نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

ایک بہت ہی اچھی علامت ہے کہ دیو بھومی اتراکھنڈ نے  یکساں سول کوڈ کو حقیقت بنا دیا ہے: نائب صدر جمہوریہ ہند


پورے ملک کے یکساں سول کوڈ کو اختیار کرنے سے  قبل صرف  یہ  وقت کی بات ہے

کوئی بھی شخص صنفی مساوات لانے والےیکساں سول کوڈ کی مخالفت کیسے کر سکتا ہے ؟ ؛ کچھ لوگ اپنے سیاسی فائدے کے لیے قوم پرستی ترک  کرنے سے نہیں ہچکچاتے:نائب صدر جمہوریہ ہند

لاکھوں غیر قانونی مہاجرین ہماری سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہیں ، وہ کبھی بھی ہماری قوم پرستی سے سمجھوتہ نہیں کریں گے-نائب صدر جمہوریہ ہند

پچھلی دہائی میں ہمارے ملک نے معاشی طور پر بڑی ترقی درج کی ہے ، اب عوام کی خواہشات آسمان کو چھو رہی ہیں-نائب صدرجمہوریہ ہند

Posted On: 27 JAN 2025 3:41PM by PIB Delhi

نائب صدر جمہوریہ ہند جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آج اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک بہت ہی مبارک دن ہے کہ ریاست اتراکھنڈ نے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کو حقیقت بنا دیا ہے ۔

نائب صدر جمہوریہ نے راجیہ سبھا انٹرن شپ پروگرام کے شرکاء کے پانچویں بیچ کے افتتاحی پروگرام کی صدارت کی اور انہوں نے آج نائب صدر کے انکلیو میں انٹرن شپ پروگرام کے لیے آن لائن پورٹل کا بھی افتتاح کیا ۔

 

راجیہ سبھا انٹرن شپ پروگرام کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جناب دھنکھڑ نے کہا کہ‘‘آج ایک بہت ہی اچھی علامت  رونما ہوئی ہے ہوئی ہے اور وہ اچھی علامت یہ ہے کہ آئین سازوں نے آئین میں ، خاص طور پر  آئین کے حصہ 4 میں-ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کا تصور اور ہدایات پیش کی تھیں ۔ آئین سازوں نے ریاست کو ہدایت کی کہ وہ ان رہنما اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سخت محنت کرے ۔ ان میں سے کچھ کو حقیقت میں تبدیل کیاجاچکا ہے اورحقیقت میں تبدیل کرنے کا ایک عمل آرٹیکل44 ہے ۔ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 44 یہ حکم دیتا ہے کہ ہندوستان کے پورے علاقے میں شہریوں کے تحفظ کے لیے یکساں سول کوڈاختیار کیے جانے کے لیے کوشش کی جائے ۔ آج ہم سب ایک خوشگوار ماحول میں ہیں ۔ اور ہندوستانی کی آئین کی منظوری کے بعد سے صدی کی آخری سہ ماہی کا آغاز ہو چکا ہے ، جس میں دیو بھومی اتراکھنڈ نے یکساں سول کوڈ کو حقیقت بنا دیا ہے ۔ابھی صرف  ایک ریاست نے ایسا کیا ہے ۔ میں حکومت کی دور اندیشی کو مبارکباد دیتا ہوں...کہ اس نے  اپنی ریاست میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرکے آئین کے بانیوں کے وژن کو عملی جامہ پہنایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ صرف  ایک وقت کی بات ہوگی کہ جب پورا ملک اسی طرح کی قانون سازی کو اپنائے گا ۔ ’’

کچھ لوگوں کی طرف سے یکساں سول کوڈ(یو سی سی) کی مخالفت پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نائب صدر  جمہوریہ نے کہا کہ‘‘کچھ لوگ ، بلکہ  میں کہوں گا کہ وہ لاعلمی کی وجہ سے  اس پر تنقید کر رہے ہیں ۔ ہم کسی ایسی چیز پر تنقید کیسے کر سکتے ہیں جو ہندوستانی آئین کامنشور ہے ؟ ہمارے بانی رہنماؤں کی  طرف سے آنے والے احکامات ۔ کچھ ایسی چیزیں جوصنفی مساوات لاتا ہو ۔ ہم اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ؟ سیاست نے ہمارے ذہنوں میں اتنی گہری جڑیں پکڑ لی ہیں کہ وہ زہر میں بدل گئی ہے ۔ سیاسی فائدے کے لیے  کچھ لوگ ایک لمحے کے لیے غور وفکرکیے بغیر بھی قوم پرستی کو ترک کرنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں ۔ کوئی بھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت کیسے کر سکتا ہے! آپ اس کا مطالعہ کریں ۔ آئینی اسمبلی کے مباحثوں کا مطالعہ کریں ، آپ مطالعہ کریں کہ ملک کی سپریم کورٹ نے کتنی بار اس کی اشارہ کیا ہے ۔’’

 

ملک کوغیر قانونی مہاجرین کی طرف سے درپیش سلامتی کے خطرے کو اجاگر کرتے ہوئے  جناب دھنکھڑ نے زور دے کر کہا کہ‘‘ہمیں چیلنجوں کو دیکھنا ہوگا۔ اور قوم کے لیے چیلنج یہ ہے کہ لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن ہماری سرزمین پر رہ رہے ہیں ۔ لاکھوں  کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین! کیایہ ہماری خودمختاری کے لیے چیلنج نہیں ہیں ؟ اس طرح کے لوگ کبھی بھی ہماری قوم پرستی سے سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ وہ ہمارے صحت ، تعلیم اور دیگر سہولیات کے وسائل کا استعمال کرتے ہیں ۔ وہ ہمارے لوگوں کے لیے دستیاب ملازمتوں میں شامل ہوتے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ حکومت میں ہر کوئی اس پر سنجیدگی سے غور وخوض کرے گا ۔ اس مسئلے اور اس کے حل میں ایک دن بھی تاخیر نہیں کی جا سکتی ؟ ایک  ملک لاکھوں  کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو کیسے برداشت کر سکتا ہے ؟ وہ ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ ہے کیونکہ وہ ہمارے انتخابی نظام کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ وہ ہماری سماجی ہم آہنگی اور ہماری قوم کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں ۔ ’’

نوجوانوں کے لیے بڑھتے ہوئے مواقع کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے جناب دھنکھڑ نے کہا کہ‘‘اس ملک کے لوگ پہلی بار قریب  سے ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے  ہیں کیونکہ اب ان کے گھر وں میں بیت الخلا ، باورچی خانے میں گیس کنکشن ، انٹرنیٹ تک رسائی ، سڑک رابطہ اور ہوائی رابطہ جیسے سہولیات دستیاب ہیں ۔ انہیں پائپ سے پینے کا صاف  وشفاف پانی مل رہا ہے ۔ 40 ملین لوگوں کو پہلے ہی سستی رہائش مل چکی ہے ۔ جب آپ اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں تو آپ ایک امنگوں والی قوم بن جاتے ہیں........اورلوگوں کی خواہشات آسمان کو چھو رہی ہیں ، اب سب  لوگ  سب کچھ چاہتے ہیں ۔ یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہو چکی ہے کہ چونکہ ترقی کا دریاتیزی سے بہہ رہا ہے ، اس لیے ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہوں گے  اور سب سے پہلے ، وہ خود کو اس مقام پر دیکھتے ہیں.... مجھے کچھ حد تک تشویش ہے کہ ہمارے نوجوان اب بھی سرکاری ملازمتوں کے لیے کوچنگ کلاسوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ وہ سست روی کا شکار ہیں اور ایک محدود طریقے کی سوچ میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ وہ سرکاری نوکری سے آگے نہیں سوچ سکتے ۔ انہیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ آج مواقع کےامکانات اور وسائل مسلسل بڑھ رہی ہے ۔

 

وزیر اعظم نریندر مودی کی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ‘‘لوگ اس کی تعریف نہیں کرتے ۔ جب وزیر اعظم نے پہلی بار کہا کہ ملک میں امنگوں والے اضلاع ہونے چاہئیں تو ان کی تعداد بتدریج کم ہو رہی تھی ۔ یہ وہ اضلاع تھے جہاں کوئی افسر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نہیں بننا چاہتا تھا ، کوئی ایس پی نہیں بننا چاہتا تھا اور وہاں ترقی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ انہوں نے خود یہ فرض  اٹھایا کہ پوری قوم ایک سطح مرتفع کی طرح ہونی چاہیے، اہرام کی طرح نہیں ۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ امنگوں والے اضلاع کی نشاندہی کی گئی  اور آج تبدیلی180 ڈگری پر آ گئی ہے ۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان واحد ملک ہے جس نے پچھلی دہائی میں زبردست اقتصادی ترقی کی ہے ، تیزی سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی  اور گہری تکنیکی رسائی کی ہے جو نوجوانوں کے لیے مثبت  اشارہ ہے اور اس کے نتیجے سے امید اور امکانات کا ماحول قائم ہوا ہے ۔

ہماری تہذیب میں مکالمے اور غور و فکر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے  نائب صدر جمہوریہ ہندنے کہا کہ‘‘ہماری ثقافت کہتی ہے کہ بحث  اور مکالمے کے بغیر کسی مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔ میں اس پر پختہ یقین رکھتا ہوں ۔ دنیا کو مسائل کا سامنا ہے ، جن میں سے کچھ  مسائل وجود کی نوعیت کے ہیں، جیسے آب و ہوا کی تبدیلی یا جیسے  کہ روس اور یوکرین یا اسرائیل اور حماس کے درمیان  کےتنازعات ۔ لیکن آخر میں  جیسا کہ وزیر اعظم نے اشارہ کیا کہ مسائل کا حل صرف بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے  حاصل ہوسکتا ہے ۔ کیا ہم اس وقت اس طرح کام کر رہے ہیں ؟ کیا ہم نے بحث و مباحثے کے لیے خلل اور خلل ڈالنے کے لیے جگہ نہیں چھوڑی ؟ کیا ہم نے اتفاق رائے پیدا کرنے کی جگہ ناقابل  تلافی محاذ آرائی کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے ؟ ’’

 

‘‘آئین ساز اسمبلی کے سامنے بہت سے تفرقہ انگیز مسائل ، متنازعہ مسائل اور بڑے اختلافات تھے ، لیکن اصل روح میں کبھی کوئی اختلاف نہیں تھا ۔ مشکل معاملات پر بات چیت کی گئی ، مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، بات چیت ، بحث  ومباحثہ اور غور و فکر کے ذریعے  افواہوں اور اختلافات پر قابو پالیا گیا ۔بحث و مباحثہ کامقصد ایک پوائنٹ حاصل کرنے کا نہیں تھابلکہ ایک اتفاق رائے  اور ایک متفقہ نقطۂ نظر پر پہنچنے کا تھا کیونکہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو شمولیت ، رواداری اورباہمی  موافقت کا رول ماڈل ہے ۔

 

آرٹیکل 370 پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ‘‘ہمارا ہندوستانی آئین ڈاکٹربی آرامبیڈکرکا بہت  ممنون ہے ۔ ڈاکٹرامبیڈکرڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین تھے ۔ وہ ایک عالمی نقطۂ نظر اور ایک بصیرت افروز  نظریہ کے حامل تھے ، انہوں نے آئین کے تمام آرٹیکلز کا مسودہ تیار کیا سوائے ایک آرٹیکل370 کے ۔ آپ نے سردار پٹیل کو دیکھا ہوگا ، وہ جموں و کشمیر کے انضمام سے وابستہ نہیں تھے ۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اتنے قوم پرست تھے کہ ان کے ذہن میں خود مختاری تھی ۔ ایک خط لکھ کر انہوں نے آرٹیکل 370 کا مسودہ تیار کرنے سے انکار کر دیا ۔ آپ کو اس سے رو برو ہونے کا موقع ملے گا ۔ کیا ڈاکٹر امبیڈکر کی مرضی غالب ہوتی ؟تو ہمیں اتنی بڑی قیمت ادا نہیں کرنی  پڑتی جو ہم نے ادا کی ہے ۔ ’’

 

********

ش ح۔م م ع۔اش ق

 (U: 5710)


(Release ID: 2096761) Visitor Counter : 28