نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
چھترپتی سمبھاجی نگر میں ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے 65ویں کنوکیشن میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن (تلخیص)
Posted On:
22 FEB 2025 7:27PM by PIB Delhi
میں اس یونیورسٹی میں آکر بہت خوش ہوں اور اس کی دو بہت ہی خاص وجوہات ہیں۔
ایک تو اس یونیورسٹی کا نام (تھیم )سب کچھ بتاتا ہے، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی اور پھر، وہ شہر جہاں یہ واقع ہے، بھی بہت اہم ہے۔ یہ دو چیزیں اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ ہم کس چیز کے لیے کھڑے ہیں۔ چھترپتی سنبھاجی مہاراج کا نام ہمیں حال ہی میں ملا ہے۔ تاخیرہی سہی لیکن پھر بھی یہ بدلتے ہوئے وقت کی عکاسی کرتا ہے ۔ یہ اپنی شان کو محفوظ بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ اس لیے میں اس عظیم موقع پر ، اس عظیم یونیورسٹی کے 65 ویں کنوکیشن سے منسلک اور خود کو مربوط کرنے پر فخر محسوس کررہا ہوں۔
پچھلی دہائی میں، بھارت نے ترقی، تیزی سے اقتصادی اضافہ، غیر معمولی بنیادی ڈھانچے میں اضافہ، ڈیجیٹلائزیشن میں گہرائی، ٹیکنالوجی کی رسائی میں اہم پیمانے پر عالمی سطح پر ابھرا ہے اور اسے پذیرائی ملی ہے۔ دنیا کی کسی بھی قوم نے گزشتہ دہائی میں معیشت اور ترقی میں اتنی تیزی سے ترقی نہیں کی جتنی بھارت نے کی ہے۔ ہم نے اپنی معیشت میں جو پیشرفت کی ہے وہ چند سال پہلے سوچ سے باہر تھی۔ عالمی معیشت کی حیثیت میں ہماری چھلانگ 10 ویں یا گیارہویں نمبر سے 5 ویں اور جاپان اور جرمنی سے ایک سال یا اس سے پہلے تیسرے نمبر پر آنے کے راستے پر ہے۔ اس لیے یہ ملک امید و امکانات سے بھرا ہوا ہے۔ ہندوستان اب صلاحیتوں والا ملک ہی نہیں ہے،بلکہ یہ عروج پر ہے، عروج رک نہیں سکتا اور عروج بڑھتا جا رہا ہے۔
ہمارے نوجوانوں کے پاس بے پناہ مواقع ہیں، اب آپ کی باری ہے۔ آپ جمہوریت میں سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔ ہمارا وکست بھارت اب کوئی خواب نہیں رہا، یہ ہمارا مقصد ہے۔ ہم سب اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم میں سے کچھ عمر کی وجہ سے راستے میں ہی گر جائیں گے ۔ آپ کو ترقی کے اس انجن کو تمام اہم مقامات پر فائر کرنا پڑے گا۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے، اگر اس سے پہلے 2047 میں جب بھارت اپنی آزادی کی صد سالہ جشن منائے گا، تو ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوگا۔
اب میں آپ کو یعنی تمام طلبا و طالبات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہناچاہتاہوں ، ایک ترقی یافتہ قوم کا درجہ عالمی سطح پر متعین نہیں ہے لیکن اگر آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور مختلف عناصر اور پیرامیٹرز کو تلاش کریں تو یہ چیلنج مشکل ہے، لیکن قابل حصول اور قابل عمل ہے۔ ہمیں اپنی فی کس آمدنی میں آٹھ گنا اضافہ کرنا ہو گا اور اس لیے وقت ہے کہ ہم سب تیزی سے آگے بڑھیں، عزم کے ساتھ آگے بڑھیں کہ عزم کا تقاضا ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنی قوم پر یقین رکھیں۔ قوم کو ہمیشہ اولین ہونا چاہیے۔ ہم قومی مفاد کو ذاتی مفاد، جماعتی مفاد، تجارتی مفاد کے تابع نہیں رکھ سکتے۔ قوم پرستی سے وابستگی غیر گفت و شنید ہے کیونکہ یہ ہماری آزادی سے براہ راست جڑی ہوئی ہے۔
اس لیے میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ بڑے پیمانے پر اپنا حصہ ڈالیں۔ اب ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ افراد کیا کر سکتے ہیں؟ لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ لوگ ایک قوم کی تعریف ان کے نظم و ضبط، اپنی آرائش، اچھے شہری ہونے سے کرتے ہیں۔ لیکن میں ’پنچ پران‘ سے شروع کرنے کا اشارہ کرتا ہوں اور یہ ’پنچ پران‘ آپ کو ہماری تہذیبی اخلاقیات میں بہترین پائیں گے۔ وہ جوہر ہیں اور اگر میں کہہ سکتا ہوں، ہمارے تہذیبی علم اور قدر کا امرت، اور ایک ہے، جو بہت آسان ہے، اگر ہم مشق کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مشق نہیں کر رہے ہیں، ہمیں مشق، یقین اور دن رات کام کرنا ہے۔
سماجی تبدیلی تب آئے گی جب ہم سماجی ہم آہنگی پیدا کریں گے۔ سماجی ہم آہنگی سے مرادتنوع میں اتحاد کی تعریف ہے ۔ یہ ہماری ذات، عقیدہ، مذہب، تفرقہ انگیز حالات کو اتحاد کی قوت میں تبدیل کر دے گا۔ آئیے ہم ہر قیمت پر سماجی ہم آہنگی پیدا کریں۔ آئیے خاندانی اقدار پر یقین رکھیں، اپنے بزرگوں، اپنے والدین، اپنے پڑوسیوں، اپنے پڑوسیوں کا احترام کریں۔ ہم ایک الگ تہذیب ہیں، فطرت کے اعتبار سے ہم مادیت پرست نہیں ہیں، ہم روحانی ہیں، ہم مذہبی ہیں، ہم اخلاقی ہیں۔ ہم باقی دنیا کے لیے رول ماڈل ہیں، اور یہ ماڈل ہزاروں سالوں سے چل رہا ہے۔ اس لیے برائے مہربانی خاندانی اقدار کو اپنائیں، خاندانی اقدار کی پرورش کریں، اپنے بزرگوں کا احترام کریں، اپنے والدین کا احترام کریں، اور یہ ثقافتی طاقت آپ کو ملک کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کا حوصلہ دے گی۔ حب الوطنی کا بیج خود بخود پھوٹ جائے گا۔ تیسرا، ماحولیاتی تحفظ، ہم میں سے سبھی لوگ اسے جانتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ، پودا اپنے وجودی چیلنج کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ دھرتی میں اس کے علاوہ کوئی اور جگہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم اس سرزمین کے امانت دار ہیں، ہم نے لاپرواہی سے اس کا استحصال کیا ہے، نتیجہ یہ نکلا، ٹاٗم بم کی طرح ایک خطرہ ہمارے سامنے منڈلا رہا ہے لیکن ہمیں اپنا کام کرنا ہے۔
وزیر اعظم نے ’ایک پیڑ ما ں کے نام‘ کا بہترین نعرہ دیا ہے، اگر ہم اسے خلوص نیت سے انجام دیں،جو کہ بہت سے لوگ کر رہے ہیں بلکہ لاکھوں میں اس مہم کو انجام دے رہے ہیں تو یہ گیم چینجر ثابت ہوگا اس آئیے ماحولیاتی تحفظ پر یقین رکھیں۔ ہر ملک تب ہی طاقتور ہو سکتا ہے جب وہ آتم نر بھر ہو اور اس کے لیے ہمیں سودیشی اشیا پر یقین رکھنا چاہیے۔ آئیے ہم مقامی چیزوں کے بارے میں ہم آواز بنیں۔
ہمارے آئین نے ہمیں بنیادی حقوق دیے ہیں لیکن بنیادی حقوق کی پاسداری تب ہی ممکن ہے جب آپ اپنے بنیادی فرائض انجام دیتے ہیں، جب آپ اپنے شہری فرائض انجام دیتے ہیں۔ ذرا سوچئے، ہمارے جیسے ملک میں امن عامہ کو چیلنج کیا جاتا ہے، سرکاری املاک کو نذر آتش کیا جاتا ہے، لوگ ایسے مظاہروں پر اتر آتے ہیں جن کا ازالہ سڑک پر نہیں ہوتا، بلکہ عدالت یا مقننہ کے ایوان میں ہوتا ہے۔
اس لئے وقت آگیا ہے کہ ہر ہندوستانی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور آڈٹ کیا جائے ۔ ہمیں اپنے مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہو گا، آپ کو بہت طاقتور پریشر گروپ بننا ہو گا۔ آپ سے پوچھنا ہے، آپ کے عوامی نمائندوں، بیوروکریسی، ایگزیکٹو، کیا آپ اپنا کام کر رہے ہیں؟ عوامی نمائندے بڑے پیمانے پر محنت ومشقت کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ کس لیے؟ آپ کی فلاح و بہبود کے لیے نا کہ فنکشن کو ڈسٹرب کرنے کے لیے ۔ کیا وہ واقعی یہ کام کر رہے ہیں؟ اگر وہ اپنا کام انجام نہیں دے رہے ہیں، تو موجودہ وقت میں اب آپ کے پاس سوشل میڈیا کی طاقت ہے۔
میرا پختہ یقین ہے کہ ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ ہم ہندوستانی ہیں، ہندوستانیت ہماری شناخت ہے، قوم پرستی ہمارا مذہب ہے۔
ملک دشمن قوتوں پر جوابی حملہ ہونا چاہیے جو ہماری جمہوری اقدار پر حملہ کرتی ہیں، جو ہمارے آئین کی روح کو داغدار کرنا چاہتی ہیں، جو ہمارے اداروں کو بدنام کرتی ہیں، جب وہ ہماری بنیادوں پر حملہ کرتی ہیں۔اس لئے ان جواب دینا ہر شخص کا اپنا فرض ہے۔
ان چیلنجوں کے ارد گرد نظر ڈالیں جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ہندوستان میں کروڑوں لوگ رہتے ہیں ۔کسی نہ کسی طریقے سے وہ اپنا ذریعہ معاش پیدا کر رہے ہیں۔ وہ یہاں اپنی روزی روٹی حاصل کر رہے ہیں، ہمارے وسائل پر، ہمارے تعلیم، صحت کے شعبے، ہاؤسنگ کے شعبے پر مطالبات کر رہے ہیں اور اب معاملہ آگے بڑھ گیا ہے۔ وہ ہمارے انتخابی عمل میں مداخلت کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے جمہوری نظام کا اہم حصہ بن رہے ہیں۔ فیصلہ کن عنصر بن رہے ہیں۔ اس قسم کی ذہنیت کے لوگوں کو ملک کے عوام سے بتانا ہم سب کا فرض ہے۔ ایسا ماحول بنائیں کہ ہر ہندوستانی اس سے واقف ہوجائے۔
جب کوئی دوسرا ملک ان لوگوں کو اپنے ملک کے قوانین کے مطابق یہاں بھیجتا ہے۔ اور وہ لوگ کون ہیں؟ ہمارے لوگوں کو گمراہ کر کے، لالچ دے کر، ان کو فائدے دے کر اور دھوکہ دے کر وہ وہاں لے گئے۔ کچھ ممالک نے اسے غلط پایا اور اسے واپس بھیج دیا لیکن یہ روایت کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔ لیکن ہم یہ کام کب شروع کریں گے؟ یہ سوال ہر ہندوستانی کے ذہن میں آنا چاہیے، کہ ہم اسے بہت جلد شروع کریں گے۔ یہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
ایک اور بات، ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کی پیروی کرے، ہر شخص کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کا حق ہے لیکن تبدیلی رغبت سے، لالچ سے ہوتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم قوم کی آبادیاتی تبدیلی سے بالادستی حاصل کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے، دنیا کے کچھ ممالک اس کی مثالیں ہیں۔ آپ مجھ سے زیادہ ذہین اور باشعور ہیں، آپ معلوم کر سکتے ہیں۔ ملک کی شکل ہی تباہ ہو گئی، وہاں کی اکثریتی برادری غائب ہو گئی۔
ہم آبادی کے اس حملے کی اجازت نہیں دے سکتے، نامیاتی آبادیاتی ترقی قابل قبول ہے، لیکن اگر یہ کنٹرول کرنے کے خطرناک ڈیزائن کے ساتھ خلل ڈالنے والا ہے، تو ہمیں توجہ دینی چاہیے۔ یہ ہمارے لیے غور و فکر کی بات ہے۔ ہمارا فلسفہ، جو صدیوں پرانا ہے، اس کو چیلنج کیا جاتا ہے۔
تما م طلبا و طالبات ، ایک اور چیلنج ہے اور براہ کرم بین السطور کو پڑھیں، منظر نامے کے پیچھے دیکھیں۔ منظم طریقے سے صدر کا مذاق اڑایا جاتا ہے، وزیراعظم کا مذاق اڑایا جاتا ہے، میرے عہدے کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ہمارے ادارے داغدار ہیں۔ الیکشن کمیشن ہو یا عدلیہ۔ یہ وہ سرگرمیاں ہیں جو اپنے دل میں بغض رکھنے والے کر رہے ہیں، اس میں ملکی مفاد نہیں ہے۔
حال ہی میں یہ بات مستند طور پر سامنے آئی ہے کہ ہمارے انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں میں سب سے گزارش کروں گا کہ ہوشیار رہیں، سوچیں اور بے نقاب کریں۔ اور میں متعلقہ اداروں سے اپیل کرتا ہوں، وقت آ گیا ہے کہ گہری چھان بین کریں، مائیکرو لیول پر مکمل چھان بین کریں، ان مذموم عزائم سے جڑے ہر فرد کو بے نقاب کریں جن کا مقصد ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرنا اور ہماری جمہوریت کو جوڑ توڑ کے راستے پر ڈالنا ہے۔
ش ح ۔ ال
U-7469
(Release ID: 2105568)
Visitor Counter : 14