ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت
پارلیمانی سوال : آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اسکیمیں
Posted On:
10 FEB 2025 3:11PM by PIB Delhi
ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا میں تبدیلی کے مرکزی وزیر مملکت، جناب کیرتی وردھن سنگھ نے لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا کہ حکومت ماحول اور آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ حکومت نے ماحول کے تحفظ، بقا اور حفاظت اور آلودگی کی روک تھام، کنٹرول اور خاتمے کے لیے کئی قانونی، انضباطی اور انتظامی اقدامات کو نوٹیفائی کیا ہے۔
ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا میں تبدیلی کی وزارت ( ایم او ای ایف سی سی ) کو مرکزی حکومت میں آب و ہوا میں تبدیلی سمیت بھارت کی ماحولیاتی اور جنگلات کی پالیسیوں اور پروگراموں پر عمل در آمد کی نگرانی کے لیے نوڈل وزارت کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ وزارت نے ماحول، جنگلات کے تحفظ، بقا اور حفاظت اور آلودگی کی روک تھام، کنٹرول اور خاتمے کے لیے مختلف اسکیموں کا آغاز کیا ہے۔
یہ اسکیمیں اپنے نفاذ کے مختلف مراحل میں ہیں اور ان میں ماحولیاتی علم اور صلاحیت کی تعمیر؛ قومی ساحلی انتظامی پروگرام؛ ماحولیاتی تعلیم، بیداری، تحقیق اور ہنر کی ترقی؛ آلودگی کا کنٹرول؛ سبز بھارت کے لیے قومی مشن؛ جنگلاتی مسکن کی مربوط ترقی؛ قدرتی وسائل اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ پر اہم اسکیمیں شامل ہیں، جن میں سے کچھ کے اثرات درج ذیل ہیں:
صاف ہوا کا قومی پروگرام ( این سی اے پی ) 2019 میں شروع کیا گیا، جس کا مقصد 24 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 130 شہروں میں ہوا کے معیار میں نمایاں بہتری لانا ہے تاکہ 26-2025 ء تک 18-2017 ء کے مقابلے میں ذرّاتی مادّے میں 40 فی صد تک کمی لائی جا سکے۔ ہوا کے معیار کے ڈاٹا کو بروقت اپ ڈیٹ کرنے کے لیے ’ پران ‘ پورٹل لانچ کیا گیا ہے۔
مختلف کچرے کے ڈھیر وں میں سرکلر اکانومی کے لیے ایک ضابطہ کار کا فریم ورک نوٹیفائی کیا گیا ہے۔ پروڈیوسرز کو توسیعی پروڈیوسر ذمہ داری ( ای پی آر ) کے نظام کے تحت زندگی کے اختتام پر کچرے کو ری سائیکل کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ پلاسٹک کے کچرے ، ٹائر کے کچرے ، بیٹری کے کچرے ، استعمال شدہ تیل کچرے اور الیکٹرانک کچرے کے لیے توسیعی پروڈیوسر ذمہ داری ( ای پی آر ) کے قواعد نوٹیفائی کیے گئے ہیں، جس کا مقصد معیشت میں سرکلر ٹی کو بڑھانا اور کچرے کو ماحول دوست طریقے سے منظم کرنا ہے۔
مینگروو کی بحالی اور فروغ کے لیے ’ مینگروو انیشیٹو فار شورلائن ہیبیٹیٹس اینڈ ٹینجیبل انکمز ( مِشٹی ) ‘ کا 5 جون 2024 کو آغاز کیا گیا، جس کا مقصد مینگروو کو ایک منفرد، قدرتی ماحولیاتی نظام کے طور پر بحال کرنا اور ساحلی علاقوں کی بقا اور پائیداری کو بڑھانا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف بھارت کے ساحلوں پر مینگروو کی دوبارہ تخلیق اور جنگلات سے متعلق اقدامات کے ذریعے ’ مینگروو جنگلات کو بحال کرنا ‘ ہے۔ اب تک 13 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقریباً 22561 ہیکٹرز معدوم مینگروو کو بحال کیا جا چکا ہے، جب کہ 6 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 3836 ہیکٹرز کی بحالی کے لیے 17.96 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔
قومی شجر کاری اور ماحولیاتی ترقیاتی بورڈ ( این اے ای بی ) نگر وَن یوجنا کو نافذ کر رہا ہے، جس کا مقصد 21-2020 ء سے 27-2026 ء کے درمیان ملک بھر میں 600 نگر وَن (شہری جنگلات) اور 400 نگر واٹیکا (شہری باغات) تیار کرنا ہے۔ اس کا ہدف شہری اور مضافاتی علاقوں میں درختوں اور سبزہ کو بڑھانا، حیاتیاتی تنوع کو فروغ دینا اور شہری رہائشیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔
مشن لائف ( ماحولیات کےموافق طرز زندگی ) ایک عالمی اقدام ہے، جس کا آغاز اکتوبر 2022 ء میں بھارت نے کیا۔ اس کا مقصد ماحولیات کے تحفظ کے لیے سوچ سمجھ کر اور منظم طریقے سے استعمال کے ذریعے پائیدار طرز زندگی کو فروغ دینا ہے۔ اس اقدام کے سات بنیادی موضوعات ہیں: پانی بچانا، توانائی کا تحفظ، فضلہ کم کرنا، الیکٹرانک فضلہ کا انتظام، سنگل یوز پلاسٹک کا خاتمہ، پائیدار غذائی نظام کو فروغ دینا اور صحت مند طرز زندگی اپنانا۔
ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا میں تبدیلی کی وزارت ( ایم او ای ایف سی سی ) نے 26 ستمبر ، 2024 ء کو ’ ایکو مارک ‘ قواعد نوٹیفائی کیے ہیں۔ اس اسکیم سے ماحول دوست مصنوعات کی مانگ کو فروغ ملے گا ، جو ’ لائف ‘ کے اصولوں کے مطابق ہوں گی۔ اس کا مقصد کم توانائی کا استعمال، وسائل کی کارکردگی اور سرکلر اکانومی کو فروغ دینا ہے۔ اس اسکیم کا مقصد مصنوعات کے لیے درست لیبلنگ کو یقینی بنانا اور گمراہ کن معلومات کو روکنا ہے۔
عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر، وزیر اعظم نے ‘ ایک پیڑ ماں کے نام (#Plant4Mother) ‘ مہم کا آغاز کیا، جس میں لوگوں سے اپنی ماں اور مادرِ وطن کے احترام اور محبت کے طور پر درخت لگانے کی اپیل کی گئی۔ وزارت ماحولیات نے مرکزی حکومت کے وزارتوں/محکموں، ریاستی حکومتوں، اداروں اور تنظیموں سے رابطہ کیا ہے تاکہ مارچ ، 2025 ء تک 140 کروڑ درخت لگانے کو یقینی بنایا جا سکے۔ جنوری ، 2025 ء تک 109 کروڑ پودے لگائے جاچکے ہیں۔
بھارت میں محفوظ علاقوں کی تعداد، جو 2014 ء میں 745 تھی، اب بڑھ کر 1022 ہو چکی ہے۔ یہ ملک کے کل جغرافیائی رقبے کا 5.43 فی صد ہے۔ کمیونٹی ریزروز کے قیام میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2014 ء میں 43 کمیونٹی ریزروز تھے، جو اب بڑھ کر 220 ہو چکے ہیں۔
محفوظ علاقوں کے علاوہ، ملک میں 57 ٹائیگر ریزرو ہیں، جو جنگلاتی حیات (تحفظ) ایکٹ، 1972 کے تحت نوٹیفائی کیے گئے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد شیروں اور ان کے مسکن کا تحفظ ہے۔ ریاستوں نے ہاتھیوں کو محفوظ رہائش فراہم کرنے کے لیے 33 ہاتھی ریزروز بھی قرار دیے ہیں۔
2014 ء کے بعد سے، 59 دلدلی زمینوں کو ’ رامسر سائٹس ‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جس سے اب ملک میں کل رامسر سائٹس کی تعداد 89 ہو گئی ہے، جو 1.35 ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ بھارت کے پاس ایشیا میں سب سے بڑا رامسر سائٹ نیٹ ورک ہے اور یہاں دنیا میں سائٹس کی تعداد کے لحاظ سے تیسرا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ اس کے علاوہ، اودے پور اور اندور کو حال ہی میں رامسر کنونشن کے تحت نافذ کردہ ویٹ لینڈ سٹی ایکریڈیٹیشن اسکیم کے تحت ویٹ لینڈ ایکریڈیٹڈ شہروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
2022 ء کی آل انڈیا ٹائیگر ایسٹیمیشن رپورٹ کے مطابق، بھارت میں شیروں کی تخمینی آبادی 3682 ہے، جو دنیا کی جنگلی شیروں کی آبادی کا 70 فی صد حصہ ہے۔ ٹائیگر ریزرو نیٹ ورک کا رقبہ اب 82836.45 مربع کلومیٹر ہے، جو ملک کے کل جغرافیائی رقبے کا تقریباً 2.5 فی صد ہے۔
بھارت کی آب و ہوا سے متعلق کارروائیوں کو اس کے اپ ڈیٹڈ نیشنلی ڈیٹرمنڈ کنٹری بیوشنز (این ڈی سی ) اور 2070 ء تک صفر اخراج کے طویل مدتی ہدف کی روشنی میں ہدایت دی جاتی ہے۔ یہ اقدامات معیشت کے مختلف شعبوں پر محیط ہیں۔ قومی آب و ہوا میں تبدیلی ایکشن پلان ( این اے پی سی سی ) آب و ہوا سے متعلق تمام اقدامات کے لیے ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے، جس میں شمسی توانائی، توانائی کی بہتر کارکردگی، پائیدار رہائش، پانی، ہمالیائی ماحولیاتی نظام کا تحفظ، گرین انڈیا، پائیدار زراعت، انسانی صحت اور آب و ہوا میں تبدیلی کے لیے حکمت عملی سے متعلق معلومات جیسے شعبوں پر مشن شامل ہیں۔ ان تمام مشنوں کو ان کے متعلقہ نوڈل وزارتوں/محکموں کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔
ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا میں تبدیلی کی وزارت (ایم او ای ایف سی سی ) نے کلائمیٹ چینج ایکشن پروگرام (سی سی اے پی ) اور نیشنل ایڈپٹیشن فنڈ فار کلائمیٹ چینج (این اے ایف سی سی ) جیسی مرکزی سیکٹر کی اسکیمیں نافذ کی ہیں، جو آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حکومت کی کوششوں میں معاون ہیں۔
ان اقدامات کے نتیجے میں، بھارت نے اقتصادی ترقی کو گرین ہاؤس گیس (جی ایچ جی ) کے اخراج سے الگ کرنے کا عمل جاری رکھا ہے۔ 2005 ء سے 2020 ء کے درمیان، بھارت کی جی ڈی پی کی اخراج شدت میں 36 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ اکتوبر 2024 ء تک، نصب شدہ بجلی کی پیداواری صلاحیت میں غیر فوسل ذرائع کا حصہ 46.52 فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ بڑے ہائیڈرو پاور سمیت قابل تجدید توانائی کی کل نصب شدہ صلاحیت 203.22 گیگاواٹ (جی ڈبلیو ) ہے، جب کہ قابل تجدید توانائی کی کل نصب شدہ صلاحیت (بڑے ہائیڈرو منصوبوں کو چھوڑ کر) مارچ 2014 ء کے 35 گیگاواٹ سے بڑھ کر 156.25 گیگاواٹ ہو چکی ہے، جو 4.5 گنا اضافہ ہے۔ بھارت کے جنگلات اور درختوں کا احاطہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اب یہ ملک کے کل جغرافیائی رقبے کا 25.17 فی صد ہے۔ 2005 ء سے 2021 ء کے درمیان، 2.29 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی اضافی کاربن سنک تخلیق کیا گیا ہے۔
اگرچہ بھارت کا تاریخی اخراج اور عالمی اخراج کی موجودہ سطح میں بہت کم حصہ ہے، لیکن بھارت نے آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ یہ اقدامات انصاف اور مشترکہ لیکن تفریق شدہ ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں کے اصول کے مطابق ہیں، جیسا کہ اقوام متحدہ کے آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی ) اور پیرس معاہدے میں درج ہے۔ بھارت کے اقدامات پائیدار ترقی اور غربت کے خاتمے کے تناظر میں ہیں، جو ملک کے مختلف حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے ہیں۔
...................
) ش ح – ک ح - ع ا )
U.No. 6342
(Release ID: 2101423)
Visitor Counter : 55