤں گا مجھے خراب ہی دے دو۔’’ اب وہ تاجر کسان کو خراب دودھ بیچتا ہے اور کہتا ہے – ’’خراب کوالٹی کا دودھ لے لو۔‘‘  کسان نے کہا، ’’دودھ میرے گھر میں ہے، تم جو سب سے اچھی چیز بیچ رہے ہو وہ میرے گھر میں ہے۔‘‘

آج کسان کو سمجھانے کی ضرورت ہے،  اور خود بھی   سمجھنے  کی ضرورت ہے۔

  بھارتی حکومت کسانوں کی بہت مدد کر رہی ہے۔ حکومت  سبسڈی کی شکل میں مدد کررہی  ہے۔

وزیر اعظم نے کسان سمان ندھی شروع کی تھی لیکن میں تمام تنظیموں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس بات کا اندازہ لگائیں کہ اگر کسانوں کوملنے والی سہولیات براہ راست ان تک پہنچیں  نہ کہ کسی اور کے  ذریعے ۔ مثال کے طور پر، تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے   کی کھاد سبسڈی ایک بہت بڑی رقم ہے ۔ آپ یہاں بیٹھے ہیں، آپ کو شاید احساس بھی نہیں کہ آپ کو اتنی مدد دی جا رہی ہے۔ لیکن اگر یہ رقم براہ راست ہر کسان کو بھیجی جائے تو ہر کسان کو 30-35 ہزار روپے سالانہ ملیں گے۔ اس لیے کسانوں کو سرکاری امداد فراہم کرنے کا یہ  ذریعہ درست نہیں ہے، اسے براہ راست کسانوں کو دیا جانا چاہیے۔

اس میں اداروں کو اس کا اندازہ لگانا چاہیے اور اسے تکنیکی طور پر دیکھنا چاہیے۔ تب ہی  اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔ امریکہ میں ایک کسان خاندان کی آمدنی وہاں کے ایک اوسط خاندان کی آمدنی سے  کہیں  زیادہ ہے۔ کیا آپ کوتعجب ہوا کہ امریکہ جو کہ ایک بہت ترقی یافتہ ملک ہے وہاں ایک عام خاندان کی آمدنی ایک عام کسان خاندان سے زیادہ ہے؟  ایسا کیوں؟ وہاں، پوری سرکاری امداد  کسی پیچولئے کے بغیرکسان کو براہ راست دی جاتی ہے ۔

دوسری بات  یہ ہے کہ زراعت میں ٹیکنالوجی ٹھیک ہے، لیکن یہ ٹیکنالوجی آنی چاہیے۔ اور وزیر اعظم نے تکنیکی نشریات کا شاندار کام کیا ہے۔ یہاں تک کہ میں نے ڈرون بھی دیکھے ہیں۔ لیکن ہم کیمیکل استعمال کرتے ہیں، ہم کھاد استعمال کرتے ہیں۔  ہم اگر  اپنے تاریخی پس منظر میں جائیں تو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ہمارے مویشی بڑھیں گے تو کھاد کی کمی نہیں ہوگی- ہمیں ایسا سوچنا چاہیے۔

میں  ایسا فرض کر رہا ہوں کہ آپ ان معاملات پر غور کریں گے۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے زراعت کے وزیر جناب شیوراج چوہان جی بہت سرگرم ہیں۔ انہوں نے کسانوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔  انہوں نے عزم  کیا ہے  اور ملک کے 730 سے ​​زائد زرعی سائنسی مراکز کے ساتھ طویل بات چیت کی ہے۔ اور اس  طویل بحث و مباحثہ   کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب  سرگرم ہو گئے ہیں ۔ اور  تنظیمیں جن کی تعداد تقریباً  275 ہے وہ بھی بہت سرگرم  ہو چکی ہیں۔ تو میں اسے کسانوں کے لیے ایک بہت اچھی علامت کے طور پر دیکھتا ہوں۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ خدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ تو آپ یہاں سے ایک  عزم کے ساتھ جا ئیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ش م ۔ رض

Urdu No. 1004


(Release ID: 2130565)
Read this release in: English , Hindi