سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

‘‘ بایوٹکنالوجی کے محکمہ کے تحت جینوم انڈیا پروجیکٹ نےنمونوں کے جمع کرنے میں مساوی نمائندگی کو یقینی بنایا ہے’’:سائنس و ٹیکنالوجی  کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ


ڈاکٹر سنگھ نے آگاہ کیا کہ تقریباً 36.7فیصد نمونے دیہی علاقوں سے، 32.2فیصد شہری علاقوں سے اور 31.1فیصد قبائلی آبادیوں سے جمع کیے گئے ہیں

Posted On: 06 FEB 2025 3:42PM by PIB Delhi

سائنس و ٹیکنالوجی، ارضیاتی سائنس کے مرکزی وزیر مملکت (آزاد چارج) اور وزیراعظم کے دفتر ، ایٹمی توانائی کامحکمہ، خلاء، عملہ، عوامی شکایات اور پنشن کے محکمے کے وزیر مملکت  ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے راجیہ سبھا میں غیر ستارہ والے سوال کے جواب میں کہا کہ تقریباً 36.7فیصد نمونے دیہی  علاقوں سے، 32.2فیصد شہری علاقوں سے اور 31.1فیصد قبائلی آبادیوں سے جمع کئے گئے ہیں۔

ڈاکٹر جتیندرسنگھ نے کہاکہ جینوم انڈیا پروجیکٹ میں دیہی، شہری اور قبائلی آبادیوں سے مساوی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔

WhatsApp Image 2025-02-06 at 3.28.27 PM.jpeg

سائنس و ٹیکنالوجی کےوزیر نے یہ بھی اجاگر کیا کہ جینوم انڈیا پروجیکٹ کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے محققین کو کچھ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جو درج ذیل ہیں۔

  • جغرافیائی رسائی: قبائلی دور دراز علاقوں تک پہنچنا اور ان آبادیوں سے نمونے جمع کرنا اور ڈیٹا حاصل کرنا ایک مشکل کام تھا۔
  • ثقافتی اور سماجی اقتصادی رکاوٹیں: سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کو عبور کرنا اور ان آبادیوں کو اس پروجیکٹ میں شرکت کے لیے قائل کرنا ایک چیلنج تھا۔
  • آگاہی اور تعلیم کی کمی: دیہی اور قبائلی آبادیوں کو جینیاتی تحقیق کے فوائد کے بارے میں کافی آگاہی نہیں تھی، جس کی وجہ سے اس کے مقصد اور قیمت کو سمجھنے میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ ایسے افراد کو تعلیم دینا اور قائل کرنا مشکل تھا۔
  • ڈیٹا کی نمائندگی اور تفریق: دیہی اور قبائلی آبادیوں تک رسائی آسان نہیں تھی، جب کہ شہری آبادیوں تک رسائی زیادہ آسان تھی اور انہیں زیادہ آگاہی حاصل تھی۔ لہذا، تمام قسم کی آبادیوں کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنا کر تفریق کو ختم کرنا ضروری تھا۔
  • لاجسٹک رکاوٹیں: دور دراز کے علاقوں میں جدید صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے، لیبارٹریوں اور ماہر پیشہ ور افراد کی کمی کی وجہ سے نمونے جمع کرنا اور خون کے پیرامیٹرز کی تشخیص کرنا چیلنج تھا۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے مزیدبتایا کہ جینوم انڈیا ٹیم نے مختلف چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کی حکمت عملیوں پر عمل کیا۔ انہوں نے کہا، ‘‘نمونوں کی نقل و حمل کے لیے قریبی لاجسٹک ہب قائم کیے گئے، اور لیبارٹریوں کو پہلے سے تیار کیا گیا تاکہ زیادہ نمونوں کو سنبھالنے کے لیے وسائل فراہم کیے جا سکیں۔’’

اس کے علاوہ، مقامی صحت کی دیکھ بھال کے اداروں کے ساتھ شراکت داری کی گئی تاکہ ڈیٹا کے جمع کرنے کو آسان بنایا جا سکے اور رسائی کو بہتر بنایا جا سکے۔ دیہی اور قبائلی آبادیوں سے بات چیت میں مقامی رہنماؤں اور کمیونٹی کے نمائندوں کی شرکت نے ثقافتی اور سماجی اقتصادی رکاوٹوں کو کم کرنے، اعتماد پیدا کرنے اور ان کمیونٹیوں کی زیادہ شرکت کو فروغ دینے میں مدد کی۔

جینیاتی مطالعہ کی اہمیت کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے آؤٹریچ پروگرامز اور کمیونٹی کی شمولیت کی کوششیں کی گئیں، اور شرکاء کو ڈیٹا کی رازداری کی ضمانت دینے، افواہوں کو ختم کرنے اور جینوم انڈیا پروجیکٹ کے مقاصد کو واضح کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ متوازن شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے معتدل مہمات  منعقد کی گئیں۔ ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے مزید کہا کہ دور دراز کے علاقوں میں لاجسٹک رکاوٹوں کو مؤثر طریقے سے منصوبہ بندی کے ذریعے حل کیا گیا۔

****

ش ح۔ع ح ۔ف ر

Urdu No. 6173


(Release ID: 2100302) Visitor Counter : 36


Read this release in: English , Hindi